پتھر شکر بن گئے

پتھر شکر بن گئے

شیخ فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب مجاہدہ کرنا چاہا تو اس سلسلے میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض کیا آپ نے فرمایا طے کا روزہ رکھو (طے کا روزہ وہ ہوتا ہے جس میں افطار صرف پانی سے کرتے ہیں اور کم از کم تین دن کا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال، اس طرح روزہ رکھنا صوفیائے کرام کے ہاں عام ہے اور اکابر علمائے اسلام میں بھی بعض حضرات رمضان میں افطار صرف چائے وغیرہ سے کرنے کے بعد اور کچھ نہیں کھایا کرتے تھے چنانچہ شیخ گنج شکر نے طے کے روزے رکھنے شروع کردیے اور تین روز تک کچھ نہ کھایا، تیسرے روز افطار کے وقت ایک آدمی نے آپ کے سامنے چند روٹیاں لاکر رکھیں۔ آپ سمجھے کے غیب سے آئی ہیں اور انہیں روٹیوں سے افطار کیا لیکن پیٹ نے انھیں قبول نہیں کیا اور کھایا پیا تمام باہر آگیا، آپ نے یہ واقعہ اپنے پیرو و مرشد سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اے مسعود! تم نے تین روز روزہ رکھنے کے بعد ایک شرابی کا کھانا کھایا لیکن اللہ کی عنایت نے تمہاری دستگیری فرمائی کہ تمہارے معدے میں اس غذا کو رہنے نہ دیا، اب جاؤ اور پھرتین دن طے کا روزہ رکھو اور غیب سے جو کچھ ملے اس کو کھاکر گزر کرو چنانچہ شیخ گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پھر تین دن طے کا روزہ رکھا اور شام کو کوئی کھانا میسر نہ ہوا، یہاں تک کہ رات کا ایک پہر گزر گیا اور کمزوری بڑھ گئی بھوک کی وجہ سے بدن جلنے لگا، اس عالمِ بیتابی میں آپ نے ہاتھ بڑھا کر زمین سے کچھ سنگریزے اٹھاکر منہ میں ڈالے تو وہ شکر ہوگئے آپ کو فوراً خیال آیا کہ ہوسکتا ہے یہ بھی شیطانی کرشمہ ہو اس لیے ان سنگریزوں کو تھوک دیا، اور پھر یاد الٰہی میں مصروف ہوگئے جب آدھی رات گزر ہوگئی تو کمزوری پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی آپ نے پھر زمین سے کچھ سنگریزے اٹھاکر منہ میں ڈال لیے وہ پھر شکر بن گئے آپ نے انہیں بھی تھوک دیا، آپ نے تین مرتبہ اس طرح کیا اور ہر مرتبہ یہی کرامت ظاہر ہوتی رہی تو یقین ہوا کہ یہ نعمت خداوندی ہے، اس لیے انہیں کھالیا، پھر دوسرے روز خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی خدمت میں حاضری دی پیرو مرشد نے فرمایا کہ اچھا کیا جو پتھروں سے افطار کیا وہ غیب سے آئے تھے اب جاؤ شکر کی طرح ہمیشہ شیریں رہو گے اس دن سے شیخ فرید الدین مسعود کو لوگ گنج شکر کہتے ہیں اور سیر الاولیاء میں بھی یہی واقعہ لکھاہے۔


متعلقہ

تجویزوآراء