ہمارا جسم اور خدا کی مرضی
ہمارا جسم اور خدا کی مرضی
اسلامی پابندیوں کا حسن و جمال ہر وہ شخص بخوبی جان سکتا ہے جو اسلام کے واضح احکام کی سمجھ رکھتا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ آج کل مسلمانوں کی اکثریت دینی ضروری احکام ہی سے نابلد ہوتی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ کفار و اغیار کی طرف سے اسلامی تعلیمات پر ہونے والے اعتراضات و اشکالات مغرب زدہ اور آزادی پسند مسلمانوں کے مونھوں سے بھی سنے جاتے ہیں، یوں سنجیدہ مذہبی طبقہ جو دین کا علم رکھتا ہے یعنی معتبر علما اور دانشوروں کو دو محاذوں پر کام کرنا پڑتا ہے ایک زمانے سے ایسا ہوتا آرہا ہے اور اب اس قسم کی صورتِ حال بہت پیچیدہ ہوگئی ہے، مگر علمائے حق اپنی آواز تحریر و تقریر کی صورت میں بلند کرتے رہے ہیں اور بلند کرتے رہیں گے تاکہ مسلمانوں کے شکوک و شبہات دور ہوں اور ان کا دین و ایمان کفر و گمراہی کی تند و تیز آندھیوں سے محفوظ رہے۔
|
ایک پوسٹ واٹس اپ کے ذریعے سے آج موصول ہوئی آزادیِ نسواں کے علم بردار کچھ مرد و عورتیں مظاہرہ کر رہے ہیں اور ہاتھوں میں پلے کارڈز ہیں ایک پر لکھا ہے: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ ۔۔۔اور دوسرے پر لکھا ہے: ’’یہ چادر یہ چار دیواری گلی سڑی لاش کو مبارک‘‘ ۔۔۔الامان و الحفیظ! نام نہاد مسلمان کہلانے والے اسلامی تعلیمات کا یوں کھلے عام مذاق اڑائیں گے اور عقل کے اندھے ان کے گرد جمع ہوکر اور میڈیا میں اسے دکھا کر حساس مسلمانوں کے دلوں کو لہو لہان کریں گے ایسا کوئی پلان سوچا نہیں جا رہا بلکہ اس کاوقوع ہو چکا ہے یاد رہے کہ وقتاً فوقتاً اس قسم کے نازک مسائل میں چھیڑ چھاڑ بیرونی طاقتوں کے کہنے پر پہلے بھی کی جاتی رہی ہے اور اب بھی کی جا رہی ہے۔ اوّل تو اُن مسلمانوں کو جو دین کے پابند ہیں اور دینی احکامات کی دل سے قدر کرتے ہیں مشورہ دوں گا کہ ایسوں کو دیکھنے سننے ہی سے دور رہیں، اپنی نسلوں کو بھی ایسوں کی صحبت سے دور رکھنے کا انتطام کریں، اپنے ارد گرد کا ماحول اسلامی پاکیزہ اور صاف ستھرا ہو اس کا دھیان رکھیں اور معقول بندو بست کریں فی الحال اس کی تفصیل میں نہیں جاتا تھوڑے بہت غور و فکر سے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیا جاسکتا ہے اور اسے پاکیزہ و ستھرا کیسے بنایا جاسکتا ہے اس حوالے سے کسی منصوبہ بند کوشش کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک اس مظاہرے کا اور اس میں پلے کارڈز پر لکھے ہوئے جملوں کا معاملہ ہے تو خدا و رسول پر ایمان رکھنے والا ان سے شرم و حیا کرنے اور آخرت کے حساب سے ڈرنے والا مسلمان اس کی سنگینی سے خود ہی واقف ہے اس تحریر سے مقصود فقط اتنا ہے کہ بعض وہ مسلمان جن کے بارے میں اس قسم کے لوگوں سے متاثر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے انھیں تنبیہ کی جائے خدا اور اس کے رسول عزو جل و ﷺ کی یاد دلائی جائے قبر و حشر کے امتحان کا احساس دلاکر اس دل فریب ناپاک منصوبے کے بھیانک انجام سے آگاہ کیا جائے۔
گندگی، جب تک گندی جگہ پر ہو صاف ستھرے ماحول کو خراب نہ کرے، ایک حد تک برداشت کی جاسکتی ہے، مثلاً باتھ روم میں۔ سبھی لوگ اس قسم کے آزادیِ نسواں کے عَلم بردار بھی گندگی کرتے بھی ہیں اور کچھ دیر اس کے قرب میں رہتے بھی ہیں، لیکن وہیں بستر لگاکر سوتے نہیں، اسے ڈرائنگ روم کے طور پر استعمال نہیں کرتے، اس سےگھن کھاتے ہیں مگر جس کا ذہنی توازن درست نہ ہو وہ اپنے کپڑے اور بدن نجاست سے آلودہ بھی کر لیتا ہے اور اسی طرح گھر کے صاف ستھرے گوشوں میں بلکہ گھر سے باہر بھی نکل جاتا ہے دیکھنے والے اسے عقل و خرد کے تمغے نہیں پہناتے بلکہ اس کے گھر والوں محلے پڑوس میں بسنے والوں کو پاگل خانے میں جمع کرانے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ لوگ اس کی اذیت سے محفوظ رہیں۔
یہی حال اس قسم کے مظاہرہ کرنے والوں کا ہے مغرب کا گند ڈھونڈ کر اپنے اسلامی ملک کے صاف ستھرے ماحول میں لائے اورسرے عام گندگی کا مظاہرہ کرکے دوسروں کو اس گند سے لتھیڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کا ایک ہی علاج ہے کہ ان سے دور رہا جائے، اس کی پر زور مذمّت کی جائے، اپنی آل و اولاد کو اور اس ملک پاکستان میں بسنے والے جملہ افراد کو ان گندی ذہنیت کے لوگوں سے دور رکھنے کی بھر پور کوشش کی جائے اورحکومتِ وقت کو ان کا کیا علاج کرنا چاہیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بنا ہے اس حوالے سے اربابِ اقتدار کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں، اس فحاشی کے نئے نقطۂ آغاز کو اور اس کے عَلم برداروں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے تاکہ کوئی دوسرا سر پھرا اس قسم کی حرکت کا تصور بھی نہ کرے۔
یاد رہے کہ مسلمان خواتین کو ضروری پردے کا اور شرم و حیا کا اسلامی درس ان کی آزادی پر پابندی نہیں بلکہ ان کے انتہائی اہم و بیش قیمت ہونے کی دلیل ہے اس میں ان کی عزت و ناموس کی حفاظت ہے جسمانی اور نفسیاتی اور دماغی بیماریوں سے تحفظ ہے باپردہ رہ کر معاشرے میں ستھرے کردار کے ساتھ آنے والی نسلوں کی تیاری کا شعور و احساس دلانا ہے کہ جب وہ ان مختصر سی محدود پابندیوں کے ساتھ اپنے نفس کو کنٹرول کرلیں گی تو ان کے باپ بھائی بیٹے سر اٹھاکر اعتماد کے ساتھ دین و دنیا کے بہت سے اہم کام سرانجام دے سکیں گے ورنہ بے حیا عورت کے بے غیرت باپ، بھائی یا بیٹے کی صورت میں کبھی وہ دین و دنیا کا بڑا کام سرانجام نہیں دے سکتے، بظاہر دنیاوی ترقیوں میں ان کا کچھ کام دکھائی بھی دے گا تو اس کا انجام بھیانک ہی نکلے گا جیسا کہ نکل رہا ہے۔ معاشرے کو فحاشی کا گھن دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، دینی اور اخروی نقصان تو اپنی جگہ دنیا میں بھی بے غیرتی اور بے حیائی کی وجہ سے سکون غارت ہوگیا ہے اور طرح طرح کے امراض جدا ہیں لوگوں کی نظروں میں رسوائی جدا۔ مثالوں کی ضرورت نہیں جہاں آزادیِ نسواں کے نام پر اس قسم کا مکروہ دھندہ ہوتا ہے وہاں کی سوسائٹی کس قدر خراب ہو چکی ہے اورخاندانی نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے اخبارات وغیرہ میں آئے دن آرٹیکل چھپتے رہتے ہیں، وہاں بسنے والے مسلمان اس سے اچھی طرح واقف بھی ہیں اور اس مسموم فضا میں کس طرح خود کو اور اولاد کو بچایا جائے اس کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔
الغرض، مظاہرہ کرنے والے بے حیا مردوں اور عورتوں کی بجائے اپنے ایمان کو آواز دے کر پوچھیں کیا اللہ نہیں دیکھ رہا؟ کیا اس نے قرآنِ پاک میں جا بجا بے حیائی کی مذمت نہیں فرمائی؟ قیامت کے سخت حساب کے خوف سے نہیں ڈرایا؟ کیا صرف دنیا ہی کی زندگی ہے مرنے کے بعد اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا؟ اپنے ان بنیادی عقیدوں کےگہرے تصور میں کلمۂ طیّبہ کا ورد کرتے ہوئے اللہ ربّ العزّت سے اپنے ایمان اور اعمال کی حفاظت اور گناہوں اور بے حیائی کے شیطانی کاموں اور اس قسم کے شیطانوں سے پناہ کی سچے دل سے دعا کریں حدیث شریف میں ہے جو اللہ سے پارسائی چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اسے پارسا بنادیتا ہے۔
ہم اللہ کے محکوم بندے ہیں ہمارا جسم بھی اس کا پیدا کردہ ہے، اسی کے احکامات کا پابند ہے؛ ہمارا جسم ہی نہیں، ہماری جان، ہمارا مال، کاروبار گھر بار؛ الغرض سب کچھ اسی پاک پروردگار کا ہی تو ہے۔۔۔ چلے گی تو اسی کی مرضی چلے گی ۔۔ناپاک بد کردار مادر پدر آزاد اپنی بے جا آزادی کے جتنے نعرے مارتے ہیں، مارلیں اللہ ربّ العزّت اور اس کے رسولِ کریم ﷺکے دیے ہوئے احکامات کی پابندی سعادت مند کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔۔۔ یہ چند لوگوں کا ایک مظاہرہ تھا دین سے محبت کرنے والے ۔۔۔ہمارا جسم اور خدا کی مرضی۔۔۔ والے پلے کارڈز اٹھاکر ہزار مظاہرے بھی کرسکتے ہیں، لیکن اصل کام تو پردے کی پابندی اور شرم و حیا کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ ان شاء اللہ تعالٰی ایسے باعمل مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔