ٹرین رُکی رہی
ٹرین رُکی رہی
اعلیٰ حضرتایک بار پِیلی بِھیت سے بریلی شریف بذرِیعہ رَیل جارہے تھے۔ راستے میں نواب گنج کے اسٹیشن پر ایک دو مِنَٹ کے لیے ریل رُکی، مغرِب کا وَقت ہوچکا تھا ۔آپاپنے ساتھیوں کے ساتھ نَماز کے لیے پلیٹ فارم پر اُترے۔ ساتھی پریشان تھے کہ َریل چلی جائے گی تو کیا ہوگا لیکن آپنے اطمینان سے اذان دِلوا کر جماعت سے نَماز شُروع کردی۔ اُدھر ڈرائیور انجن چلاتا ہے لیکن رَیل نہیں چلتی،اِنجن اُچھلتا اورپھر پٹری پر گرتا ہے۔ٹی ٹی، اسٹیشن ماسٹروغیرہ سب لوگ جمع ہوگئے، ڈرائیور نے بتایا کہ انجن میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اچانک ایک پنڈِت چیخ اُٹھا کہ وہ دیکھو کوئی دَرویش نمازپڑھ رہا ہے ، شاید رَیل اسی وجہ سے نہیں چلتی؟ پھر کیا تھا اعلیٰ حضرتکے گرد لوگوں کا ہُجُوم ہوگیا۔ آپاطمینان سے نَماز سے فارِغ ہو کرجیسے ہی رُفَقا کے ساتھ ریل میں سُوارہوئے توریل چل پڑی۔سچ ہے جواﷲ کاہوجاتاہے کائنات اسی کی ہوجاتی ہے۔
(تذکرہٗ امام احمد رضا ص۱۵ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)