دوزخ سے آزادی کا پروانہ
دوزخ سے آزادی کا پروانہ
حضرت خواجہ حسن بصری کا ایک ہمسایہ تھا جو آتش پرستی کرتا تھا اس کا نام شمعون تھا۔ ایک دفعہ وہ ایسا بیمار ہوا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، حضرت خواجہ کو اُس کی خبر ہوئی تو بیمار پرسی کے لیے اُس کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا اے شمعون تم نے ساری عمر آتش پرستی میں گزار دی ہے اب چند لمحے زندگی باقی رہ گئی ہے اگر تم اللہ کی توحید اور حضور کی رسالت کا اقرار کرلو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ دوزخ کی آگ سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاؤ گے۔ اس نے کہا بات تو سچی ہے مگر میں چاہتا ہوں دوزخ سے آزادی کا ایک خط لکھ دیں اور اُس پر اپنے دستخط کردیں پھر میں کلمہ پڑھ لوں گا، حضرت خواجہ حسن بصری نے اُسی وقت ایک تحریر لکھ دی کہ آج سے تم دوزخ کی آگ سے آزاد ہو اور بہشت کی نعمت سے مالا مال ہو۔ شمعون اسلام لے آیا اور وصیت کی کہ یہ رقعہ میرے کفن میں رکھ کر دفنایا جائے، مرنے کے بعد حضرت خواجہ نے اُسے خواب میں دیکھا کہ وہ شاہی تاج سر پر رکھے ہیوئے اور بہشتی لباس پہنے ہوئے ٹہل رہا ہے، خواجہ نے اس سے حال پوچھا تو کہنے لگا آپ کے خط کی وجہ سے اللہ نے مجھے بخش دیا اور اپنے انعامات سے مجھے نوازا ہے۔