دل کی بات جان لی
دل کی بات جان لی
مدینۃُ المرشِد بریلی شریف میں ایک صاحِب تھے جو بُزُرگانِ دین کو اہمیت نہ دیتے تھے اور پِیر ی مُریدی کو پیٹ کا ڈھکوسلا کہتے تھے۔ ان کے خاندان کے کچھ افراد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے بیعت تھے۔ وہ لوگ ایک دن کسی طرح سے بہلا پھُسلاکر اِن کو اعلیٰ حضرتکی زِیارت کے لئے لے چلے۔ راستے میں ایک حَلوائی کی دُکان پر گَرم گَرم اَمرِتیاِں ( ماش کے آٹے کی مٹھائی جو جلیبی کے مُشابہ ہوتی ہے) تلی جارہی تھیں، دیکھ کر اِن صاحِب کے منہ میں پانی آگیا۔ کہنے لگے:’’یہ کھِلاؤ تو چلوں گا‘‘۔ ان حضرات نے کہا کہ واپَسی میں کھلائیں گے پہلے چلو۔ بَہَرحال سب لوگ اعلیٰ حضرتکی بارگاہ میں حاضِر ہوگئے۔ اِتنے میں ایک صاحِب گَرم گَرم اَمرِتِیوں کی ٹوکری لے کرحاضِر ہوئے، فاتِحہ کے بعد سب کو تقسیم ہوئیں۔ دربارِ اعلیٰ حضرتکا قاعِدہ تھا کہ ساداتِ کرام اور داڑھی والوں کو دُگنا حصّہ ملتا تھا، چُونکہ ان صاحِب کی داڑھی نہیں تھی لہٰذا ان کو ایک ہی اَمرِتی ملی۔ اعلیٰ حضرتنے فرمایا کہ ان کو دو دیجئے۔ تقسیم کرنے والے نے عَرض کی: حُضور ! ان کے داڑھی نہیں ہے۔ آپنے مسکرا کر فرمایا:’’اِن کا دل چاہ رہا ہے، ایک اور دیجئے‘‘۔یہ کرامت دیکھ کر وہ اعلیٰ حضرتکے مُرید ہوگئےاوربُزُرگانِ دین کی تعظیم کرنے لگے۔
(تجلِّیاتِ امام احمد رضا ص۱۰۱)