دو عظیم بشارتیں

دو عظیم بشارتیں

          (یہ جناب سکندر صاحب جو حضرت سے انتہائی عقیدت رکھتے تھے،اور آپ کی مجالس میں شرکت فرماتے تھے۔ان کا واقعہ ہے۔)وہ فرماتے ہیں: امسال یعنی جنوری  1974ء میں میرا قیام مدینہ منوری کی اصطفا منزل میں تقریباً اٹھائیں یوم رہا۔اسی دوران خداوند کریم کا یہ فضل عظیم ہوا کہ رحمت اللعالمین ﷺ کے دربار سے وہ انعام عطا ہوا جس کو میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اور اپنی قسمت کی معراج کہوں تو بے جانہ ہوگا۔میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مدینہ منور میں میرا اصطفا منزل میں قیام تھا۔ اور اکثر اصطفا منزل میں ہی قیام رہتا ہے۔ اصطفا منزل کی ہفتہ وار محفل میں بھی شریک ہوتا ہوں اور مدینہ منورہ کے دیگر علاقوں میں جو میلاد مبارک اور نعت خوانی کی محفلیں ہوتی ہیں   اس میں بھی شرکت کرتا ہوں مگر حضرت مولانا ضیاء الدین شاہ صاحب قبلہ کے یہاں جو اعلیٰ حضرت امام اہل سنت حضرت احمد رضا  صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ بھی ہیں اور مدینہ منورہ کے جید عالم اور شیخ المشائخ بھی ہیں۔ ان کے دولت خانے پر جو محفل روزانہ بعد نماز عشاء ہوتی ہے اس میں پابندی کے ساتھ شرکت کرتا ہوں اور یہ شرکت میں پانے لیے باعث برکت سمجھتا ہوں۔ اور خوشنودی رحمت اللعالمین ﷺ جانتا ہوں۔

          دوران قیام مدینہ منورہ میرے گلے میں ایک گلٹی نکل آئی۔ یہ گلٹی بالکل حلق کے نیچے تھی۔رفتہ رفتہ یہ گلٹی بڑھنے لگی اس کے درد کی شدت کی وجہ سے مجھے بخار ہوگیا ۔ اور بخار بھی گلٹی کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔

          تقریباً ایک ہفتہ اس بخار میں اس قدر شدت رہی کہ چوبیس گھنٹ میں یاک یا دو گھنٹے کےلیے کم ہوجاتا اور تقریباً بائیس گھنٹے اپنی شدت اور توانائی کے ساتھ طاری رہتا جس کی وجہ سے میرے جسم کی توانائی جواب دے گئی اور مجھ میں اس قدر کمزوری آگئی کہ کئی کئی وقت کی نمازیں بستر پر ہی پڑھتا بلکہ کسی وقت کی نماز قضا بھی ہوجاتی۔بخار کی شدت میں ہوش ہی نہیں ہوتا کہ کب اذان ہوئی اور کب نماز کا وقت گذر گیا۔

جس کمرے میں میرا قیام تھا اسی کمرے میں جمعیت العلمائے پاکستان کے معززاراکین حضرت مولانا عبدالستار خاں صاحب نیازی، حضرت مولانا ارشد القادری صاحب، حضرت مولانا شاہ فرید الحق  صاحب، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ بھی تشریف فرما تھے۔ یہ حضرات روزانہ ازراہ کرم میری تیمار داری ، مزاج پر سی کرتے اور مجھے تسلی و تشفی دیتے۔ ان کے علاوہ میرے ایک دیرینہ کرم فرما جن سے پہلے بھی میری ملاقات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی، وہ ہر وقت میری تیماداری میں لگے رہتے۔ ان کا قیام تو دوسری جگہ تھا مگر میرے تقریبا18 گھنٹے روزانہ انہیں کی معیت میں گزرتے یہ میرے مخلص دوست اور محسن بھائی الحاج محمد جمیل صاحب تھے۔ جن کا قیام لاہور میں ہے اور لاہور کی ایک مشہور تجارتی فرم"رشید برادرز" کے مالکوں میں ہیں۔اور میرے ہمراہ ایک ہی جہاز میں سوار ہوکر وہ بھی پاکستان واپس ہوئے تھے۔

اب گلے میں تکلیف اس قدر بڑھ گئی تھی کہ حلق سے غذا اور دوا نیچے اترنا دشوار  ہوگئی اور اکثر سانس رک رک جاتی پہلے تو میں بہت گھبرایا لیکن یکا یک مجھے محسوس ہوا کہ شاید پروردگار نے اپنے حبیب ﷺ کے صدقے میں میری وہ دلی آرزو پوری کردی جس کو ہر مومن اپنی ہی آرزو سمجھتا یعنی مدینہ منوری کی موت اور جنت البقیع میں مدفن ۔ اب میرا دل  مطمئن  ہوگیا تھا میں نے اپنے اس خیال کا کسی سے بھی تذکرہ نہیں کیا یہاں تک کہ بھائی جمیل احمد کو بھی نہ بتایا حالانکہ انہوں نے میری بیماری میں میرے ساتھ بہت تعاون کیا۔ خداوند کریم ان کو اس کی جزائے عظیم دے۔ حضرت قبلہ شاہ صاحب کے یہاں سا بخار میں بھی حاضری دیتا تھا اور نعت شریف بھی پڑھتا تھا اور یہ میرے آقا ﷺ کا کرم خاص تھا کہ اس قدر اور گلے کی تکلیف کے باوجود نعت شریف میں کوئی تکلیف اور پریشان حائل   نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اس ہفتے اس  قدر غفلت طاری رہی کہ حضرت صاحب کے یہاں تین دن متاتر غیر حاضری ہوگئی چوتھے دن جب حاضر ہوا سب کو سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گیا ۔ حضرت صاحب نے استفسار فرمایا جب معلوم ہوا کہ یہ سکندر ہے تو میری طرف متوجہ ہوئےاور عجیب انداز میں فرمایا۔سکندر تو کہاں تھا؟ ہم کچھ کوبہت ییاد کرتے ہیں اور ساری محفل کے لوگ تجھے یاد کرتے ہیں۔

          ان الفاظ کو سن کر میں سناٹے میں آگیا(اس سے پہلے حضرت صاحب نے کبھی ان الفاظ سے مخاطب نہیں کیا تھا بلکہ اکثر کمال شفقت سے سکندر بھائی بھی فرمادیا کرتے تھے)میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اپنی جگہ سے اٹھکر حضرت صاحب کے قریب گیا دست بوسی کی اور نہایت ادب سے عرض کیا حضور بخار کی شدت کی وجہ سے حاضری نہ ہوسکی میں معذرت خواہ ہوں۔حضرت صاحب نے ازراہ شفقت چائے کی پیالی عطا فرمائی، چائے پینے کے بعد حضرت صاحب نے نعت شریف کی فرمائش کی میں نے ایک نئی نعت شریف جو اس بیماری کےعالم میں گنبد خضرا کو دیکھ کر لکھی تھی سنائی اس نعت شریف کا ایک شعر تھا۔

موت آنی ہے جس وقت آجائیگی
جان جانی ہے جس دم چلی جائیگی

زندگی تو مدینے کی ہے زندگی
اور مدینے میں جینے کی کیا بات ہے

اس شعر کو سنکر شاہ صاحب بے قرار ہوگئے آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے اور جملہ اہل محفل پر بھی کیف طاری ہوگیا حضرت شاہ صاحب نے دعا فرمائی نے عرض کیا حضور اس مرتبہ دو دو امتحان گذر رہا ہوں فرمایا کیسے؟ میں نے عرض کیا ایک بخار دوسرے گلے کی تکلیف برجستہ فرمایا اس مرتبہ انعام بھی دو دو ملیں گے (اس محفل میں احقر راقم الحروف بھی حاضر تھا،یعنی مولانا عارف ضیائی صاحب)میں خوش ہوگیا ایسا محسوس ہوا کہ میں بالکل تندرست ہوں مجھے کوئی بیماری نہیں ہے لیکن دل میں بے چینی پیدا ہوگئی کہ وہ کون سے انعامات مجھےملیں گے جب برداشت نہ کر سکتا تو عرض کیا حضرت صاحب وہ دو انعام کیا ہیں؟ ارشاد ہوا ایک انعام تو یہ ہے کہ تم آئندہ سال پھر مدینے آؤ گے یہ خوشخبری سن کر میں اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکا بے قرار آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب امڈ آیا تھوڑی دیر کے بعد پھر درخواست کی کہ حضرت صاحب دوسرا انعام کیا ہے ارشاد ہوا دوسرا انعام چلتے وقت ملے گا محفل ختم ہوگئی لوگ ایک دوسرے سے مصافحہ کر کے اپنے  اپنے مقام پر روانہ ہوگئے میں بھی اصطفا منزل میں واپس آگیا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی تہجد کی آذان ہوئی ،فجر کی اذان ہوئی، دونوں نمازیں بستر پر ہی پڑھیں اور درود شریف پڑھتے پڑھتے نیند غالب ہوگئی تھوڑی دیر کے بعد جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ گلے کہ گلٹی پھوڑا بن کر پھوٹ گئی ہے جسم کے کپڑے اور بستر مواد سے گندے ہورہےہیں، ابھی میں حیرت بھری نگاہوں سے بستر کو  دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے محسن دوست بھائی جمیل صاحب السلام علیکم کہتے ہوئے تشریف لائے میں نے ان کو سارا ماجرا  سنایا ان کو بھی پھوڑے کے پھوٹ جانے اور دو انعام ملنے کی خوشخبری سے بے حد خوشی ہوئی جس دن صبح کو یہ پھوڑا پھوٹا اسی دن سے گلے کی تکلیف ختم ہونا شروع ہوگئی۔ اور بخار تو بالکل ہی ختم ہوگیا۔

          مدینہ منورہ میں اس دن محرم الحرام کی دس تاریخ تھی۔ بعد نماز ظہر مدینہ منورہ کے ایک تاجر کے یہاں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی فاتحہ کی سلسلے میں ایک محفل نعت خوانی میں میری ملاقات جدہ کے ایک متمول تاجر شیخ علی عبد القادر صاحب سے ہوگئی (یہ صاحب ہندوستان کے مشہور شہر گجرات سے پاکستان بن جانے کے بعد پاکستان جانے کے بجائے جدہ چلے آئے تھے زبان اردو بولتے بھی تھے، سمجھتے بھی تھے، جدہ میں ہی کاروبار شروع کردیا تھا وہ عاشق رسول (ﷺ) تھے اور نعت خوانی کا وقت بھی رکھتے تھے اس لیے میرے کلام اور انداز بیان کو بہت سراہا)اسی رات بعد نماز عشاء ایک دوسری محفل میں پھر ان سے ملاقات ہوگئی یہاں بھی نعت خوانی سے متاثر ہوئے اور خصوصیت کے ساتھ سلام پڑھنے سے بہت خوش ہوئے، اب میرے دوست بن گئے تھے۔

دوسرے دن پھر دوپہر کی اک محفل سے شرکت کے بعد میں اصطفا منزل واپس جارہا تھا کہ شیخ صاحب ایک دکان پر نظر آگئے۔ پھر ملاقات ہوگئی ۔ یہاں شیخ صاحب نے میرا نام و پتہ وغیرہ بھی لکھوادیا بعد نماز عشاء پھر ایک محفل میں شیخ صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ شیخ صاحب سلام بڑے و الہانہ انداز سے پڑھتے ہیں۔اس محفل میں تو شیخ صاحب میرے لیے بالکل بے تکلف دوست بن گئے تھے اس مرتبہ انہوں نے مجھ سے وعدہ لے لیا کہ میں جدہ میں شیخ صاحب کے یہاں ہی قیام کروں گا ان تمام محفلوں اور ملا قاتوں میں بھائی جمیل  بھی ہمراہ ہوئے تھے واپسی میں بھائی جمیل صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم کو جدہ تو جانا ہی ہے اگر شیخ صاحب پیش کش کرتے ہیں تو کیوں نہ قبول کرلی جائے؟ مختصر یہ ہے کہ لوگ بروز جمعہ نماز مغرب کے بعدمدینہ منورہ سے جدہ شیخ صاحب کے ہمراہ روانہ ہوگئے۔ رات ان کے گھر قیام کیا شیخ صاحب نے ہم لوگوں کے آرام اور خاطر مدارات میں کوئی کمی نہ ہونے دی۔دوسرے دن صبح ناشتہ کے وقت شیخ صاحب فرمانے لگے سکندر بھائی ایک خواہش ہے اگر پوری کردو تو مہربانی ہوگی۔ میں نے کہا شیخ صاحب کیا حکم ہے فرمائیے کہنے لگے میری خواہش ہے آج رات نماز عشاء کے بعد اس کمرے میں ایک  چھوٹی سی نعت خوانی کی محفل ہوجائے میں اپنے چند دوستوں کو آپ کو نعتیں سنوانا چاہتا ہوں شیخ صاحب کی یہ خواہش ہم لوگوں کی عین دلی تمنا تھای اس لیے فورا مسئلہ طے ہوگیا۔

شیخ صاحب اپنے کام میں مصروف ہوگئے ہم اور جمیل بھائی ائیر پورٹ اپنی اپنی سیٹوں کے متعلق معلوم کرنے چلے گئے ہم لوگوں کو سیٹیں تیسرے دن کی ملیں دوپہر کے وقت شیخ صاحب کے در دولت پر حاضر ہوئے شیخ صاحب بھی تھوڑی دیر بعد آگئے مگر کچھ پریشان تھے پوچھنے پر بتایا آج رات کاروباری سلسلے میں ایک پارٹی سے ملنا ضروری ہے اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ آج محفل نعت نہیںہوسکتی ہم لوگوں نے ان کو بتایا کہ ہماری سیٹیں پرسوں کی ہیں ہم کل رات بھی آپ ہی کے یہاں قیام کریں گے شیخ صاحب خوش ہوگئے انہوں نے دوسرے دن بندوبست کرلیا بعد نماز عشاء ایک گھنٹہ پنتالیس منٹ کی محفل ہوئی اور بہت روحانی محفل ہوئی کیونکہ اس میں اہل دل اور شمع رسالتﷺ کے پروانے کثرت سے تھے۔محفل برخواست ہوئی مہمان چلے گئے اب ہم تینوں آدمی سونے کی غرض سے اپنے اپنے بستر پر لیٹے تو شیخ صاحب نے ٹیپ ریکارڈ جس میں پونے چار گھنٹے کی محفل کی نعتیں ٹیب تھیں اپنے سینے پر رکھ کر آہستہ آواز میں نعتیں سننا شروع کردیں مجھے ان کایہ ذوق دیکھ کر ان پررشک آنے لگا۔ نیند میری بھی آنکھوں میں نہ تھی بھائی جمیل کو بھی نیند نہیں آرہی تھی مگر ہم لوگ خاموش لیٹے رہے شیخ صاحب نے پورا ٹیب دو مرتبہ سنا اس کے بعد بھی سوئے کہ نہیں مگر لوگ سوگئے۔

          صبح فجر کی نماز کے بعد دیگر و وظائف وغیرہ سے فارغ ہوکر شیخ صاحب اور جمیل بھائی سوگئے میں چپکے سے اپنے بستر سے اٹھا اور ٹیب ریکارڈ میں ایک نئی کیسٹ لگا کر دو نئی نعتیں ٹیپ کرنا شروع کردیں۔ یہ ارادہ میں نے رات ہی کو کرلیا تھا ۔ ایک نعت شریف دل پر ضبط کر کے ٹیب  کر سکا مگر دوسری نعت شریف جو میں نے عین رخصتی کےوقت دربار رسالت میں رو رو کر پیش کی تھی اور پوری کی پوری نعت برجستہ تھی اور ابھی تک نظر ثانی بھی نہیں کی تھی۔ اس ٹیپ کرتے وقت دل بھرا ہوا تھا۔ مدینہ نگاہوں سے پوشیدہ ہوچکا تھا مدینے کی یاد کے ساتھ ہی ان آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے رقت بڑھتی گئی۔ جتنا دل کو سنبھالنا چاہا اس قدر اور بے قراری بڑھتی گئی اشکباری بڑھتی گئی رقت شدید ہوتی گئی میں جدہ کی دنیا سے نکل کر مدینے کی دنیا میں پہنچ چکا تھا اور دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہوگیا تھا ۔ مجھے اس کا بھی احساس نہ رہا کہ آنسو سسکیوں کے علاوہ میری چیخوں کی آواز بھی ٹیپ ریکارڈ میں ٹیپ ہورہی ہے جمیل بھائی اور شیخ صاحب دونوں ہی جاگ گئے تھے۔ مگر مصلحتاً خاموش لیٹے ہی رہے ۔ جب مجھے خود ہی اپنی بے خودی سے فراغت ملی پہلے ٹیپ بند کیا پھر جلدی سے آنسو پوچھے اور شرمندگی سے منہ سےرومال لپیٹ کر اسی صوفے پردراز ہوگیا، سوگیا۔

          صبح ناشتے کے وقت جمیل بھائی اور شیخ صاحب نے مسکرا کر میری  طرف دیکھا میری آنکھیں پر نم ہوگئیں اور میں ان سے آنکھیں ملا نہ سکا۔ ناشتے کے بعد شیخ صاحب نے کہا۔سکندر بھائی تم بہت خوش نصیب ہو میں ان کا مطلب نہ سمجھ سکا میں نے آنکھوں سے آنسو پوچھتے ہوئے کہا شیخ صاحب اس میں کیا شک ہے۔ شیخ صاحب نے میرے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔سکندر بھائی میری والدہ تم کو انعام دینا چاہتی ہیں میں نے کہا کیسا انعام  دینا چاہتی ہیں میں نے کہا کیسا انعام ؟ کہنے لگے کہ ایسا انعام جو تمہاری دنیا اور آخرت دونوں سنوار دے گا۔ میں نے شیخ صاحب کی طرف معنیٰ خیز نظروں سے دیکھا مگر شیخ صاحب کے چہرے سے خوشی کے آثار مفقود تھے۔ اور چہرہ اداس اداس تھا مجھے بہت تعجب ہوا اس سے پہلے کہ میں شیخ صاحب سے کچھ کہتا شیخ صاحب کھڑے ہوگئے اور جمیل بھائی سے کہنے  لگے کہ میں ایک ضروری کام سے جارہا ہوں دو گھنٹہ تک واپس آجاؤں گا آپ لوگ اس عرصے میں اپنا سامان وغیرہ درست کرلیں۔

          بازار ان کے مکان سے بالکل قریب ہی تھا۔ اس لیے ہم اور جمیل بھائی بازار چلے گئے جب بازار سے واپس ہوکر گھرپہنچے تو شیخ صاحب اپنے مکان پر موجود تھے، ہم لوگوں نے جلدی جلدی سامان باندھا ائیر پورٹ پر ایک بجے دن کو پاکستانی ٹائم کے مطابق پہنچنا تھا اور ساڑھے گیا رہ بج گئےتھے۔ شیخ صاحب نے کہا کھانا تیارہے کھالو۔ جمیل بھائی نے کہا ابھی سے؟ میں نے فورا جواب دیا شیخ صاحب کھانا بعد میں کھائیں گے پہلے وہ انعام دکھائیے شیخ صاحب نے افسردگی سے کہا۔ ابھی نہیں وہ انعام چلتے وقت ملے گا! دفعتاً میرے دماغ میں حضرت شاہ صاحب کے وہ الفاظ جو انہوں نے آج سے تقریباً  ۶ یوم پہلے مدینہ منوری میں فرمائے تھے کہ دوسرا انعام چلتے وقت ملے گا گونج  گئے۔کھانا ہم لوگوں میں سے کوئی بھی پیٹ بھر کر نہ کھا سکا اور میرا تو عجب حال تھا۔مدینہ منورہ سے جدائی کا صدمہ انعام ملنے کی توقع اور کیا انعام ملے گا؟ اس کی جستجو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد شیخ صاحب اندر چلے گئے پھر واپس آکر خاموش بیٹھ گئے۔ انہوں نے لڑکوں کو ٹیکسی منگانے کےلیے بھیج دیا تھا۔ مگر میں اپنے دلی جذبات کو ضبط نہ کر سکا میں نے بے چینی سے پوچھا شیخ صاحب وہ انعام کہاں ہے ؟ اب تو ہملوگ جارہے ہیں۔

شیخ صاحب نے کہا مل جائے گا چند لمحوں کے بعد شیخ کھڑے ہوگئے اور ہم  لوگوں سے کہنے لگے چلئے وضو کر لیں میں نے کہا شیخ ابھی نماز ظہر  میں بہت وقت ہے ہم لوگ ائیر پورٹ یہنچ کر نماز ادا کرلیں گے مگرشیخ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ   وضوخانہ کی طرف چلدئیے ان کے ساتھ ہم لوگوں  نےبھی وضو کرلیا۔

          شیخ صاحب مکان کے اندر گئے اور ایک کالے کپڑے میں لپٹی ہوئی کوئی شے اپنے ہمراہ لائے اور مجھ سے کہا یہ تمہارا انعام ہے میں نے حیرت سے پوچھا یہ کیا چیز ہے؟ شیخ نے مسکرا کر کہا یہ رحمت اللعالمین محبوب رب العالمین ﷺ کی ریش مبارک کے بال ہیں جن کی نعتیں پڑھ کر تم خود بھی بے قرار ہوجاتے ہو اور دوسروں کو بھی بے قرار کردیتے ہو۔

          اتناسن کو جو دل کا حال ہوا وہ قابل بیان نہیں ہے پورے جسم میں سنسناہٹ سی پھیل گئی۔ ہاتھوں میں کپکپکی طاری  ہوگئی آنکھیں جو دیکھ رہی تھیں انہیں دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا تھا اور کان جو کچھ سن رہے تھے انہیں سن کر بھی یقین نہیں ہوتا تھا ۔ کئی منٹ تک ہم لوگ گم سم حالت میں موئے مبارک کو تکتے رہے پھر میں نے ہمت کر کے ہاتھ آگے بڑھائے درود شریف پڑھتے ہوئے موئے مبارک کا رومال ہاتھ میں لیا بوسہ دیا۔آنکھوں سے لگایا۔ اور پھر سر پررکھ  کر کئی منٹ تک خاموش کھڑا ہو کر سوچتا رہا۔ آج میری بوسوں کی ایک دلی تمنا پوری ہوگئی کل کسی عاشق رسول(ﷺ)نے کہا تھا:؎

جو سر پہ رکھنے  کو مل جائے نعل پاک حضور (ﷺ)
تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں

اور آج جدہ شریف میں سرکار ﷺ کی نعل پاک نہیں بلکہ سرکار ﷺ کی ریش مبارک کے بال میرے سر کے تاج بنے ہوئے ہیں اس وقت دنیا کا کونسا تاجور مجھ سے زیادہ قیمتی تاج اپنے سر پر رکھے ہوئے  ہے اور آج دربار مصطفٰی (ﷺ) کا یہ غلام دنیا کے کسی شہنشاہ سے بھی عظمت و مرتبے میں کم نہیں؎

بے شبہ چرخ ثریا یہ ہے رفعت میری
بڑھ گئی بخت سکندر سے بھی قسمت میری
مل گیا ہے مجھے سرکار کاموئے اقدس
اب لگاؤ جو لگا سکتے ہو قیمت میری

          یکا یک جمیل بھائی نے موئے مبارک کا رومال اپنے ہاتھ میں لے کر مجھے آہستہ سے صوفہ پر بٹھادیا انہوں نے بھی بوسہ دیا آنکھوں سے لگایا۔ سر پہ رکھا میں بے خود ہوگیا۔مجھے اس وقت ہوش آیا جب شیخ کے لڑکوں نے آکر بتایا کہ ٹیکسی آگئی ہے شیخ صاحب کے بچے سامان لے کر نیچے اتر گئے میں نے ایک گلاس پانی اور ایک کپ چائے سب کے ساتھ پی کر شیخ صاحب سے کہا اماں جی کو ہمارا اسلام کہ دو اور یہ بھی کہہ دو کہ آپ نے جو عطیہ دیا ہے میں اس کا احسان عمر بھرنہ بھلاسکوں گا۔ شیخ صاحب خاموش بیٹھے رہے پھر میں نے دوبارہ  شیخ صاحب سے کہا، شیخ صاحب نے کہا اماں جی کی طبیعت اس وقت ٹھیک نہیں ہے وہ اس وقت کوئی بات نہیں کرسکتی ہیں۔بھائی جمیل نے اور میں نے ایک ساتھ محسوس کیا کہ اماں بھی کو موئے مبارک کی جدائی بہت شاق گذر رہی ہے میں نے تکلفاً کہا کہ شیخ صاحب اماں صاحبہ کو ہمارا سلام کہہ دوا اور کہہ دو کہ سکندر کہتا ہے کہ آپ نے جو تحفہ مجھ کو عطا فرمایا ہے میں نے قبول کیا اور اب سکندر آپ کو یہ تحفہ پیش کرتا ہے ۔ قبول کرلیں۔ شیخ صاحب نے ڈبڈبائی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور کہا سکندر بھائی اماں جی نے یہ تحفہ آپ کو اپنی طرف سے نہیں دیا بلکہ جس کی امانت تھی اسی نے آپ کو دیا ہے میں یہ سن کر سناٹے میں آگیا ہم لوگ رومال سے آنسو پوچھتے ہوئے نیچے اترے سب سے بغل گیر ہوئے مصافحہ کیا رخصت ہوکر ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔

          شیخ صاحب ٹیکسی کے دروازے کے قریب آکر کھڑے ہوگئے فرمایا سکندر بھائی یہ نعمت ہمارے خاندان میں صدیوں سے محفوظ تھی والدہ صاحبہ جب ہندوستان سے ہجرت کر کے جدہ آئیں تو ہمارے خاندان کے کئی افراد اس نعمت کو حاصل کرنا چاہتے تھے مگر والدہ صاحبہ نے ان کو ٹال دیا اور کئی رشتہ دار ناراض ہوگئے۔ لیکن تم نے آج صبح حضور ﷺ کی نعت شریف پڑھ کر مجھ کو اور گھر کے ہر فرد کو اور خاص کر والدہ کی بے قرار کردیا۔ ااور تمہاری اس بے قراری نے ہم لوگوں کا دل ہلا دیا۔

          میری والدہ کو اپنے رشتہ دار راضی نہ کر سکے  اور تم نے ایک نعت پڑھ کر میری والدہ کا دل مسخر کرلیا۔ والدہ کی ہدایت ہے اس  کا ادب کرنا بے ادبی کرنے سے ذلیل و ر سوا ہوجاؤ گے۔چنانچہ اب تک ہزاروں عورتیں، مرد ، بچے، بچیاں حضور ﷺ کے موئے مبارک کی زیارت کر چکے ہیں خداوند کریم مجھے اور میرے گھر کے ہر فرد کو اس کی برکت سے فیضیاب کرے اور اس کے ادب کی توفیق عطا فرمائے۔

          حضرت قبلہ ضیاء الدین شاہ صاحب ی پیش گوئی کا دوسرا حصہ  یعنی دوسرا انعام تو مل گیا ہے مگر پہلا انعام ۷۵ء کی حاضری ابھی باقی ہے بظاہر اسباب کچھ بھی نہیں مگر میرا دل مطمئن ہے۔ مجھے خدا کے فضل اور سلطان مدینہ ﷺ کی رحمت پر پورا پورا بھروسہ ہے کہ میں انشاء اللہ امسال بھی حاضر دربار ہوکر سلام پیش کروں گا۔ کیونکہ اللہ کے ایک ولی اور سرور کائنات ﷺ کے ایک عاشق صادق نے میرے لیے دعا فرمائی ہے۔اور صرف میرے ہی لیے نہیں بلکہ میری رفیقہ حیات کیلیے بھی۔

          یہ واقعات ۷۴ء کی حاضری کے بعد تحریر کئے تھے۔ اور نومبر کی ۱۵ تاریخ تک کی تمام نعتیں جو مکہ معظمہ ، مدینہ منورہ اور وہاں سے واپس آکر پاکستان میں لکھی تھیں۔اس مجموعے میں شامل کردی تھیں ابھی کتابت کا سلسلہ جاری تھا اور کا پیاں پریس میں بھیجنے کی کوشش کرہی رہا تھا کہ سرکارِ مدینہ ﷺ کی رحمت نے نواز دیا اور ۲۶ نومبر کو سفینہ حجاج میں سوار ہو کر جدہ کو روانگی ہوگئی مگر تنہا نہیں میری رفیق حیات بھی ہمراہ تھیں۔ اور حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب قبلہ کی پیشین گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہورہی تھی ۔ ۱۳۱؎

ان کی ذرہ نوازی کی کیا بات ہے
حاضری مدینہ کی کیا بات ہے


متعلقہ

تجویزوآراء