حدیث شریف بیان فرمانے کی برکات

حدیث شریف بیان فرمانے کی برکات

          ایک رات احباب حاضر خدمت تھے، احقر کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا:

          سیدی عارف ایک مرتبہ دو شخص حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب نبی کریم ﷺ کو ان کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ ملاقات کےلیے گھر سے باہر تشریف لائے۔ ان کی داڑھیاں منڈی ہوئیں اور مونچھیں بہت بڑیبڑی تھیں، ملاحظہ فرماتے ہی رخ انور پھیر لیا کیونکہ سید الانبیاء ﷺ کو ان کو دیکھنے سے کراہیت محسوس ہوئی۔ دوسری مربتہ ان کی التجا پر چہرہ منور ان کی طرف کرتے ہی پھیر لیا، تیسری مرتبہ جب آپ ﷺ نے ان کی طرف کرتے ہی پھیر لیا، تیسری مرتبہ جب آپ ﷺ نے ان کی طرف توجہ فرمائی تو دست مبارک سے ان کے چہروں کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے دریافت فرمایا:

          ویلکما من امرکما بھذا قال ربنا ،یعنیان کسری فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم و لکن ربی امرنی باعفاء لحیتی و قص شوار بی

          یعنی تم دونوں کےلیے بربادی ہو، تمہیں ایسا کرنے کا کس نے حکم دیا ہے؟ وہ بولے ہمارے پروردگار نے (یعنی ان کے بادشاہ کسریٰ نے)

          تو پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا:

          مگر میرے پروردگار نے مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچیں کتروانے کا حکم فرمایا۔

          سیدی قطب مدینہ قدس سرہٗ نے اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے ہوئے فرمایا کہ :

          رسول اللہ ﷺ نے اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں لیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

          ’’میرے رب کا مجھے یہ حکم ہے۔‘‘

          اس کے بعد احقر فقیر قادری سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا۔

          ‘‘یا سیدی عارف میرے نزدیک تو داڑھی واجب سے بھی کچھ اوپر ہے۔’’

          اس روسیاہ نے اسی دن تازہ تازہ داڑھی کو تراشا ہوا تھا آپ رضی اللہ عنہ کے فرمان سے بڑی ندامت ہوئی، جسم پسینے سے شرابور ہوگیا، قلب پر خشیت الٰہی کا غلبہ ہوا، زبان گنگ ہوگئی، دل ہی دل میں داڑھی منڈانے سے توبہ کرلی اور زبان سے اس کا اظہار نہ کرسکا۔ الحمد اللہ رب العالمین۔

          علی الصباح بذریعہ کو سٹر حضرت پیر سید حیدر حسین شاہ علی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں دیگر احباب کے ساتھ ابو اشریف ام النبی سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے مزار مقدس کی زیارت کےلیے روانہ ہوئے۔

          راستے میں دوران گفتگو ایک صاحب جو کراچی کے رہنے والے تھے نےکہہ دیا کہ داڑھی وغیرہ کی کیا ضرورت ہے، دل صاف ہونا چاہیے۔(حالانکہ وہ صاحب خود باریش تھے)

          حضرت پیر سید حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان سے بہت ناراض ہوئے اور رات والاا پورا واقعہ بیان فرمایا تمام حضرات بہت خوش ہوئے، ان صاحب نے معذرت چاہی اور پھر تمام راستہ خاموش ہی بیٹھے رہے۔ حضرت پیر صاحب قلبہ احقر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرماے لگے:

          ’’دیکھا عارف یہ تمہارے پیر صاحب کی کرامت ہے، اگر حضرت صاحب قبلہ رات یہ واقعہ ارشادنہ فرماتے تو اب میں ان کا منہ کیسے بند کرتا۔‘‘

          احقر نے عرض کی پیر صاحب جب حضرت سیدی نے رات ارشاد فرمایا تھا تو اسی وقت میں نے داڑھی منڈانے سے توبہ کرلی تھی۔ پیر صاحب نے مبارک مبارک کی صدا بلند فرمائی اور تمام احباب کو بتایا دیکھو حضرت قبلہ کی کرامت عارف نے رات ہی داڑھی منڈانے سے توبہ کرلی تھی۔ تو پھر اسی کوسٹر میں سے چار ساتھیوں نے داڑھی منڈانے سے توبہ کرلی۔الحمد اللہ۔

          واپسی پر اسی دن حضرت سید محمد حسین قادری جیلانی خلف الرشید قطب زماں حضرت سید پیر محمد معصوم شاہ قادری نوری رحمۃ اللہ علیہ چک سادہ گجرات، سے ملاقات ہوئی تو  آپ نے احقر کو بڑی محبت و شفقت سے مبارک بادپیش فرمائی فقیر مبارک بادکا سبب نہ سمجھ سکا تو فرمایا آج ظہر کے بعد میں حضرت مولانا صاحب قبلہ کے پاس حاضر ہوا تھا آپ فرما رہے تھے کہ ہمارے عارف نے داڑھی رکھ لی ہے اور بہت خوش تھے۔


متعلقہ

تجویزوآراء