نا عاقبت اندیش

نوشتۂ دیوار پڑھ لیجیے ۔۔۔۔۔
کوّئے کو سفید ،سفید کہنے سے کوّا سفید نہیں ہوگا 
یاد رکھنا ! 
تاریخ کے اُس دن کو جب سلمان تاثیر کفن میں لپٹا ہواتھا مگر جنازہ پڑھانے کے لیے سرکاری مولوی سے لے کر غیر سرکاری مولوی تک کوئی موجود نہیں تھا سلمان تاثیر کے جھوٹے قصیدے پڑھنے سے اس کے چہرے کی کالک کو کم نہیں کر سکو گے۔
کیا مقصد ہے ؟تمہارا ! اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
اب وہ ہوگا جو ہم چاہیں گے ۔دانتوں کو کچکچاتے ہوئے اس کے چہرے کی نحوست میں اور اضافہ ہوگیا ۔
عنقریب ممتاز قادری تختۂ دار پر ہوگا اور ناموس رسالتﷺ کا نظریہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے finishاس کے قہقہے میں بلا کی سفاکیت تھی۔
تو سُنو ! اپنی تمام تر عیاری و مکاری کو اپنی زنبیل سے نکال لو اور تمام تر مشنری و صیہونی ہتھکنڈوں کو استعمال کر کے لگا دو پھانسی ممتاز قادری کو ۔مگر یاد رکھنا ناموس رسالت ﷺکا نظریہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
مت بھولو ! ماضی قریب میں تاریخ کے اس باب کو جب علم الدین غازی کو پھانسی دے کر تمہارے نمرود آقاؤں نے سمجھا تھا کہ انہوں نے نظریہ کو بھی موت دے دی ۔
اور جذباتی مسلمان! تم بھی یاد رکھو !اب وقت بدل چکا ہے پہلے اینکر اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کانپتے تھے اب بھاری بھر کم لفافوں نے ان کے دماغوں اورزبانوں کو مفلوج کردیا ہے اب رائے عامہ وہ ہو گی جو ہم کہیں گے ۔
ذرا اپنے گردو پیش پر نگاہ ڈالو ! اب حالات تمہارے حق میں نہیں۔
ممتاز قادری کے حق میں نکالنے والی کسی ریلی ، جلوس ،جلسے جو بلا شبہ بہت بڑے تھے مگر کیا یہ کوریج میڈیا کے کسی چینل نے دکھائی ؟
نہیں نا! لیکن ممتاز قادری کو قاتل اور سلمان تاثیر کو معصوم ثابت کرنے کے لیے میڈیا کے چند دو چار اینکر کو ہم صبح شام دکھا رہے ہیں۔
کچھ آئی سمجھ میں جذباتی بے وقوف!
تمہاری قیادت ! معذرت تمہاری قیادتیں قائد بننے کے لیے آپس ہی میں الجھی ہوئی ہیں ان میں اکثر اپنے وقت کا امامِ اعظم تو بننا چاہتے ہیں مگر پیٹھ پر کوڑے کھانے کے تصور ہی سے کانپنے لگتے ہیں۔
اب تم بتاؤ !تم کیا کرو گے ؟
نوشتۂ دیوار ہمیں نہیں تمہیں پڑھ لینا چاہیے اور یاد رکھنا اگر ہم کوّے کو سفید کہہ رہے ہیں تو تمہاری صفوں میں موجود چندلوگ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ کوّا واقعی سفید ہے ۔
میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
تم مسکرا رہے ہو ۔اس کو میری مسکراہٹ بہت عجیب لگی۔
بے ضمیر بے وقوف! یہ ہی غلطی تو ہر دفعہ تمہارے بیرونی آقاؤوں سے ہوئی ہے وہ بھی یہ ہی سمجھتے تھے جو تم سمجھتے ہو ’’طاقت نظریہ کو دفن کرکے عشق کو فنا کردے گی ۔۔۔۔محبت کو پھانسی اور جذبہ ٔ عشق کا سر قلم کر دیا جائے گا ‘‘۔
احمقوں کی جنت میں رہنے والو! یہ چودہ سو سال سے جاری جنگ ہے تم ماضی میں بھی مولویت کے چغوں میں چھپا کر کئی بلعم باعورا پادری لائے ہو مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
یاد رکھنا ! تمہاری نام نہاد اکثریت اور بے ضمیر دانشوروں کی تعبیرو تشریح پر چم ِ اسلام کو سر نگوں نہیں کر سکے گی۔
یاد رکھنا! اسلام کی تاریخ کو! اس کے پرچم کو تھامنے میں اگر کسی خاندان نے غفلت کا مظاہرہ کیا تو کسی دوسرے قبیلے نے اس کو تھام لیا۔
تاریخ کے روزن سے طارق بن زیاد ، محمد بن قاسم ، صلاح الدین ایوبی ، محمود غزنوی کی شکل میں ان گنت تصویریں آج بھی گواہی دے رہی ہیں۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہ ۔۔۔وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
تم ان کتابی باتوں سے باہر نہیں آؤ گے گے جذباتی !
اور تم تاریخ سے کبھی کچھ سیکھ نہیں سکو گے بے ضمیر بے وقوف!
سُنو اور بغور سُنو! تمہارا میڈیا اس دفعہ وہ سب عکس بند کرے گا جو تمہارے آقاؤوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا ۔
اس سال ربیع الاول میں گلی ،محلوں ،شاہراہوں کی سجاوٹ اس وقت تک مکمل نہیں ہو گی جب تک ممتاز قادری کی قدآور تصاویر نہ لگ جائیں اتنی بڑی تصاویر ہوں گی کہ کسی سیاست دان کی نہ لگی ہوں گی ۔
ہمارے سینوں پر I AM MUMTAZ QADRI کے بیج جگمگارہے ہوں گے۔
ہمارے اسٹیکر پر یہ سلوگن ہو گا ’’ یا رسول اللہ ﷺ تیرے چاہنے والوں کی خیر ‘‘
ہمارے پوسٹر پر ممتاز قادری کی تصاویر نمایاں ہوں گی۔
ہماری محافل میلاد میں اسٹیج اسکرین پر ممتاز قادری کی قدآور تصویر تمہارے سینوں کو انگاروں سے بھر دے گی۔
ہم کلینڈر پر کاپیوں پر کتابوں پر رسالوں کے سرورق پر ممتاز قادری کی تصاویر کو چھاپ دیں گےاور جو بن سکا وہ سب بھی کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔
جاؤ اور جا کر اپنے مغربی آقاؤوں سے کہہ دو پیغمبرِاسلام ﷺ کی امت کے بچے بوڑھے ،جوان ،عورتیں چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ببانگ دہل کہہ رہے ہیں۔

غلامی رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے 
ناموس رسالت ﷺ پر جان بھی قربان ہے 

اور آخری بات !

ممتاز قادری زندہ رہےیا شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو کر اپنے نبی ﷺ پر قربان ہوجائے
ہمارے خون کی آخری بوند بھی یہ ہی کہے گی:

گستاخِ رسول کی ایک سزا سر تن سے جدا سر تن سے جدا


متعلقہ

تجویزوآراء