باطل عقائد و رسومات اور ماہِ صفر

اسلامی سال کے دوسرے مہینے کا نام ’’صفر المظفر‘‘ ہے۔یہ صفر بالکسر سے ماخوذ ہے ، جس کا معنیٰ خالی ہے۔

کوئی مہینہ منحوس نہیں ہوتا

ماہ صفر المظفرکوجاہل لوگ منحوس سمجھتے ہیں ، اس میں شادی کرنے اور لڑکیوںکو رخصت کرنے سے، نیا کاروبار شروع کرنے اور سفر کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ خصوصاًماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ منحوس گمان کی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں۔ تیرہ تیزی کے عنوان سے سفید چنے (کابلی چنا) کی نیاز بھی دی جاتی ہے ۔ نیاز و فاتحہ کرنا مستحب ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اگر تیرہ تیزی کی فاتحہ نہ دی اور سفید چنے پکا کر تقسیم نہ کیے تو گھر کے کفیل افراد (خصوصاً کمانے والے) کا روزگار متاثر ہوگا ، یہ باطل نظریہ ہے۔ نیاز و فاتحہ ہر طرح کے رزقِ حلال پر دی جاسکتی ہے اور ہرماہ کی ہر تاریخ کو دی جاسکتی ہے۔ محض ماہِ صفر سے کسی نیاز کو مقید کرنا جہالت ہے۔

ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ’’آخری بدھ’’کے عنوان سے لوگ بہت مناتے ہیں، خصوصاً ٹیکسٹائل (کپڑے کا کاروبار) قالین بافی ، لوہار ، بڑھئی اور بنارسی (کھڈی لوم) کا کام کرنے والے اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں ، سیر و تفریح کو جاتے ہیں، نہاتے دھوتے ہیں،خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس روز صحت کا غسل فرمایا تھا۔ اور بیرونِ شہر(یعنی مدینہ طیبہ کے باہر) سیرو تفریح کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل اور بے بنیاد ہیں ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان نے تحقیق فرمائی ہے کہ ماہِ صفر کے آخری ہفتے میں سید العرب والعجما کا مرض شدت کے ساتھ تھااور فوراً بعد ربیع الاول شریف میں آقائے دوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام ظاہری حیات کا عرصہ گزار کر وصال فرما گئے تھے۔ ان تاریخوں میں جو باتیں لوگوں میں مشہور ہیں، وہ خلافِ شرع و حقیقت ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں۔ اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں ان سب خرافات کو مندرجہ ذیل احادیث رد کرتی ہیں۔

حدیث :عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَا عَدْوٰی وَلَا ھَامَۃَ وَلَا نَوْئَ وَلَا صَفَرَ. (مسلم شریف جلد دوم صفحہ ۲۳۱،)

رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ: ‘‘نہ متعدی بیماری ہے اور نہ ہامہ اور نہ منزل قمر اور نہ صفر’’ ۔

حدیث: عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرۃَ وَ اُحِبُّ الْفَالَ الصَّالِحَ. (مسلم شریف جلد دوم صفحہ ۲۳۱)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا،‘‘بیماری کا لگنا اور بدشگونی کوئی چیز نہیں فالِ بد کچھ نہیں البتہ نیک فال مجھے پسند ہے۔‘‘

حدیثِ رسولﷺ کا مفہوم

            حافظ الحدیث حضرت امام محی الدین نووی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں ۔

لَاعَدْوٰی کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جو شخص بیمار کے ساتھ بیٹھتا ہے یا اس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے تو اس کی بیماری اس کو بھی لگ جاتی ہے۔

وَلَا ھَامَّۃَ۔ ہامّہ ایک جانور کا نام ہے۔ اہلِ عرب میں یہ باطل نظریہ تھا کہ یہ جانور میت کی ہڈیوں سے پیدا ہوتا ہے جو اُڑتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ مقتول کے سر سے ایک جانور باہر نکلتا ہے۔ اس کا نام ہامّہ ہے وہ ہمیشہ فریاد کرتا ہے کہ مجھ کو پانی دو یہاں تک کہ اس کا مارنے والا مارا جاتا ہے۔امام نووی نے تفسیر ‘‘ مالک بن انس’’کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ (اہلِ عرب)اعتقاد رکھتے تھے کہ مقتول کی روح جانورمیں منتقل ہو جاتی ہے۔سرکارِ نامدارعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس عقیدے کو باطل فرمایا۔

نَوْءٌ کی جمع انواء ہے جس کا معنیٰ قمر کی منزلیں ہیں۔ وہ اٹھائیس منزلیں ہیں یعنی وہ راتیں کہ جن میں چاند کے مکمل ہونے کے ارتقائی مراحل اور پھر بتدریج تنزل کے مراحل ۔حتیٰ کہ چاند اٹھائیسویں شب میں مکمل غروب ہوجاتا ہے۔ اہل عرب کا خیال تھا کہ چاند کی بڑھتی اور گھٹتی عمر کی منزلیں بارش آنے کا سبب ہیں ، تو نبی کریم ا نے اس کا رد فرمایا کہ نزولِ باراں بتقدیر الٰہی ہے۔

وَلَا صَفَرَ۔ یعنی صفر نہیں۔ اس میں بہت تاویلات ہیں بعض کے نزدیک’’ صفر ‘‘سے مراد یہی مہینہ ہے جو محرم شریف کے بعد آتا ہے۔امام مالک اور ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ بعض کے نزدیک ’’صفر‘‘ پیٹ میں پایا جانے والا ایک سانپ ہے اور وہ بھوک کے وقت کاٹتا ہے اور ایذاء دیتا ہے اور ایک آدمی سے دوسرے میں سرایت کرجاتا ہے۔۔۔۔پس حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ یہ سب باطل اور خرافات ہیں۔ (شرح صحیح مسلم، جلد دوم ،صفحہ ۴۳۰۔۴۳۱)

ایک اور حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : ‘‘ بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ’’ (مسلم شریف )

نحوست؍ بدشگونی ہوتی تو تین چیزوں سے ہوتی

حدیث شریف: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ‘‘اگر بدشگونی کسی چیز میں ہو تو گھوڑے ، عورت اور گھر میں ہوگی۔‘‘(مسلم جلد دوم، صفحہ ۲۳۲)

حدیث: حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’اگر کچھ نحوست ہو تو زمین اور غلام اور گھوڑے میں ہوگی۔‘‘ (مسلم جلد دوم صفحہ ۲۳۲)

تشریحِ احادیث:امام نووی علیہ الرحمۃ شرح مسلم نووی میں لکھتے ہیں کہ ان احادیث میں امام مالک نے کہا کہ کبھی گھر کو اللہ تعالیٰ ہلاکت کاسبب بنا دیتا ہے یا اسی طرح کسی عورت یا گھوڑے یا غلام کو اورمطلب یہ ہے کہ کبھی نحوست ان چیزوں سے ہوجاتی ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں دین کی سمجھ اور عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین


متعلقہ

تجویزوآراء