عنایات کی بارش
عنایات کی بارش
ایک مرتبہ حضرت سنوسی الہند مجاہد ملت محمد حبیب الرحمٰن عباسی قادری قدس سرہٗ نے احقر کو ایک ذکر تلقین فرمایا اور تاکید فرمائی کہ جب سانس بھرجائے تو اتنی آہستہ سانس چھوڑا جائے کہ اگر سامنے روئی رکھی ہو تو وہ بھی نہ ہلنے پائے۔فقیر قادری نے سبب دریافت کیا۔ فرمایا اگر سانس زور سے چھوڑا جائے تو ذاکر مجذوب ہوجاتا ہے۔
ایک وقت ایساآیا کہ فقیر نے جان بوجھ کر زور زور سے سانس چھوڑنا شروع کردیا۔چند دن ہی میں جذب کی کیفیت محسوس ہونے لگی۔ اسی اثنا میں خواب دیکھا کہ جس طرح شجرہ مبارکہ اشعار کی صورت میں تحریر ہے۔ اسی ترتیب سے اپنے تمام مشائخ عظام کو جلوہ فرما پایا ۔حضرت قطب مدینہ اور سیدی مجاہد اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی نمایاں طور پر زیارت ہوئی۔حضرت سیدی و مرشدی قدس سرہٗ کچھ مغموم سے دکھائی دئیے۔حضرت مجاہد اعظم رضی اللہ عنہ نے احقر کو مخاطب کرتے ہوئے، بڑے رعب دار لہجہ میں فرمایا:
’’اس ذکر کو چھوڑ دو، ہمارے مشائخ کا تمہارے لیے یہ منشا نہیں۔‘‘
اس کے بعد سے طبیعت اس طرف راغب ہی نہیں ہوئی۔
پھر دوسری مرتبہ حضور قطب مدینہ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ دیکھا کہ ایک بہت بڑے اور وسیع ہال میں جلوہ فرماہیں، جو کہ تہ خانہ میں ہے۔ حضرت قبلہ لباس فاخرہ زیب تن فرمائے،ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگائے تشریف رکھتے ہیں۔ دو بلے جن کی شکل بالکل شیر کے مشابہ ہے بڑے مودب سر جھکائے سامنے بیٹھے ہیں، احقر قدم بوسی کے شرف سے مشرف ہوا ،نماز کا وقت ہوگیا تو حضرت سیدی نے فقیر کو امامت کا حکم فرمایا۔
تیسری مرتبہ دیکھا کہ حضرت سیدی و مرشدی قدس سرہٗ ایک بہت وسیع ہال میں تشریف فرما ہیں۔فقیر قادری قدم بوسی کی عزت سے سرفراز ہوا۔ حضرت سیدی و مرشدی قدس سرہٗ کے پاس بہت سارے چاندی کے برتن اور کنگن رکھے ہوئےہیں۔مجھے ان میں سے بہت سارے عطا فرمائے ۔ اور فرمایا جب بھی ضرورت ہو لے جایا کرو۔فقیر کی ان دنوں معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی الحمد اللہ اس کے بعد کسی قسم کی کوئی بھی تنگی نہ رہی۔