جعلی مردے کا انجام
جعلی مردے کا انجام
معارج الولایت میں لکھا ہے کہ جن دنوں حضرت اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ ظفر آباد میں قیام فرما تھے چند بھانڈوں نے بعض معاندین اور حاسدین کے اکسانے پر ایک زندہ شخص کو کفن پہنا کر آپ کے پاس جنازے کی شکل میں اٹھایا۔ اور حضرت کے پاس لے گئے اور کہا۔ حضرت اس مردے کا جنازہ پڑھادیں۔ آپ ان کے کہنے پر اپنے احباب سمیت اٹھے اور جنازہ گاہ میں پہنچ کر نماز جنازہ کی جماعت کرائی۔ بھانڈوں کا ارادہ تھا۔ کہ جب آپ جنازہ پڑھائیں گے تو مردہ اُٹھ کر بھاگ کھڑا ہوگا اور ہم حضرت کا مذاق اڑائیں گے۔ حضرت میر جہانگیر سمنانی کو نور باطن سے یہ ساری صورت حال معلوم تھی۔ آپ نے بار بار لوگوں کو کہا کہ یہ جنازہ کسی اور سے پڑھوائیں۔ مگر انہوں نے اصرار کیا کہ نہیں آپ ہی پڑھائیں۔ آپ نے جنازہ کی قیادت فرمائی۔ ابھی آپ نے پہلی تکبیر کہی تھی کہ ملک الموت نے اس شریر جعلی مردے کی روح قبض کرلی وہ نماز جنازہ مکمل ہونے تک نہ اٹھا۔ بھانڈ اور دوسرے لوگ اس کے سرہانے پر پہنچے دیکھا تو واقعی وہ مرا پڑا ہے۔ رونا دھونا شروع کیا اگرچہ انہوں نے بڑی معافی مانگی۔ معذرت کی مگر آپ نے کہا اب کوئی فائدہ نہیں اس کرامت کی شہرت نے تمام علاقہ کے لوگوں کو آپ کا عقیدت مند بنا دیا۔