جمال مصطفی ﷺ سرتا بقدم مبارک (مفصل ذکر)
جمال مصطفی ﷺ سرتا بقدم مبارک (مفصل ذکر)
خاتمۃ الکتاب سراپائے اقدس کے بیان میں
قد مبارک اور جسم بے سایہ
بنایا ذات حق نے کیا عجب نقشہ محمد کا
ہو شیدا جسے آیا نظر جلوہ محمد کا
سراپا نور انور تھا قدِ والا محمد کا
بتا پھر کس طرح آتا نظر سایہ محمد کا
خدائے پاک نے خود آپ کو ہے نور فرمایا
زمیں پر اس لیے پڑتا نہیں تھا آپ کا سایہ
نظر آتا نہیں تھا اس لیے سایہ محمد کا
سرکار مدینہﷺ کا قد انور درمیانہ تھا، پست نہ تھا کیوں کہ اس ذات میں پستی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور ایسا لمبا بھی نہ تھا کہ بُرا لگے اس کے باوجود جتنے لوگوں میں آپ تشریف فرما ہوتے سب سے بلند ہی نظر ہی آتے تاکہ کوئی قد کے لحاظ سے بھی حضور علیہ السلام سے بلند ہونے کا دعویٰ نہ کر سکے اورخصوصاً ایسی بات کا صحابہ کرام بڑا خیال رکھتے، ایک صحابی سے پوچھا گیا آپ پڑے ہیں یا حضور علیہ السلام تو انہوں نے فوراً کہا بڑے تو حضور ہیں مگر عمر میری زیادہ ہے۔
یعنی بڑائی کا تصور مخلوق میں حضور علیہ السلام پر ختم ہے۔(بعد ازخدابزرگ توئی قصۂ مختصر) ہر کسی کی بلندی حضور ہی کے در کی بھیک ہے، بلند وہی ہے جو ان کے قدموں میں آگیا، چاہے وہ حبش کا بلال ہی کیوں نہ ہو کہ جس کو غلامئ رسول میں آنے سے پہلے ہر کوئی غلام کہتا تھا مگر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہونے کے بعد عمر فاروق جیسے بھی سیدنا بلال! کہہ کر پکارنے لگے اور اسی بلال کے قدم کعبہ کی چھت پر لگے
فروغ مہر بھی دیکھا نمود گلشن بھی
تمہارے سامنے کی کا چراغ جلتا ہے
اور جو میرے آقا کے مقابلے میں آیا وہ بلند تھا تو پھر بھی پست ہو گیا ہے وہ سردار قریش ابو جہل ہی ہو
دور تھے اویس مگر ہو گئے قریب
بو جہل تھا قریب مگر دور ہو گیا
دیکھنے میں عربی کے تمام الفاظ قرآن پاک جیسے ہی نظر آتے ہیں مگر قرآن کا ایک ایک لفظ بے مثل ہے اسی طرح دیکھنے میں سارے انسان ایک ہی طرح کے دکھائی دیتے ہیں مگر اللہ کا محبوب سب سے بے مثل و بے مثال ہے اس لیے بشر مثلکم میں یہ تو فرمایا میں تمہاری مثل ہوں مگر یہ نہیں فرمایا تم میری مثل ہو، اور ہو بھی کیسے
دست نور و پائے نُور و قَد نُور
وَلَدۡ نُور و اَب نُور و جَد نُور
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سرکار علیہ السلام کے قد انور کے بارے فرماتے ہیں:
لم یکن بالطویل الممغط ولا بالقصیر المردد وکان ربعۃ من القوم۔(مشکوۃ ص ۵۱۷)
آپ نہ تو بہت لمبے قد کے تھے نہ چھوٹے بلکہ متوسط قامت تھے۔
نشر الطیب ص ۱۴۲ پہ ہے کہ حضرت ابو ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ جب آپ اکیلے چلتے تو متوسط قامت دکھائی دیتے اور جب آپ کے ساتھ کوئی اونچے قد والا ہوتا تو آپ اس سے بھی بلند نظر آتے آپ کے اعضاء مبارک مربوط و مضبوط تھے۔
قد مبارک اپنی جگہ الگ معجزہ ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ جسم مبارک کا سایہ بھی نہ تھا بلکہ اس جسم! انور پہ جو لباس زیب تن ہوتا بلکہ جو چیز اس جسم مقدس سے وابستہ ہوتی سوت یا روئی کی پوشاک، چمڑے کی نعلین مبارک، لوہے کی تلوار یہ تمام چیزیں نورانی ہو کر بے سایہ ہو گئیں کیوں کہ ان سب چیزوں کے ساتھ آپ باہر تشریف لے جاتے مگر دیکھنے والے صحابہ کرام بیان کرتے ہیں :کہ چاند کی چاندنی میں آپ کا سایہ نہ تھا نہ سورج کی روشنی میں، کسی نےکیا خوب کہا :
اللہ رے ان کے جسم مقدس کا معجزہ
وابستہ جو ہوا اسے نور کر دیا
بے شمار کتابوں میں جسم اطہر کے بے سایہ ہونے کے حوالہ جات موجود ہیں مثلاً شفا شریف۔ مفردات راغب، نسیم الریاض، حجۃ اللہ علی العالمین، الشمامۃ العنبر یہ من مولد خیر البریہ (صدیق حسن بھوپالی) تفسیر مدارک، روح البیان، تفسیر عزیزی، مواہب لدنیہ، سیرت حلبیہ، مدارج النبوت وغیرھا ان تمام کتب میں تقریباً ملتی جلتی عبارت ہے کہ
لم یکن لہ ظل فی شمس ولا قمر لانہ نور۔
کہ آپ ﷺ کا سایہ نہ تھا نہ سورج کی روشنی میں نہ چاند کی چاندنی میں کیوں کہ آپ نور تھے۔ (زرقانی جلد ۴ ص ۲۲۵)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
ان اللہ ما اوقع ظلک علی الارض لئلا یضع انسان قدمہ علی ذالک الظل۔
(تفسیر نسفی ج ۳ ص ۱۰۲، مدارج النبوۃ ج ۲ ص ۱۶۱)
اللہ نے آپ کا سایہ زمین پر نہ ڈالا تا کہ کوئی انسان اس پر قدم رکھ کے توہین نہ کر سکے (تو بھلا آپ کو بیوی کیوں ایسی ویسی دے گا۔ واقعہ افک کے پس منظر میں بیان فرمایا)۔
امداد السلوک میں رشید احمد گنگوہی نے بھی لکھا "بتواتر ثابت شدہ کہ آنحضرت ﷺ سایہ نداشتند" کہ تواتر سے ثابت ہے کہ حضور علیہ السلام کا سایہ نہ تھا۔
تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
ہر شے کا سایہ ہو سکتا ہے لیکن روشنی کا سایہ نہ ہو گا روشن بلب یا ٹیوب کا سایہ کہاں ہے اور اگر حضور علیہ السلام کا سایہ نہ ہو تو کون سی تعجب کی بات ہے کہ اس کا انکار کیا جائے۔ ایک دعا میں حضور علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں یوں عرض کیا۔
اللھم اجعل فی قلبی نورا واجعل فی عینی نورا واجعل فی سمعی نورا وفی لسانی نورا واجعل علی یمینی نورا و شمالی نورا وامامی نورا وخلفی نورا وفوقی نورا و تحتی نورا واجعلنی نورا۔
(بخاری شریف ج۲ ص ۲۳۴ ومسلم ج ا ص ۲۶)
اے اللہ! میرے دل میں، آنکھوں میں، کانوں میں، زبان میں نور کر دے، میرے دائیں، بائیں، آگے، پیچھے نور کر دے، میرے اوپر، نیچے نور کر دے اور مجھے بھی سراپا نور کر دے۔ (سبحان اللہ)۔
بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں۔
فی لحمی و دمَی و شعری و عظامی و لسانی و قبری نورا۔ (سراج منیر ص ۵۹)
میرے گوشت، خون، بال، ہڈیاں اور میری زبان اور میری قبر کو نور کردے۔
تو ایک چیز کے ہر طرف نور ہی نور ہو تو سایہ کہاں سے ہو گا؟ آپ کوئی بھی جسم والی شے رکھ کر اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے روشنی ڈالیں تو دیکھ لیں سایہ ہوتا ہے یا نہیں۔
کوئی بد باطن یہ اعتراض نہ کرے کہ حضور علیہ السلام یہ دعا کرتے تھے تو مطلب یہ ہوا کہ آپ پہلے نور نہ تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور علیہ السلام تو اھدنا الصراط المستقیم بھی دعا کرتے تو جیسے ہدایت پر ہونے کے باوجود ہدایت کی دعا کی جا سکتی ہے اور اس سے پہلی ہدایت کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ استقامت علی الہدایۃ کا معنی ہو گا اسی طرح ہمیں ہدایت پر قائم رکھ، اسی طرح پہلے نور ہونے کے باوجود دعا کا معنی بھی پہلے نور ہونے کی نفی نہیں کرتا۔
اسی طرح بعض احادیث (مثلاً مشہور حدیث کہ آپ کا یہ فرمان کہ مجھ پر جنت و دوزخ پیش کی گئی حتی رایت ظلی وظلّکم یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا) میں ظل اپنے اصل معنی پر محمول نہیں ہےاور قرینہ یہ ہے کہ کہ سایہ اندھیرے میں نہیں ہوتا حالانکہ جہنم کے بارے میں صاف حدیث ہے کہ دوزخ کی آگ ایک ہزار سال تک جلائی گئی یہاں تک کہ وہ سُرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی یہاں تک کہ وہ آگ سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی یہاں تک کہ وہ سیاہ ہو گئی۔
فھی سوداء مظلمۃ۔ (ترمزی ۲ص۸۳، مشکوۃ ص ۵۰۳)
پس جہنم سیاہ اور اندھیری ہے۔
تو جہاں اتنا اندھیرا ہو وہاں سایہ کہاں سے نظر آئے گا ثابت ہوا کہ ظل کا لفظ اپنے حقیقی معنی پر نہیں ہے
سلام اس پر کہ جس کے جسمِ اطہر کا نہ سایہ تھا
حضرت مجدد الف سانی علیہ الرحمۃ مکتوبات شریف س ۱۴۷ پہ لکھتے ہیں کہ آپﷺ کا سایہ اس لیے نہ تھا کہ
در عالم شہادت سایہ ہر شخص از شخص لطیف تراست چوں لطیف ترے ازوے صلی اللہ علیہ وسلم در عالم نباشد اور اسایہ چہ صورت دارد؟
عالم شہادت میں ہر شے کا سایہ اسی شے سے لطیف ہوتا ہے اور جب کائنات میں کوئی شے حضور علیہ السلام سے لطیف ہی نہیں ہے تو سایہ کیوں کر ہو سکتا ہے۔
پیغمبر ماند اشت سایہ تاشک بدل یقین نیفتد
یعنی ہر کس پیرو اوست پیدا است کہ یا زمیں نیفتد
اور اس جسم مقدس کی لطافتوں کا یہ عالم ہے کہ نہ آپ کے جسم مقدس پہ مکھی بیٹھتی اور نہ لباس پر، اسی طرح نہ آپ کو جوئیں پڑتی اور نہ ہی مچھر نے کبھی کاٹا۔
ان الذباب کان لا یقع علی جسدہ ولا ثیابہ۔(شفاء شریف ۲ ص ۲۸۲)
نہ کبھی آپ کو مچھر نے کاٹا اور نہ ہی جؤوں نے آپ کو اذیت دی۔ سبحان اللہ۔
ما ان رایت ولا سمعت بمثلہ
فی الناس کلھم بمثل محمد (ﷺ)
انہی کی بو مایۂ سمن ہے، انہی کا جلوہ چمن چمن ہے
انہی سے گلشن مہک رہے ہیں، انہی کی رنگت گلاب میں ہے
سرِ انور:
حقائق و معارف ربانیہ کا گنجینہ ، علم نبوت و حکمت قرآنی سے لبریز، نور ربی و علم لدنی سے معمور سرِ انور میں و دیعت کی ہوئی کمال عقل کے بارے ایک حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
قرأت فی احدو سبعین کتابا فوجدت فی جمیعھا ان اللہ تعالیٰ لم یعط جمیع الناس من بدء الدنیا الی انقطائھا من العقل فی جنب عقلہ صلی اللہ علیہ وسلم الا کحبۃ رمل من بین رمال الدنیا۔ (الشفاء ص ۳۳)
میں نے اکہتر کتابیں پڑھیں اور مجھے سب میں یہی مضمون ملا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو جو عقلیں عطا فرمائی ہیں ان سب کی عقلوں کا مجموعہ حضور علیہ السلام کی عقل مبارکہ کے مقابلہ میں ایسے ہے جیسے تمام دنیا کے ریگستانوں سے ریت کے ذرے کو۔
اس کے بعد حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ "آپ کی عقل کے مطابق ہی آپ کے وہ علوم ہیں جن پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے مطلع فرمایا یعنی ماکان وما یکون ابتدائے عالم سے تا قیامت اور بعد قیامت۔ اور آپ کے پورے کمالات کو بیان کرنے سے تمام جہاں کی زبانیں گنگ ہیں"۔ (ص ۴۶)
چنانچہ امام اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ آپﷺ سات لاکھ زبانوں اور ایک سو پیشوں کے ماہر تھے۔(تفسیر خازن۔ روح البیان۔اشرف التفاسیر ص ۲۹۰)
خدا نے دیے معجزے ہر نبی کو
ہمارا نبی معجزہ بن کے آیا
ہزاروں ہزاروں کِھلے گل چمن میں
بہار آئی جب مصطفیٰ بن کے آیا
حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے اپنے حواریوں کے سامنے حضور علیہ السلام کے سرِانور کے اس طرح کمالات بیان فرمائے "اس وقت خدا اپنا رسول بھیجے گا جس کے سر کے اوپر سفید بادل چھایا رہے گا (سایہ فگن رہے گا) جس سے وہ خدا کابرگزیدہ جان لیا جائے گا اور خدا اسی کے ذریعے دنیا پر ظاہر ہوگا اور وہ بے دینوں پر بڑی طاقت کے ساتھ آئے گا اور زمین پر بت پرستی کو نیست و نابود کردے گا۔ اور مجھے مسرت ہے کیوں کہ اسی کے ذریعے ہمارے خدا کی معرفت و تمحید ہو گی۔ اور میرا سچا ہونا معلوم ہو گا"۔ (انجیل برنا باس ص ۸۴ باب ۷۲)
آپ ﷺ کے سرِ انور کا یہی اعجاز آپ کی رضاعی بہن حضرت شیمانے بھی بیان فرمایا کہ بچپن میں (جب حضور علیہ السلام ہمارے ہاں ہوتے تھے) میں نے "برکان"کے درمیان بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا جو آپﷺ کے سرِ انور پر سایہ کیے ہوئے تھا۔ آپ جس طرف جاتے وہ آپ کے ساتھ ساتھ اس طرف ہو لیتا۔(شواھد النبوۃ ص ۶۴، قصیدۃ العمان ص ۶۹)
اعلیٰ حضرت نے خوب فرمایا
جس کے آگے سرِ سرواں خم رہیں
اس سرِ تاج رفعت پہ لاکھوں سلام
سرِ انور کے بارے میں حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ج ۲ ص ۱۵۵ پہ اوصاف حلیۂ رسول ﷺ حضرت ہند بن ابی ہالہ کے حوالہ سے بیان فرمایا
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فخما مفخما یتلاً لاً وجھہ تلالؤ القمر لیلۃ البدر اطول من المربوع وأقصر من المشذب عظیم الھامۃ۔
آپﷺ اپنی ذات میں عظیم، نظروں میں معظم، چہرۂ مبارک ماہ بدر کی طرح روشن، قد مبارک اعتدال دراز اور سر مبارک اعتدال کے ساتھ کِلاں تھا۔ (نشر الطیب ص ۱۴۳)
پہلی کتابوں میں سے "عزل الغزلات" منسوب بہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اندر بھی (باوجد تحریف وتغیر و تبدل کے) حضور علیہ السلام کا حلیہ مبارک، رنگ، خدوخال کو بیان کیا گیا
سر مدّور گول نورانی، چمکے نور اندر پیشانی
نہ کوئی ہویا اس دا ثانی، صلی اللہ علیہ وسلم
موئے مُبارک:
حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ حضرت ھندبن ابی ھالہ رضی اللہ عنہ کےک الفاظ (موئے مبارک کے متعلق) یوں نقل فرماتے ہیں۔
رجل الشعران انفرقت عقیقتہ فرق والا فلا یجاوز شعرہ شحمۃ اذنیہ اذا ھو وفرہ۔
(الشفا ج ۱ ص ۱۵۵)
آپ ﷺ کے گیسوئے پاک نہ بالکل سیدھے تھے اور نہ بالکل گھنگھریالے بلکہ اس کے درمیانے درجے کے تھے۔ اگر بال مبارک دو طرف ہوتے تو مانگ نکل آتی ورنہ نہیں جب آپ بالوں کو چھوڑ دیتے تو دونوں کانوں کی لَو سے بڑھ جاتے۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں
لیلۃ القدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام
یعنی گیسوؤں کی سیاہی دیکھو تو لیلۃ القدر کا اندھیرا اور برکات یاد آتی ہیں اور مانگ مبارک دیکھو تو صبح صادق کا جلوہ و استقامت دکھائی دیتی ہے۔ سبحان اللہ۔
بالوں کی درازی کے متعلق پانچ روایات ملتی ہیں۔
۱۔ کانوں تک
۲۔ کانوں کے نصف تک
۳۔ کانوں کی لو تک
۴۔ شانوں تک
۵۔ شانوں کے نزدیک تک۔
یہ تمام روایات جید صحابہ کرام سے مروی ہیں یعنی حضرت علی المرتضیٰ، حضرت انس بن مالک، حضربراء بن عازب اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھم اجمعین۔
(جمع الوسائل بشرح الشمائل)
ان میں تطبیق یوں بھی ہو سکتی ہے کہ ان کو مختلف اوقات و احوال پر محمول کیا جائے یعنی جب آپ بال کٹوا دیتے تو کانوں تک رہ جاتے پھر بڑھ کر نصف گوش، نرمۂ گوش اور کبھی شانہ مبارک تک پہنچ جاتے آپ ان بالوں کے دو حصحے فرماتے اور سیدھی مانگ نکالا کرتے۔ دائیں طرف سے شروع فرماتے۔ سفید بال کل سترہ یا بیس تھے۔
(انوار محمدیہ۔ شمائل ترمذی ص ۴۵۔نشر الطیب ص ۴۳)
اور یوں بھی تطبیق ممکن ہے کہ جب آپ کنگھی فرماتے تو بال مبارک سیدھے ہو کر شانوں پہ آجاتے (الف بن جاتے) تھوڑی دیر کے بعد نیچے کُنڈل پرتا (یعنی لام بن جاتے) زیادہ دیر گذرتی تو مزید مڑجاتے (یعنی میم کی طرح بعض اہل حال نے الم حروف مقطعات سے آپ کی تین کیفیتیں بیان فرمائی ہیں)
کوئی وزیر یا بادشاہ بال کٹاتا ہے تو گندی نالیوں میں بہا دیے جاتے ہیں غلاظت سے لتھڑ جاتے ہیں کوئی پتہ نہیں رہتا یہ بال شاہ کے ہیں یا گدا کے، مگر آقائے دو عالم علیہ السلام کے بال مبارک وہ ہیں کہ صحابہ بطور تبرک حاصل کر رہے ہیں اور وہ بھی حضور علیہ السلام کے حکم سے اور پھر وصیت کر رہے ہیں کہ مرنے کے بعد میری قبر میں رکھے جائیں۔ خالد بن ولید کو ہر جنگ میں فتح سرکارﷺ کے بال کے صدقے ہو رہی ہے۔ دھوپ میں لے جائیں تو بادل سایہ فگن ہو جاتا ہے یہ ساری باتیں احادیث و تواریخ میں محفوظ ہیں طوالت کے خوف سے سرف اشارہ ہی کافی ہے۔
(دیکھئے: صحیح بخاری و مسلم، حجۃ اللہ علی العلمین ص ۶۸۶، مشکوۃ ص ۲۳۲، شفا ص ۲۴، اصابہ، شمس التواریخ)
روح البیان میں ہے کہ اگر کسی کی قبر پہ حضور علیہ السلام کا بال مبارک رکھ دیا جائے تو امید ہے اللہ اس کو عذاب نہیں دے گا۔
ایک نام نہاد شیخ القرآن مرا تو کئی ہزار کا عطر اس کے تابوت میں ڈالا گیا لیکن نہ اس کا منہ دکھایا گیا (طبی وجوہات کی بنا پر یا گستاخیٔ رسول ﷺکی وجہ سے دیکھنے کے قابل نہ رہا) اور مردار کی سی بدبو آرہی تھی اس وقت کسی عاشق نے کہا اتنا عطر ڈالنے کے باوجود بھی تجھ سے بدبو آرہی ہے اور جس کو ساری زندگی اپنے جیسا کہتے رہے ہو وہ تو زلفیں کھول دیتے تو سارا مدینہ خوشبو سے معطر ہو جاتا تھا اور کبھی والضحیٰ نازل ہوتی تو کبھی والیل اذا سجیٰ نازل ہوتی۔ الغرض ساری کائنات کے کمال ایک طرف اور میرے آقا کی زلف کا بال ایک طرف
زلفاں تیریاں روز قیامت ایسی عظمت پاون
اِک اِک والوں لَکھ لَکھ عاصی جنت اندر جاون
تفسیر روح البیان ج ۴ ص ۴۶۲پہ ہے "اشارہ است بر روشنیٔ روئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم وکنا یہ است از سیاہی موئے وے" والضحیٰ سے آپ کے چہرۂ پاک کی طرف اشارہ ہے اور والیل سے مراد آپ کی زلف عنبریں ہیں۔ اسی طرح زرقانی ج ۶ ص ۲۱۰ پہ اور تفسیر نیشا پوری ج ۳ ص ۱۰۷ پہ بھی ہے اور امام فخر الدین رازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ولا استبعاد فیہ (تفسیر کبیر ج ۸ ص ۵۹۶) کہ والضحیٰ سے چہرۂ انور مراد لینا اور والیل سے زلف معنبر مراد لینا (جب وہ چہرے پہ پھیل جائیں) اس میں کوئی اعتراض وخدشہ نہیں۔
(تفسیر سراج منیر)
ہے کلامِ الہی میں شمس وضحیٰ تیرے چہرۂ نور فزا کی قسم
قسمِ شب تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلف دوتا کی قسم
(اعلیٰ حضرت بریلوی)
اور اعلیٰ حضرت گولڑوی فرماتے ہیں
مُکھ چند بدر شعشانی اے مَتّھے چمکداری لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اَکھ مستانی اے مخمور اکھیں ہِن مد بھریاں
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور علیہ السلام سے سُنا جب کہ آپ نے اپنا ایک بال مبارک پکڑا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا۔
من اٰذی شعرۃ من شعری فالجنۃ علیہ حرام۔
جس میں میرے ایک بال کی بھی بے ادبی کی اس پر جنت حرام ہے (پکا دوزخی ہے)۔ (کنز العمال ج ۲ ص ۲۷۶م جانع صغیر ج ۲ ص ۱۴۵)
صحابئ رسول حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
لان تکون عندی شعرۃ منہ احب الی من الدنیا وما فیھا۔
اگر میرے پاس حضور علیہ السلام کا ایک بال مبارک ہو تو وہ مجھے ساری دنیا اور دنیا کی ساری نعمتوں سے زیادہ محبوب ہے۔ (بخاری شریف ص ۳۹)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ حضور علیہ السلام حجامت کروا رہے ہیں اور صحابہ کرام آپ کے گرد حلقہ باندھے ہوئے ہیں (اس انتظار میں کہ)
فما یریدون ان تقع شعرۃ الافی یدرجل۔
(مسلم شریف ج۲ص ۲۵۶)
کوئی بال زمین پر نہ گرے بلکہ کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پر آئے۔
اِک وال مبارک جے ہتھ آوے
دو عالم اسدی قیمت پاوے
تاں وی اوہ سستا وکاوے
صلی اللہ علیہ وسلم
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھما کے پاس حضور علیہ السلام کا موئے مبارک تھا جو بھی بیمار ہوتا تو پانی میں موئے مبارک ڈبو کر پلا دیتیں تو شفا ہو جاتی۔
(بخاری، مشکوۃ ۳۹۱)
مدارج النبوت و اشرف التفاسیر ص ۱۳۸ میں ہے کہ شاہ ھرل کو سر درد رہتا تھا کئی علاج کیے شفا نہ ہوئی، خوش قسمتی سے اس کو حضور علیہ السلام کا ایک بال مبارک مل گیا اس نے ٹوٹی میں سِی کر ٹوپی پہنچی تو درد فوراً ختم ہو گیا۔
یوں زلف جلوہ گر ہے رُخ پر ضیا کے پاس
واللیل جس طرح ہو لِکھّی والضحیٰ کے پاس
حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں حضور علیہ السلام کا بال مبارک لے گئے تو اس کی برکت سے تمام رات فرشتوں کی تسبیح و تہلیل سنتے رہے۔ (مدارج النبوۃ)
ہو سلسلۂ الفت جِسے زلف نبی سے
الجھے نہ کوئی کام نہ پابند بلا ہو
موئے مبارک کا ایک حسین واقعہ:
مولوی سید حسن مدرس مدرسہ دیوبندی کی کتاب جس پر اکابرین دیوبند میں سے مولوی اعزاز علی اور مفتی محمد شفیع کی تقاریظ ہیں اور کتاب کا نام اشرف علی تھانوی نے خود "وھب النسیم علی نفحات الصلوۃ والتسلیم" رکھا اس کے صفحہ ۳۳ پر ایک بڑا حسین واقعہ لکھا ہے کہ۔
"بلخ کا رہنے والا ایک تاجر بڑا دولت مند تھا اور علاوہ دولت دنیا کے اس کے پاس حضور علیہ السلام کے تین بال مبارک بھی تھے، تاجر فوت ہو گیا، صرف دو ہی اس کے بیٹے تھے، بڑے نے کہا اس کے دو ٹکڑے کر دیتے ہیں آدھا تو لے لے اور آدھا میں، چھوٹے نے کہا میں ہر گز سرکار علیہ السلام کے موئے مبارک کے ٹکڑے نہیں ہونے دوں گا۔ بڑے (لالچی) نے کہا اگر تجھے موئے مبارک سے اتنی محبت ہے تو تینوں بال لے لے اور ساری دولت دنیا مجھے دے دے۔ چھوٹے نے خوش ہو کر منظور کر لیا اپنا حصہ بھی دولت دنیا کا اس کو دے دیا اور سرکار علیہ السلام کے تینوں موئے مبارک کے لیے۔ اب وہ روزانہ بالوں کی زیارت بھی کرتا اور کثرت سے درود و سلام بھی پڑھتا، قدرت خداوندی سے بڑے کا مال گھٹنا شروع ہو گیا اور چھوٹے کے مال و عظمت میں دن بدن اضافہ ہونا شروع ہو گیا ۔ کچھ دنوں کے بعد چھوٹا بھائی فوت ہو گیا تو حضوت علیہ السلام نے اس زمانے کے ایک بزرگ کو خواب میں فرمایا کہ لوگوں سے کہہ دو کہ کوئی بھی حاجت یا مشکل کسی کو ہو تو اس لڑکے کی قبر پہ جا کر دعا کرو مقصد پورا ہو گا چنانچہ اس کے بعد اس لڑکے کے مزار کی بڑی عظمت ہو گئی، لوگ وہاں جانے لگے یہاں تک کہ اتنی عزت و توقیر اس مزار کی ہوئی کہ بڑے بڑے لوگ بھی اس مزار کے ادب کے پیش نظر سوار ہو کر نہیں گذرتے تھے بلکہ بوجہ غایت ادب سواری سے اتر کر پیدل گزرتے تھے۔ (خلاصۃً)
اس واقعہ سے مزارات پہ حاضری، مزارات کی تعظیم، تبرکات سے توسل جیسے بہت سارے مسائل (جن پر مذکورہ اکابرین دیوبند کے ہی ہم عقیدہ لوگ بہت شور مچاتے ہیں اور ان مسائل کو شرک و بدعت کہنے سے گریز نہیں کرتے) خودبخود ہی حل ہو جاتے ہیں۔
ہم سیہ کاروں پہ یا رب تپش محشر میں
سایہ افگن ہوں تیرے پیارے کے پیارے گیسو
چہرۂ اقدس:
جیسا کہ اس سے پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد ماجدہ شاہ عبد الرحیم علیہ الرحمۃ کے حوالہ سے گذرا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا
جمالی مستور عن اعین الناس غیرۃ من اللہ ولو ظھر لفعل الناس اکثر مما فعلوا حین راو یوسف۔
(درثمین فی مبشرات النبی الامین ص ۷)
میرا حسن و جمال پردے میں چھپا ہوا ہے اگر ظاہر ہو جائے تو لوگوں کا حال اس حال سے زیادہ ہو جو ان کا یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر ہوا تھا۔ (سبحان اللہ) مگر اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے میرے حُسن کو چھپا رکھا ہے۔
اور حضرت ابو بکر سدیق رضی اللہ عنہ کو سرکار نے خود فرمایا
یا ابا بکر والذی بعثنی بالحق لم یعرفنی حقیقہ غیر ربی۔
(مطالع المسرات س ۱۲۹)
اے ابو بکر! مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھے مبعوث فرمایا مجھے میرے رب کے سوا کسی نے (کما حقہٗ) پہنچانا ہی نہیں۔ (یا میری حقیقت کو رب کے سوا کسی نے نہیں پہنچانا)
وہ نبیوں میں نبی ایسے امام الانبیاء ٹھہرے
حسینوں میں حسیں ایسے کہ محبوبِ خدا ٹھہرے
مذکورہ مضمون مطالع المسرات اور درثمین کے علاوہ تھوڑے تغیر کے اتھ نشر الطیب ص ۱۷۸ قصائد قاسمی ص ۵، انوار محمدیہ ص ۸۷، زرقانی ج ۵ ص ۱۹۸، جمع الوسائل بشرح الشمائل ج ۲ ص۷ اور مدارج النبوۃ ج اص ۱۰۹ پہ بھی موجود ہے جس نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
محمد سرّ وحدت ہیں رمز ان کی تو کیا جانے
شریعت میں تو بندے ہیں حقیقت میں خدا جانے
حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں :کہ جب خوشی و مسرت کے آثار چہرۂ انور پہ ظاہر ہوتے تو ایسا لگتا
کانہ قطعۃ قمر۔ (بخاری۔مسلم۔خصائص کبری ج ۱ ص ۷۲)
گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔
واہ کیا حُسن ہے اے سیّد ابرار تمہارا
اللہ بھی ہے مشتاق دِیدار تمہارا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما بیان فرماتی ہیں کہ حضور علیہ السلام کا حُسن نرالا تھا۔ بدن کا رنگ نورانی تھا اور جو بھی آپ کا وصف بیان کرتا
شبّھہٗ وجھہ بالقمر لیلۃ البدر۔
(خصائص کبریٰ ۱ ص ۶۷، زرقانی علی المواہب ۴ ص ۲۲۵)
چودہویں رات کے چاند سے تشبیہ دیتا۔
چودھویں کاچاند ہے روئے حبیب
اور ہلالِ عید ابروئے حبیب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں میں نے کسی کو حضور علیہ السلام کے چہرۂ اقدس سے بڑھ حسین نہ دیکھا مجھے یوں لگتا ہے کہ
کان الشمس تجری فی وجھہ۔ (مشکوۃ س ۵۱۷، ترمذی س ۲۰۵)
گویا سورج ان کے چہرے پہ چلتا تھا۔
حضرت براء عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (جب کسی نے پوچھا کیا حضور علیہ السلام کا چہرہ لمبا تھا؟)۔
لابل مثل القمر والشمس مستدیرا۔
(بخاری شریف ۱ ص ۱۶۷، مسلم شریف ۱ص۱۵۱، ترمذی شیف ۲ ص ۲۰۴)
نہیں نہیں ! بلکہ چاند اور سورج کی طرح گول تھا۔
بلبل نے گُل ان کو کہا
قمری نے سر و جاں فزا
حیرت نے جھنجھلا کر کہا
یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے چودھویں رات کے بدر تمام کی چمک دمک اور مدینہ کے آفتاب نبوت کو سُرخ رنگ کے دھاری دارحُلہ مبارک تن کیے ہوئےدیکھ کر موازنہ کیا تو مذکورہ تشبیہات سے وراء فیصلہ فرمایا:
فاذا ھو احسن عندی من القمر ۔(شمائل ترمذی ص ۲، مشکوۃ ص ۵۱۸)
آپ کا حُسن چاند سے کہیں زیادہ ہے۔
چہرۂ مصطفیٰ اصل قرآن ہے
عاشقوں کی تلاوت پہ لاکھوں سلام
حُسن ہے بے مثل صورت لا جواب
میں فدا تم پہ آپ ہو اپنا جواب
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ؎
متی یبد فی اللیل البھیم جبینہ
یلوح مثل مصباح الدجیٰ المتوقد
جب اندھیری رات میں آپ کی پیشانی ظاہر ہوتی ہے تو روشن چراغ کی طرح چمکتی ہے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کان وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کدارۃ القمر۔
(انوار محمدیہ ص ۱۲۵، خصاءص کبری ج ۱ ص ۱۷۹)
سرکار کا چہرۂ انور چاند کی طرح منور و گو ل تھا۔
ہے انہی کے نور سے سب عیاں
ہے ان ہی کے جلوے میں سب نہاں
بنی صبح تا بش مہر سے
رہے پیش مہر یہ جاں نہیں
حضرت ربیع بنت معوذ صحابیہ رضی اللہ عنہما سے حضرت عمار بن یا سر صحابی کے پوتے نے کہا کہ حضور علیہ السلام کا حلیہ مبارک بیان کیجیے تو انہوں نے فرمایا
لو رایتہ الشمس طالعۃ۔
(داری ص ۳۳، دلاءل النبوۃ للبہیقی ص ۱۵۴)
اگر تو آپﷺ کو دیکھ لیتا تو دیکھنے ہی پکار اُٹھتا کہ گویا سورج طلوع ہو رہا ہے ؎
کہاں وہ مرتبہ کہاں وہ عقل نا رسا اپنی
کہاں وہ نور خدا اور کہاں یہ دیدۂ زار
(قصائد قاسمی)
ایک ہمدانی عورت کا واقعہ امام قسطلانی شارح بخاری نے فتح الباری شرح بخاری کی ج ۶ ص ۳۶۱ پہ بیان فرمایا جس کو حضور علیہ السلام کے ساتھ حج کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور وہ اپنے وطن کو لوٹی تو ابو اسحاق نے اس عورت سے حضور علیہ السلام کا حُلیہ پوچھا تو وہ بے ساختہ بولی۔
کالقمر لیلۃ البدر لم ارقبلہ ولا بعدہ مثلہ۔
آپ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح تھا میں نے آپ جیسا حسین و جمیل نہ آپ سے پہلے کوئی دیکھا نہ بعد۔ (دلائل النبوۃ للبہیقی ص ۱۵۳، خصائص کبری ج ۱ ص ۱۷۹)
اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ان نبیکم صبیح الوجہ کریم الحسب حُسن الصوت۔
تمہارے نبی نمکین حُسن، اعلیٰ نسب اور چھی آواز والے ہیں۔ (خصائص کبری)
حُسن کھاتا ہے جس کے نمک کی قسم
وہ مسیحِ دل آرا ہمارا نبی
سرکار کا چہرہ اس قدر نورانی تھا کہ اس کی چمک سے دیواریں چمک اُٹھیں۔
(زرقانی ج ۶ ص ۲۱۰)
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں
یضیئ فی الجدرای یشرف نورہ علیھا اشراقا کا شراق الشمس علیھا۔
(مواہب لدنیہ ج ۱ ص ۲۷۱، مطبوعہ مصر)
سرکار کے چہرۂ اقدس کی روشنی سے دیواریں اس طرح چمکتی تھیں جیسے سورج کی روشنی سے چمکتی ہیں۔
پتھر کریں سلام جنہیں اور شجر کریں
معلوم ان کا مرتبہ کیا ہم بشر کریں
آپ جس اندھیرے مکان میں داخل ہوتے تو وہ مکان روشن ہو جاتا تھا۔ (مطالع المسرات ص ۱۰)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں
کنت ادخل الخیط فی الابرۃ حال الظلمۃ لبیاض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(خصائص کبری ج ۱ ص ۱۵۶)
میں سرکار کے چہرے کی روشنی میں سوئی میں دھاگہ ڈال لیتی تھی۔
چہرے پہ قرباں شمس و قمر ، زلفوں پہ تصدیق شام و سحر
رخساروں پہ ٹھہرے کس کی نظر تیرے منہ کی جلا کا کیا کہنا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں سحری کے وقت کچھ سی رہی تھی کہ سوءی میرے ہاتھوں سے گزر گئی اور تلاش کے باوجود نہ مل سکی اتنے میں حضور تشریف لے آئے تو
فتبینت الابرۃ بشعاع نور و جھہ۔(خصائص کبری ص ۱۵۶)
آپ کے چہرۂ انور سے نکلنے والی نور کہ شعاعوں سے مجھے سوئی مل گئی۔
سوز گم شدہ ملتی ہے تبسم سے تیرے
شام کو صبح بناتا ہے اجالاتیرا
ملا علی قاری علیہ الرحمۃ جمع الوسائل بشرح الشمائل میں فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے چہرۂ انور کو چاند یا سورج سے تشبیہ دینا شاعروں اور عربی ادیبوں کا طریقہ اور عام عادت ہے ورنہ
فلا شئی بما دلّ شیئا من اوصافہ اذھی اعلیٰ واجل من کل مخلوق۔
حضور علیہ السلام کی کسی بھی صفت سے کوئی شے ہمسری اور برابری نہیں کر سکتی اس لیے کہ آپ ہر شے سے افضل و اعلیٰ ہیں
خامہ قدرت کا حُسن دستکاری واہ واہ
کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ
وہ نورِ مجسم صل علی، جس سمت گذرتے جاتے ہیں
تاریکیاں مٹتی جاتی ہیں، انوار بکھرتے جاتے ہیں
سُرمگیں آنکھیں:
بغیر سرمہ لگائے بھی حضور علیہ السلام کی چشمان مقدس سر مگیں ہوتیں۔
(شواہد النبوۃ ص ۷۴)
اکھاں وچہ قدرتی سُرمے دی دھاری
دلاں نوں قتل کر دی جیوں کٹاری
(مولوی غلام رسول)
موٹیاں اکھیں زینت بھریاں سُرمے قدرت لائیاں جھڑیاں
صدقے جاون حوراں پریاں صلی اللہ علیہ وسلم
(مولوی غلام احمد کولوی)
حضرت عزرائیل علیہ السلام کائنات کی ہر جاندار چیز کو ہر وقت دیکھتے ہیں پھر جس کی موت کا وقت آجائے فوراً اس کی روح قبض کر لیتے ہیں۔ منکر نکیر کی آنکھیں ساری دنیا کے مردوں کو ہر وقت دیکھتی ہیں اور ہر میت کے پاس پہنچ کر سوالات کرتے ہیں۔ میکائیل علیہ السلام بحکم الہی ہر ایک کی روزی کا انتظام کرتے ہیں اور مخلوق اور اس کے رزق کو ہر وقت تیار ہیں مگر سرکار علیہ السلام نے فرمایا انی ارٰی مالا ترون۔ میں کچھ دیکھتا ہوں جو تم سب نہیں دیکھ سکتے۔
(ترمذی ص ۵۵، مشکوۃ ص ۴۵۷)
اور سرکار علیہ السلام نے فرمایا فو اللہ انی لا راکم من بعدی (مشکوۃ ص ۸۲، نسائی ص ۱۳۸) خدا کی قسم میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ یہ کمالات آج تک دنیا کی کسی آنکھ کو حاصل نہیں، تمام فلاسفر اور ماہرین نظر کا اتفاق ہے کہ دیکھنے کے لئے شرط ہے کہ وہ شے آنکھ کے سامنے ہو، اسی لیے صاحب مرقاۃ فرماتے ہیں۔
وھی من الخوارق التی اعطیھا صلی اللہ علیہ وسلم۔
یہ حضور علیہ السلام کا معجزہ ہے۔ (حاشیہ مشکوۃ ص ۸۲)
ایک حدیث میں فرمایا
ما یخفی علی رکوعکم ولا خشو عکم انی لا راکم من ورائ ظھری۔(بخاری شریف ۱ ص ۱۵۲)
میرے اوپر نہ تمھارا رکوع چھپا ہوا ہے اور نہ تمھاری (دل کی کیفیت) خشوع اور بے شک میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔
اقبال فرماتے ہیں ؎
اے فروغت صبح آثار و دھور
چشم تو بینندۂ مافی الصدور
اس مضمون کی بہت ساری احادیث مندرجہ ذیل کتب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ (مشکوۃ ص ۹۸، خصائص کبری ج ۱ ص ۶۱، نسائی ۸۲-۱۳۰، تفسیر فتح العزیز ص ۲۱۸ پارہ عم، دلائل النبوۃ از امام ابو نعیم ص ۳۷۷، زرقانی علی المواہب ج ۴ ص ۸۲، سنن بہیقی ج ۳ ص ۱۰۰، بخاری ۱ ص ۱۰۸)
اسی طرح ماہرین نظر کا اس بات پہ بھی اتفاق ہے کہ کسی شے کو دیکھنے کےلئے روشنی اور اجالا ضروری ہے مگر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں۔
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یریٰ بالیل فی الظلمۃ کما یریٰ فی النھار بالضوء۔
(خصا کبری ج ۱ ص ۶۱)
حضور علیہ السلام رات کے اندھیرے میں بھی اس طرح دیکھتے تھے جیسے دن کے اجالے میں۔
اور یہ اس لیے تھا کہ اللہ نے آپ کو باطن کی اطلاع کا پورا ادراک عطا فرما دیا تھا تو ایسا ہی آپ کی آنکھوں کو بھی ظاہری و باطنی ادراک عطا کر دیا۔ (زرقانی علی المواہب ج ۴ ص ۸۲)
آپ ﷺ نے نجاشی کا جنازہ حبشہ میں دیکھ لیا اور اس پر نماز پڑھی اور مکہ معظمہ میں بیت المقدس کو دیکھ لیا جب کہ قریش نے آپ سے بیت المقدس کا حال پوچھا ( واقعہ معراج کے سلسلہ میں) اور جب آپ نے مدینہ منورہ میں اپنی مسجد کی تعمیر شروع کی تو وہیں سے مکہ میں خانہ کعبہ کو دیکھ لیا اور آپ کوثر یا کےگیارہ ستارے نظر آیا کرتے تھے۔
(خصائص کبریٰ ج ۲، شواہد النبوۃ ص ۲۳۷، نشر الطیب ص ۱۶۳)
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ؎
فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر
بس قسم کھائیے اُمی تیری دانائی کی
شفا شریف ص ۳۳ پہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا
کان (موسیٰ علیہ السلام) یبصرہ علی الصفاء فی اللیلۃ الظلماء مسیرۃ عشرۃ فرسخ۔
(جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پہ تجلی فرمائی) تو آپ اندھیری رات میں صاف پتھر پر چیونٹی کو دس فرسخ (۳۰میل) کے فاصلے سے دیکھ لیتے تھے۔
الفر سخ ثلثۃ امیال۔ (مفتاح اللغات ص ۲۱۷)
فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔
حالانکہ وہ تجلی سوئی کے ناکے کے برابر تھی (صاوی) یا چھینگلی کے آدھے پورے کے برابر (روح المعانی، پ۹) یا علما عارفین کے نزدیک سوئی کے ناکے کے کروڑویں حصہ کے برابر (جامع الصفات ص ۹۰) اور ادھر بھی دیکھو کہ سرکار نے فرمایا۔
رایت ربی عزوجل فی احسن صورۃ۔ (مشکوۃ ص ۶۹)
میں نے (اپنی آنکھوں سے) اپنے رب کو بہت اچھی صورت میں دیکھا۔
موسیٰ ز ہوش رفت بیک پرتو سفات
تو عینِ ذات می نگری در تبسمی
ابن عباس-انس بن مالک، احمد بن حنبل، امام نودی، حسن بصری، ابو الحسن اشعری اور بقول قاضی عیاض صحابہ کرام رضی کرام اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کی ایک پوری جماعت نے فرمایا کہ
انہ صلی اللہ علیہ وسلم رای اللہ تعالیٰ ببصرہ وعینی براسہ۔
(الشفا ج ۱ ص ۱۲۱، طبرانی، خصائص کبریٰ ص ۱۶۱ زر قانی علی المواہب ۶ ص ۱۱۸، شفا شریف ص ۱۲۰)
حضور علیہ السلام نے اپنے سر کی آنکھوں سے اللہ کا دیدار کیا۔
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود
لاتدر کہ الابصار- آیہ قرآنی سے دیدارِ الہی کی نفی یا اس کا محال ہونا لازم نہیں آتا ورنہ موسیٰ علیہ السلام کیوں کر مطالبہ کرتے کہ رب ارنی انظر الیک اور جواب میں لن ترانی کی بجائے لن یرانی احد فرمایا جاتا۔ بلکہ فرمایا ان استقر مکانہ فسوف ترانی۔ تو دیدار کو استقرار جبل پر متعلق کرنا دلیل ہے کہ دیدارِ الہی ممکنات میں سے ہے کہ ہر شے امر ممکن پر معلق ہو وہ بھی ممکن ہوتی ہے اور استقرارِ جبل امر ممکن ہے تو رؤیت باری بھی ممکن ہوئی۔
باقی رہا لا تدرکہ الابصار تو اس میں ادراک یعنی احاطہ کی نفی ہے نہ کہ رؤیت کی کیوں کہ ادراک کا معنی ہے مدرک کے جوانب و حدود پر محیط ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ جوانب و حدود سے پاک ہے لہذا اس ا دراک و احاطہ نا ممکن و محال ہے اور رؤیت و دیدار ممکن ہے کیوں کہ بصیرہ ہے کہ کسی چیز کو جیسی وہ ہے اس طرح دیکھا جائے تو جو جہت والی ہو گی اس کی رؤیت جہت سے ہو گی اور جو بے جہت ہوگی اس کی دید بے جہت ہو گی۔ ادراک و رؤیت میں فرق نہ کرنا گمراہی ہے
فرق مطلوب و طالب میں دیکھے کوئی
قصہ طور و معراج سمجھے کوئی
کوئی نے ہوش جلووں میں گم ہے کوئی
کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی
آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام
حضرت موسیٰ علیہ السلام تیس میل پہ چیونٹی کو دیکھ رہے ہیں اور ہمارے آقا مدینہ میں بیتھ کر ملک شام میں ہونے والی لڑائی (جنگ موتہ) کا آنکھوں دیکھا حال اپنے صحابہ کو سُنا رہے ہیں (بخاری ج ۲ ص ۶۱۱) حالانکہ ایک مہینہ سے زائد کی مسافت تھی
سر عرش پر ہے تری گذر
دلِ فرش پر ہے تیری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں
وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
امام ابو نعیم حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ جب حضرت یعلی جنگ موتہ کے حالات سُنانے کے لئے علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو سرکار نے فرمایا
ان شئت فاخبرنی وان شئت فاخبرتک
(طبقات ابن سعد، کنز العمال، بہیقی، خصائص کبری ج ۲ ص ۲۵۹)
اگر تم چاہو تو (جنگ موتہ کے) حالات بیان کرو اور اگر چاہو تو مجھ سے سُن لو۔
انہوں نے عرض کیا حضور! آپ ہی بیان فرمادیں فاخبرھم کلہ و وصفہ آپ نے تمام حالات بیان فرما دیے تو حضرت یعلی نے اللہ کی قسم اُٹھا کر عرض کیا کہ حضور جو آپ نے بیان فرمایا ہے ایک بال برابر بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔
جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی تو حضور علیہ السلام تھوڑی دیر غمگین رہنے کے بعد مسکرانے لگے، صحابہ کرام نے مسکرانے کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا
احزنتنی قتل اصحابی حتی رایتھم فی الجنۃ اخوانا علی سرر متقابلین۔
(خصائص کبری ۲ ص ۶۶۰)
غمگین ہونا اپنے ساتھیوں کے قتل ہونے کے سبب سے تھا اور مسکرانا اس لیے تھا کہ میں نے ان کو جنت میں ایک دوسرے کے سامنے تختوں پہ بیٹھتے دیکھ لیا ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا
ان اللہ زوی لی الارض حتی رایت مشارقھا و مغاربھا۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا پس میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا۔ (مسلم شریف ص ۳۹۰)
ایک روایت میں ہے آپ نے ارشاد فرمایا۔
ان اللہ قد رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا والی ماھو کائن فیھا الی یوم القیامۃ کانما انظر الی کفی ھذہ۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے تمام حجابات اُٹھا دیے پس میں دنیا و مافیھا کو ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو (اور قیامت تک دیکھتا رہوں گا۔ اسی کو حاضر ناظر کہا جاتا ہے)۔ (مواہب ج ۲ ص ۱۹۲، زرقانی ۲۰۴)
اسی طرح آسمان کے بارے میں فرمایا کہ وہ چڑچڑا رہا ہے اور اس کو حق ہے کہ چڑ چڑائے کیوں کہ
لیس لھا موضع اربع اصابع الا و ملک واضع جبھتہ ساجد اللہ۔
(خصائص کبری ج ۱ ص ۶۶، ۱۶۵)
اس پر چار انگل جگہ بھی ایسی نہیں ہے کہ جہاں کوئی فرشتہ سجدے میں نہ پڑا ہو۔
حالانکہ زمین سے آسمان کا فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت ہےپھر ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی مسافت اور سرکار کی نگاہ اس سے اوپر جا کر دیکھ رہی ہے اور آسمان کے ایک ایک چپے کو دیکھ رہی ہے جیسے زمین کے ایک ایک ذرے کو بلکہ اور آگے بڑھیں تو آپ حضور علیہ السلام کا یہ ارشاد بھی پڑھنے کو ملے گا آپ نے فرمایا:
رایت جعفر یطیر فی الجنۃ مع الملائکۃ۔
میں نے حضرت جعفر کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے (اپنی آنکھوں سے) دیکھا۔ (ترمذی ج ۲ ص ۲۱۸)
عالم میں کیا ہے جس کی تجھ کو خبر نہیں
ذرّہ ہے کون سا تری جس پر نظر نہیں
اور جیسے آسمانوں کے اوپر جنت کے اندر ہر شے کو دیکھا جا رہا ہے اسی طرح زمین کے اندر بھی ہزاروں سال پہلے انتقال فرماجانے والے موسیٰ علیہ السلام کو حضور علیہ السلام نے معراج کی اندھیری رات تیز رفتار سواری پہ سوار ہو کر قبر کے اندر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھ لیا۔ (مسلم ص ۲۶۸، نسائی ص ۲۴۲)
لاریب ہر غیب کے ہیں وہ عالم
مگر بے خبر، بے خبر جانتے ہیں
اسود نامی ایک یہودی کا چرواہا ادھر مسلمان ہوا اُدھر شہید ہو گیا حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں لایا گیا تو آپ نے اپنی چادر سے اس کو ڈھانپ دیا اور اپنا رُخ انور دوسری طرف کر لیا کچھ صحابہ نے رُخ انور پھرنے کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا
ان الان زوجتیہ من الحور العین۔
(سنن بہیقی ج ۹ ص ۱۴۳، الندایہ والنھایہ ج ۴ ص ۱۹۰، الاستیعاب ص ۵۱ قسم اول، اسد الغابہ ج ۱ ص ۷۶)
اس لیے کہ جنت کی دو موٹی آنکھوں والی حوریں جو اس کی بیویاں تھیں اس کے پاس آگئی تھیں۔
ایک شخص حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کرنے کے فوراً اس کا انتقال ہو گیا۔ غسل و کفن کے بعد بوقت دفن آپ اس کی قبر میں اترے اور کچھ دیر بعد باہر تشریف لائے اور فرمایا ابھی ستر حوران بہشت آئیں اور مجھے عرض گزار ہوئیں کہ یا رسول اللہ! اپنے اس غلام سے ہمارا نکاح فر ما دیں۔
فما خرجت حتی زوجتہ سبعین حورا۔(خصائص کبری ج ۲ ص ۹۹)
پس میں ستر حوروں کے ساتھ نکاح کر کے باہر آگیا۔
امام سیوطی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں اس حدیث سے (جہاں آپ کی رفعت بصارت ثابت ہوتی ہے وہاں یہ بھی) واضح ہوا کہ حضور علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے جس مسلمان کا جتنی جنتی حوروں سے چاہیں نکاح فرمادیں۔ (خصائص کبری ج ۲ ص ۹۹)
وہی نورِ حق وہی ظل رب ہے انہی کا سب ہے انہی سب سے
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
ان موعدکم الحوض وانی لا نظر الیہ وانا فی مقامی ھذا۔(بخاری و مسلم)
تمہاری مجھ سے ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے جس کو میں ابھی یہاں کھڑا دیکھ رہا ہوں۔
امام ابو یعلی نے بسند صحیح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت فرمایا کہ ایک شخص حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں جنتی ہوں یا دوزخی؟ تو آپ نے فرمایا "فی الجنۃ" تو جنتی ہے اس وقت ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا اور یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا "فی النار" تو دوزخی ہے۔(حجۃ اللہ ص ۴۶۹)
جب بدر کے قیدیوں سے فدیہ لیا جا رہا تھا تو حضور علیہ السلام نے نوفل بن حارث کو فرمایا تم بھی فدیہ ادا کرو تو اس نے کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے جس میں فدیہ ادا کروں۔ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا! تم اپنے فدیہ میں وہ دو نیزے دے دو جوجدّہ میں ہیں تو نوفل نے اسی وقت کلمہ پڑھتے ہوئے عرض کیا۔
واللہ ما علم احدان لی بجدۃ ارماحا غیر اللہ۔
(طبقات ابن سعد ۲ ص ۴۱ قسم اول، الاستیعاب س ۱۵۱۲ القسم الرابع)
اللہ کی قسم ان نیزوں کا اللہ کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔
یہی وہ نوفل ہیں جنہوں نے جنگ حُنین کی طرف جاتے ہوئے مجاہدین اسلام کو تین ہزار تیر پیش کیے تھے اور حضور نے قبول کرتے ہوئے فرمایا۔
کانی انظر الی ارحامک ھذا تقصف ظھور المشرکین۔
(سیرت ابن ہشام ص ۳ حاشیہ ص ۱۲ القسم)
میں ان نیزوں کو مشرکین کی پیٹھوں میں دھنستا ہوا دیکھ رہا ہوں۔
فضل خدا سے غیب و شہادت ہوا نہیں
اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے
حضور علیہ السلام جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پاک تشریف لائے اور قدیم مدینہ میں مسجد قباء کی بنیاد رکھی جب مسجد مکمل ہوئی تو صحابہ کرام نے عرض کیا حضور! ہم تو ہجرت کر کے یہاں آ گئے خدا جانے مکہ میں ہمارے اعزہ اور اقرباء کا کیا حال ہوگا؟ حضور علیہ السلام اس وقت محراب کے بائیں جانب، بجانب مشرق جلوہ افروز تھے آپ نے اپنی نگاہ کرام دیوار پر ڈالی تو دیوار میں ایک گول سا سوراخ ہو گیا تمام صحابہ نے اس سوراخ کو "طاق کشف" کہتے ہیں اب سعودی حکومت نے اسے بند کر دیا ہے لیکن بند کرنے کے باوجود دیوار میں سوراخ کا گول نشان اب بھی موجود ہے۔
(رہنمائے سفرِ حجاز ص ۵۷، قرطاس مقبول فی معجزات رسول ص ۱۳۰)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں ایک مرتبہ حضور علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں گیا تو وہاں لوگ ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگ رہے تھے، حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا! جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں کیا تو بھی دیکھ رہا ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! فرمایا ان کے ہاتھوں میں نور ہے، میں نے عرض کیا حضور دعا فرمائیں وہ نور مجھے بھی نظر آجائے۔
فدعا اللہ فارانیہ۔ (خصائص کبری ۲ ص ۸۶)
آپ نے دعا فرما کر وہ نور مجھے بھی دکھایا۔
عالمِ عِلم دو عالم ہیں حضور
آپ سے کیا عرضِ حاجت کیجیے
ہم بیک وقت چند چیزوں کو نہیں دیکھ سکتے اور ہمارے آقا بروز قیامت اپنے کروڑوں امتیوں کو نہ صرف دیکھ رہے ہوں گے بلکہ پہچان بھی رہے ہوں گے۔ اگر کوئی کہے کہ وہ تو آپ اعضاء وضو کی چمک سے پہچانیں گے تو عرض یہ ہے کہ بے شمار امتی جو نماز فرض ہونے سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں یا جو ایمان لانے کے فوراً بعد ہو گئے وضو نماز کا موقع ہی نہ ملا آخر حضور علیہ السلام ان کو بھی کیا پہچانیں گے؟
جس طرف کو اُٹھ گئیں عالم منور ہو گئے
میں تیری آنکھوں کے صدقے ان میں کتنا نور ہے
آیہ قرآنی وقالو ا لولا انزل علیہ ملک (الانعام) کے تحت تفاسیر میں لکھا ہے کہ فرشتے کو اصلی حالت میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، اگر کوئی دیکھے گا تو ہلاک ہو جائے گا اسی لیے حضرت مریم، ابراہیم، لوط علیھم السلام کے پاس فرشتے انسانی شکل میں آتے تھے لیکن حضور علیہ السلام نے فرشتوں کے سردار حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اصلی حالت میں دیکھا اور جب جبریل نے عرض کیا آپ مجھے بھی اپنی اصلی حالت دکھائیں تو سرکار نے فرمایا اے جبریل! تو مجھے نہیں دیکھ سکتا اور مولانا روم فرماتے ہیں
احمد ار بکشاید آں پر جلیل
تا ابد مدہوش ماند جبرئیل
(حضور علیہ السلام نے تو جبریل علیہ السلام کو چھ سو پروں کے ساتھ دیکھ لیا لیکن) حضور علیہ السلام اگر اپنا ایک پردۂ بشریت ہٹا دیتے تو جبریل علیہ السلام تا قیامت بے ہوش ہو جاتے (صلی اللہ علیہ وسلم) ہماری آنکھ وہ ہے جو سورج کو دیکھے تو چندھیا جائے اور حضور علیہ السلام کی آنکھ نے خدا کو بھی دیکھا اور ساری خدائی کو بھی دیکھا۔
یہ شان ہے ان کے غلاموں کی سرکار کا عالم کیا ہو گا؟:
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔
وعزتی ربی ان السعداء والا شقیاء یعرضون علی و ان عینی فی اللوح المحفوظ وانا غائص فی بحار علم اللہ۔
(زبدۃ الاسرار، وبہجۃ الاسرار س ۲۲)
مجھے رب العزت کی قسم! بے شک نیک بخت اور بد بخت مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں اور میری آنکھ لوح محفوظ میں دیکھتی ہے اور میں علم الہی کے سمندروں میں غوطہ زن ہوں۔
لوح محفوظ است پیش از اولیاء
ہر چہ محفوظ از خطا
(مولانا روم)
غوث اعظم نے ہی فرمایا
نظرت الی بلاد اللہ جمعا
کخردلۃ علی حکم اتصال
(قصیدہ غوثیہ)
میں نے خدا کے تمام شہروں کو رائی کے دانے کی طرح دیکھ لیا۔
حضرت مجدد پاک علیہ الرحمۃفرماتے ہیں "میں لوح محفوظ میں دیکھتا ہوں" (تفسیر مظہری ج ۵ ص ۲۰۰) مولانا جامی نے خواجہ بہاء الدین نقشبندی کا ایک ارشاد نقل کیا ہے کہ "حضرت عبد العزیز علیہ الرحمۃتو فرماتے ہیں کہ زمین اولیاء کے سامنے ایک دستر خوان کی مانند ہے"
ومامی گویم چوں روئے ناخن است وہیچ چیز از نظرے ایشاں غائب نیست۔
(نفحات الانس فارسی ص ۲۶۸)
اور میں کہتا ہوں کہ روئے زمیں (اہل اللہ کے سامنے) ناخن کی مثل ہے اور کوئی شے اللہ والوں کی نظر سے غائب نہیں۔
امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نے فقہ اکبر میں، امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے جامع کبری میں، طبری و ابو نعیم نے حضرت حارث سے روایت کیا ہے کہ ایک بار حضور علیہ السلام نے ان (حضرت حارث) کو فرمایا! اے حارث! تم نے کس حالت میں دن کیا؟ تو انہوں نے عرض کیا سچا مومن ہو کر پھر آپ نے پوچھا تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے تو انہوں نے عرض کیا
کانی انظر الی عرش ربی بارزا و کانی انظرالی اھل الجنۃ یتزاورون فیھا وکانی انظر الی اھل النا ر یتضاعون فیھا۔
میں گویا عرش الہی کو ظاہر و باہر دیکھ رہا ہوں اورگویا جنتیوں کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اور دوزخی کو دوزخ میں شور مچاتے دیکھ رہا ہوں۔
مولانا روم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے حضرت زید سے پوچھا کہ صبح کس حال میں کی؟ انہوں نے عرض کیا ایمان کی حالت میں، فرمایا ایمان کیا ہے؟ عرض کیا مخلوق تو آسمان کو دیکھتی ہے اور میں عرشیوں کو عرش سمیت دیکھتا ہوں۔ آٹھ جنتیں اور سات دوزخیں میرے سامنے اس طرح ہیں جیسے بت پرست کے آگے بت۔ میں مخلوق کو ایک ایک کر کے پہنچا ہوں جس طرح چکی کے کارخانے میں گندم اور جو فرق کر لیا جاتا ہے۔ جنتی کون ہے دوزخی کون ہے؟ ،میرے سامنے سانپ اور مچھلی کی طرح الگ الگ ظاہر ہیں۔ جنتی میری آنکھ کے سامنے خوش اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے ہیں اور میرے کان دوزخیوں کا رونا چِلانا سُن رہے ہیں۔
یا رسول اللہ بگویم سرِّ حشر
در جہاں پیدا کنم امروز نشر
یا رسول اللہ! قیامت کا راز آج ظاہر کر دوں؟
ہیں بگویم یا فروبندم نفس
لب گزیدش مصطفیٰ یعنی کہ بس
ہاں فرمائیے حضور کہہ ڈالوں یا چُپ رہوں؟ تو حضور علیہ السلام نے جواب میں اپنا لب مبارک دانتوں میں چبایا کہ چل چھوڑوچُپ رہو۔
جب آفتاب نبوت کے ذروں کا یہ حال ہے تو نگاہ نبوت کا عالم کیا ہو گا کیا ان کی نگاہ سے کوئی شے پوشیدہ رہ سکتی ہے۔
یہ شان ہے ان غلاموں کی سرکار کا عالم کیا ہوگا؟
ائمہ اہل بیت اطہار کی مقدس سند سے شفا شریف میں امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ماموں ھند بن ابی ھالہ (جو حضور علیہ السلام کا حلیہ مبارک بیان کرنے میں مشہور تھے) جب پوچھا کہ آپ کا حلیہ کیسا تھا تو انہوں نے (آنکھوں کے بارے) فرمایا ادعج جس کی تشریح خودقاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے مشکل الفاظ کی تفسیر ضمن میں یوں فرمائی ہے۔
والادعج الشدید سواد الحدقۃ
وفی الحدیث الاخر اشکل العین واسجر العین
وھو الذی فی بیا ضھا حمرۃ
جس کا مفہوم یہ ہے کہ سرکار کی آنکھیں مبارک (بغیر سرمہ ڈالے بھی ) سر مگیں تھیں جہاں آنکھ سیاہ ہوتی ہے وہاں سخت سیاہی تھی اور جہاں سفید ہوتی ہے وہاں ایسی سفیدی تھی کہ اس میں سُرخی کی آمیزش تھی اور موٹی آنکھیں تھیں الحدقۃ۔ آنکھ کی سیاہی۔ اشکل۔سرخی مائل سفید ۔ اسجر العین۔ آنکھ میں سُرخی رکھنے والا۔ (المنجد)
گوش مبارک:
دُور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا
انی اریٰ مالا ترون واسمع مالا تسمعون۔
(ترمذی ص ۵۵، مشکوۃ ص ۴۷۵)
بے شک میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور میں وہ سُنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے۔
ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں کہ ایک رات تہجد کے وقت حضور علیہ السلام نے میرے حجرے میں دوران وضو اچانک تین مرتبہ
لبیک لبیک لبیک نصرت نصرت نصرت
“میں تیرے پاس پہنچا اور تو مدد کیاگیا” فرمایا
جب آپ وضو کر کے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا حضور آپ نے تین مرتبہ دورانِ وضو لبیک اور نصرت فرمایا گویا کہ کسی سے کلام فرما رہے ہیں۔ کیا آپ کے پاس کوئی تھا تو آپ نے فرمایا
ھذا راجز یستصرخنی۔ یہ راجز مجھ سے فریاد کر رہا تھا۔
(سنن بہیقی ج ۹ ص ۲۳۳، اصابہ ج ۴ ص ۲۹۷ الاستیعاب ج ۲ ص ۴۴۶، طبرانی صغیر ص ۲۰۱)
حالانکہ وہ (عمر بن سالم راجز) اس وقت مکہ میں تھا اور قریش کی عہد شکنی پر اس نے حضور علیہ السلام سے فریاد کی۔بنو خزاعہ جو کہ حضور علیہ السلام کے صلح حدیبیہ کے بعد حلیف بنے اور بنو قریش کے حلیف بنے اور معاہدہ ہوا کہ دس سال تک جنگ نہ کریں گے قریش نے بد عہدی کی اور بنو بکر کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ کا قتل عام کیا اس وقت جناب راجز نے مکے میں ہی حضور علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارا بعد ازاں حضور نے قریش پر چڑھائی کی اور مکہ فتح ہو گیا اور طرح ظاہری و باطنی امداد کا ظہور ہوا۔
ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آگئے ہیں سب غم بھلا دیے ہیں
امام زرقانی علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں
لابعد فی سماعہ صلی اللہ وسلم من سیرۃ ثلاث فقد کان یسمع اطیط السماء۔
حضور علیہ السلام نے تین دن کی مسافت سے ایک فرمایدی (راجز) کی فریاد کو سُن لیا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ تو زمین ہر رہ کر آسمان کی چرچراہٹ کو سُن لیتے (جس کو اور کوئی نہ سُن سکتا بلکہ عرش کے نیچے چاند کے گرنے کی آواز کو بھی سماعت فرما لیتے جو آج تک کسی نے نہ سُنی)۔(خصائص کبریٰ ۱ ص ۵۳، شواہد النبوۃ س ۶۸)
حضرت سلیمان علیہ السلام کا تین میل دور چیونٹی کی آواز سن کر مسکرانا قرآن مجید میں ہے (سورۃ النمل) یقیناً یہ بڑا معجزہ ہے مگر ان کانوں کے نثار جو اپنی والدہ کے شکم اطہر میں قلم قدرت کی آواز کو سُن رہے ہیں۔ امام بہیقی علیہ الرحمۃ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا۔
اسمع و حببتہ حین تسجد تحت العرش۔
(خصائص کبری ج ۱ ص ۱۳۷)
میں چاند کے زیر عرش سجدہ کرنے کے دھماکے کی آواز کو سنتا ہوں۔
حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا
والذی نفسی بیدہ لقد کنت اسمع صریر القلم علی اللوح المحفوظ وانا فی بھمۃ الا حشاء۔
(مجموعۃ الفتاویٰ ج ۲ ص ۹۷، نزہتہ المجالس ص ۹۱)
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے البتہ بے شک میں لوح محفوظ پر چلتی قلم کی آواز اپنی ماں کے شکم اطہر میں سنتا تھا۔
سُتے بیٹھے سنن آسمانی راز
قلم دالوح تے بھی سُندے سی آواز
حضرت سلیمان علیہ السلام چیونٹی کی آواز کو تین میل دور سے سنیں تو ماننا فرض ہے کہ قرآن میں ہے اور اگر حضور علیہ السلام مکہ کے فریادی کی آواز مدینہ میں سُن لیں تو کیوں انکار ہے کیااس سے زیادہ عجیب آسمان کی چرچراہٹ سُننا، چاند کا زیر عرش سجدہ کرنے کی آواز سُننا اور لوح محفوظ پہ چلتے کی آواز سُننا نہیں ہے۔
المستدرک للحا کم ج ۱ ص ۴۰ پہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا! کیا تو سنتا ہے جو سُنتا ہوں؟ عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! فرمایا
الا تسمع اھل القبور یعذبون۔
کیا سُنتا نہیں قبروں والوں (یہودیوں) کو عذاب ہو رہا ہے (اور وہ چیخ رہے ہیں اور میں سن رہا ہوں)۔
حضرت ابن عباس و ابن عمر رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور علیہ السلام نے اچانک آسمان کی طرف سر اُٹھا کر فرمایا وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ۔
لوگوں نے عرض کیا ! حضور! آپ نے کس کو سلام کا جواب دیا ہے تو آپ نے فرمایا
مربی جعفر ابن ابی طالب فی ملاء من الملائکۃ فسلم علی۔
(المستدرک ج ۳ ص ۲۱۰، خصائص کبری ج اص ۲۶۱)
جعفر بن ابی طالب فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ (پرواز کرتے ہوئے میرے اوپر سے) گذرے انہوں نے مجھے سلام کیا (اور میں نے ان کو جواب دیا)۔
دور و نزدیک کے سُننے والے وہ کان:
امام قسطلانی شارح بخاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں مجھے ایک ایسی بیماری لگ گئی کہ معالج علاج کر کر کے تھک گئے اور انہوں نے بیماری کو لا علاج قرار دے کر معذرت کر لی
فاستغثت بہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ الثامن والعشرین من جمادی الاولی سنۃ ثلاث وتسعین وثمان مائۃ بمکۃ زادھا اللہ شرفا۔ فبینما انا نائم از جاء رجل معہ قرطاس یکتب فیہ دواء داء احمد بن القسطلانی من الحضرۃ الشریفۃ بعد الاذن الشریف ثم اسیتقظت فلم اجد بی واللہ شیئا مما کنت اجدہ وحصل الشفاء ببرکۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
(مواہب لدنیہ ص ۳۹۲ جلد ۲)
پس میں جمادی الاولیٰ 893ھ کو مکہ میں حضور علیہ السلام کو مدد کے لئے پکارا (تو آپ نے تین سو میل دور سے میری مدد فرمائی) میں سو رہا تھا ایک شخص کاغذ کا ٹکڑا لے کر آیا جس پر لکھا ہوا تھا یہ احمد بن قسطلانی کے مرض کی دوا ہے (حضور علیہ السلام کی) بارگاہ سے اجازت کے بعد، پھر میں جاگا تو اللہ کی قسم حضور علیہ السلام کی برکت سے بیماری ختم ہو چکی تھی۔
(النبدایہ ج ۳ص ۲۱۳، المغازی ج ا ص ۹۶، اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۹۰)
جب حضور علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو ا تو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہما بہت رنجیدہ ہوئیں اور حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا کہ کاش ! قاسم کو اللہ تعالیٰ اتنے دن رکھتا کہ ایام رضاعت تو پورے کر لیتا یہ سُن کر حضور علیہ السلام بت فرمایا! ہمارے بیٹے کی مدت رضاعت جنت میں پوری ہو گی،
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما نے پھر وہی الفاظ دہرائے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا
ان شئت دعوت اللہ یسمعک صوتہ قالت بل صدق اللہ و رسولہ۔
(خصائص کبری ج ۲ ص ۸۸)
اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور تم قاسم کی آواز کو جنت سے (زمین پر سُن لو)۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما نے عرض کیا نہیں! اللہ و رسول نے سچ فرمایا ہے۔
فریاد امتی جو کرے حال زار میں
ممکن نہیں کہ خیرِ بشر کو خبر نہ ہو
حضور علیہ السلام درود شریف سنتے ہیں:
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کو شخص بھی مجھ پر درود شریف پڑھتا ہے اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے (میں اس کو سنتا ہوں)۔ صحابہ کرام نے عرض کیا۔ حضور! وفات کے بعد بھی؟ فرمایا۔ "وبعد و فاتی" ہاں ہاں! وفات کے بعد بھی کیونکہ
دافع یعنی حافظ و حامی، دفعِ بلا فرماتے یہ ہیں
فیض جلیل خلیل سے پوچھو آگ میں باغ کھلاتے یہ ہیں
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضور علیہ السلام کی معیت میں مقام براز پہ گیا تو آپ نے ایک خط کھینچ کر مجھے فرمایا یہاں بیٹھ جاؤ میں وہاں صبح تک بیٹھا رہا۔ حضور علیہ السلام تشریف لائے تو میں نے عرض کیا۔ حضور! یہ آوازیں کیسی تھیں۔ تو آپ نے فرمایا
ھذہ اصواتھم جن و دّعونی وسلّموا علی۔
یہ جنوں کی آوازیں تھیں جب وہ مجھے سلام کہہ رہے تھے اور الوداع کہہ رہے تھے۔
(خصائص کبری ج ۲ ص ۱۳۹)
بندہ مٹ جائے نہ آقا پہ وہ بندہ کیا ہے
بے خبر ہو جو غلاموں سے وہ آقا کیا ہے
غزوہ تبوک کو جاتے ہوئےجب حضور علیہ السلام کی اونٹنی گم ہو گئی تو ایک منافق (زید بن قینقاعی) نے کہا “محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا گمان ہے کہ وہ نبی ہیں اور آسمانوں کی خبریں ان کے پاس آتی ہیں۔ حالانکہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اونٹنی کہاں ہے؟ “حضور علیہ السلام نے حضرت عمارہ صحابی کو فرمایا ایک منافق نے میرے بارے یہ بات کی ہے
واللہ ما اعلم الا اعلمنی اللہ وقد حسبتھا شجرۃ بزما مھا فانطلقوا حتی تانونی بھا
(سیرت ابن ہشام قسم ثانی ص ۵۲۳، اسد الغابہ ج ۲ ص ۲۳۸، ج ۱ ص ۳۲۶، المغازی ج ۲ ۴۲۳)
خدا کی قسم میں تو اللہ کے بتانے سے جانتا ہوں اور اس نے مجھے بتا دیا ہے کہ اونٹنی کی رسی فلاں درخت سے الجھ گئی ہے جاؤ اسے لے آؤ (چنانچہ صحابہ کرام گئے اور اسی گھاٹی سے جہاں حضور علیہ السلام نے فرمایا اونٹنی کو لے آئے جس کی رسی درخت سے الجھی ہوئی تھی)۔
قباعث بن الشیم الکنانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں میدان بدر میں مشرکین کی طرف سے آیا تھا اور میری نظروں میں مسلمانوں کی قلت اور کفار کی کثرت پھر رہی تھی مگر جب کافروں کو شکست ہو گئی تو میں بھی ان کے ساتھ بھاگنے والوں میں سے تھا اور اپنے آپ سے کہہ رہا تھا
ما رایت مثل ھذا الامر فرمنہ الانساء
آج کی طرح کا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ عورتوں کے سواسب بھاگ گئے۔
کچھ عرصہ مکہ میں رہنے کے بعد میں نے سوچا کہ مدینے جا کر دیکھو تو سہی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا کہتے ہیں۔ چنانچہ میں مدینے آیا تو حضور علیہ السلام اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مسجد کے زیر سایہ تشریف فرماتھے مگر میں آپ کو پہچان نہ سکا میں نے سلام کیا تو آپ نے ہی جواب میں فرمایا اے قباعث! تم نے ہی بدر میں (بھاگتے ہوئے اپنے آپ کو) کہا تھا ناں “ کہ آج تو عورتوں کے سوا سب بھاگ گئے” میں نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا اور عرض کیا کہ میں نے تو اپنے جی میں کہا تھا کسی کے سامنے نہ کیا تھا اگر آپ رسول نہ ہوتے تو آپ کو کبھی اس کی خبر نہ ہوتی، ہاتھ آگے کریں میں آپ کی بیعت کروں چنانچہ
گر کر قدموں میں قرباں ہو گیا
پڑھ کر کلمہ مسلماں ہو گیا
حدیث شریف میں ہے۔
ان اللہ تعالیٰ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء
(جلاء الافہام لابن قیم ص ۷۳)
اللہ نے زمین پر نبیوں کے جسم کو کھانا حرام فرما دیا ہے۔
علامہ عبد الرحمٰن جزولی علیہ الرحمۃ دلائل الخیرات شریف کے خطبہ میں فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا گیا۔ یا رسول اللہ! آپ کے نزدیک رہنے والے، دور رہنے والے اور بعد میں آنے والوں کے درودکار کا کیا حال ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا
اسمع صلوۃ اھل محبتی واعرفھم۔
(دلائل الخیرات ص ۳۳)
میں محبت والوں کا درود خود سنتا ہوں (چاہے وہ کہیں سے پڑھیں) اور ان کو پہنچانتا بھی ہوں۔
ہم یہاں سے پڑھیں وہ مدینے سنیں
مصطفیٰ کی سماعت پہ لاکھوں سلام
ایک مرتبہ حضرت شبلی ابو بکر بن مجاہد علیہ الرحمۃ کے پاس آئے تو انہوں نے کھڑے ہو کر حضرت شبلی کی تعظیم بھی کی اور معانقہ بھی کیا اور پیشانی پر بوسہ بھی دیا تو محمد بن عمر جن کی کنیت بھی ابو بکر ہے کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ شبلی کی اس قدر تعظیم کا سبب کیا ہے حالانکہ بغداد والے تو اسے دیوانہ سمجھتے ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے شبلی کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے جیسا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو اس کے ساتھ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ یہ کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ شبلی حضور علیہ السلام کی مجلس میں آئے تو آپ ﷺ اس کے لئے کھڑے ہو گئے اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ تو میں نے عرض کیا۔ حضور! آپ شبلی کے ساتھ ایسا کیوں فرما رہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایاکہ
ھذا یقرأ بعد صلوتہ لقد جائ کم رسول من انفسکم الی اخرھا ویقول ثلث مرات صلی اللہ علیک یا محمد
شبلی ہر نماز کے بعد سورۂ توبہ کی آخری دو آیات پڑھنے کے ساتھ ساتھ تین مرتبہ یہ درود شریف پڑھتا ہے "صلی اللہ علیک یا محمد"
محمد بن عمر کہتے ہیں میں نے شبلی سے پوچھا کہ آپ ہر نماز کے بعد یہ وظیفہ کرتے ہیں تو انہوں نے کہا "ہاں!کرتا ہوں"۔ (جلاء الافہام لابن قیم ص ۲۹۷، القول البدیع ص ۱۷۳)
امام فخر الدین رازی علیہ الرحمۃ، بخاری شریف ج ۲ ص ۹۶۳ کی مشہور حدیث "یتقرب الیّ عبدی" کی شرح میں فرماتے ہیں۔
اور اسی طرح جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی کرتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ فرماتا ہے کنت لہ سمعا و بصرا۔ اور جب اللہ کے جلال کا نور اس کی سمع (کان) بن جاتا ہے تو وہ بندہ۔
سمع القریب والبعید واذصار ذلک النور یدالہ قدر علی التصرف فی الصعب والسھل والقریب والبعید۔
دور نزدیک کی آوازوں کو سننے لگتا ہے اور جب یہی نور اس کی بصر (آنکھ) بن جاتا ہے تو وہ دور نزدیک کی چیزوں کو دیکھنے لگتا ہے اور جب یہی نور اس بندے کا ید (ہاتھ ) بن جاتا ہے تو وہ مشکل و آسانی میں، دور اور قریب تصرف کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔
(تفسیر کبیر ج ۵ ص ۶۸۸ مصری)
جب ولی اللہ کی یہ شان ہے تو نبی اللہ اور امام الانبیاء کی قوت سماعت و بصارت کا عالم کیا ہو گا
سنتے ہیں دیکھتے ہیں سمیع و بصیر ہیں
منکر کو ہے وعید عذاب شدید کا
اس دور میں حیرت انگیز ایجادات نے تو یہ مسئلہ بالکل حل کر دیا ہے کہ ریڈیو، ٹی وی، بجلی، ٹیلی فون کے ذریعے ہزاروں میلوں سے آواز پہنچا رہے ہیں اور کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہو رہی تو یہ مادی قوتیں اگر یہ سارے کام کر سکتی ہیں تو ایمانی و روحانی قوت (جو مادی قوت سے بہت آگے ہے) سے وہ کام کیوں نہیں ہو سکتے۔ فرق یہ ہے کہ مادی قوت کے لئے تار، سیٹ وغیرہ ضروری ہیں جب کہ روحانی قوت والا بغیر کسی تاروسیٹ کے ممبر رسول سے آواز دے دیتا ہے"یا ساریۃ الجبل" اور آواز ہزاروں میل دور سُنا لیتا ہے اور سُن بھی لیتا ہے۔ وہاں کنکشن کسی تار سے نہیں مدینہ والی سرکار سے ہوتا ہے۔ پھر مائی کا ڈوبا ہوا بیڑا بھی تیرایا جا سکتا ہے اور لاہور میں رہ کر کعبہ بھی دکھایا جا سکتا ہے۔ چور کو قطب بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اور پتھروں کو کلمہ بھی پڑھایا جا سکتا ہے، پھر مردہ زندہ بھی ہو سکتا ہے اور ابلیس شرمندہ بھی ہو سکتا ہے پھر چاند ٹوٹ بھی جاتا ہے اور ڈوبا سورج لوٹ بھی آتا ہے۔ حضور علیہ السلام کی شان سماعت تو وراء الوراء ہے ذرا آپ کے درباریوں کی شان سماعت تو دیکھو، آپ نے خود ارشاد فرمایا
ان للہ ملکا اعطاہ اسماع الخلائق کلھا وھو قائم علی قبری اذامت الی یوم القیامۃ فلیس احد من امتی یصلی علی صلوۃ الاسماہ باسمہ واسم ابیہ وقال یا محمد صلی علیک فلان کذا وکذا۔
(بخاری فی التاریخ، جلاءالافہام لابن قیم ۶۲، خصائص کبری ج ۲ ص ۲۸۰، نسائی ج ۱ص ۲۰۹ حاشیہ ۱۵، القول البدیع ص ۱۱۲، سعادۃ الدارین ص ۵۸)
بے شک اللہ تعالیٰ ا یک فرشتہ ہے جس کو اللہ نے تمام مخلوق کی قوت سماعت عطا فرمائی ہے وہ میرے روضۂ اقدس پر میری وفات سے لے کر قیامت تک کھڑا رہے گا، اور جو بھی میرا امتی مجھ پر درود پڑھے گا وہ اس کا درود بمعہ اس کے نام اور اس کے باپ کے نام میری بارگاہ میں پیش کرے گا۔ کہ یا رسول اللہ! آپ کے فلاں امتی نے جو فلاں کا بیٹا ہے آپ کی خدمت میں ان الفاظ میں درود شریف بھیجا ہے۔ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
اسی لیے شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کا ذکر کرتے رہو آپ پر درود شریف بھیجتے رہو اور عقیدے سے کہ حضور علیہ السلام بحالت حیات تمہارے سامنے ہیں اور تم آپﷺ کو دیکھ رہے ہو (اور آپ علیہ السلام تو تمہیں دیکھ ہی رہے ہیں)، ادب و احترام کے ساتھ، کیوں کہ آپ تمہارے کلام کو سنتے ہیں بوجہ اس کے کہ وے ﷺ متصف است بہ صفات الہیہ ویکے از صفات الہی آنست کہ
انا جلیس من ذکرنی۔(مدارج النبوۃ ج ۲ ص ۶۲۱)
آپ ﷺ صفات الہیہ کے ساتھ متصف ہیں اور خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ میں اپنے ذاکر کا ہم نشیں ہوتاہوں۔
ہماری حالت یہ ہے کہ دو آوازیں اکٹھی سن بھی لیں تو سمجھ نہیں سکتے کہ کون کیا بول رہا ہے اور سرکار علیہ السلام کی شان یہ ہے کہ کروڑوں امتیوں کے درود سلام بیک وقت سنتے بھی ہیں، سمجھتے بھی ہیں اور جواب بھی عنایت فرماتے ہیں۔ ہم نے دور کی آواز سننی ہو تو ٹیلی فون کے ذریعے سنتے ہیں اور پھر لائن کٹ جائے تو نہیں سُن سکتے انہوں نےسُننا ہو تو نہ لائن کٹتی ہے نہ لائن خراب ہوتی ہے کیوں کہ ہماری لائنیں تاروں کی محتاج ہیں اور ساری کائنات نبی پاک ﷺ کی محتاج ہے اور آپ سب کے محتاج الیہ ہیں۔
جملہ عالم است محتاج الیہ
زیں سبب فرمود رب صلوا علیہ
مجھے ایک کہنے لگا کہ دُرود کے متعلق کیا پروگرام ہے؟ میں نے کہا تو اپنا پروگرام بتا میں تو بچپن سے پڑھ رہا ہوں اور ان شاء اللہ مرنے کے بعد قبر میں اور پھر میدان حشر میں بھی پڑھیں گے کہ وہاں تو سرکار کا جلوہ سامنے ہو گا اور جب ان کا نام آئے تو درود پڑھنا فرض ہو جاتا ہے تو جب وہ خود آئیں گے تو پھر زیادہ فرض ہو گا
میں وہ سُنی ہوں جمیل قادری مرنے کے بعد
میرا لاشہ بھی کہے گا الصلوۃ والسلام
کہنے لگا درود و سلام یا رسول اللہ والا نہیں پڑنا چاہئے اللھم صل کی اجازت ہے میں کہا تیری اجازت کون مانتا ہے؟ جب انتقال شدہ نبیوں کو نماز میں اور نماز کے باہر یموسیٰ یا عیسیٰ کہنے کی اجازت ہے تو یا رسول اللہ کہنے پر کس نے پابندی لگائی ہے؟
شراب احمد مختار میں کچھ ایسی عشق و مستی ہے
کہ جاں دے کر بھی اک دو گھونٹ مل جائے تو سستی ہے
مردے بھی سنتے ہیں:
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم جب زلزلے سےتباہ ہو گئی تو قرآن فرماتا ہے
فتولی عنھم وقال یقوم لقد ابلغتکم رسالۃ ربی ونصحت لکم۔(الاعراف ۷۸/۷۹)
آپ نے ان سے اعراض کرتے ہوئے (انہی مردوں کو مخاطب کر کے) فرمایا اے میری قوم! بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور تمہیں نصیحت کی۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو بھی جب زلزلے سے تباہ کیا گیا تو انہوں نے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے (مردوں کو ) فرمایا
لقد ابلغتکم رسٰلت ربی و نصحت لکم۔(الاعراف ۹۱ تا ۹۳)
اے میری قوم! میں تمہیں اپنے رب کے پہغامات پہنچا چکا اورتمہیں نصیحت کی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ کے حکم سے پروندوں کو ذبح کیا اور ان کے ٹکڑے پہاڑوں پہ رکھے تو اللہ نے فرمایا
ثم ادعھن یا تینک سعیا۔(البقرہ ۲۶)
ان کو پکارو تمہارے پاس دوڑتے آئیں گے (ظاہر ہے پہلے انہوں نے آواز سُنی پھر دوڑتے آئے)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردے زندہ فرماتے تھے قرآن مجید میں ہے
واحی الموتی باذن اللہ۔ (آل عمران ۴۹)
میں مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتا ہوں۔
آپ مردے کو زندہ کرتے تو کچھ تو کہتے تھے تفاسیر میں ہے کہ آپ فرماتے قم باذن اللہ اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا۔ مردہ آپ کا حکم سُنتا اور زندہ ہو جاتا۔ (مردہ پہلے سنتا تو تب ہی زندہ ہوتا)۔
چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
امام بخاری نے اس موضوع پر ایک مستقل باب باندھا ہے
المیت یسمع خفق النعال۔ مردہ جوتوں کی آواز سنتا ہے۔
اور پھر حدیث درج فرمائی ہے جس کو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت فرمایا ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا:
العبد اذا وضع فی قبرۃ و تولی فذھب اصحابہ حتی انہ لیسمع قرع نعالھم الخ
جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس پلٹنے لگتے ہیں تو وہ مردہ ان کے جوتوں کی آہٹ کو سنتا ہے۔ (پھر پوری حدیث میں سننے سنانے کا ذکر ہی ہے یعنی فرشتوں کے سوالات اور مردے کے جوابات)۔
تو کیا جب فرشتہ کہتا ہے من ربک، ما دینک ، ماکنت تقول فی ھذا الرجل تو مردہ بغیر سُنے ہی کہا جاتا ہے ربی اللہ، دینی الاسلام، اشھد انہ عبد اللہ و رسولہ۔
اسی طرح صحیح بخاری کتاب الجنائز میں ہے کہ قلیب بدر میں جب حضور علیہ السلام نے مشرکین کی لاشوں کی مخاطب کر کے فرمایا ھل وجدتم ماوعد ربکم حقا۔ تم سے جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تم نے پالیا؟ تو عرض کیا گیا حضور! تدعو امواتا یا رسول اللہ آپ مردوں کو پکار رہے ہیں (کیا یہ سنتے ہیں؟) آپ نے فرمایا ما انتم باسمع منھم ولکن لا یجیبون۔ تم ان سے زیادہ نہیں سنتے مگر یہ جواب نہیں دے سکتے۔
اسی طرح قبر پر جا کر حضور علیہ السلام نے سلام کہنے کا حکم دیا کہ یوں کہوں
السلام علیکم یا اھل القبور………….(ترمذی ابواب الجنائز)
اگر نہیں سنتے تو سلام کرنے کا کیا مطلب؟
حافظ ابن قیم لکھتے ہیں
الخطاب والنداء لموجود یسمع و یخاطب ویعقل۔
مردے اپنے پاس موجود کے سلام وکلام کو سنتے سمجھتے اور مخاطب ہوتے ہیں۔
فان السلام علی من لا یسمع ولا یشعر ولا یعلم بالمسلم محال۔(کتان الروح لابن قیم)
جو سلام نہ سُن سکے نہ سمجھ سکے نہ جان سکے اس مسلمان کو سلام کہنا محال ہے۔
ادھوری آیت پڑھ کر انک لا تسمع الموتی۔ ترجمہ کر دینا مردے نہیں سنتے کیا مذکورہ تمام آیات و احادیث کو جھٹلانے کے مترادف نہیں؟ یہ کون سی توحید ہے؟ اور کون سی دین کی خدمت ہے؟ جب کہ اسی آیت کے آخر میں ہے اذا ولوا مدبرین (النمل ۸۰) جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں۔ معترض سے پوچھو کہ کبھی کوئی ایسا مردہ دیکھا ہے جو سُنتا تو نہیں مگر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے؟ کیا ایسے مردے بھی قبرستان میں دفن کیے جاتے ہیں ہمیں بھی بتاؤ تاکہ ہم بھی ان کے لئے جا کر فاتحہ پڑھ لیں۔
اسی طرح دوسری آیت میں ہے۔
ان تسمع الامن یؤمن بایتنا فھم مسلمون۔ (النمل ۸۱)
آپ تو انہی کو سُناتے ہیں جو ہماری آیتوں پہ ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں۔
دیانت داری کا تقاضا تو یہ ہے کہ دونوں آیات کو ملا کر صحیح عقیدہ اخذ کیا جائے یا تو یوں کہا جائے کہ ہاں ایمان والے مرنے کے بعد بھی سنتے ہیں اور یا جو مفسرین نے معنی کیا ہے اسی کو تسلیم کر لیا جائے کہ یہاں سننے سے مراد ماننا ہے۔ موتیٰ سے مراد کفار ہیں۔ اور القبور ان کے سینے ہیں اور اس میں سننے کی نہیں سُنانے کی نفی ہے اللہ سنائے تو پتھر بھی سن لیتے ہیں اور مردے بھی، اور نہ سُنائے تو زندہ بھی نہیں سُن سکتے کیوں کہ وہ چلتے پھرتے بھی اموات غیر احیاء ہیں اور اہل ایمان کٹ بھی جائیں دفن بھی ہو جائیں تو پھر بھی بل احیاء ولکن لا تشعرون۔ یا پھر سننے سے مراد قبول ہدایت ہے کہ کافر سنتے نہیں کیا مطلب ہدایت قبول نہیں کرتے، مانتے نہیں جیسے کوئی شخص آپ کی بات نہ مانتا ہو تو آپ کہیں گے وہ میری بات نہیں سُنتا یعنی نہیں مانتا۔
اگر ذہن میں خیال آئے کہ اگر کفار بھی سنتے ہیں اور اہل ایمان بھی تو فرق کیا ہو؟ تو گذارش یہ ہے کہ وہ مجرم جو عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے اور جیل کی روٹیاں کھا رہا ہے وہ بھی زندہ ہے اور بادشاہ بھی زندہ ہے تو کیا ان میں کوئی فرق نہیں وہ زندگی موت سے بھی بدتر ہے اور یہ زندگی قابل رشک ہے۔ اسی طرح کافر سُنتا ہے تو عذاب کی خبریں سُن سُن کر لمحہ مرتا رہتا ہے اور اللہ کا نیک بندہ حقیقت کی خوشخبریاں سُنتا ہے اور فرشتوں کا سلام سُنتا ہے۔
اذا ولو ا مدبرین سے آگے سورۂ نمل میں بھی یہی الفاظ ہیں جو ما قبل آیت کی مراد متعین کر رہے ہیں کہ موتی سے مراد وہ مردہ ہیں جن کے دل مر چکے ہیں اور الصُم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل کے کان حق بات سننے سے بہرے ہو چکے ہیں (اگرچہ حقیقتاً وہ سنتے ہی ہوں) اور العمی سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کی آنکھیں نور حق دیکھنے سے اندھی ہو چکی ہیں (اگر چہ حقیقتاً وہ دیکھتے ہی ہوں) اور سماع فقط سننا ہی نہیں بلکہ وہ سننا جو سود منداور نفع بخش ہو اگر سماع موتی کے موضوع کو تفصیلا پڑھنا چاہو تو اردو خوان تفسیر ضیاء القرآن جلد سوم سورۂ الروم آیت نمبر ۵۲ کی تفسیر پڑھ لیں اور عربی جاننے والے علامہ ابن قیم کی کتاب الروح کا مطالعہ فرمائیں۔ اور ضد باز اور جھگڑا لو واقعہ معراج میں غور فرمائیں کہ کس طرح حضور علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور پھر کس طرح انبیاء کرام سے ملاقاتیں کیں بیت المقدس میں اور آسمانوں پہ اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے باربار کہنے پر کس طرح نمازوں میں کمی ہوئی انشاء اللہ تعالیٰ اللہ پاک ہدایت سے ہمکنار فرمائے گا۔ یہاں پہ موضوع کی مناسبت سے پیر کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ کی تحریر کا ایک ایمان افروز اور باطل سوز اقتباس تفسیر ضیاء القرآن ہی کے چھبیسویں پارے سے (بلفظہٖ) نقل کرتے ہیں۔
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام:
خارجیوں (جدید اور قدیم) کے علاوہ تمام اس بات پر متفق ہے کہ حضور سرور دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں جب کوئی غلام صلوٰۃ و سلام عرض کرتا ہے تو حضور اس کو سلام کا جواب عنایت فرماتے ہیں جس کو خواص اپنے کانوں سے سُنتے ہیں اور لذتِ جواب سے سرشار ہوتے ہیں۔ مصر کے مشہور ولئ کامل حضرت سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ جب روضۂ اقدس پر حاضر ہوئے تو بصد ادب و نیاز عرض کی الصلوۃ والسلام علیک یا جدّی۔ اے میرے نانا پاک! آپ پر صلوٰۃ و سلام ہو۔ روضۂ اقدس سے جواب آیا۔وعلیک السلام یا ولدی۔ اے میرے بچے! تجھ پر بھی سلام۔ یہ سُن کر آپ پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور فی البدیہہ یہ رُباعی عرض کی:
فی حالۃ البعد روحی کنت ارسلھا
تقبل الارض عنی وھی نائبتی
جب میرا جسد خاکی یہاں سے دُور تھا۔ تو میں آستانہ بوسی کے لیے اپنی رُوح کو بھیجا کرتا تھا۔
وھذہ دولۃ الاشباح قد حضرت
فا مدد یمینک کی تحظی بھا شفتی
اب تو میں خود بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوں۔ دستِ پاک نکالیے تاکہ میں بوسہ دے کر دل کی حسرت پوری کر سکوں۔
دستِ مبارک باہر آیا جس کو آپ نے بوسہ دیا۔ ہزارہا آدمیوں نے اس کو دیکھا۔
اس واقعہ کو دیگر علماء کے علاوہ علامہ سیوطی نے شرح الصدور میں اور مولانا تھانوی نے اپنے رسائل میں بیان کیا ہے۔ (جب کہ تبلیغی نصاب کے اندر بھی یہ واقعہ موجود ہے)۔
حضرت شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو فالج کا مرض لاحق ہوا۔ نصف جسم بے کار ہو گیا۔ آپ نے حضور سرورِ عالم ﷺ کی جناب میں فریاد کی۔ اسی رات زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضور علیہ السلام نے دستِ مبارک ان کے بدن پر پھیرا۔ یہ فوراً شفایاب ہو گئے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نشر الطیب مطبوعہ دیوبند ص ۲۳۲پر اس واقعہ کو لکھنے کےبعد تحریر کرتے ہیں، اسے آپ بھی پڑھیے:
"اور یہ اپنے گھر سے نکلتے تھے کہ ایک درویش سے ملاقات ہوئی اور اس نے درخواست کی کہ مجھ کو وہ قصیدہ سُنا دیجیے جو آپ نے مدحِ نبوی میں کہا ہے۔ انہوں نے پوچھا کون سا قصیدہ؟ اس نے کہا جس کے اول میں ہے امن تذکر جیران بذی سلم۔ ان کو تعجب ہوا۔ کیوں کہ انہوں نے کسی کو اطلاع نہیں دی تھی۔ اس درویش نے کہا واللہ! میں نے اس کو اس وقت سُنا ہے جب یہ حضور ﷺ کی خدمت میں پڑھا جا رہا تھا اور آپ خوش ہو رہےتھے"۔
یہ قصیدہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے پسند فرمایا۔ اس کا ایک شعر آپ بھی سُن لیں۔ ان شرک سازوں کے فتووں کی حقیقت کھُل جائے گی۔
یا اکرم الخلق مالی من الوذبہ
سواک عند حلول الحادث العمم
اے ساری مخلوق سے زیادہ سخی! مصائب و آلام کے وقت حضور کے بغیر میں کس کے دامن میں پناہ لوں۔ ہمارے عہد کے نابغۂ روزگار شاعر عبد العزیز خالد کے یہ اشعار بھی سن لیجیے:
تُو خورشیدِ سحر، تو بدرِ کامل، ہر ادا تیری
نگاریں، مُشک آگیں، عنبر افشاں یا رسول اللہ
تیری رحمت کے دروازے کُھلے ہیں ہر کہ ومہ پر
ہے تُو واحد انیس مُستمنداں یا رسول اللہ
عزیز خاطرِ آشفتہ حالاں کون دنیا میں
ترے دیوانے پکڑیں کس کا داماں یا رسول اللہ
آخر میں شاہ اسماعیل دہلوی کی یہ عبارت بھی پیشِ نظر رکھیے۔ وہ اپنے پیر سید احمد بریلوی کے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت غوث الاعظم اور حضرت بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہما نے ان کو بیک وقت قادری اور نقشبندی سلسلہ کا فیض بخشا، چشتی سلسلہ سے حصولِ فیض و نسبت کے متعلق دہلوی صاحب لکھتے ہیں:
"روزے حضرت ایشاں بسوئے مرقدِ منور حضرت خواجہ خواجگاں خواجہ قطب الاقطاب بختیار کا کی قدس سرہ العزیز تشریف فرما شد ندو برمرقدِ مبارک ایشاں مراقب نشستند دریں اثنا بروحِ پُت فتوح ایشاں ملاقات متحقق شد و آنجناب برحضرت ایشاں توجہ بس قوی فرمادند کہ بسببِ آں توجہ ابتدائی حصول نسبت چشتیاں متحقق شد"۔
(صراط مستقیم۔ ص ۱۶۶ مطیع فخر المطابع لکھنو)
یعنی ایک دن سید احمد صاحب حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ قطب الاقطاب بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ مبارک پر تشریف لے گئے اور وہاں مراقبہ میں بیٹھے۔ اسی اثنا میں حضرت کی رُوحِ پر فتوح سے ملاقات نصیب ہوئی۔ خواجۂ خواجگاں نے آپ پر بڑی زور دار توجہ فرمائی۔ اس توجہ کی برکت سے نسبتِ چشتیہ کے حصول کی ابتدا ہوئی۔
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام:
اچانک نبی سرور دا کوئی تعریفاں کردا
عالم سارا ہو گیا بردا صلی اللہ علیہ وسلم
(جام کوثر)
حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے حضرت ھند بن ھالہ کی روایت میں حضور علیہ السلام کی بینی مبارک کے بارے میں یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں۔
از ھر اللون واسع الجبیں ازج الحواجب سوابغ من غیر قرن بینھما عرق یدرّہ الغضب اقتنی العرنین لہ نور یعلوہ و یحسبہ من کم یتاملہ اشّم۔ (الشفا ا ص ۱۵۵)
آپ ﷺ کا رنگ گورا، پیشانی فراخ ابرو باریک اور لمبے، دونوں ابرو باہم پیوستہ نہیں تھے۔ ابرؤوں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصے کے وقت کھڑی ہو جاتی، آپ کی ناک مبارک اونچی اور باریک تھی اور اس میں ایک نور تھا، اگر کوئی آدمی آپ کو اچانک دیکھتا تو آپ کی ناک کے درمیانی حصے کو کسی قدر اونچا محسوس کرتا۔
الغرض بینی مبارک دراز اور نہایت خوبصورت تھی اور جیسے اللہ تعالیٰ نے قوت سمع و بصر میں آپﷺ کو درجۂ کمال عطا فرما دیا تھا اسی طرح قوت شامہ میں بھی کوئی آپ کا مقابلہ نہ کر سکتا۔ کئی میلوں کی مسافت سے آپ خوشبو سونگھ لیتے چنانچہ تفسیر روح البیان کے حوالے سے حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ اپنی تفسیرِ قرآن اشرف التفاسیر المعروف تفسیر نعیمی میں لکھتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے مدینہ شریف میں بیٹھے اپنے صحابہ کرام کے سامنے ایک دن ارشاد فرمایا۔
انی لا جد ریح الرحمن من قبل الیمن۔(تفسیر نعیمی ج ۷ ص ۱۳۸)
مجھے یمن کی طرف سے رحمٰن کی خوشبو آرہی ہے۔
کہاں یمن اور کہاں مدینہ مگر خوشبوئے محبت سونگھی جا رہی ہے۔ اور اس محبت کا اظہار آپ سرکار نے کئی مرتبہ صحابہ کرام کے سامنے بھی فرمایا ابن سعد و حاکم نے حضرت سعد سے روایت کیا ہے کہ حضور علیہ السلام کے پاس ایک پیالے میں کھانا لایا گیا آپ نے اس سے کچھ تناول فرمایا اور کچھ پیالے میں بچ گیا حضور علیہ السلام نے فرمایا اس طرف سے ایک شخص آئے گا جو اہل جنت میں سے ہے، وہ اس کھانے کو تناول کرے گا تو تھوڑی دیر بعد حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے اس سے تناول کیا۔
(خصائص کبری ج ۲ ص ۲۹۱)
نیچی نظروں کی شرم و حیا پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
لب ہائے مبارکہ:
پَتلی پَتلی گلِ قُدس کی پتیاں
اُن لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
حضور پُر نُور، شافع یوم النشور، نور علیٰ نور، حبیب رب غفور صلی اللہ علیہ وسلم کے لب ہائے مبارکہ نہایت ہی خوبصورت اور سُرخی مائل تھے۔ یہی وہ مبارک ہونٹ تھے کبھی ہونٹ تھے کبھی ہِلتے تو قرآن نکلتا کبھی حرکت کرتے تو نبی کا فرمان نکلتا
قول حق قرآن ہے قول پیمبر ہے حدیث
اہل دل کے واسطے تعظیم ہے دونوں کی ایک
جو منکرین حدیث انہیں پہلے قرآن کا منکر ہونا چاہئے کیون کہ حدیث کے ذریعے ہی قرآن کا پتہ چلا ہے ہم نے قرآن بھی انہی ہونٹوں سے نکلتے دیکھا ہے اور حدیث بھی۔ کسی نے ان مبارک لبوں کو پنجابی شعر میں خوب بیان کیا ہے
خوب لباں دی سوہنی لالی
وقت تبسم چمک نرالی
درجہ شان مراتب عالی
صلی اللہ علیہ وسلم
یہی لب مبارک عرش معلیٰ پر جا کر بھی امت کی بخشش کے لئے متحرک رہے اور پیدائش سے لے کر قبر میں تشریف لے جانے تک امت کی بخشش کے لئے حرکت کرتے رہے
جن کے لب پر رہا امتی امتی
یاد ان کی نہ بھولو نیازی کبھی
وہ کہیں اُمتی تُو بھہ کہہ یا نبی
میں ہوں حاضر تیری چاکری کے لئے
مولانا روم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے تو آپ کو مسجد میں نہ پاکر بے تاب ہو گئے اور شوق دیدار میں نکلے، دریافت کیا تو کسی نے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا، وہاں گئے چرواہا بکریاں چرا رہا تھا اس سے پوچھا کہ میرے آقا کو کہیں دیکھا ہے؟ اس نے کہا میں تیرے آقا کو تو نہیں جانتا اتنا جانتا ہوں کہ اس غار میں کوئی اس قدر درد وسوز سے گریہ وزاری کر رہا ہے کہ میری بکریوں نے ہی نہیں تمام چرند و پرند نے کھانا پینا چھوڑا ہوا ہے۔ ابو ہریرہ نے کہا، کچھ جانتا ہے الفاظ کیا بولتا ہے تو چرواہا ہے نے کہا
می کند با گریہ ہر ساعتی نالۂ یا امتی یا امتی
ہر گھڑی یا امتی یا امتی کی پکار کر رہا ہے
جس کو امت کا غم ہی ستاتا رہا
اشک غاروں میں تھا جو بہاتا رہا
جو مقدر ہمارے جگاتا رہا
اس کی ہر خُو و خصلت پہ لاکھوں سلام
امت کی بخشش کی خاطر سرکار نے بوقت پیدائش بھی دعا کی
رب ھب لی امتی۔ (احیاء القلوب ص ۲۲) یا اللہ میری امت کو بخش دے۔
تمہارے ہی لیے تھا اے گنہ گار و سیہ کارو
وہ شب بھر جاگنا اور رات بھر رونا محمد کا
حضرت مولانا حسن رضا خاں علیہ الرحمۃ قیامت کے دن امت کی بخشش کے سلسلہ میں حضر علیہ السلام کی شفاعت کے حوالے سے فرماتے ہیں
کہیں گے اور نبی اذھبو الی غیری
میرے حضور کے لب پر انا لھا ہو گا
عزیز بچہ کو ماں جس طرح تلاش کرے
خدا گواہ ہے یہی حال آپ کو ہو گا
دعا امت بد کار ورد لب ہو گی
خدا کے سامنے سجدے میں سر جھکا ہو گا
غُلام ان کی عنایت سے چین میں ہوں گے
عدو حضور کا آفت میں مبتلا ہو گا
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضور علیہ السلام کو قبر میں اتارا گیا تو میں نے آخری دیدار کی غرض سے چہرہ مبارکہ کی زیارت کی، میں نے دیکھا کہ لبھائے مبارکہ حرکت کر رہے ہیں۔ میں نے کان لگایا تو دعا فرما رہے ہیں۔
اللھم اغفر لا متی اے اللہ! میری امت کو بخش دے۔
یہ واقعہ میں نے تمام صحابہ کو سُنایا۔
فتعجبو الشفقتہ علی امتہ۔
(کنز العمال، مدارج النبوۃ ج ۲ ص ۴۴۲، حجۃ علی العالمین)
تو امت پر آپ کی ایسی شفقت دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔
اس قدر ہم ان کو بھولے ہائے ہائے
ہر گھڑی جن کو ہماری یاد ہے
عرش معلیٰ پہ جا کر بھی امت کے لئے دعا کرتے ہیں اسی لیے اللہ نے وما صاحبکم فرمایا کہ تمہارا ساتھی، میں نے اپنے لیے بلایا مگر وہاں بھی تمہاری بات ہی کرتا رہا
تہہِ عرش سجدے میں سر کو جھکایا
بکھر کر کے زلفوں نے یہ رنگ لایا
یہ کہہ کر خدا نے نبی کو اُٹھایا
پیارے تیرے گیسو کیا مانگتے ہیں
یہ سُن کر کہا مصطفیٰ نے الہٰی
یہ کہتی ہےمیرے گیسوؤں کی سیاہی
سیاہ بخت امت کی کر دے رہا ئی
الہٰی یہ گیسو دعا مانگتے ہیں
خدا نے کہا تو نہ گھبرا محمد
میرے سامنے عرش پر آ محمد
تو چاہے جسے بخشوا یا محمد
کہ پیارے تیری ہم رضا مانگتے ہیں
(صلی اللہ علیہ وسلم)
دندانِ مبارک:
جن کے لچھّے سے لچھّے جھڑیں نور کے
ان ستاروں کی نُزہت پہ لاکھوں سلام
جِس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑے
اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ جب حضور علیہ السلام مسکراتے تو دندان مبارک سے ایسا نور نکلتا کہ دیواریں روشن ہو جاتیں۔ (ترمذی)
سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کان اذا تکلم رأی کالنور یخرج من ثنایاہ۔
جب آپ گفتگو فرماتے تو آپ کے سامنے والے دانتوں سے نور نکلتا دکھائی دیتا۔
(نشر الطیب ۱۵۶ مواہب لدنیہ ج ۱ ص ۲۷۰)
دند سفید چمبے دیاں کلیاں
پا لو پالی واہ واہ رلیاں
خلقتاں تک تک ہویاں جھلیاں
صلی ا للہ علیہ و سلم
قاضی عیاض علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ جب سرکار مسکراتے تو دندان مبارک بجلی اوربرف کے اولوں کی طرح چمکتے۔ (الشفاء ج ۱ ص ۳۹)
مندرجہ ذیل کتب میں بھی دندان مبارک سے نور نکلنے کے حوالہ جات موجود ہیں۔ (خصائص کبریٰ ۱۵۶، جواہر البحارص ۴۵۰، مجمع الزوائد ج ۸ ص ۲۷۹، انوار محمدیہ ص ۱۳۲، سنن دارمی ۱ ص ۳۳ شمائل ترمذی ص ۳)
قدرے وتھ دنداں وچہ آہی
وقت تبسم فضل الٰہی
دنداں تھیں نکلے روشنائی
صلی اللہ علیہ وسلم
وتھ دنداں وچہ سوہنی آہی
جد اوہ حضرت سخن الائی
عکس دنداں چمکار وکھائی
صلی اللہ علیہ وسلم
موتیاں دنداں دا چمکارا
ملکاں کیتا جدوں نظاراں
سجدے ڈگا عالم سارا
صلی اللہ علیہ وسلم
باوجود اس قدر دندان مبارک کی چمک دمک کے حضور علیہ السلام مسواک کثرت کے ساتھ فرماتے پتہ چلا کہ صرف دانت صاف کرنے کے لئے ہی مسواک نہیں کی جاتی بلکہ مسواک کرنا اللہ کی رضا و خوشنودی کا باعث بھی ہے۔ ارشاد نبوی ہے دو رکعتیں جو مسواک کر کے پڑھی جائیں بے مسواک پڑھی جانے والی ستر رکعتوں سے افضل ہیں۔ آپ نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو ہر نماز کے لئے مسواک کرنا لازم قرار دے دیتا (مشکوۃ ۳۶) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور علیہ السلام دن یا رات کو جب بھی سو کر اُٹھتے تو ضرور مسواک فرماتے۔ (مشکوۃ ص ۳۷)
حضور علیہ السلام کو کبھی جماہی نہیں آئی۔ (خصائص کبری ج ۱ ص ۱۶۵، جواہر البحارص ۹۶۷)
حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
ماضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الاتبسم۔
حضور علیہ السلام کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا۔ (ترمذی کتاب المناقب)
یعنی عموماً آپ مسکرانے پر ہی اکتفا فرماتے مگر بہت سارے ایسے واقعات بھی ہیں کہ آپ اس قدر ہنستے کہ داڑھیں مبارک بھی ظاہر ہو جاتیں، ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے۔ حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس شخص کو اچھی طرح جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا۔ جو گھسٹا ہوا آئے گا اس کو کیا جائے گا جنت میں چلا جا وہ جا کر پھر واپس آجائے گا اور عرض کرے گا یا اللہ! جنت میں تو لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے اب کوئی جگہ ہے ہی نہیں جہاں میں رہوں۔ اللہ فرمائے گا۔ جس دنیا میں تو رہتا تھا تجھے یاد ہے؟ یا اللہ ہاں! فرمایا کچھ تمنا کر لے وہ اپنی تمنا کرے گا! اللہ فرمائے گا تیری تمنا بھی پوری کردی اور تمام دنیا سے دس گنا زیادہ بھی تجھے دیا۔ وہ کہے گا۔
استخربی و انت الملک قال فلقد رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحک حتی بدت نواجذہ۔
(جمع الوسائل ۳ ص ۱۹)
یا اللہ! تو بادشاہ ہو کر مجھ سے تمسخر کرتا ہے؟ ابن مسعود فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ حضور علیہ السلام (یہ فرماکر) اتنا ہنسے کہ داڑھیں مبارک ظاہر ہو گئیں۔
قرطاس مقبول فی معجزات رسول ص ۳۳، احیاء القلوب ص ۱۰۹ پہ ہے کہ غزوۂ احد میں جب حضور علیہ السلام کا دانت مبارک شہید ہوا تو حضرت جبریل و میکائیل علیھما السلام نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ یہ دانت مبارک ہمیں عطا فرما دیں، تاکہ اس کی برکت سے غضب الہی سے محفوظ رہیں، تو آپ نے فرمایا کہ یہ شکستہ دانت میری امت کہ شکست دلوں کے لئے موجب بخشش ہے۔
روز محشر جب اللہ فرمائے گا کہ آپ کی امت نے میری نافرمانی کی ہے، تب میں عرض کروں گا یا اللہ! تیرے ندوں نے میرا دانت شہید کیا ہے میں نے تو انہیں معاف کر دیا تھا تُو تو رحیم و کریم ہے تو بھی میری امت کو معاف کر دے ؎
سلام اس پر جس نے فضل کے موتی بکھیرے ہیں
سلام اس پر بُروں کو جس نے فرمایا کہ میرے ہیں
دہن مُبارک
وہ دین جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
سرکارِ مدینہ سرور قلب و سینہ علیہ السلام کا دہن مبارک اعتدال کےساتھ فراخ تھا، آپ گفتگو فرماتے تو دہن مبارک کھول کر یعنی ہر بات کو مکمل وضاحت سے بیان فرماتے۔ اہل عرب کشادہ دہن کو اچھا سمجھتے اور تنگیٔ دہن کو نا پسند کرتے یا عیب سمجھا جاتا۔ ہونٹ مبارک خوبصورت، باچھیں نہایت، دندان مبارک چمکیلے اور روشن تھے۔
اس دہن مبارک سے کبھی کوئی لفظ اپنی خواہش سے نہ نکلتا بلکہ اللہ کی وحی اور حکم کے مطابق
وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحی۔ (النجم:۵)
اور وہ تو کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے بلکہ وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔
صحابہ کرام نے عرض کیا حضور آپ کبھی ہم سے خوش طبعی بھی تو فرماتے ہیں فرمایا
انی لا اقول الا حقا۔ (در منثور ج ۶ ص ۱۲۲)
(اس وقت بھی) میں حق ہی کہتا ہوں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ میں سرکار کی بارگاہ میں حاضر رہتا اور جو حضور فرماتے میں لکھ لیا کرتا ایک بار قریش نے مجھے کہا ہر بات نہ لکھا کرو بتقاضائے بشریت کبھی غصّہ میں کوئی ایسی ویسی بات بھی تو نکل سکتی ہے۔ پس میں نے لکھنا موقوف کر دیا اور یہ بات حضور علیہ السلام کے لکھنا موقوف کرنے کی وجہ پوچھنے پر آپ کی بارگاہ میں عرض کر دی تو سرکار نے فرمایا۔
اکتب فو الذی نفسی بیدہ یخرج منہ الاحق۔
(ابو داؤد ج ۲ ص ۱۵۷ کتاب العلم)
لکھا کرو خدا کی قسم اس (منہ) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
سپارے صفحے سورتاں بن دے جاون
زباں پاک تھیں جو جو بولے محمد(ﷺ)
لعابِ دہن شریف:
جس کے پانی سے شاداب جان و جنان
اس دھن کی طراوت پہ لاکھوں سلام
جس سے کھاری کنویں شیرۂ جاں بنے
اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام
حضرت عمیرہ بنت مسعود الضاریہ رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں کہ میری پانچ بہنیں حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں آپ اس وقت قدید (بڑا گوشت خشک کیا ہوا) کھا رہے تھے، آپ نے گوشت کا ایک ٹکڑا کر ان کو دیا۔
وما وجد لا فوا ھھن خلوف۔
(خصائص کبری ج ۱ ص ۶۲، زرقانی علی المواہب ج ۴ ص ۹۷)
(تو آپ کے لعاب دہن کی برکت سے) مرتے دم تک ان کے منہ سے خوشبو آتی رہی۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں پانی کا ایک ڈول لایا گیا آپ نے اس سے پیا پھر کُلی کر کے ایک کنویں میں ڈال دیا
ففاح منہ مثل رائحۃ المسک۔
(ابن ماجہ از ابو نعیم، خصائص کبری ص ج ۶۱، زرقانی ج ۴ ص ۹۶)
تو اس کنوئیں سے کستوری کی خوشبوئیں آنےلگیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں ایک کنواں تھا آپ علیہ السلام نے اس میں لعاب دہن شریف ڈالا تو مدینے کے تمام کنوؤں سے اس کا پانی زیادہ میٹھا ہو گیا۔
حضرت عتبہ بن فرقد (فاتح موصل) کی بیوی ام عاصم فرماتی ہیں کہ ہم عتبہ کی چار بیویاں تھیں اور ایک دوسری سے بڑھ کر خوشبو لگاتیں پھر بھی عتبہ کے جسم سے ہم سے زیادہ اچھی خوشبو آتی اگر وہ کہیں لوگوں میں جا بیٹھتے تو لوگ حیران ہو جاتے کہ یہ خوشبو تو کہیں سے ملتی ہی نہیں جو عتبہ کے جسم سے آتی ہے۔ ایک دن عتبہ نے اس راز کو کھولا اور فرمایا کہ حضور علیہ السلام کے دور میں میرے بدن پر پھنسیاں نکل آئیں۔ میں نے حاضر ہو کر اس بیماری کی شکایت کی آپ نے مجھے فرمایا یہ کپڑے اتار کر ستر ڈھانپ کر میرے آگے بیٹھ جا، میں نے ایسا ہی کیا
فنفث فی یدہ ثم وضع علی ظھری و بطنی فبصق بی ذلک الطیب من یومئذ۔
(خصائص کبری ج ۲ ص ۸۴)
آپ نے دم فرما کر میری پشت پر اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور لعاب دہن شریف لگایا (میری بیماروں بھی دور ہو گئی اور اسی دن سے) جسم میں یہ خوشبو پیدا ہوگئی۔
جدھر نوں نبی دی نگاہ کیتی جاوے
اَدھر رحمتاں دی گھٹا کیتی جاوے
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مشرف با اسلام ہوئے(زبان چونکہ عربی نہ تھی) سرکار نے ان کو منہ کھولنے کا حکم دیا اور اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں ڈالا تو فوراً آپ عربی میں گفتگو کرنے لگے
وہ رحمۃ للعالمین اور تو سراپا بغض و کیں
پھر کس طرح آئے یقیں تو بھی بشر وہ بھی بشر
حضرت ابو الہثیم بن التہیان کے گھر حضور علیہ السلام بمعہ ابو بکر، عمر، علی رضی اللہ عنھم تشریف لے گئے………….ان کے گھر میں کھجور کا درخت تھا جس پر کبھی پھل نہ آیا تھا آپ نے کُلی کر کے پانی درخت پر پھینکا اُسی وقت کھجور کے خوشے درخت پر لٹکنے لگے آپ نے فرمایا یہ جنت کی کھجور ہیں، جو تمہیں قیامت کے دن ملیں گی۔
(شواہد النبو ص ۱۹۵)
محمد باعث تخلیق افلاک
محمد موردِ ارشادِ لو لاک
کوئی ان سا ہوا ہے اور نہ ہوگا
نظیر و مثل سے سرکار ہیں پاک
مگر گستاخ کی جرأت تو دیکھو
انہیں مثل اپنی کہتا ہے یہ بیباک
یہ جرأت دیکھ کر حق حق یہ بولا
چہ نسبت خاک رابا عالم پاک
حضرت حارث بن سراقہ رضی اللہ عنہ بدر میں شہید ہو گئے۔ ان کی والدہ کو خبر پہنچی تو صدمے سے چُور چور ہو گئیں، حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اگر میرا بیٹا جنت میں ہے تو نہیں روؤں گی اور اگر دوزخ میں تو بخدا چلا کر روؤں گی، حضور علیہ السلام نے فرمایا تیرا بیٹا صرف جنت میں نہیں بلکہ جنۃ الفردوس میں ہے، وہ بولی کہ اب میں نہ روؤں گی پھر آپ نے پانی کا پیالہ منگوا کر اس میں ہاتھ دھوئے اور کُلی فرما کر حارث کی بہن اوروالدہ کو پلا دیا اور فرمایا تھوڑا سا پانی اپنےگریبان پر چھڑک لو، راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد پورے مدینے میں ان سے زیادہ خوش و خرم عورتیں نہ دیکھیں گئیں۔
(شمس التواریخ ۔ مقاصد الاسلام) ؎
آب دھن وچہ برکت بھاری
مٹھا ہوندا چشمہ کھاری
جاندی رھوے تمام بیماری
صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابو امام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مدینے میں ایک بے حیا اور بد زبان عورت تھی ایک بار حضور علیہ السلام ثرید کھا رہے تھے کہ آگئی اور آپ سے کہنے لگی مجھے بھی دیں، آپ نے دیا تو بولی نہیں اپنے منہ سے نکال کر دیں چونکہ آپ سائل کو نہ نہیں فرماتے تھے آپ نے اس کو منہ سے نکال کر تھوڑا سا دیا راوی فرماتے ہیں
فلما استفر فی جرفھا القی علیھا من الحیاء مالم تکن بالمدینۃ اشد حیاء منھا۔
(شفا ج ۱ص ۲۱۴، زرقانی علی المواہب ج ۴ ص ۹۷، خصائص ج ۱ ص ۶۲)
جب وہ لقمہ اس کے پیٹ میں گیا تو اللہ نے اس پر ایسی حیا طاری کر دی وہ حیا میں تمام عورتوں سے بڑھ گئی۔
کرم سب پر ہے کوئی ہو کہیں ہو
تم ایسے رحمۃ للعالمین ہو
بشر بن عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے والد جنگ احد میں شہید ہو گئے، میں روتا ہوا حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا! روتا کیوں ہے کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں تیرا باپ اور عائشہ تیری ماں ہو جائے، پھر آپ نے اپنا دست شفقت میرے سر پر پھیرا تو جن بالوں پہ آپ کا ہاتھ لگا وہ تمام عمر سیاہ رہے، اور میری زبان میں لکنت تھی
فتفل فیھا فانحلت
آپ نے لعاب دہن شریف لگایا تو لکنت فوراً ختم ہوگئی۔
ڈوبی ناؤ تراتے یہ ہیں
روتی آنکھ ہنساتے یہ ہیں
حضرت حبیب کے والد حضرت فدیک یا فریک کا پاؤں سانپ کے انڈوں پر آگیا جس کی وجہ سے ان آنکھیں سفید ہو گئیں اور نظر ختم ہو گئی۔
فنفث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی عینیہ فابصر فرایتہ یدخل الخیط فی الابرۃ وھو ابن ثمانین۔
(بہیقی، طبرانی، شفا ص ۲۱۳، زر قانی علی المواہب ج ۵ ص ۱۸۸، خصائص کبریٰ ج ۲ ص ۶۹)
حضور علیہ السلام نے ان آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا تو نظر ایسی بحال ہوئی کہ اسّی سال کی عمر کے اندر بھی سوئی میں دھاگہ ڈال لیتے تھے۔
ایک صحابی ملاعب الاسنہ فرماتے ہیں میرے پیٹ میں سخت درد رہتا تھا ایک دن میں نے ایک آدمی کو حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں بغرض شفا بھیجا تو حضور علیہ السلام نے ایک مٹی کا ڈھیلا لے کر اس پر تھوکا اور فرمایا اس کو پانی میں گھول کر پلا دینا۔
ففعل فبرء۔(خصائص کبریٰ ج ۲ ص ۷۱) جب پلایا گیا تو درد جاتا رہا۔
ہوتی ہے شفا دم میں دم آتا ہے بے دم میں
محبوب خدا کا ہے کیا خوب شفا خانہ
حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ بچے تھے ان کے ہاتھ پر پکتی ہوئی ہنڈیا گر گئی، ان کا ہاتھ جل گیا
فمسح علیہ و دعالہ وتفل فیہ فبرألحینہ۔
حضور علیہ السلام نے ہاتھ پھیرا دعا کی اور لعاب دھن لگایا تو اسی وقت ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔
(زرقانی ج ۵ ص ۱۹۲، شفا ص ۲۱۴، خصائص ج ۲ ص ۶۹)
حضرت حارث بن اوس رضی اللہ عنہ کو ایک جنگ میں سر اور ٹانگوں پر تلوار کے بڑے بڑے زخم لگے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں لایا گیا
فتفل علی جرحہ فلم یوذہ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ص ۴۲۴)
پس آپ نے زخموں پر تھوکا تو اس کے بعد زخموں نے ان کو کبھی تکلیف نہ دی (اچھے ہو گئے)۔
روتی آنکھ ہنساتے یہ ہیں
جلتی آگ بجھاتے یہ ہیں
لاکھوں بلائیں کروڑوں دشمن
کون بچائے، بچاتے یہ ہیں
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام بوقت تکلیف و مصیبت حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور سرکار ان کی مشکل کشائی فرماتے۔ کیوں کہ ان کا عقیدہ تھا ؎
بخدا خدا کا یہی ہے در
نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو
جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے سر کا گہرا زخم لعاب دہن شریف سے ٹھیک ہوا۔
(خصائص ج ۲ ص ۷۰)
حضرت رفاعہ، حضرت قتادہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی آنکھیں لعاب دہن مبارک سے ٹھیک ہو گئیں۔ اور دیگر بہت سارے واقعات لعاب دہن شریف کی برکت سے متعلق، مندرجہ ذیل کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں
(خصائص کبریٰ ج ۲ ص ۷۰، زاد المعاد لابن قیم، شفا شریف ج ۱ص ۲۱۲، اسد الغابہ ج ۴ ص ۲۵۰ طبقات ابن سعد ج ۴ ص ۱۸۰، اصابہ ج ۴ ص ۷۱، استعیاب ص ۳۲۷ قسم ثالث، بخاری ص ۶۰۶)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سخت گرمیوں میں موٹے کپڑے پہنا کرتے اور سخت سردی میں باریک پھر بھی پسینہ نکلتا جب کسی نے پوچھا تو فرمایا یہ لعاب مبارک کے اثرات ہیں۔ (جامع الصفات ص ۱۴۲)
امام زرقانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام تو ان آنکھوں کو درست فرماتے جو اپنے مقام پر ہوتی تھیں لیکن حضور علیہ السلام نے ( لعاب دہن سے) ان آنکھوں کو بھی تندرست فرمایا جو خانۂ چشم سے نکل کر باہر آچکی تھیں۔ (زرقانی)
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں، سو بَل ہزار کَج
یہ ساری گتھی اِک تِری سیدھی نظر کی ہے
حدیبیہ میں لعاب دہن کی برکت سے چودہ سو مجاہدین بمعہ سواریوں کے بیس دن پانی پیتے رہے۔ (مشکوۃ ص ۵۳۲)
حضرت عامر بن کریز کے پانچ سالہ بیٹے کے منہ میں سرکار علیہ السلام نے لعاب دہن ڈالا تو وہ جس پتھر پر ضرب لگاتے پانی نکل آتا۔ (خصائص کبریٰ ج ۱ ص ۱۵۷)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی آنکھ پھوٹ گئی تو لعاب دہن کی برکت سے یہ آنکھ دوسری سے زیادہ روشن ہو گئی۔ (خصائص کبریٰ ج ۱ ص ۳۱۶)
سائلو دامن سخی کا تھام لو
کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا
خشک کنوئیں میں سرکار علیہ السلام نے کُلی فرمائی تو حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
فجاشت بالرواء۔ (طبقات ابن سعد، خصائص ج ۱ ص ۴۱)
پھر کبھی خشک نہ ہو اور پورے علاقے کو سیراب کرتا رہا۔
حضرت جابر کے گھر کھانے میں لعاب دہن ڈال کر ایک ہزار صحابہ کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیا، حالانکہ ایک بکری کا بچہ اور ایک صاع آٹا تھا۔
(صحیح مسلم ص ۲۱۶، سیرت ابن ہشام ص ۲۱۷ قسم ثانی المغازی للواقدی ج ۲ ص ۴۵۲، البدایہ والنھایہ ج ۴ ص ۹۷ سنن بہیقی ج ۷ ص ۲۷۴، خصائص کبری ج ۱ ص ۲۲۷)
کیے ہیں سیر صدھا ایک بکری صاع بھر جو میں
لعاب اور دست اقدس جب لگایا میرے آقا نے
طوالت کے ڈر سے لعاب دہن کے ان ہی چند واقعات پر اکتفاء کرتا ہوں ورنہ علاوہ ازیں بھی بے شمار واقعات کتب فضائل میں ملتے ہیں۔
ابن ماجہ شریف میں ہے کہ حضور علیہ السلام کا لعاب دہن اطیب من المسک کستوری سے زیادہ پاکیزہ اور خوشبو دار تھا۔ (ص ۴۸)
پنجابی میں کوئی کسی کو داؤ لگائے تو کہتے ہیں فلاں مجھے تھک لگا گیا ہے۔ تو ہماری تھوک لگ جائے بیڑا غرق ہو جائے گھر برباد ہو جائے نبی کی تھوک لگے اُجڑے گھر آباد ہو جائیں دونوں جہاں روشن ہو جائیں۔
ویکھن نوں اوہ ساڈے ورگا
پر اسیں کدوں اس مُلدے
پتھر لعل دے بھا نہیں وکدے
پُھل کنڈیاں نال نہ تُلدے
جو اسرار حضور تے کُھلّے
اوہ ہر کسے تے نہیں کُھلدے
اعظم اوہ عرشاں تے پھردا
اسیں وچ گلیاں دے رُلدے
ان کی باتوں کی لذت پہ لاکھوں درود ان کے خطبے کی ہیبت پہ لاکھوں سلام:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوش آواز تھے اس کے علاوہ آپ بلند آواز بھی تھے اور اس قدر کہ جہاں کسی کی آواز نہ پہنچی تھی وہاں آپ کی آواز پہنچ جاتی۔ خصوصاً خطبوں میں تو آپ کی آواز گھروں میں پردہ نشیں عورتیں بھی سنتی تھیں اور ہزاروں کے مجمع میں جیسے قریب والا آپ کی آواز سنتا اسی طرح دور والا بھی سنتا تھا۔
عرفات کے میدان میں جب آپ نے خطبہ حج ارشاد فرمایا تو صحابہ کی تعداد ایک لاکھ چوالیس ہزار تھی (رحمۃ للعالمین ص ۲۳۰، ص ۲۳۱) اور صحابہ فرماتے ہیں
نسمع ما یقول ونحن فی منازلنا فنطق یعلمھم مناسکھم۔
ہم اپنی جگہ کر سُن بھی رہے تھے اور سمجھ بھی رہے تھے کہ آپ مناسک حج سکھا رہے تھے۔ (ابو داؤد ۱ص ۲۷۷)
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہِلا دی
ایک مرتبہ آپ نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے لوگوں سے فرمایا بیٹھ جاؤ تو عبد اللہ بن رواحہ نے بنو غنم قبیلے کے علاقہ میں آپ کی آواز سُنی اور وہیں بیٹھ گئے۔
(الخصائص)
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں ہم آدھی رات کو اپنے گھروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت سن لیتے تھے (جب کہ آپ خانہ کعبہ میں نماز ادا فرما رہے ہوتے)۔
(انوار محمدیہ ص ۲۷۱)
نبی دی جیب دے وچ ایہہ ھا اعجاز
برابر دور نیڑے جاندا آواز
حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو خوبصورت آواز عطا فرمائی (انوار محمدیہ ص ۲۷۰) جب کہ حضرت براء فرماتے ہیں میں نے حضور علیہ السلام کو عشاء کی نماز میں سورۃ التین کی تلاوت کرتے سُنا
وما سمعت احدا احسن صوتا منہ۔
میں نے آپ سے اچھی کسی کی آواز نہ سنی۔ (متفق علیہ۔ مشکوۃ ص ۷۹)
میٹھی میٹھی عبارت پہ شیریں درود
اچھی اچھی اشارت پہ لاکھوں سلام
جس میں نہریں ہیں شیر و شکر کی رواں
اس گلے کی نضارت پہ لاکھوں سلام
وہ زباں جِس کو کن کی کنجی کہیں اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام:
آپ ﷺ کی زبان اقدس نہایت پاکیزہ، آپ کا کلام شیریں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا فصاحت و بلاغت، حق و صداقت اور لطف و محبت کا منبع اور مصدر، ہر قسم کے عیوب (افراط و تفریط، جھوٹ، غیبت بد گوئی اور فحش کلامی وغیرہ) سے مبرا گویا لڑی سے موتی گر رہے ہیں۔ (زرقانی)
صحابہ کرام نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! کیا سبب ہے کہ آپ سے زیادہ کوئی فصیح نہیں دیکھا گیا۔ آپ نے فرمایا ایسا کیوں نہ ہو کر قرآن مجید میری زبان (عربی متن) کے ساتھ مجھ پر نازل ہو۔ (خصائص کبری ج ۱ص ۱۶۰)
آپ نے فرمایا انا افصح العرب والعجم۔ (انوار محمدیہ ص ۲۶۳)
میں عرب و عجم میں سب سے زیادہ فصیح ہوں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپﷺ تمہاری طرح تیز نہیں بولتے تھے بلکہ ایسے بولتے کہ آپ کے الفاظ گنے جا سکتے تھے۔
(انوار محمدیہ ص ۲۶۲)
اگر کبھی آپ عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں کلام فرماتے تو اس زبان کے قوانینِ فصاحت و بلاغت کے مطابق فرماتے، کہ اس زبان کے ماہرین دنگ رہ جاتے۔
کرن شیریں سخن تے جا پاون
کدے اک لفظ نوں دھرا الاون
تحمل نال تھوڑا تھوڑا بولن
اول آخر سخن دا خوب کھولن
آپ کی زبان میں یہ خداداد صلاحیت تھی کہ آنے والا جس زبان میں کلام کرتا آپ اس کو اسی زبان میں جواب دیتے۔
(شفا ج ۱ ص ۴۴، نشر الطیب ص ۱۶۵)
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
چونکہ آپ تمام مخلوق کی طرف نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے تھے لہذا ضروری تھا کہ تمام مخلوق کے ساتھ اس کی زبان میں کلام کرنے کی قدرت و قوت بھی ہو۔ چنانچہ جب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، چونکہ وہ فارسی بولتے تھے اس لیے حضور علیہ السلام نے ایک یہودی (تاجر اور فارسی کے ماہر) کو بطور ترجمان بلا لیا حضرت سلمان نے کلام شروع کیا تو انہوں نے حضور علیہ السلام کی تعریف کی اور آپ کی بارگاہ میں جانے سے روکنے والوں کی مذمت کی، لیکن یہودی ترجمان سمجھا کہ حضور تو عربی ہیں ان کو کیا پتہ سلمان کیا کہہ رہے ہیں، چنانچہ یہودی نے کہا! سلمان تو آپ کو بُرا کہہ رہا ہے آپ نے فرمایا سلمان تو ہماری تعریف کر رہا ہے اور تو کہا ہے بُرائی تو ہمارے پاس آنے سے روکنے والوں کی کر رہا ہے یہودی اسی وقت کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو گیا۔
(شواہد النبوۃ س ۱۲۱، سیرت حلبیہ ج ۱ص ۱۸۲)
علامہ شہاب الدین خفاجی مصری نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک غیر عربی وفد آپ کے پاس آیا، آپ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے ( چونکہ آپ صحابہ کرام میں گھل مل کر بیٹھتے تھے، بادشاہوں کی طرح امتیازی شان سے نہ بیٹھتے) وہ آپ کو نہ پہنچان سکے ان میں سے ایک شخص نے اپنی زبان میں کہا"من ابوان اسران" یعنی تم میں سے رسول اللہ کون ہیں؟ حاضرین میں سے کوئی نہ سمجھ سکا۔ آپ نے فرمایا "اشکد اور" آگے آجاؤ۔ آپ ان کو ان کی بولی میں جواب دیتے رہے تا آنکہ سب کے سب اسلام قبول کر کے واپس گئے۔
(نسیم الریاض، مواہب لدنیہ)
ایک دن کسی شخص نے آپ نے کہا"ایدالک ارجل امراتہ" آپ نے فرمایا نعم اذ کان مفلجا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے کیا کہا اور آپ نے کیا جواب دیا! فرمایا: اس نے پوچھا کہ کیا مرد اپنی بیوی سے قرض لے کر ادائیگی میں دیر کر سکتا ہے؟ اور میں نے جواباً کہا ہے ہاں! جب کہ مفلس ہو۔ تو صدیق اکبر نے عرض کیا۔
یا رسول اللہ! لقد طفت فی العرب وسمعت فصحاءھم وما سمعت افصح منک قال ادَّبنی ربی۔
ایک شخص نے حضور علیہ السلام کا کلام سُنا، مسلمان ہو کر اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا "لوگو! بے شک میں نے روم کا ترجمہ، فارس کازمزمہ، عرب کے اشعار، کاہن کی کہانت اور ملوک حمیرا کا کلام سُنا ہے مگر محمد (ﷺ) کا کلام ان کے کلاموں سے نہیں ملتا، وہ سچے نبی ہیں، میری بات مانو اور ان کو پہنچانو۔ (طبقات ابن سعد)
کچھ اس قسم کے تاثرات کا اظہار حضرت ابو ذر غفاری کے بھائی انیس نے بھی کیا۔ دیکھئے (مسلم شریف کتاب الفضائل ج ۲ ص ۲۹۶)
ضماد نامی ایک شخص مکہ آیا (جن، جنوں کے علاج کا ماہر) لوگوں سے سُن کر محمد (ﷺ) کو جن یا جنوں ہے کہ کہنے لگا مجھے ان کے پاس لے جاؤ، میں ان کا علاج کروں گا۔ جب وہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے مشہور خطبہ (الحمد اللہ نحمدہ و نستعینہ الخ پڑھا تو سُن کر عرض کرنے لگا پھر پڑھیے، آپ نے پھر پڑھا۔ (تو علاج کرنے کے لئے آنے والے کا اپنا علاج ہو گیا) اور مسلمان ہو کر واپس چلا گیا۔
(مسلم بہیقی، احمد، خصائص ۱۳۴)
میرے نبی دی زبان ساڈے واسطے قرآن
کسے ہور دا بیان چنگا لگدا ای نئیں
ہم بولتے ہیں تو کبھی منہ سے جھوٹ نکلے کبھی غیبت کبھی گالی نکلے اور اللہ کا نبی بولتا ہے تو یا قرآن نکلتا ہے یا حدیث بنتی ہے۔ کوئی دوسرےعلاقے کا بندہ آجائے چاہے اپنے ملک کا ہی ہو تو ہم اس کی بات نہیں سمجھ سکتے نہ اپنی اس کو سمجھا سکتے ہیں لیکن حضور ہیں کہ کبھی ہرنی جال میں پھنستی ہے اور وہ اپنی زبان میں آپ سے فریاد کرتی ہے تو آپ اس کی فریاد سنتے ہیں اور اس کو جال سے آزاد کراتے ہیں اور پھر وہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر وعدہ کے مطابق واپس آجاتی ہے تو کافر شکاری یہ منظر دیکھ کر کلمہ پڑھ لیتا ہے۔ ہرنی جال سے آزاد ہو جاتی ہے اور کافر مسلمان جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے۔
پھر بشارت اِس کو اور اس کو ملی سرکار سے
جال سے ہے تو آزاد اور تُو عذاب نار سے
اس میں گرفتار ہو جاؤں، آپ لوگوں کو بلا کر نماز عشاء کے بارے میں تاکید فرمائیں۔
(احیاء القلوب ص ۹۳، قصص الانبیاء ص ۴۶۴)
- ایک دفعہ چڑیا آکر فریاد کرتی ہے کہ میرے بچوں کو آپ کے ساتھیوں نے پکڑ لیا ہے تو آپ اُس کی دست گیری فرماتے ہوئے اس کے بچے واپس کراتے ہیں۔
(حجۃ اللہ علی العالمین ص ۴۶۶)
- ایک دفعہ اعرابی گوہ کپڑے میں چھپا کر لاتا ہے یہ کہ یہ آپ سے کلام کرے تو میں مسلمان ہو جاؤں گا تو آپ اس سے اور وہ آپ سے ہم کلام ہوتی ہے اور وہ اپنے قبیلے کو جا کر بتاتا ہے تو پورا قبیلہ مسلمان ہو جاتا ہے۔ (نسیم الریاض، طبرانی، بہیقی، دلائل النبوۃ ابو نعیم)
ایک اونٹ رو رو کر آپ سے فریاد کرنے لگا آپ نے اس کے مالک کو بلایا اور فرمایا : اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اس کو بھوکا رکھتا ہے۔
(البدایہ والنہایہ ج ۶ ص ۱۳۷، اسد الغابہ ج ۳ ص ۱۳۴)
کی اونٹ نے تجھ سے بیاں، دکھ درد کی سب داستاں
دیکھا جو تجھ کو مہربان، شکوہ مصیبت کا کیا
سبحان اللہ! جو نبی جانوروں پہ اتنا رحیم و کریم ہے وہ اپنی امت پہ کیوں نہ قیامت کو مہربانی فرمائے گا اور شفاعت فرما کر جنت کا حق دار بنائےگا
تمہیں حاکم کبرایا، تمہیں قاسم عطایا
تمہیں دافع بلایا، تمہیں شافع خطایا
کوئی تم سا کون آیا
- ایک سر کش اونٹ کو آپ نے بلایا، اس نے آپ کو سجدہ کیا، آپ نے اس کی ناک میں مہار ڈالی اور فرمایا (لوگوں کو تنگ نہ کیا کر) کافروں کے سوا سب جانتے ہیں کہ میں اللہ کا نبی ہوں
چاند شق ہو پیڑ بولیں جانور سجدہ کریں
بارک اللہ مرجع عالم یہی سرکار ہیں
- شجر و حجر آپ کو ان لفظوں میں سلام کرتے ہیںالسلام علیک یا رسول اللہ۔
(مشکوۃ ص ۵۴۰ ترمذی، شفا ص ۱۵۳، حجۃ اللہ علی العالمین ص ۴۴۰)
استن حنانہ از ہجرِ رسول
نالہ می زد ہمچو ارباب عقول
- استن حنانہ، کھجور کے ستون کی بارگاہ رسالت میں آہ و زاری کون بھول سکتا ہے پھر سرکار کا اس پہ دست شفقت پھیرنا اور اس کو تسلی دینا اور اس کو جنت کا درخت بنا دینا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
(مسند احمد ج ۴ ص ۱۲۸، طبقات ابن سعد ج ۱ ص۱۱، بہیقی ج ۳ ص ۱۹۵، البدالیہ والنہایہ ص ۲۷۵ خصائص کبریٰ ۲ ص ۷۶، مواہب لدنیہ ج۱ ص۳۶۶)
حضور علیہ السلام نے کھجور کے درخت کی طرف پیغام بھیجا تو وہ درخت آپ کے قدموں میں آگیا اور مطالبہ کرنے والا کافر مسلمان ہو گیا۔
حضور علیہ السلام نے چھ صحابہ کرام کو ایک ہی دن مختلف ملکوں کے بادشاہوں کے پاس بھیجا تو ان میں سے ہر ایک صحابی(بغیر سیکھے) اسی ملک کی زبان میں گفتگو کرنے لگا۔
(شفا ص ۲۰۱، خصائص کبریٰ ج ۲ ص ۲)
خطابتِ نبوی کی جلوہ سامانیاں:
دھر ہو سیرتِ سرکار سکھا دی جائے
سنگ باری جو کرے کوئی دعا دی جائے
جو ہیں محروم ثنا خوانیٔ شۂ بطحا
یا خدا ان کو بھی توفیق ثنا دی جائے
(محمد اکرم رضا)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کمال خطابت (جو کہ نبوت کا ضروری عنصر ہے) حاصل کرنے کے لئے دعا کی۔
واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی۔ (سورہ طٰہٰ)
(اے اللہ!) میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھیں۔
لیکن ہمارے آقا کو اللہ تعالیٰ نے یہ وصف کامل خود ہی عطا فرما دیا اور آپ نے بطور تحدیث نعمت فرمایا۔
انا افصح العرب بعثت بجوامع الکلم۔ (مشکوۃ ص ۵۱۲)
میں عربوں میں سب سے زیادہ فصیح ہوں، جامع کلمات دے کر بھیجا گیا ہوں۔
خطابت نبوی کی اثر انگیزی بھی در حقیقت معجزہ تھی کہ پتھر سے پتھر دل بھی آپ کا خطاب سُن کر چند لمحوں میں موم ہو جاتے۔
ایک مرتبہ ایک نو مسلم ہجرت کر کے حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپ نے ان کی مدد کا جمعہ کے دن مسجد نبوی میں اعلان فرمایا اور اس قدر رقت انگیز تقریر فرمائی کہ بعض لوگوں نے تن کے کپڑے اتار کے دے دیے، کسی نے گھر کا غلہ حاضر کر دیا ایک انصاری اشرفیوں کا توڑا اُٹھا یا جو اس نے بڑی مشکل سے اُٹھایا، تھوڑی ہی دیر میں دو بڑے بڑے ڈھیرے لگ گئے۔ (مسلم باب الصدقات، نسائی ج ۱ ص ۲۵۵)
جب کبھی دو قبیلوں میں اشتعال پیدا ہوتا تو سرکار کے چند فقرے ان کو دشمنی بھلا کر جوش محبت کا دریا بہا دیتے۔ واقعہ افک میں اوس اور خزرج کا اس قدر شدید اختلاف ہو گیا قریب تھا کہ تلواریں میان سے نکل آئیں، حضور علیہ السلام نے منبر پر جلوہ افروز ہو کر چند لمحوں میں ماحول کو جنت نظیر بنا دیا۔ (بخاری شریف)
کبھی آپ خطاب فرماتے تو اندازِ بیان ایسا مؤثر ہوتا کہ لوگوں کی چیخیں نکل جاتیں حضرت اسماء رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں ایک بار آپ نے فتنۂ قبر کے متعلق بیان فرمایا
صاح المسلمون صیحۃ تو مسلمان چیخ اُٹھے۔
حضرت ابو ہریرہﷺ فرماتے ہیں ایک دفعہ آپ نے اپنے خطبہ میں تین بار یہ الفاظ دہرائے والذی نفسی بیدہ قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے یہ فرما کر آپ جُھک گئے لوگوں پر یہ اثر ہوا کہ جو جہاں تھا وہیں سر جھکا کر رونے لگا راوی کہتے ہیں ہمیں ہوش نہ رہا کہ آپ کس بات کی قسم کھا رہے ہیں۔
(سنن نسائی ج ۱ص ۲۴۲)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے ایسا مؤژر خطبہ دیا کہ اس سے پہلے میں نے ایسا خطبہ نہ سُنا تھا، آپ نے دوران خُطبہ فرمایا
لو تعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلا ولبکیتم کثیرا۔
(بخاری، تفسیر سورۂ مائدہ)
جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو کم ہنستے اور زیادہ روتے۔
اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ لوگ منہ میں کپڑے ڈال کر رونے لگے۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ حضور علیہ السلام نے منبر پر جلوہ افروز ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی۔
ماقدرو اللہ حق قدرہ۔(۱۷/۷)
لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے کرنے کا حق تھا۔
یہ آیت کرنے کی دیر تھی کہ منبر رسول سے آواز آئی۔
ھذا فجاء وذھب ثلاث مرات۔(خصائص کبریٰ ج ۲ ص ۷۷)
ایسا ہی ہے، پھر منبر تین بار آگے پیچھے ہوا۔
ایک کافر نے کہا اس کھجور کو حکم دیں کہ ایک کجھوروں کا خوشہ گرائے تو میں ایمان لے آؤں گا حضور علیہ السلام نے اشارہ فرمایا تو کجھور نے فوراً پکی ہوئی کھجوروں کا خوشہ حاضر کر دیا۔ (مشکوۃ ص ۵۴۱، شواہد النبوۃ ص ۲۰۸)
ایک چشمہ کے بارے ایک غزوہ (ذی قر و ۷ھ) کے دوران صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اس کا نام بیسان ہے اور اس کا پانی نمکین ہے، آپ نے فرمایا
بل ھو نعمان وماء طیب فطاب۔(شفا شریف ج ۱ ص ۲۱۸)
نہیں اس کا نام نعمان ہے اور اس کا پانی میٹھا ہے، تو اس کا پانی میٹھا ہو گیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص وحی لکھتا تھا مرتد ہو گیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا ان الارض لا تقلسہ(بخاری۔ مسلم۔ مشکوۃ ص ۵۳۵) زمین اس کو قبول نہ کرے گی، چنانچہ وہ مر گیا تو بار بار دفن کرنے کے باوجود زمیں اس کوبا ہر پھینک دیتی۔ (مدارج النبوۃ)
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ شخص قبر سے باہر ہی نیست و نابود ہو گیا
تمہارے منہ سے جو نِکلی وہ بات ہو کے رہی
جو دِن کو کہہ دیا سب ہے تو رات ہو کے رہی
سلمہ بن اکوع رضی اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے حضور علیہ السلام کے سامنے (تکبر کے طور پر ارادۃً) بائیں ہاتھ سے کھانا شروع کیا آپ نے اس کو دائیں ہاتھ سے کھانے کو کہا تو کہنے لگا دایاں ہاتھ بے کار ہے فرمایا جا پھر آج سے بیکار ہو گیا ہے
فما رفعھا الی فمہ۔ (مسلم۔ مشکوۃ ص ۵۳۵)
اس کے بعد اس کا ہاتھ بے کار ہوگیا منہ کی طرف اُٹھ ہی نہ سکتا تھا۔
بنی کلب قبیلے کی طرف آپ نے ایک خط بھیجا انہوں نے خط کی عبارت کو دھو ڈالا اور جس چمڑے پر خط لکھا ہوا تھا اس کو ڈول کے ساتھ سی لیا آپ کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا
مالھم ازھب اللہ عقولھم۔
ان کو کیا ہو گیا اللہ ان کی عقلوں کو لے گیا (یا لے جائے)۔
چنانچہ ان کی عقلیں ماؤف ہو گئیں اور ان کی باتیں کسی کی سمجھ میں نہ آتی تھیں۔
(شواہد النبوۃ ۱۶۷)
ایک شخص (حکم بن عاص) حضور علیہ السلام کی مجلس میں آکر آپ کی نقل اتارتا (توہین کرتے ہوئے) ایک دن آپ نے فرمایا کُن کذلک۔ اسی طرح ہو جا چنانچہ وہ ساری عمر ویسا ہی رہا (اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا)۔
(طبرانی، بہیقی، مستدرک، خصائص ج ۲ ص ۷۹)
کُن کذلک مصطفیٰ نے کہہ دیا
اس کا منہ ٹیڑھے کا ٹیڑھا رہ گیا
ایک چھاؤلے کو دیکھ کر فرمایا “کُن ابا ذر”۔ تو ابو ذر ہو جا، دیکھا تو ابو ذر ہی تھے۔ (شفا)
دور سے سیاہی دیکھی تو فرمایا، کُن ابا خمیثہ” تو ابو خمیثہ ہو جاؤ۔ دیکھا تو ابو خثیمہ ہی تھے۔
(مواہب)
کسی نے سوال کیا کیا حج کرنا ہر سال فرض ہے؟ فرمایا اگر میں نعم (ہاں) کہہ دوں تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جائے (پھر تم نہ کر سکو گے) (ترمذی، دارمی، احمد، ابن ماجہ، نسائی)
ہے جنبش لب قانون خدا
قرآن و خبر کی گواہی ہے
آپﷺ نے زمین کو حکم دیا (ہجرت کے سفر میں) تو زمین نے سراقہ بن مالک کو گھوڑے سمیت پکڑ لیا اس نے معافی مانگی تو آپﷺ کےحکم پر زمین نے چھوڑ دیا۔
(حجۃ اللہ علی العالمین ص ۵۸۵)
حضرت ابو طلحہ کے سست رفتار گھوڑے پر آپ سوار ہوئے اور فرمایا ہم نے اس کو دریا پایا (یعنی تیز رفتار) بس اس کے بعد کوئی گھوڑا اس کا مقابلہ نہ کرسکا۔
(بخاری۔ مشکوۃ ص ۵۳۶)
ایک رات تیز بارش ہونے لگی صحابہ نے گھروں کو جانا تھا آپ نے فرمایا میں تمہیں ایسے پہنچاؤں گا کہ بارش تمہیں کچھ نہ کہے گی چنانچہ فرمایا اُٹھو! صحابہ سخت اندھیرے اور زور کی بارش میں گھروں کو پہنچ گئے اور کسی کے کپڑے نہ بھیگے ؎
وہی نور حق وہی ظل رب ہےہ انہی کا سب ہے انہیں سے سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
ایک یہودی نے آپ کی اونٹنی کا دودھ دوھا تو آپ نے خوش ہو کر اس کو دعا دی۔
اللھم جملہ اے اللہ! اس کو حُسن دے دے۔ نوے سال کی عمر میں بھی اس کے بال سیاہ رہے دعا سے پہلے جو سفید تھے وہ بھی سیاہ ہو گئے۔ (خصائص ۲ ص ۸۳)
ان کی باتوں کی لذت پہ لاکھوں سلام
ان کے خطبے کی ہیبت پہ لاکھوں سلام
مردے زندہ کرنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں سے ہے۔ تفاسیر سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے صرف چار اشخاص کو زندہ فرمایا۔
۱۔ عازر جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وہ دوست تھے ان کو تین دن بعد قبر سے زندہ نکالا
۲۔ محصل چنگی کی لڑکی کو ایک دن بعد
۳۔ ایک بڑھیا کے بیٹے کو جس کا جنازہ ابھی جا رہا تھا
۴۔ سام بن نوح کو
ہمارے آقا کے بے شمار حیرت انگیز واقعات اس معجزے کےمتعلق موجود ہیں
ایک شخص نے عرض کیا حضور! میری لڑکی فلاں جنگل میں مر گئی ہے آپ اس کے ہمراہ جنگل میں گئے اور لڑکی کا نام لے کر لسانِ نبوت کو حرکت دی تو لڑکی لبیک و سعدیک کہتی ہوئی حاضر ہو گئی۔ (شرح شفا ملا علی قاری ج ۱ ص ۶۴۸)
حضرت رضی اللہ عنہ کے دو بیٹوں کو زندہ کرنے کا واقعہ شواہد النبوۃ ص ۱۴۳ پر ہے۔
ایک شخص کو آپ نے دعوت اسلام دی تو اس نے کہا اگر میری مردہ لڑکی زندہ ہو جائے تو ایمان لے آؤں گا آپ نے اس کی قبر پہ جا کر آواز دی تو وہ بول اُٹھی، آپ نے فرمایا
اتحبین ان ترجعی الدنیا۔
کیا تو دنیا میں واپس آنا چاہتی ہے؟ تو اس نے جواب دیا
لا یا رسول اللہ وجدت اللہ خیرلی من ابوین۔
(دلائل النبوۃ۔ الشمامۃ العنبریہ من مولد خیر البریہ۔ شفا ملا علی قاری ج ۱ ص ۶۴۸)
نہیں یا رسول اللہ! میں نے اپنے رب کو والدین سے زیادہ مہربان پایا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی کے گھر بکری کی ہڈیوں کو اکٹھا فرما کر ہاتھ پھیرا تو بکری زندہ ہو گئی اور کھڑی ہو کر دم ہلانے لگی، آپ نے فرمایا جابر! اپنی بکری لے جاؤ، میں بکری اپنی بیوی کے پاس لے کر آیا، تو وہ بولی یہ کیا ہے؟ میں نے کہا۔
واللہ شاتنا التی ذبحنا دعا للہ فاحیاھا۔ قالت اشھد انہ رسول اللہ۔
(بہیقی از ابو نعیم، خصائص ج ۲ ص ۶۷)
یہ وہی ہماری بکری ہے جو ہم نے (حضور کی دعوت کے لئے) ذبح کی تھی حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی ہے اللہ نے بکری کو زندہ کر دیا ہے بکری نے بول کر کہا میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
الغرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہ صرف انسانوں کو زندہ فرمایا حضور علیہ السلام نے تو سوکھی ہڈیوں، لکڑیوں، پتھروں کو نہ صرف جان دی بلکہ ساتھ زبان بھی دی اور ایمان بھی عطا کر دیا
لبِ زلال چشمۂ میں گندھے ہیں وقت خمیر
مردے زندہ کرنا اے جان جاں رم کو کیا دشوار ہے
حضور علیہ السلام کی ایک صحابیہ کے بیٹے کا انتقال ہو گیا حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے بیٹھے بیٹھے اس نے دعا کی تو اس کا مردہ بیٹا زندہ ہو گیا۔
(دلائل النبوۃ ج ۳ ص ۲۲۴)
غوث اعظم نے ایک عیسائی کے کہنے پر بوسیدہ قبر سے مردہ زندہ فرما دیا۔ (تفریح الخاطر) غوث نے مرغی
کھا کر ہڈیاں اکٹھی فرمائیں اور فرمایا
قومی باذن اللہ الذی یحی العظام وھی رمیم۔
اُٹھ کھڑی ہو اللہ کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمانے والا ہے۔
مرغی زندی ہو کر کُڑ کُڑ کرنے لگی۔ (نفحات الانس ص ۳۳۳ فتاویٰ حدیثیہ ص ۸۱، مدارج النبوۃ) اسی طرح غوث پاک کی دعا سے بڑھیا کا بیڑا (دولہا و بارات سمیت) زندہ و سلامت دریا سے بارہ سال بعد نکلا اور کرامت کو دیکھ کر کئی بت پرست مسلمان ہو گئے۔
(شریف التواریخ، تکملہ روض الریاحین، تاریخ شاہان اسلام، خلاصۃ القادریہ)
اس واقعہ پہ منکرین کرامت غوث اعظم بڑے سیخ پایا ہو جاتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ یہ کرامت اور کرامت میں طاقت خدا کی ہوتی ہے ہاتھ ولی اللہ کا ہوتا ہے جیسے معجزے میں ہاتھ نبی کا ہوتا ہے اور طاقت خدا کی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بلانے پر مردہ پرندے زندہ ہو گئے حضرت عزیرعلیہ السلام سو سال کے بعد زندہ ہوئے اور آپ کی دعا سے آپ کا گدھا بھی زندہ ہو گیا۔ بنی اسرائیل کا مقتول مذبوحہ گائے کے گوشت کا ٹکڑا لگنے سے زندہ ہو گیا۔ سورۂ بقرہ میں ہے ایک بستی کے سارے لوگ (موتو اثم احیاھم) مرنے کے کچھ عرصہ بعد زندہ ہو گئے اور ان کی اولادیں بھی ہوئیں (روح البیان ص ۲۰۶) تو غوث پاک کی دعا کے وقت بھی وہ اللہ ہر شے پر قادر تھا کیا یہ عزت اللہ غوث پاک کو نہیں دے سکتا۔ ؎
یہ شان ہے خدمت گاروں کی سرکار کا عالم کیا ہو گا
اس کی پیاری فصاحت پہ بے حد درود
اس کی دل کش بلاغت پہ لاکھوں سلام
داڑھی مبارک:
اللہ کےمحبوب علیہ السلام ضلیع الفم اور کث اللحیۃ تھے یعنی فراخ منہ اور گھنی داڑھی والے تھے۔ آپ داڑھی مبارک میں تیل بھی لگاتے اور کنگھی بھی فرماتے۔ کبھی خضاب لگانے کی ضرورت نہ ہوتی کہ سر مبارک اور داڑھی مبارک میں بیس سے زیادہ سفید بال نہ تھے۔
(مسلم شریف ج ۲ ص ۲۵۸، شمائل ترمذی، نشر الطیب، ۱۵۹، زرقانی علی المواہب، ۲۰۷)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی داڑھی مبارک کے دو بال مبارک حاصل کر لیے گھر گئے تو ساری رات تلاوت قرآن کی آوازیں آتی رہیں صبح حضور علیہ السلام کی خدمت میں رات کا ماجرا عرض کیا تو سرکار نے فرمایا
اما علمت یا ابا بکران الملائکۃ یجتمعون علی شعری و یقرأ القران۔
(جامع المعجزات فی سیر خیر البرکات ص ۴۴)
اے ابو بکر! کیا تو جانتا نہیں کہ فرشتے جمع ہو کر میرے بالوں پہ تلاوت قرآن کر رہے تھے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے اپنے والد ماجد شاہ عبد الرحیم علیہ الرحمۃ کے حالات میں بڑا ایمان افروز واقعہ لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک باران کو بخار ہوا اور لمبا ہو گیا ایک دن اونگھ آئی تو شیخ عبد العزیز ظاہر ہوئے اور فرمایا اے فرزند! حضرت پیغمبر اسلام تیری عیادت کو تشریف لا رہے ہیں اور شاید اس طرف سے تشریف لائیں۔ اور اسی طرف تیرے پاؤں ہیں لہذا چار پائی اس طرح چار پائی اس طرح بچھائی کہ تیرے پاؤں دوسری طرف ہو جائیں چنانچہ شاہ عبد الرحیم بیدار ہوئے تو حاضرین کو فرمایا چار پائی کا رُخ تبدیل کردو اسی اثنا میں حضور علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کیف حالک یا بنی؟ اے بیٹے! تیرا کیا حال ہے۔ اس کلام کی شیرینی مجھ پر ایسی غالب آئی کہ ایک عجیب قسم کا وجد اور بکا اور اضطراب مجھ پر ظاہر ہوا۔ آں حضرت نے مجھے اس طرح گود میں لیا کہ آپ کی ریش مبارک میرے سر پر تھی اور آپ قمیص مبارک میرے اشکوں سے تر تھی، آہستہ آہستہ اس وجد نے تسکین پائی اس وقت میرے دل میں آیا کہ مدتوں سے موئے مبارک کی آرزو ہے اگر سرکار کرم فرما دیں تو زہے نصیب۔ حضور علیہ السلام میرے خیال پر مطلع ہوئے اور ریش مبارک پہ ہاتھ پھیر کر دو بال عطا فرمائے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ کاش کہ مدتوں سے موئے مبارک کی آرزو ہے اگر سرکار کرم فرما دیں تو زہے نصیب۔ حضور علیہ السلام میرے خیال پر مطلع ہوئے اور ریش مبارک پہ ہاتھ پھیر کر دو بال عطا فرمائے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ کاش یہ بال بیداری میں بھی باقی رہیں، حضور علیہ السلام اس خیال پر بھی مطلع ہوئے اور فرمایا یہ بال عالم شہادت میں بھی تمہارے پاس رہیں گے اور صحت کلّی اور درازگئ عمر کی بشارت دی۔ میں بیدار ہوا چراغ طلب کیا، بال مبارک نہ پا کر غم ناک ہوا سرکار کی طرف متوجہ ہوا، ایک غیب سی آواز واقع ہوئی آں حضرت ﷺ مشتمل ہوئے اور فرمایا اے فرزند! ہم نے بالوں کو اصنیائی تکیے کے نیچے رکھ دیا تھا، وہاں سے لے لے۔ میں نے بال لیے اور ان کو بڑی تعظیم سے رکھا۔
ان بالوں کے خواص میں ایک یہ ہے کہ اوّلا آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں جب درود شریف پڑھا جاتا ہے تو دونوں الگ الگ اور سیدھے ہو جاتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ تین منکروں نے امتحان لینا چاہا میں اس بے ادبی پر راضی نہ ہوا مگر جب مناظرہ طول پکڑ گیا تو وہ عزیز بغرض امتحان ان بالوں کو دھوپ میں لے گئے فوراً بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا اور اس نے بالوں پہ سایہ کر دیا حالانکہ دھوپ بہت تھی اور بادل کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ دوسرے نے کہا یہ اتفاقی ہے پھر کرتے ہیں چنانچہ اس بار ایسا ہی ہوا اور تین مرتبہ ہی بادل آجاتا، وہ تینوں تائب ہو گئے۔
تیسرا یہ کہ ایک مرتبہ بہت لوگ زیارت کو جمع ہوئے میں نے بڑی کوشش کی مگر تالا نہ کھلا میں اپنے دل کی طرف متوجہ ہوا تو معلوم ہوا کہ فلاں آدمی جنبی ہے اس لیے تالا نہیں کھلتا میں نے عیب پوشی کی سب کو تجدید طہارت کا حکم دیا، جب وہ جنبی مجمع سے گیا تو فوراً تالا کھل گیا اور ہم سب نے زیارت کی۔ آخر میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ والد صاحب نے آخری عمر میں تبرکات کو تقسیم فرمایا تو ان میں سے ایک بال مجھے بھی عطا فرمایا ( انفاس العارفین ص ۴۱) اس واقعہ میں موجودہ دور کے نام نہاد محبین خاندانِ ولی اللہی کے لیے عبرت کا بہت سامان موجود ہے مگر ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
ریش خوش معتدل مرہم ریشِ دل ہالۂ ماہِ ندرت پہ لاکھوں سلام
داڑھی رکھنا تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت مبارکہ ہے اور ہمارے آقا علیہ السلام کی سنت دائمہ ہے حضور علیہ السلام کے بعد خلفائے راشدین، جمیع صحابہ کرام ائمہ عظام، اہل بیت اطہار اولیاء کرام، علماء عظام، مشائخ کبار کا اس پر دوامی و استمراری عمل رہا اور کسی نے اس کا خلاف نہ کیا۔ صحابہ کرام کے عمل نے ایک مٹھی بھر داڑھی رکھنا متعین فرمایا بعض نادان تو یہود و نصاریٰ کی اتباع میں بالکل داڑھی کا صفایا کر دیتے ہیں اور بعض برائے نام رکھتے ہیں اور بعض یوں بھی کہہ دیتے ہیں کہ کیا داڑھی میں اسلام ہے؟ اور بعض اس سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ داڑھی تو سکھوں کی بھی ہے (العیاذ باللہ) یہ باتیں کرنے والے غیر مسلم نہیں مسلمان ہی کہلاتے ہیں کہ ان کو سکھوں کی داڑھی تو نظر آئی مگر اللہ کے محبوب کی نظر نہ آئی، اللہ تعالیٰ ان سب بھٹکے ہوئے اور سنت رسول کی اہمیت نہ سمجھنے والے مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور اسلام میں پورا پورا داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الکریم۔
داڑھی کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے اور بے شمار احادیث مبارک میں بھی ہے۔ اگرچہ داڑھی میں اسلام نہیں مگر اسلام میں داڑھی ضرور ہے اس طرح تو بندہ پھرنماز روزہ سارا کچھ چھوڑ دے گا کہ کیا اسلام سارا نما ز میں ہے؟ کیا روزے میں ہے لہذا کچھ بھی نہ کرو اور مادر پدر آزاد ہو جاؤ۔ جیسے بندہ اپنی کلائی پر شیر کی تصویر بنوانے گیا جب بنانے والے نے سوئی چبھوئی تو درد ہوا اور کہنے لگا یہ کیا بنا رہے ہو؟ اس نے کہا شیر کی دم، تو بولا کہ دم کٹے بھی تو شیر ہوتے ہیں ، دم رہنے دے باقی شیربنا، اس نے پھر سوئی چبھوئی تو پھر درد ہوا، ارے اب کیا بنا رہے ہو؟ اس نے کہا اب ٹانگ، تو کہتا ہے کیا لنگڑے شیر نہیں ہوتے؟ ٹانگ رہنے دے اسی طرح بار بار ہوتا رہا تو بنانے والے نے کہا، جا پاگل خانے داخل ہو جا، ایسا بھی کوئی شیر ہے جس کی دم نہ ہو نہ ٹانگیں نہ پیٹ نہ سر، مگر ہو شیر۔ تو کیا ایسا بھی مسلمان ہو سکتا ہے جو نہ فرائض کی پراوہ کرے نہ عبادات کی اور نہ اوامر و نواہی کی مگر ہو پکا مسلمان ؎
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی مرزا بھی ہوا افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
حضور علیہ السلام داڑھی مبارک کو خوبصورت بنا کر رکھتے حدیث میں ہے
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یاخذ من لحیۃ من عرضھا وطولھا۔
(ترمذی۔ مشکوۃ ص ۳۸۱)
آپ ﷺ اپنی داڑھی مبارک کو طول و عرض سے درست فرماتے (کاٹتے)۔
بعض لوگ داڑھی کو اسی طرح بے احتیاطی سے رکھتے ہیں اور اتنی لمبی کر دیتے ہیں کہ دیکھنے والا کراہت کرتا ہے اس طرز عمل سے لوگ داڑھی رکھنے کی بجائے خدا نخواستہ مذاق اڑانا شروع کر دیں گے اور حضور علیہ السلام نے بھی ارشاد فرمایا
من کان لہ شعر فلیکرمہ۔(رواہ ابو داؤد۔ مشکوۃ ص ۳۸۲)
جس کے بال ہوں وہ ان کی عزت کرے۔
داڑھی کو کنگھی کرنا (ہر وضو کے بعد) اس سے محتاجی دور ہوتی ہے۔
(کنور الحقائق علی جامع صغیر ج ۱۰ ص ۱۰۵)
- جس نے ہر رات کو سر اور داڑھی میں کنگھی کی اس کی عمر دراز ہو گی اور کئی بیماریوں سے بچ جائے گا۔ (الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۳۸)
- داڑھی مردوں کی زینت اور ان کے چہرے کا جمال ہے۔ (الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۳۹)
- طب یونانی کی رو سے داڑھی مرد کی زینت اور اس کے سینہ و گردن کی محافظ ہے۔
داڑھی پر بار بار استرا پھیرنے سے آنکھوں کی رگوں پر اثر پڑتا ہے اور نظر کمزور ہو جاتی ہے
- ایک ڈاکٹر کہتا ہے اگر سات نسلوں تک داڑھی منڈائی جائے تو آٹھویں نسل بے داڑھی کے پیدا ہو گی یا آٹھویں نسل میں قوت مردمی بھی مفتود ہو جائے گی۔
امریکی ڈاکٹر چارلس ہو مرنے ایک مضمون میں لکھا، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر لوگوں کو داڑھی سے کیوں لرزہ چڑھتا ہے آخر لوگ سر پر بھی تو بال رکھتے ہیں تو پھر چہرے پر رکھنا کیا عیب ہے۔ کسی کے سر کے بال اڑ جائیں تو اس گنج کو چھپاتا پھرتا ہے اس کے اظہار سے شرماتا ہے لیکن عجیب تماشا ہے کہ اپنے پورے چہرے کو گنجا کر لیتا ہے اور ذرا نہیں شرماتا جو کہ مرد ہونے کی سب سے زیادہ واضح علامت ہے اور داڑھی رکھنے سے واقعی انسان میں سچ بولنے کا مردانہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔
(نوائے وقت لاہور ۴، ۲۶، ۱۹۸۳، رضائے مصطفیٰ گوجرانوالہ اگست ۸۳ء)
بعض لوگ بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ داڑھی رکھ کر ایسے کام کرنے سے تو بہتر ہے نہ رکھے ان عقل کے اندھوں سے بندہ کہے کہ پھر داڑھی کے آگے تو ایمان اسلام اور کلمہ ہے تو کہو گے کلمہ پڑھ کے ایسے ویسے کام کرنے سے تو بہتر ہے بندہ کافر ہی رہے (معاذ اللہ)
حضور علیہ السلام نےفرمایا
من تمسک بستنی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شھید۔ (مشکوۃ ص ۳۰)
جو شخص فساد (جب سنت مٹائی جا رہی ہو) کے وقت میری سنت پر قائم رہے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
اے میرے بھائی ذرا داڑھی منڈانا چھوڑ دے
شرم کر بہر خدا داڑھی منڈانا چھوڑ دے
ہیں بظاہر بال لیکن نور ہے اسلام کا
شکل نورانی بنا داڑھی منڈانا چھوڑ دے
شکل سے بے زار ہیں تیری خدا و مصطفیٰ
ان کو راضی کر ذرا داڑھی منڈانا چھوڑ دے
اپنی چوٹی بھی کسی ہندو نے کاٹی ہے بتا
تو نے کیوں ایسا کیا داڑھی منڈانا چھوڑ دے
آل و اصحاب نبی نے بھی کبھی ایسا کیا
تو ہے کیوں ان سے جُدا داڑھی منڈانا چھوڑ دے
داڑھی کترانا، مونڈانا، مونڈنا سب ہے گناہ
مان حکمِ مصطفیٰ داڑھی منڈانا چھوڑ دے
فرض ہے بھائی پہ بھائی کو دے راہ حق بنا
اس لیے میں نے کہا داڑھی منڈانا چھوڑ دے
ہو جمیل قادری کی التجا یا رب قبول
امت خیر الوریٰ داڑھی منڈانا چھوڑ دے
خط کی گردِ دہن وہ دل کی آرا پھبن
سبزۂ نہر رحمت پہ لاکھوں سلام
- ہر کوئی دوست کی نشانی سنبھال کے رکھتا ہے، جب کہ اے مسلمان! تو نبی کی سنت منڈا کے پھینک دیتا ہے پھر کہتا ہے “صدقے یا رسول اللہ” اور “غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے” ایسے نالائق غلام کو رسول اللہ نے کیا کرنا ہے جو ان سنت کے چند بالوں کا بوجھ تو نہ اُٹھا سکے اور “موت بھی قبول ہے” کی بات کرے۔ اس دعویٰ میں یہ کہاں تک سچا ہے اس کا اندازہ خود ہی لگا لے۔ ایک گروہ کہتا ہے “جانے یا علی” تو دوسرا کہتا ہے “جانے یا نبی” نہ وہ عمل کرنے کی تکلیف کرتا ہے اور نہ تجھے اس کی توفیق ملی۔
آپ نے فرمایا:
جعل الذل والصغار علی من خالف امری۔
جس نے میرے طریقے کی مخالفت کی ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہوگئی۔
- ایک مجوسی حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا جس کی داڑھی منڈی ہوئی تھی اور مونچھیں بڑی بڑی تھیں۔ آپ نے فرمایا ما امرک بھذا۔ یہ شکل بنانے کا تجھے کس نے حکم دیا؟ اس نے کہا ربی میرے رب یعنی بادشاہ نے۔ آپ نے فرمایا لکن ربی امرنی ان احفی شا ربی واعفی لحیتی۔ لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے کا اور مونچھیں پست کرانے کا حکم دیا ہے۔ (طبقات ابن سعد)
گردن مبارک:
حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی گردن مبارک نہایت خوبصورت اعتدال کے ساتھ طویل اور چاند کی طرح سفید اور حسین تھی۔ شمائل ترمذی اور خصائص کبری ج ۱ص ۷۵ پہ ہے۔
کان عنقہ ابریق فضۃ
گویا کہ آپ کی گردن مبارک چاندی کی صراحی تھی۔
خود سروں کی تنی گردنیں جھک گئیں
سرکشوں کی اُٹھی گردنیں جھک گئیں
تھیں جو اُونچی وہی گردنیں جھک گئیں
جس کے آگے کھچی گردنیں جھک گئیں
اس خدا داد شوکت پہ لاکھوں سلام
کندھے مبارک:
- آپ کے مبارک کاندھے بڑی عجیب شان رکھتے تھے، بہت ہی خوبصورت۔ ابن سبع اور رزین نے آپ ﷺ کے خصائص میں بیان فرمایا
انہ کان اذا جلس یکون کتفہ اعلی من جمیع المجالسین
جب حضور علیہ السلام لوگوں میں بیٹھتے تو آپ کے کندھے سب سے اونچے ہوتے۔
(جواہر البحار ص ۹۶۷، زرقانی علی المواہب ج ۴ ص ۲۰۰)
- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
فکانما سبیکۃ فضۃ۔ (ترمذی۔بہیقی)
یوں لگتا کہ گویا (آپ کندے جب کبھی ننگے ہوئے) جیسے چاندی کے ڈھلے ہوئے ہیں۔
- حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے
بعید ما بین نکبیہ۔ (شفا ص ۱۵۶)
دونوں کندھوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا۔
- ایک دن دن ابو جہل حضور علیہ السلام کوپتھر مارنے کے ارادے سے آیا تو اس نے عجیب منظر دیکھا
رای علی کتفیہ ثعبانین فانصرف مرعوبا۔
اس مردود نے اللہ کے محبوب کے کندھوں پر دو بڑے بڑے اژدھا دیکھے اور مارے ڈر کے بھاگ گیا۔ (تفسیر کبیر، زرقانی ج ۵ ص ۱۹۵، احیاء القلوب ص ۱۰۲)
جھک گیا جب کے آگے نشانِ شرف
آستاں بوس جن کا جہانِ شرف
صدقے جب کے شرف پر ہے جانِ شرف
دوش بر دوش جن سے نشانِ شرف
ایسے شانوں کی شوکت پہ لاکھوں سلام
- فتح مکہ کے دن حضور علیہ السلام نے حضرت علی المرتضیٰ کو اپنے کندھوں پہ چڑھایا تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میری قوت و بلندی کا عالم یہ ہو گیا
انی لو شئت نلت افق السماء۔ (المستدراک۔ خصائص ج ۱ ص ۲۶۴(
اگر میں چاہتا تو آسمان کے کنارے تک پہنچ جاتا
- شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے اس وقعہ کو کچھ اس طرح بیان فرمایا کہ حضور علیہ السلام نے کعبے کے اندر سے بت اتارنے کے لئے حضرت علی المرتضیٰ کو طلب فرمایا،
حضرت علی رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا علی! نیچے والے بتوں کو تو میں نے اتار کر پھینک دیا ہے اب اوپر والے توڑنے ہیں۔ عرض کیا حضور! ان کو بھی توڑ دیں فرمایا وہ اونچے ہیں وہاں تک میرا ہاتھ نہیں پہنچتا، حضرت علی نے عرض کیا حضور میں اس فلسفہ کو نہیں سمجھا کہ چاند کو زمین پہ کھڑے ہو کر انگللی کے اشارے سے توڑ دیا تھا اور اب فرماتے ہیں ہاتھ نہیں پہنچ رہا، پھر ایسا کریں کہ میرے کندھوں پہ تشریف فرما ہو کر اتار دیں۔ فرمایا اے علی! تم نے ٹھیک کہا مگر نبوت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکو گے۔ یا رسول اللہ! پھر کیا کیا جائے فرمایا! اے علی! تو میرے کندھوں پہ چڑھ کر بتوں کو گر ا دے حضرت علی حضور علیہ السلام کے کندھوں پہ چڑھ کر بت اتارنے لگے، حضور علیہ السلام نے پوچھا علی کہاں پہنچے ہو؟ عرض کیا حضور! اگر حکم ہو تو عرش عظیم کے پائے کو پکڑ کرنیچے لے آؤں۔ علی کندھوں پہ چڑھ کر اتنے بلند ہوگئے تو معراج والے کو آقا کی بلندی کا اندازہ کون کر سکتا ہے ؎
عرش کیا اس کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں
شب معراج جہاں پہنچے ہیں رفعت والے
الغرض بت ٹوٹ گئے نیچے اترے تو مسکرا رہے تھے، حضور علیہ السلام نے مسکرانے کا سبب پوچھا تو علی نے عرض کیا، اس لیے مسکرا رہا ہوں کہ عرش معلیٰ سے چھلانگ لگائی ہے اور کچھ بھی نہیں ہوا، سرکار نےفرمایا! ہو بھی کیسے سکتا تھا چڑھانے والا میں تھا اتارنے والا جبریل تھا۔
(مدراج النبوت ج ۲ ص ۲۸۵، البرہان ص ۲۳۵)
موڈھے پاک نبی دے بھارے
سوہنے کل اعضاء سَن سارے
طاقت بہت ہے سرکارے
صلی اللہ علیہ وسلم
پشت مبارک:
- حضرت محرش کعبی فرماتے ہیں کہ میں حضور علیہ السلام کو جعرانہ (میقات) سے عمرہ کا احرام باندھتے رات کے وقت دیکھا۔
فنظرت الی ظھرہ کان سبیکۃ فضۃ۔
میری نظر آپ کی پشت مبارک پہ پڑی تو وہ ایسی تھی جیسے چاندی کی ڈلی ہوتی ہے۔
(خصائص ج ۱ص۷۳، زرقانی ج ۴ص۱۸۸)
روئے آئینہ عِلم پشت حضور
پشتئ قصر ملت پہ لاکھوں سلام
- ایک مرتبہ مکہ میں شدید قحط پڑ گیا مکہ مل کر جناب ابو طالب کے پاس آئے کہ نکلو خدا سے بارش مانگیں۔ حضرت جلہمہ بن عرفطہ فرماتے ہیں میں ان دنوں مکہ میں تھا (ان دنوں حضور علیہ السلام ابو طالب کی زیر کفالت تھے)
پس ابو طالب نکلے اور ان کے ساتھ ایسا نورانی بچہ تھا، گویا آفتاب ہو جو کالے بادلوں سے نکلے، اس بچے کے اردگرد چند بچے اور بھی تھے، بیت اللہ شریف پہنچ کر ابو طالب نے بچے کی پشت دیوار کعبہ کے ساتھ لگادی، اس نورانی بچے نے اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا حالانکہ اس وقت آسمان پہ بادل کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
فاقبل السحاب من ھھنا وھاھنا وانفجرلہ الوادی و اخصب البادی والنادی۔
(اشارہ کرنے کی دیر تھی) ادھر سے بھی بادل آگیا اُدھر سے بھی، اور اتنا برسا کہ جنگل بھر گئے اور شہری و دیہاتی خواب سیراب ہو ئے (اور قحط دور ہو گیا)۔
ابو طالب نے اپنے اشعار میں اسی طرف اشارہ کیا ہے
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمال الیتٰمیٰ عصمۃ للارامل
یلو ذبہ الھلاک من ال ھاشم
فھم عندہ فی نعمۃ وفو اضل
وہ گورے رنگ والے کہ ان کے چہرۂ انور کے صدقے بادل کا پانی مانگا جاتا ہے، یتیموں کی جائے پناہ اور بیواؤں کے نگہبان ہیں۔
بنی ہاشم جیسے غیور لوگ ہلاکت و تباہی کے وقت اسی سے التجا و فریاد کرتے ہیں اور آپ کے پاس آکر عظیم نعمتیں اور برکتیں پاتے ہیں۔
(ابن عساکر، زرقانی ج ۱ ص ۱۹۵، خصائص الکبریٰ ج ۱ص ۸۶)
- راہنمائے سفر حجاز ص ۹۱ پہ ہے کہ مکہ سے چھ میل کے فاصلہ پر منیٰ میں مسجد خیف کے نزدیک اوپر گھاٹی پر مسجد صعب واقع ہے۔ اس میں ایک غار ہے جس کے تعلق بیان کیا جاتا ہے کہ جب حضور علیہ السلام اس غار میں جلوہ افروز ہوئے تو آپ کا سر اور پشت مبارک غار کے پتھر سے مس ہوا تو پتھر موم ہو گیا اور پشت اور سرکا نشان اس پتھر پر لگ گیا۔ اس غار کو غار مر سلات کہتے ہیں کیوں کہ سورۂ مرسلات (پ۲۹) اسی غار میں نازل ہوئی۔
پشت مبارک تاج رسولاں
پشت پناہ ہے سب مقبولاں
تکیہ گاہ ہے اساں ملولاں
صلی اللہ علیہ وسلم
سوہن کنڈ عجیبہ آہی
امت کارن پشت پناہی
دتی اللہ نور صفائی
صلی اللہ علیہ وسلم
مہر نبوت:
فتح باب نبوت پہ بے حد درود
ختم دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام
حجرِ اسود و کعبۂ جان و دل
یعنی مہر نبوت پہ لاکھوں سلام
حضور علیہ السلام کی مہر نبوت کے متعلق جمہور کا اتفاق ہے اور کسی نے بھی مہر نبوت کا انکار نہ کیا اختلاف صرف مقام تعین و ہیئت و جسامت میں ہے۔
- حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں ہر نبی کو اللہ نے دائیں ہاتھ میں مہر نبوت عطا کر مگر ہمارے آقا علیہ السلام کی مہر نبوت دو کندھوں کے درمیان تھی
فان شامۃ النبوۃ کانت بین کتفیہ۔(حاکم، خصائص کبریٰ ج ۱ ص ۶۱)
- شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ مہر نبوت دونوں کندھوں کے عین وسط میں ابھری ہوئی صاف اور نورانی دکھائی دیتی تھی۔ (البرہان ص ۲۴۰)
- حضرت جابر فرماتے ہیں
رایت الخاتم عند کتفہ مثل بیضۃ الحمامۃ یشبہ جسدہ۔
میں نے آپ کی مہر نبوت کندھے کے پاس دیکھی جو کبوتری کے انڈے کی طرح تھی اور آپ کے جسم کے ساتھ رنگت میں مشابہ تھی۔ (مسلم شریف ج ۲ ص ۲۵۹)
حضرت سائب بن یزید نے چکور کے انڈے کی مثل بتائی۔ (خصائص ص ۱۵۲)
مونڈھیاں اندر مہر نبوت
اللہ دتی بہت ہی قوت
عالی ہمت بھاری برکت
صلی اللہ علیہ وسلم
- حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مہر نبوت گوشت کے ٹکڑے کی مانند تھی جس پہ قدرتی طور پر محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔
(ابن عسا کر، حاکم، خصائص کبریٰ)
- حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ فرماتے ہیں کہ دونوں شانوں کے درمیان ماہِ کامل کی مانند ایک دائرہ تھا جس میں نورانی حروف کے ساتھ دو سطروں میں یوں لکھا تھا۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ (نشر الطیب، خصائص الکبریٰ)
انڈے وانگوں صورت آہی
بہت کتاباں دین گواہی
وچ کلمہ لکھیا قلم الہی
صلی اللہ علیہ وسلم
- حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آپ کی مہر نبوت کو آپ کے خاتم النبیین ہونے کی علامت قرار دیا۔ (شمائل ترمذی، نشر الطیب ۱۵۷)
یہ مہر نبوت سے ہوتا ہے ثابت
ہے ختم رسل تاجدارِ مدینہ
یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب علیہ السلام پر نبوت کا دروازہ بند فرما دیا۔
اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہ آسکے گا۔ جو دعویٰ کرے گا کذاب و دجال ہو گا چاہے وہ مرزا قادیانی انگریزی کی بلی ہو یا کوئی شیخ چلی ہو، جب خلفائے راشدین میں سے کوئی نہیں ہو سکتا تو اور کون دعوئٰ نبوت کر سکتا ہے ؎
خدا یکتا الوہیت میں تو یکتا رسالت میں
کسی کو اب نبی ہونے کا دعویٰ ہو نہیں سکتا
شفاعت کا جو طالب ہو تو کہہ دو دار پر چڑھ کر
پیغمبر مصطفیٰ کے بعد کوئی ہو نہیں سکتا
بغل مبارک:
- آپ ﷺ کی مبارک بغلیں نہایت پاکیزہ، صاف اور خوشبودار تھیں، بغلوں کا رنگ متغیر نہیں ہوتا تھا اور آپ کی بغلوں میں بال بھی نہ تھے۔
(زرقانی علی المواہب ج ۱ص ۱۸۶، خصائص کبریٰ ج ۱ ص ۶۲)
- حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرفع یدیہ فی الدعاء حتی یری بیاض ابطیہ۔
(بخاری ج ۲ ص ۹۲۸)
میں نے (نماز استفقاء میں) حضور علیہ السلام کو دعا کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے ہاتھ اتنے بلند فرمائے کہ مجھے بغلوں کی سفیدی نظر آگئی۔
- حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا سجد یُریٰ بیاض ابطیہ۔
(طبقات ابن سعد، خصائص کبریٰ ۶۳)
حضور علیہ السلام جب سجدہ کرتے تو آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آتی۔
رنگ سفید تے نور اجالا
جو ویکھے ہووے متوالا
ویکھو قدرت حق تعالیٰ
صلی اللہ علیہ وسلم
- دارمی نے بنی حریش کے ایک ثقہ سے روایت کی ہے کہ جب ماعزبن مالک اسلمی کو حضور علیہ السلام نے اقرار بالزنا پر سنگسار کرنے کا حکم دیا اور ان کے بدن پر پتھر برسائے گئے تو مجھ میں کھڑا رہنے کی ہمت نہ رہی قریب تھا کہ میں گر پڑتا۔
فضمنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فسال علی من عرق ابطیہ ریح المسک۔
مجھے حضور علیہ السلام نے اپنے ساتھ چمٹا لیا، آپ کی بغلوں سے پسینہ مجھ پر ٹپک رہا تھا جس سے کستوری کی سی خوشبو آرہی تھی۔
(انوار محمدیہ ص ۲۷۴، زرقانی ج ۴ ص ۱۸۷)
بغلاں چٹیاں چمک نرالی
خوشبو عطروں ودھ کمالی
بخشی رب نے ہمت عالی
صلی اللہ علیہ وسلم
بغلوں حضرت دی خوشبوئی
زیادہ کستوری تھیں ہوئی
چودیں طبقیں لگی لوئی
صلی اللہ علیہ وسلم
آپ کی بغلوں کا رنگ جسم کےرنگ سے مختلف تھا۔ (زیادہ چمک دار اور نوارانی)
(خصائص ج ۱ ص ۱۵۹)
دست و بازو:
جس کو بار دو عالم کی پرواہ نہیں
ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام
کعبۂ دین و ایماں کے دونوں ستون
ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام
ہاتھ جس سمت اُٹھا غنی کر دیا
موج بحرِ سماعت پہ لاکھوں سلام
جس کے ہر خط میں ہے موج بحرِ کرم
اس کف بحر ہمّت پہ لاکھوں سلام
نور کے چشمے لہرائیں دریا بہیں
انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام
عید مشکل کشائی کے چمکے ہِلال
ناخنوں کی بشارت پہ لاکھوں سلام
- آپ ﷺ کے کف و دست اور بازوئے مبارک پُر گوشت تھے، ریشم سے بڑھ کر نرم اور بے حد خوشبودار تھے، جس بچے کے سر پر آپ ہاتھ پھیرتے وہ خوشبو میں دوسرے بچوں سے ممتاز ہو جاتا
میں ید بیضا کے صدقے اے کلیم
لیکن کہاں ان کی کف دست کا جواب
قاضی عیاض فرماتے ہیں
طویل الزندین رحب الراحۃ ششن الکفین والقدمین۔
آپ ﷺ کے بازو مبارک لمبے ہتھیلیاں چوڑی اور پُر گوشت تھی اور یہی حال پاؤں کے تلووں کا تھا۔ (الشفا ص ۱۵۶)
- حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کسی ریشم اور دیبا کو حضور علیہ السلام کے کف دست سے نرم نہیں پایا اور نہ کسی مشک و عنبر کو آپ کی خوشبو سے بڑھ کر پایا۔
(بخاری ج ۱ ص ۲۶۴، مشکوۃ ص ۵۱۶، خصائص کبری ج ۱ ص ۱۸۰)
- حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں جب حضور علیہ السلام سے مصافحہ کرتا اور میرا جسم حضور علیہ السلام کے جسم سے مس ہوتا تو اس کے بعد میرے ہاتھ سے کستوری سے زیادہ خوشبو آتی۔(بہیقی، ابن عساکر، زرقانی ج ۴ ص ۱۸۳)
سلام اندر جنہوں پنجہ پھڑاون
سدا اسدے ہتھوں خوشبویاں آون
- حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں نماز ظہر ادا کی جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے تو میں آپ کے ساتھ تھا، بچے آپ کے سامنے آئے تو آپ نے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دست اقدس پھیرا، میرے رخسار پہ بھی آپ نے ہاتھ پھیرا۔
فوجدت لیدہ برداہ ریحا کانما اخرجھا من جوفۃ عطار۔
دست اقدس سے میں نے ایسی ٹھنڈک اور خوشبو پائی گویا کہ عطار کے صندوقچہ سے ابھی نکالا ہو۔ (مسلم شریف ج ۲ ص ۲۵۶)
حضرات صحابہ کبار کا طریقہ کار یہ تھا کہ حضرت حجیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نماز پڑھ کر تشریف لائے تو
فجعل الناس یا خذون یدیہ فیمسون بھا و جوھھم قال فاخذت بیدہٖ فوضعتھا علی وجھی فاذا ھی ابرد من الثلج واطیب من المسک۔(بخاری شریف)
لوگ حضورعلیہ السلام کے ہاتھوں کو پکڑ کر چہرے پر ملنے لگے میں نے بھی آپ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر چہرے پہ رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھا۔
کفِ دست رحمت میں ہے سارا جہاں زمیں آپ کی آسمان آپ کا ہے
- انہی مبارک ہاتھوں میں اللہ نے ساری کائنات زمین و آسماں۔ مکان و لامکاں۔ دنیا و آخرت کے خزانے دے دیے، سرکار نے خود فرمایا
انی اعطیت مفاتیح خزائن الارض او مفاتیح الارض۔
(بخاری ج ۲ ص ۵۵۸، مسلم ص ۲۵۰)
اور ایک مقام پہ یوں فرمایا
اذا اوتیت خزائن الارض فوضع فی یدی۔
(مسلم ج ۲ ص ۲۴۴، بخاری ج ۲ ص ۱۰۴۲)
میرے ہاتھوں میں زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں دے دی گئیں۔
ہر نعمت زمین سے ہی نکلتی ہے اور کسی کو چابی دینے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ تجھے مالک و مختار بنا دیا گیا، جس کو جتنا چاہو دے دو ؎
کنجیاں تمہیں دیں اپنے خزانوں کی خدا نے
محبوب کیا، مالک و مختار بنایا
بلکہ فرمایا اوتیت مفاتیح کل شئی۔ (طبرانی، خصائص الکبری ج ا ص ۱۹۵)
اعطیت الکنزین الاحمر والابیض۔ (مسلم شریف۔ مشکوۃ ص ۵۱۲)
- ہر شے کی کنجی مجھے دے دی گئی، سُرخ و سفید سارے خزانے مجھے عطا کر دیے گئے، اور ہاں ہاں اور سنو فرمایا قیامت کے دن جب ہر طرف سے لوگ نا امید و مایوس ہو جائیں گے۔
والمفاتیح یومئذ بیدی ولواء الحمد یومئذ بیدی۔
(عزت و کرامت) اور چابیاں اور لواء الحمدم بھی میرے ہی ہاتھ میں ہوگا (یعنی قیامت کی سرداری بھی اپنی ہے)۔ (داری۔ مشکوۃ ص ۵۱۴)
خالق کل نے آپ کو مالک کل بنا دیا
دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضہ و اختیار میں
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سےبے مثال حکومت مانگی تو ان کو صرف دنیا کی حکومت عطافرمائی گئی یعنی صرف فرش پر۔ اور ہمارے آقا کو عرش و فرش، زمین و آسمان، دنیا و آخرت کی سرداری و حکومت دی گئی۔ آپ نے فرمایا میرے دو وزیر آسمانوں پہ ہیں اور دو وزیر زمین پہ۔ اور وزیر اسی کے ہوتے ہیں جو بادشاہ ہو اور جس کی حکومت ہو۔ اور جہاں پر حکومت ہو۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں حضور علیہ السلام کی ولادت کے وقت کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا۔
بخ بخ قبض محمد صلی اللہ علیہ وسلم علی الدنیا کلھا لم یبق خلق من اھلھا الا دخل فی قبضۃ۔
واہ واہ محمد ﷺ نے تو ساری دنیا پر قبضہ کر لیا۔ کوئی مخلوق (زمینی و آسمانی) ایسی نہیں جو آپ کے قبضہ میں نہ آئی ہو۔ (خصائص کبری ج ۱ ص ۴۸)
اور جواہر البحار میں ہے۔
وجبریل خُلق لخدمۃ النبی علیہ السلام۔(ج ۱ ص ۶۵۴)
کہ فرشتوں کے سردار جبریل علیہ السلام کو بھی حضور علیہ السلام کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا۔
اسی لیے تو شب معراج سرکار کے قدموں میں جبریل نے اپنا نوری چہرہ رکھا اور حکم ہوا
یا جبریل قنّل قدمیۃ۔(ریاض الناصحین ص ۳۰)
اے جبریل! ان قدموں کو بار بار چوم۔
فلک سے اونچا ایوان محمد کا
جبریل معظم ہے دربان محمد کا (ﷺ)
یہی وجہ ہے کہ جنت کی ہر شے پر سرکار کا نام لکھا ہوا ملتا ہے۔
- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم حضور علیہ السلام کے پاس بیٹھتے تھے کہ ایک پرندہ جس کے منہ میں سبز رنگ کا ایک موتی تھا جو اس نے حضور علیہ السلام کے آگے پھینک دیا آپ نے دیکھا تو اس پر ایک سبز رنگ کا کپڑا تھا جس پر زرد رنگ سے لکھا ہوا تھا۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ)
(حجۃ اللہ علی العالمین ص ۲۱۲)
- امام نبھانی فرماتے ہیں ایک جزیرہ میں ایک درخت کے ہر پتے پر کلمے طیبہ لکھا ہوا ہے اور فرمایا بلا دِھند میں ایک ایسا ہی درخت دیکھا گیاہے جس کا پھل اخروٹ کی طرح ہے اس کو توڑا جائے تواس سے ایک سبز رنگ کا کاغذ سا نکلتا ہے جس پر سُرخ رنگ سے کلمہ طیبہ لکھا ہوتا ہے۔
وھم یتبروں کون بتلک الشجرہ ویسسقون بھا اذا منعوا الغیث۔
لوگ اس سے برکت حاصل کرتے ہیں اور اس کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگتے ہیں۔
اسی طرح مچھلی، بکری، پتھر، ہرنی پر نام محمد اور کلمہ طیبہ لکھے ہونے کے بے شمار واقعات امام نبھانی نے حجۃ اللہ علی العالمین کے ص ۲۱۰ و ص ۲۱۶ پہ لکھے ہیں اور علم الحیوانات کے ماہر نامور محقق علامہ کمال الدین دمیری علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب “حیٰوۃ الحیوان” ج ۲ ص۲۴ پر بھی کچھ واقعات لکھے ہیں۔ اس دور میں بھی اخبارات کے اندر کئی واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔
- برنا باس کی انجیل میں ہے کہ آدم علیہ السلام کے ناخنوں پہ نام خدا اور نام مصطفیٰ لکھا تھا آپ نے محبت سے ناخنوں کو چوم لیا (ص ۳۹ باب ۲۹) آپ ﷺ کے کندھوں کے درمیان خاتم النبین لکھا تھا اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی پہ کلمہ طیبہ لکھا تھا۔ (الوفاء ج ۱ ص ۴۰ خصائص کبریٰ ص ۲۰)
اللہ اللہ شہِ کونین جلالت تیری
فرش کیا عرش پہ جاری ہے حکومت تیری
- بلکہ پہلی کتابوں میں ہے کہ عرش معلیٰ پر، جنت کے دروازوں پر، جنت کی ہر شے پر حضور علیہ السلام کا نام لکھا ہوا ہے۔
(مثنوی، خصائص، حجۃ اللہ، شواہد الحق، کتاب الوفالا بن جوزی)
فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھر یرا تیرا
کیوں کہ ہر شے آپ کے قبضۂ و اختیار میں ہے اور آپ کی کنیت اسی لیے ابو القاسم ہے۔
لانہ یقسم الجنۃ بین اھلھا۔(مواہب لدنیہ ج ۱ ص ۱۰۹۵)
کیا آپ جنت کو مستحقین میں تقسیم فرماتے۔
تجھ سے بڑھ کر نہیں کونین میں ہمت والے
تو نے فردوس لٹایا ہے سخاوت والے
حضرت ربیعہ کو جنت دی (بخاری مشکوۃ ص ۴۸) اس لیے کہ ؎
خالق کل نے آپ کو مالک کل بنا دیا
دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضہ و اختیار میں
پھر ہم ؎
گنہ گاروں کو جنت سے کوئی روکے تو کیوں روکے
جو وہ جنت محمد کی تو یہ امت محمد کی (ﷺ)
- آپ نے ارشاد فرمایا کہ جبریل امین ساری دنیا کی کنجیاں ابلق گھوڑے پہ رکھ کر ریشمی چادر میں لپیٹ کر لایا۔ (زرقانی ج ۵ ص ۲۶۰، خصائص ص ۱۹۵)
- حضرت ابو ہریرہ کو حافظے کی نعمت ملتی ہے تو آپ کے درد سے (مسلم و بخاری ۱ ص ۲۲)
- آپ نے معذور و کمزور سواری کو ہاتھ لگایا تو وہ تمام سواریوں سے آگے نکل گئی۔
- حضرت حذیفہ کو آپ نے دونوں ہاتھ سینے پہ لگا کر دعا دی تو وہ فرماتے ہیں مجھے سخت سردی میں بھی ٹھنڈک محسوس نہ ہوتی (شواہد النبوۃ)
- حضرت علی کےسینہ بےکینہ پہ دست اقدس رکھا تو علم کے دریا بہنے لگے (ابن ماجہ تاریخ الخلفاء ص ۱۹۹)
شہنشاہِ زمانہ باہزاراں کُر و فر آئے
کیا دنیا پہ قبضہ مِلک میں سب خشک ہو گیا
دست اقدس کی برکات پورے واقعات کی بجائے اشارات میں لکھی جاتی ہیں ورنہ طوالت بڑھتی جائے گی۔
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں:
- آپ نے ہاتھ لگا کر ٹوٹی ہوئی پنڈلی کو ایسے جڑا کہ گویا کبھی ٹوٹی ہی نہیں۔
(بخاری ۲ ص ۵۷۷)
- حضور علیہ السلام نے دست رحمت پھیرا تو گنجاپن دور ہو گیا
(خصائص، شفا، طبقات ابن سعد)
- صحابی کی رسولی پہ دست کرم پھیرا تو رسولی غائب ہو گئی (تواریخ حبیب الہ ص ۱۴۰)
- برص کی مریضہ کو دست کرم سے شفا مل گئی (زرقانی ۵ ص ۲۰۱)
- ہاتھ لگنے سرام جاتا رہا (خصائص ۲ ص ۷۰)
- ٹوٹا ہوا ہاتھ درست ہو گیا (شواہد ص ۲۱۲)
- پاگل ہاتھ لگنے سب سے زیادہ عقل مند ہوگیا (خصائص ۲ ص ۷۱)
کس چیز کی کمی ہے مولیٰ تیری گلی میں
دنیا تیری گلی میں عقبیٰ تیری گلی میں
- حضور علیہ السلام نے دست اقدس میں کنکریاں پکڑیں تو وہ آپ کی رسالت کی گواہی دینے لگیں۔(ابو نعیم ص ۹۱)
اللہ رے ترا معجزہ جب ہاتھ میں تو نے لیا
کی سنگریزوں نے ادا تسبیح رب کاکلمہ پڑھا
- حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہما بیمار کو حضور علیہ السلام کا ہاتھ دھو کر پلا دیتیں وہ ٹھیک ہو جاتا۔ (احیاء القلوب س ۲۹)
- پورا سال پیٹ میں درد رہی سرکار کا ہاتھ لگا مرتے دم تک غائب ہو گئی (شواہد النبوۃ)
مدت کے جو بیمار تھے تیرے طفیل اچھے ہوئے
مملو ہیں تیرے فیض سے کون و مکان ارض و سما
- آپ نے سر پر ہاتھ پھیرا تو عمر سو سال ہو گئی۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ص ۵۰)
- حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے سر پر حضور علیہ السلام نے ہاتھ پھیر کر دعا دی تو اللہ نے ان کے لعاب میں شفا رکھ دی جس کے سر پر ملتے تھے تندرست ہو جاتا۔
(بخاری فی التاریخ، شفا، خصائص، زرقانی)
یہ فیض دیے وہ جود کیے کہ نام لیے زمانہ جیے
جہاں نے لیے تمارے دیے یہ اکرمیاں تمہارے لیے
- آپ نے حضرت اسید بن اباس رضی اللہ عنہ کے چہرے اور سینے پہ ہاتھ پھیرا تو وہ اندھیری کوٹھری میں داخل ہوتے تو روشن ہو جاتی۔ (ابن عساکر، کنزالعمال)
حاتمورگے لکھ سوالی
جو آون نہ جاون خالی
ایہو حضرت دی دی چالی
صلی اللہ علیہ وسلم
- صحابی کی لاٹھیاں روشن ہو گئیں (مشکوۃ ص ۵۴۴)
- کھجور کی شاخ روشن ہو گئی (شفاء خصائص)
- حضرت حمزہ بن عمر و اسلمی کی پانچوں انگلیاں روشن ہو گئیں (البدیہ والنہایہ ۵ ص ۱۹)
اللہ رے دست مقدس کا معجزہ
وابستہ جو ہوا اسے پُر نور کر دیا
- حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے لئے جلائی گئی آگ میں حضور علیہ السلام نے دست رحمت رکھا تو گلزار ہو گئی۔ (زرقانی، خصائص)
- جس رومال کو آپ نے ہاتھ لگایا تھا وہ آگ میں ڈالنے سے صاف ہو جاتا آگ اس کو جلاتی نہ تھی۔ (خصائص، دلائل النبوۃ ابو نعیم)
- ام معبد اور ایک چرواہے کی کمزور و ناتواں بکری کے تھنوں کو ہاتھ گا کر دودھ کی نہریں چلا دیں ؎
مصطفیٰ خیر الوریٰ ہو
سرورِ ہر دو سرا ہو
اپنے اچھوں کا تصدّق
ہم بدوں کو بھی نبھا ؤ
کیوں رضا مشکل سے ڈریے
جب نبی مشکل کشا ہو
- آپ نے اشارہ فرمایا تو پتھر پانی پہ تیرتا ہوا اور کلمہ پڑھتا ہوا حاضر ہو گیا (تفسیر کبیر)
- ہم سارے بھی اُٹھ جائیں تو کچھ نہیں ہوتا مگر سرکار انگلی اُٹھادیں تو چاند ٹکڑے ہو کر زمین پہ آجاتا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۶ص ۷۷)
تیری مرضی پا گیا سورج پھرا اُلٹے قدم
تیری انگلی اُٹھ گئی ماہ کا کلیجہ چر گیا
مسند امام احمد میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے ناخن کٹوائے تو اپنے صحابہ کرام میں تقسیم فرما دیے۔
سینۂ اقدس:
رفع ذکر جلالت پہ ارفع درود
شرح صدرِ صدارت پہ لاکھوں سلام
- حضور علیہ السلام کا سینۂ اطہر اور شکم اقدس ہموار و برابر تھے بلکہ سینہ اطہر شکم مبارک سے کسی قدر ابھرا ہوا اور چوڑا تھا، سینہ اقدس کے درمیان بالوں کا ایک باریک خط تھا جو ناف مبارک تک جاتا تھا، پورے سینے پر بال نہ تھے
موصول ما بین اللبۃ والسرۃ بشعر یجری کالخط عاری الثدیین ماسویٰ ذلک۔
(الشفا ص ۱۵۶)
گلے سے ناف تک بالوں کا ایک نہایت لطیف خط نظر آتا تھا، آپ کے پستانوں پر بال نہ تھے۔
خط باریک سینے وچ آہا
ناف تائیں اس پایا راہا
واہ قدرت تیری رب الٰہا
صلی اللہ علیہ وسلم
- آپ کا سینۂ اطہر اسرار الٰہیہ اور معارف ربانیہ کا وہ گنجینہ تھا کہ علم و حکمت کے لاکھوں بے حد و بے کنار سمندر موجزن تھے جن کی حقیقت آپ جانیں یا آپ کا رب جانے۔
- حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اشرح لی صدری کی دعا کی مگر حضور علیہ السلام کو خود فرمایا گیا۔
الم نشرح لک صدرک۔(۱۹/۳۰)
کیا ہم نے آپ کا سینہ کشادہ نہ فرمادیا۔
آپ علیہ السلام کا سینہ اقدس ایک سے زیادہ مرتبہ کھول کر انوار و تجلیات ربانی سے معمور کیا گیا جس میں بے شمار حکمتیں ہیں جن کو کما حقہ خدا ہی جانتا ہے۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ آپ کے سینۂ اقدس کو ایک محل سمجھنا چاہیے جس میں بارہ کمرے ہوں، ہر کمرے میں ایک مجلس ہو اور ہر مجلس کے حاکم اعلیٰ حضور پُر نور علیہ السلام ہیں۔
قلب مبارک:
دل سمجھ سے وراء ہے مگر یوں کہوں
غنچۂ راز قدرت پہ لاکھوں سلام
- قلب انور کی وسعت اور رفعت شان کا بیان طاقت انسانی سے باہر ہے جو اسرار و معارف آپ کے قلب مبارک کو عطا ہوئے وہ کسی اور کو عطا نہ ہوئے، نہ ہی کسی اور کا قلب اس کا متحمل ہو سکتا تھا۔ جو طاقت پہاڑوں میں نہ تھی وہ آپ کے قلب اطہر کو عطا فرمائی گئی۔ ارشاد ربانی ہے کہ اگر قرآن کسی پہاڑ پہ اترتا تو وہ خوف الہی سے پھٹ کر ٹکڑے ہو جاتا۔ (۶/۲۸)
لیکن فانہ نزلہ علی قلبک (البقرہ) قرآن آپ کے دل پر نازل ہوا اور دل نے سلامتی کے ساتھ اس بار امانت کو اُٹھا لیا۔
- آپ نے ارشاد فرمایا
یا عائشہ عینی تنا مان ولا ینام قلبی۔(بخاری۔ مسلم ۱ ص ۲۵۴)
اے عائشہ! میری آنکھیں سو جاتی ہیں دل (ہمیشہ) بیدار رہتا ہے۔
اسی لیے سو جانے سے ہر کسی کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اور حضور علیہ السلام کا وضو نہیں ٹوٹتا۔
- فتح الباری شرح بخاری میں ہے جب آپ کے سینہ مبارک کو شق کیا گیا ہے تو
قلب سدید فیہ عینان تبصران و اذنان تسمعان۔
قلب مبارک صاف سیدھا اور بے عیب تھا اس میں دو آنکھیں تھیں جو دیکھ رہی تھیں اور دوکان تھے جو سُن رہے تھے۔(۴۱۰/۱۳)
اسی لیے آپ کا علم نسیان سے پاک تھا اور آپ نے فرمایا
انی لا انسی ولکن اُنسی۔(نشر الطیب ص ۱۸۹)
میں بھولتا نہیں بھلایا جاتا ہوں (تاکہ سنت قائم ہو جائے)۔
اول آخر، ظاہر باطن، ماکان وما یکون، قیامت و بعد القیامت، خدا اور خدائی کا علم حضور علیہ السلام کے سینہ میں رکھ دیا گیا
مگر بے خبر، بے خبر جانتے ہیں
شکم مبارک:
کل جہاں مِلک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں میں نے بغور دیکھا آپ کا شکم بارک کاغذ کی تہیوں کی مانند تھا۔ (خصائص ۱ ص ۱۸۷)
- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ حضور علیہ السلام نے کبھی پیٹ بھر کر نہ کھایا اور نہ ہی کبھی فقر و فاقہ کا شکوہ کسی سے فرمایا۔(زرقانی ج ۴ ص ۳۱۱)
کیوں کہ آپ کا فقر اختیاری تھا ورنہ اللہ تعالیٰ نے خود پیش کش فرمائی کہ اے محبوب! اگر تو چاہے تو مکے کے پہاڑ سونا بنا کر تیرے ساتھ چلادوں مگر آپ نے عرض کیا۔ یا اللہ! میں یہ نہیں چاہتا، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن کھانے کو مل جائےتاکہ تیرا شکر کرتا رہوں اور ایک دن بھوکا رہوں تاکہ صبر کی لذتوں سے آشنا ہوتا رہوں۔ (مشکوۃ)
آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے اختیار دیا کہ بادشاہ نبی بن جاؤ یا عبد نبی بن جاؤ تو میں نے عبد نبی بننا پسند کیا۔ (مشکوۃ)
مالک دین و دنیا ہو کر
دونوں جہاں کے داتا ہو کر
فاقے سے ہیں سرکار دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم
کھانا تو دیکھو جو کی روٹی
ان چھنا آٹا روٹی موٹی
وہ بھی شکم بھر روز نہ کھانا
صلی اللہ علیہ وسلم
- ایک دن بھوک کی وجہ سے حضور علیہ السلام بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دیکھ کر رونے لگے، فرمایا مت رو، جو شخص ثواب کی نیت سے بھوکا رہے گا قیامت کی سختی سے محفوظ رہے گا (زرقانی ج ۴ ص ۳۱۹)
ستر آہے پردے نوری،
صاف شکم پُر صبر صبوری
ہر دم رہیندے خاص حضوری،
صلی اللہ علیہ وسلم
-
حضرت ع
ائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں ایک دن میں آپ کے فاقے کی حالت کو دیکھ رو پڑی اور آپ کے پیٹ پر ہاتھ پھیر کہہ رہی تھی دیکھیں فاقے سے کیسے دب گیا ہے، میری جان آپ پہ فدا ہو، دنیا سے اتنا تو قبول کر لیں جو جسمانی قوت کو قائم رکھے، آپ نے فرمایا
مالی ولدنیا اخوانی من اولی العزم من الرسل صبروا علی ما ھو اشد من ھذا۔
(الشفا ۱ص ۸۴)
اے عائشہ! مجھے دنیا سے کیا کام میرے بھائی اولو العزم رسول تو اس سے بھی زیادہ سختی پر صبر کرتے رہے۔
عجز تو دیکھو اللہ اکبر
تکیے کے بدلے اینٹ یا پتھر
اور سرِ سرکار دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم
- اور جو نور کی اور معرفت الہی کی خوراک کھانے ولا ہو اس کی اس مادی خوراک سے کیا کام آپ نے فرمایا میں اپنے رب کے پاس رات گذارتا ہوں وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے
آسماں مِلک اور جو کی روٹی غذا
کل جہاں مِلک اور جو کی روٹی غذا
کن فکاں ملک اور جو کی روٹی غذا
لا مکاں مِلک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
زنوائے مقدس اور قدم مبارک:
انبیاء طے کریں زانوں ان کے حضور
زانوؤں کی وجاہت پہ لاکھوں سلام
کھائی قرآن نے خاک گذر کی قسم
اس کفِ پا کی حرمت پہ لاکھوں سلام
- حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کان فی ساقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حموشۃ۔
کہ حضور علیہ السلام کی پنڈلیاں نرم و نازک ہیں۔ (مشکوۃ ص ۵۱۸)
- حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کان صلی اللہ علیہ وسلم احسن البشر قدما۔
(زرقانی علی المواہب ج ۴ ص ۱۹۸، انوار محمدیہ ص ۲۷۶)
کہ حضور علیہ السلام کے قدم مبارک سب سے زیادہ حسین تھے۔
- زانوئے مقدس، پنڈلیاں اور قدمین شریفین نرم اور پُر گوشت تھے، جب آپ چلتے تو قدم مبارک قوت ووقار اور تواضع سے اُٹھاتے جیسا کہ اہل ہمت و شجاعت کا طریقہ ہے، پاؤں مبارک کے درمیانی حصہ میں خم نہ تھا اور چلتے وقت نشان قدم نا تمام نہ رہتا بلکہ مکمل پاؤں زمین پر لگتے تاکہ کوئی آپ کے نشان قدم کو بھی نامکمل نہ کہہ سکے۔
(انوار محمدیہ ص ۲۷۶، خصائص کبریٰ ج ۱ ص ۱۷۰)
- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قریش ایک کاہن کے پاس گئے۔ حضور علیہ السلام بھی ساتھ تھے (اعلان نبوت سے بیس سال پہلے) اور اس سے پوچھا کہ بتاؤ ہم میں سے صاحب نبوت کون سکتا ہے اس نے چادر سے زمین صاف کرائی اور سب کے نشان قدم لگوائے اور حضور علیہ السلام کا نشان قدم دیکھ کر کہا کہ یہی نبی و رسول ہو گا۔
اس کے بعد وہ انتظار میں رہے تا آنکہ بیس سال بعد حضور علیہ السلام نے نبوت کا اعلان فرمایا (خصائص کبری ج ۱ ص ۱۷۰)
- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نےحضور علیہ السلام سے زیادہ تیز چلنے والا کسی کو نہ دیکھا
کانما الارض تطویٰ لہ وانا لنجھد انفسنا وانہ لغیر مکترث۔(مشکوۃ س ۵۱۸)
(جب آپ چلتے تو) یوں لگتا گویا زمین آپ کے لئے لپیٹی جا رہی ہے ہم آپ کے ساتھ دوڑا کرتے اور آپ آسانی سے بے تکلف چلتے۔ (پھر بھی آپ آگے ہی رہتے)
پلیاں نرم قدم وی بھارے
دھرتی اُتے لگن سارے
رب قدرت اپنی نال سنوارے
صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
انہ علیہ السلام کان اذا مشی علی الصّخر غاصت قدماہ فیہ۔(زرقانی ج ۴ ص ۱۹۷)
جب آپ سخت پتھر پہ چلتے تو وہ نرم ہو جاتا اور نشان قدم اس پر لگ جاتا۔
- راہنمائے سفر حجاز ص ۵۶ پہ لکھا ہے کہ ایک پتھر پر آپ نے سجدہ کیا آج بھی اس پہ نشان موجود ہے اور ایک جگہ حضور علیہ السلام کے پاؤں مبارک بمعہ نعلین پاک کا نشان موجود ہے۔
- امام ابو نعیم کے مطابق احد کے دن مشرکین سے پوشیدگی کے لئے آپ نے اپنا سر مبارک ایک پہاڑ کی جانب مائل فرمایا فلین اللہ الجبال اللہ نے پہاڑ کو نرم فرما دیا اسی طرح مکہ معظّمہ میں ایک پتھر پر آپ نے نماز ادا فرمائی تو اس میں آپ کی کہنیوں اور بازوؤں کے نشان آگئے۔ (دلائل النبوت ج ۲ ص ۲۱۵)
غور فرمائیے! حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے لوہے کو موم فرمایا اور یہ آپ کا معجزہ تھا والنالہ الحدید (۲۲/۲) اور کوئی شک نہیں کہ یہ بڑا معجزہ تھا۔ مگر لوہے کو پگھلا کر نرم کیا جا سکتا ہے حضور علیہ السلام کے لیے پتھر جیسی چیز کو موم کر دیا کہ جس کو پگھلایا ہی نہیں جا سکتا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا جو پتھر کو بھی نرم کر سکتے ہیں وہ لوہے کو بھی ضرور نرم کر سکتے ہیں
آنچہ خوباں ہمہ دارندتو تنہا داری
- امام شہاب الدین خفاجی مصری فرماتے ہیں کہ نشان قدم والے پتھروں کو تبرکاً محفوظ کر لیا گیا جواب بھی موجود ہیں بیت المقدس اور مصر میں متعدد پائے جاتے ہیں، لوگ ان کی زیارت و تعظیم کرتے ہیں، ایک بادشاہ (قاتبیائی) نے ان میں سے ایک پتھر بیس ہزار دینار کا خریدا۔
واوصی بجعلہ عند قبری وھو موجود الی الان۔
اور وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے میری کے پاس نصب کر دیا جائے اور وہ پتھر آج بھی موجود ہے۔(نسیم الریاض، حجۃ اللہ علی العالمین ص ۴۵۳)
بعض لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ پتھر پہ نشان قدم کیسے لگ سکتا ہے حالانکہ مقام ابراہیم کے بارے مفسرین نے لکھا ہے اور لاکھوں زائرین گواہ ہیں کہ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم کا نشان موجود ہے۔ (تفسیر کبیر، ابن جریر عن ابن عباس)
جب خلیل اللہ کے لئے مانا جا سکتا ہے تو حبیب اللہ کے لئے انکار کی وجہ کیاہے؟
ریت پہ تو ہم بھی قدم رکھیں تو نشان پڑ جاتا ہے حضور علیہ السلام نرم کو نرم کرنے نہیں پتھروں کو نرم کرنے آئے ہیں
ہم نے پھولوں کو چھوا مرجھا کے کانٹے ہو گئے
اس نے کانٹوں پر قدم رکھا گلستاں کر دیا
اور یہ بھی یاد رہے کہ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قدم لگیں وہ جگہ مرکز تجلیٰ بنے، جہاں خلیل اللہ علیہ السلام کے قدم لگیں وہ جگہ مصلی ٰبنے اور جہاں حبیب اللہ علیہ السلام کے قدم لگیں وہ جگہ عرش معلیٰ بنے۔
آسماں گر تیرے تلووں کا نظارہ کرتا
روز اک چاند تصدق میں اتارا کرتا
- اہل طائف نے حضور علیہ السلام سے کہا کہ اگر آپ پتھر سے ایک عظیم الشان میوہ دار درخت نکالیں تو ہم ایمان لے آئیں گے، آپ نے پتھر پر قدم رکھا تو اللہ نے اس کی برکت سے مطلوبہ درخت نکال دیا، اکثر اہل طائف اس معجزہ کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے۔
(احیاء القلوب ص ۱۰۰، قصص الانبیاء ص ۴۶۲)
میں ان کے نقش پا پر چاند کو قربان کرتا ہوں
- حضور علیہ السلام ایک مرتبہ عرفہ سے تین میل دور اپنے چچا ابو طالب کےساتھ مقام ذی الحجہ میں تھے کہ ابو طالب کو پیاس لگی اور انہوں نے حضور سے عرض کیا
فضرب بقدمہ الارض فخرج الماء فقال اشرب۔
آپ نے قدم مبارک زمین پر مارا پانی کا چشمہ جاری ہو گیا، آپ نے چچا کو فرمایا "پی لے"۔ (زرقانی ج ۵ ص ۱۷۰)
جن کے تلووں کا دھوون ہے آبِ حیات
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی
- ایک دفعہ آپ نے اپنے وضو کا پانی چاہِ قبا میں ڈالا تو اس کے بعد اس کنوئیں کا پانی کبھی خشک نہ ہوا۔ (شفا شریف)
- ایک دفعہ آپ نے اپنا مبارک قدم جب اُحد پہاڑ پہ رکھا تو اس نے قدوم میمنت لزوم کو بوسہ دے کر وجد کرنا شروع کر دیا آپ نے فرمایا
اثبت فانما علیک نبی وصدیق و شھیدان۔
(بخاری شریف۔ مشکوۃ س ۵۶۳)
ٹھہر جا تیرے اور ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں(عمر وعثمان)۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں
ایک ٹھو کر سے احد کا زلزلہ جاتا رہا
رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں
دو قمر دو پنجۂ خور دو ستارے دس ہلال
ان کے تلوے، پنجے، ناخن، پائے اطہر، ایڑیاں
یہی وہ قدم مبارک ہیں جن کو آسمان ہدایت کے ستارے صحابہ کرام بوسے دیا کرتے تھے۔ امام بخاری نے الادب المفرد ص ۱۴۴ پہ ایک روایت حضرت و ازع بن عامر سے نقل کی ہے۔
فاخذنا بیدیہ رجلیہ نقبلھا۔
ہم نے حضور علیہ السلام کے ہاتھوں اور پاؤں کو چوما۔
- اسی طرح مشکوہ ص ۴۰۲ پہ حضرت زراع فرماتے ہیں کہ ہم ایک وفد لے کر حاضر ہوئے فنقبل ید رسول اللہ رجلہ ہم نے حضور علیہ السلام کا ہاتھ اورپاؤں چوما ایک اعرابی نے آپ سے معجزہ طلب کیا اور آپ نے فرمایا اس درخت سے کہہ کہ رسول اللہ تجھے بلاتے ہیں جب اس نے جا کر درخت کو حضور علیہ السلام کا پیغام سنایا تو درخت نے دائیں بائیں آگے پیچھے جھک کر اپنی جڑوں کو توڑا اور زمین چیرتا ہوا آکر السلام علیک یا رسول اللہ پڑھنے لگا، اعرابی نے کہا اب اس کو حکم دیں کہ واپس اسی جگہ جائے، آپ نے حکم دیا تو واپس اپنی جگہ پہ جا کر سیدھا کھڑا ہو گیا اعرابی بولا، مجھے حکم دیں آپ کو سجدہ کروں فرمایا سجدہ غیر خدا کو اگر جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدے کرے۔
قال فاذن ان اقبل یدیک و رجلیک فاذن لہ۔
اس نے کہا! پھر ہاتھ پاؤں تو چومنے دیں تو آپ نے اس کواجازت دے دی (اور اس نے آپ کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیا)۔ (شفا ص ۱۴۹، دلائل لابی نعیم ص ۳۳۲)
- صحابہ کرام جب مدینہ شریف حاضر ہوتے تو اپنی سواریوں سے جلد اتر کر اللہ کے رسول کے ہاتھ پاؤں چومنے میں پہل کرتے تھے (ابو داؤد شریف)
عارض شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں
جا بجا پر تو فگن ہیں آسماں پر ایڑیاں
دن کو ہیں خورشید شب کو ماہ و اختر ایڑیاں
ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرا دے وہ دنیا کا تاج
جن کی خاطر مر گئے منعم رگڑ کر ایڑیاں
تاج روح القدس کے موتی جسے سجدہ کریں
رکھتی ہیں واللہ وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں
خصائص کبریٰ ج ۲ ص ۲۷ پہ ہے کہ جن جانوروں پہ آپ نے سواری فرمائی (اور آپ کے قدم اطہر اور زانوئے مقدس لگے) وہ ہمیشہ آپ کی برکت سے تندرست اور توانا رہے کبھی ضعیف و کمزور نہ ہوئے۔ بلکہ علامہ دمیری فرماتے ہیں ان جانوروں نے کبھی (بحالتِ سواری)پیشاب بھی نہ کیا نہ وہ بیمار ہوئے۔ (قصص الانبیاء ص ۴۲۳)
- حضرت علی المرتضیٰ ایک مرتبہ بیمار ہوئے تو آپ ﷺ نے صحت کی دعا کر کے اپنا پاؤں مبارک ان کو مارا
فما اشتکی ذلک الوجع بعد۔(دلائل النبوۃ ابو نعیم ص ۳۸۵)
اس کے بعد وہ بیماری ساری عمر کے لئے ختم ہو گئی۔
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ یہی وہ پائے اقدس ہیں جو اپنے رب کی یاد کے لئے اور امت بخشش کے لئے ساری رات کھڑے ہونے کی وجہ سے سوج جاتے تھے۔ (شمائل ترمذی)
اے رضا طوفان محشر کے تلاطم سے نہ ڈر
شاد ہو یا ہیں کشتیٔ امت کا لنگر ایڑیاں
مدراج النبوۃ میں ہے کہ جنگ احدمیں کمزوری کی وجہ سے حضور علیہ السلام کے لئے پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہو گیا تو حضرت طلحہ نے اپنے کندھے پیش کر دیے۔ حضور علیہ السلام نے کندھوں پہ قدموں کو رکھا اور ساتھ ہی فرمایا۔ اوجب طلحۃ۔ طلحہ کے لئے جنت پکی ہو گئی
اے صلی علیٰ نام ہے کیا نام محمدﷺ
ہر درد سے لیتا ہے بچا نام محمدﷺ
حضرت جبریل علیہ السلام کے قدموں کی خاک سے سامری نے بے جان بچھڑے میں ڈالی تو وہ بولنے لگا (گویا کہ اس میں جان آگئی) (تفاسیر) تو جس کے قدموں میں معراج کی رات جبریل جھکا
سیرت ایسی کہ اغیار کلمہ پڑھیں
صورت ایسی کہ یوسف بھی دیکھا کریں
پاؤں ایسے کہ جبریل چوما کریں
ابن مریم سے بڑھ کر شفا ہاتھ میں
ختنہ اور ناف مبارک:
- حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
انہ علیہ السلام ولد مختونا، مسرورا ای مقطوی السّرۃ۔
(زرقانی ج ۱ ص ۱۲۴، جواہر البخار ص ۹۶۷)
آپ علیہ السلام ختنہ شدہ تھے اور ناف بریدہ پیدا ہوئے۔
یہ بات پیشوائے غیر مقلدین نواب صدیق حسن نے “الشمامۃ العنبریہ من مولد خیر البریہ” کے اندر بھی لکھی ہے۔ اور مولانا اشرف علی تھانوی نے نشر الطیب ص ۱۶۳ پہ لکھی اور تفسیر فتح العزیز ص ۲۱۸ پارہ عم میں ایسے ہی ہے۔ جب کے محدث ابن جوزی نے ساتھ یہ بھی لکھا
مکحولا مطیبا۔ مسرورا۔ (المیلاد النبوی)
(ختنہ شدہ اور ناف بریدہ ہونے کے ساتھ ساتھ) آپ کی آنکھوں میں سرمہ بھی لگا ہوا تھا اور خوشبو میں بسے ہوئے خوش و خرم پیدا ہوئے۔
بڑے بے ادب اور گستاخ ہیں جو
تجھے اپنے جیسا بشر دیکھتے ہیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور علیہ السلام نے خود فرمایا
من کرامتی علی ربی انی ولدت مختونا ولم یری احد سواٰتی۔
(زرقانی ج ۱ ص ۱۲۴، کنز العمال ج ۶ ص ۳۰۱)
یہ بھی اللہ کے نزدیک میری ہی عزت ہے کہ میں ختنہ کیا ہوا پیدا ہوا اور میرے ستر کو کسی نے نہ دیکھا۔
رہے گا یونہی ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
فضلاتِ مبارکہ:
حضور علیہ السلام کے تمام فضلات مبارکہ (بول و براز پسینہ وغیرہ) پاک، طیب و طاہر ہیں اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔
(مدارج النبوۃ، فتح الباری شرح بخاری ج ۱ ص ۱۲۱۸ بن حجر عسقلانی، عمدۃ القاری شرح بخاری ج ۱ص۷۷۸، علامہ بدر الدین عینی، ردالمختار المعروف فتاویٰ شامی ج ۱ ص ۱۲۳۲ بن عابدین شامی، فیض الباری شرح خاری ج ۱ ص ۱۲۸۹ نور شاہ کشمیری صدر مدرس دارالعلوم دیوبند، نشر الطیب ص ۱۱۶۲ اشرف علی تھانوی)
بہت سی رورایات میں ہے کہ صحابہ کرام نے آپ ﷺ کا خون اقدس حصول برکت کے لئے پیا مثلاً ایک قریشی لڑکے نے آپ علیہ السلام کو بچھنے لگائے اور جو خون مبارک نکلا صحابی نے نوش کی۔ اور حضرت علی المرتضیٰ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے بھی خون اقدس نوش جاں فرمایا۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کا پیشاب مبارک پیا۔ (اس کو روایت کو حاکم، دارقطنی و ابو نعیم نے نقل فرمایا) اور طبرانی نے اوسط میں ابو رافع کی عورت سلمیٰ سے روایت کیا کہ اس نے حضور علیہ السلام کا غسل میں استعمال شدہ پانی پیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا اس پانی کی وجہ سے تیرے بدن کو دوزخ کی آگ پر حرام کر دیا گیا۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری ۱ ص ۷۷۸)
- اور مروی ہے کہ آپ جب بیت الخلاء تشریف لے جاتے تو زمین پھٹ جاتی اور آپ کے بول و براز کو نگل لیتی اور اس جگہ سے نہایت پاکیزہ خوشبو آتی، اس کو حضرت عائشہ نے روایت فرمایا۔ اور مالک بن انس نے آپ کے زخم سے نکلنے والا خون مبارک چوس کر پی لیا۔آپ نے فرمایا اس کو کبھی دوزخ کی آگ نہ لگے گی۔ (نشر الطیب ص ۱۶۲)
پسینہ مبارک:
ایسی خوشبو نہیں ہے کسی پھول میں
جیسی خوشبو نبی کے پسینے میں ہے
- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں
کان عرقہ فی وجھہ مثل اللولؤ اطیب من المسک۔
آپ کے چہرے مبارک پسینے قطرے گویا موتی تھے جو کستوری سے زیادہ خوشبو دار ہوتے۔ (خصائص کبریٰ ج ۱ ص ۶۷)
- حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کبھی کبھی دو پہر کے وقت ہمارے ہاں تشریف لاتے آپ جب سو جاتے تو آپ کو پسینہ آتا اور میری والدہ پسینہ اتار کر شیشی میں جمع کر لیتیں، ایک دن حضور علیہ السلام نے فرمایا! اے ام سلیم! یہ کیا کر رہی ہو۔
قالت ھذا عرقک نجعلہ فی طینا وھو اطیب الطیب۔
(بخاری ج ۱ ص ۶۱، مشکوۃ ص ۵۱۷)
عرض کیا یہ حضور کا پسینہ ہے ہم اس کو عطر میں ملاتی ہیں تو یہ سب عطروں سے زیادہ خوشبو دار ہو جاتا ہے۔
صبا نہ چھیڑ ابھی سنبل و گلاب کا ذکر
ہم اپنے نبی کے پسینے کی بات کرتے ہیں
- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا، عرض کیا۔ آقا! میں نے اپنی بیٹی کا نکاح کرنا ہے اور میرے پاس خوشبو نہیں ہے، آپ نے فرمایا! کل کھلے منہ والی شیشی لے آنا، دوسرے دن وہ شیشی لے کر آیا آپ نے دونوں بازوؤں سے پسینہ اتارا کر شیشی بھر دی اور فرمایا یہ لے جاؤ اور بیٹی کو کہنا اس کو لگایا کرے۔ پس جب وہ پسینہ لگاتی تو
یشم اھل المدینہ رائحُ ذلک الطیب فسمّوا بیت المتطیبین۔
(خصائص کبری ج ۱ ص ۶۷، زرقانی ج ۴ ص ۲۲۴، انوارِ محمد یہ ص ۲۸۲)
پورا مدینہ خوشبو سے معطر ہو جاتا یہاں تک کہ ان کے گھر کا نام ہی خوشبو والوں کا گھر پڑ گیا۔
واللہ جو مل جائے میرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پھول
اس شخص نے اگر چہ اپنی بیٹی کو کوئی صوفے سیٹ واٹر سیٹ، زیورات وغیرہ نہ دیے مگر وہ کچھ دے دیا کہ جو بڑے سے بڑا امیر و کبیر بھی نہ دے سکے گا۔
عجب خوشبوئی اس مڑھکے دی آہی
نہ عطر کستوری وچ اتنی پائی
کوئی جے بدن تے اک قطرہ لاوے
جُسّے اوھدے وچوں خوشبوئی آوے
نہ ہووے دھوتیا دور عمر ساری
رہے اولاد وچ بھی فیض جاری
لوگ پسینے کی بدبو سے بچنے کے لئے عطر اور دیگر خوشبوئیں استعمال کرتے ہیں اور سرکار کا پسینہ مبارک بطور خوشبو استعمال کیا جا رہا ہے۔
بول مبارک:
حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں ایک رات حضور علیہ السلام نے ایک برتن میں پیشاب فرمایا، میں اُٹھی اور پانی سمجھ کر پی لیا، صبح جب حضور علیہ السلام نے برتن کے بارے میں پوچھا تو میں نے عرض کیا حضور وہ تو میں نے پی لیا تو آپ یہ سُن کر بہت ہنسے اور فرمایا:لن تشکی وجع بطنک بعد یومک ھذا ابدا۔
(شفا ص ۳۳، کنزالعمال ص ۱۳۰ دلائل النبوۃ ابو نعیم ۳۸۰، مستدراک ص ۲۳۱، خصائص ج ۴ص۵۳۹)
آج سے تجھ کو پیٹ کی بیماری نہ لگے گی۔
چودہ صدیاں بعد بھی بول و براز کی خوشبو:
علماء فرماتے ہیں کہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے حضور علیہ السلام کا بول مبارک اس لیے پی لیا کہ قرآن مجید ہے لا اکراہ فی الدین کہ دین میں کوئی اکراہ نہیں اس کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے دین میں کراہت یا کوئی ناپسندیدہ شے نہیں ہے تو انہوں نے سوچا کہ جب دین میں کراہت نہیں تو وجود مصطفےٰ میں کراہت کیسے کیسی ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں جب مدینہ پاک گیا تو حضرت ام ایمن کی اولاد کو کسی طرح تلاش کر لیا تو چودہ صدیوں بعد بھی ان کی اولاد میں جس کو ملتا تو مجھے (بول مبارک کی برکت سے) اس کے جسم سے آج بھی خوشبو آرہی تھی ؎
زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمۂ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است
بعض لوگ حضور علیہ السلام کے بول و براز پاک ہونے کی بات کریں تو سیخ پا ہو جاتے ہیں جب کہ ریشم کے کیڑے کا فضلہ شہد کی مکھی کا فضلہ صرف پاک ہی نہیں مانتے ہیں بلکہ کھاتے بھی ہیں تمام کیڑے مکوڑے ، مکھی، مچھر کے فضلات کو پاک مانتے ہیں تو اگر حضور علیہ السلام کے فضلات کو پاک کہا جائے تو چیں بہ چیں ہو جاتے ہیں۔
- طبرانی و بہیقی نے بسندِ صحیح حکیمہ بنت اسمیہ اور انہوں نے اپنی والدہ سے روایت کی کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھما کی خادمہ برّہ نے آپ علیہ السلام کا بول مبارک پی لیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ آتش جہنم سے چاروں طرف سےمحفوظ ہو گئی۔
حضرت قاضی عیاض اور علامہ زرقانی ان احادیث کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں
ولم یامرو احدمنھم بغسل فم ولا نھاہ عن عودۃ۔
کہ نہ تو ان میں سے کسی کو حضور علیہ السلام نے منہ دھونے کا حکم دیا اور نہ ہی یہ فرمایا کہ آئندہ ایسا نہ کرنا۔ (زرقانی ج ۴ ص ۲۲۹۔ شفا ص ۳۲)
ظاہر بات ہے صحابہ کرام حضور علیہ السلام کے فضلات مبارک کو محبتہً نہ پیتے تھے کہ کوئی جتنا بھی کسی کا پیارا ہو بہر حال اس کے فضلات طبعاً کراہت ہوتی ہے بلکہ اس لیے پیتے کہ صحابہ کرام حضور علیہ السلام کے فضلات مبارکہ کو پاک بھی سمجھتے تھے اور برکت بھی حاصل کرتے تھے اور ان کو ان میں روحانی ترقی بھی نظر آتی تھی۔ تو جب وہ حضور علیہ السلام کے فضلات مبارکہ کو تمام جہاں سے بے مثل و بے مثال سمجھتے تھے تو خود کو حضور علیہ السلام کی مثل کیسے سمجھتے ہوں گے؟
- حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
ما احتلم نبی قط و انما الا حتلام من الشیطان۔
(جواہر البحار ص ۹۶۷، زرقانی ج ۵ ص ۲۴۹ خصائص کبریٰ ج ۱ص۷۰)
کسی نبی کو کبھی احتلام نہ ہوا کیوں کہ احتلام شیطان کی طرف سے ہے (اور نبیوں پہ شیطان کا اثر نہیں ہو سکتا)۔
لباس مبارک:
بے بناوٹ ادا پر ہزاروں سلام
بے تکلف ملاحت پہ لاکھوں سلام
سیدھی سیدھی روش پہ کروڑوں درود
سادی سادی طبیعت پہ لاکھوں سلام
نام و کام و تن و جان و حال و مقال
سب میں سچے کی صورت پہ لاکھوں سلام
آپ کا لباس مبارک عموماً عمامہ، چادر اور تہبند تھا، عمامہ شریف اکثر سفید کبھی سیاہ اور سبز بھی باندھا، عمامے کے نیچے ٹوپی استعمال فرماتے۔ آپ کی طبیعت میں تکلف نام کی کوئی چیز نہ تھی، آپ نے شامی عبا بھی پہنی جس کی آستینیں اس قدر تنگ تھیں کہ وضو کے وقت اوپر نہیں چڑھ سکتی تھی بلکہ بازو مبارک نکال کر وضو کرنا پڑتا۔ آپ نے مختلف رنگوں کے کپڑے پہنے مثلاً سفید، سبز، زعفرانی مگر سفید رنگ کو زیادہ استعمال فرمایا۔ آپ نے سُرخ حُلَہ بھی پہنا جس میں دھاریاں تھیں۔
عمامہ شریف:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پگڑی تھی جس کا نام سحاب تھا جس کے نیچے ایک ٹوپی رکھتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کان کان یلبس القلانس تحت العمامۃ ویلبس العمامۃ بغیر القلانس۔
(نشر الطیب ص ۱۸۳)
کبھی آپ بغیر ٹوپی کے عمامہ شریف پہن لیتے اور کبھی بمعہ ٹوپی (کلاہ) پہن لیتے۔
آپ کےدو عمامے تھے ایک چھ ہاتھ لمبا دوسرا تین ہاتھ کا، بعض نے سات ہاتھ لمبا بتایا۔ (شمائل ترمذی)
جیسا کپڑا ملتا آپ پہن لیا کرتے لباس کے متعلق آپ نے کبھی شدت نہ فرمائی۔ الایہ کہ کوئی چیز کسی غیر مسلم قوم کا شعار ہوتا۔
تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الہیٰ بول بالا نور کا
پشت پر ڈھلکا سرِ انور سے شملہ نور کا
دیکھیں موسیٰ طور سے اترا صحیفہ نور کا
چادر مبارک:
- حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ آپ کی چادر کا طول چار ہاتھ اور عرض دو ہاتھ اور ایک بالشت اور جو چادر اوڑھ کر آپ وفود کو ملتے تھے وہ سبز تھی۔
(انوار محمدیہ ص ۲۲۴)
- آپ نے یمانی چادر کو بھی پسند فرمایا اور کبھی بالوں کی سیاہ چادر بھی پہنی
(نشر الطیب ص ۱۸۱)
- ایک دن آپ ایک جنازہ کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے واپس گھر آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما آپ کے کپڑوں کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگیں، آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا دیکھ رہی ہو۔ عرض کیا حضور! بہت بارش ہوئی ہے لیکن تعجب ہے آپ کے کپڑے خشک ہیں، سرکار نے فرمایا،
یا عائشہ بذلک الرداء قد ارتفع عن بصرک العظاء و ذات مطر عالم الغیب۔
(جامع المعجزات ص ۴۱)
اے عائشہ! (یہ جو تونے میری چادر اوڑھ رکھی ہے) اس چادر کی بدولت تمہاری آنکھ سے پردے ہٹ گئے اور تونے عالم غیب کی بارش دیکھی ہے
مالائے روم نے بھی اس واقعہ کو بڑی محبت سے بیان فرمایا ہے۔
نیست ایں باراں ازیں ابرشما
ہست ابرِ دیگر و دیگر سما
یہ بارش تمھارے اس بادل کی نہیں یہ بارش بھی اور ہے اس کا آسماں بھی اور ہے۔
قمیص مبارک:
حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں یوسف علیہ السلام کے غم میں سفید ہو گئیں تو یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کے ہاتھ اپنی قمیص بھیجی اور ارشاد فرمایا
اذاھبوا بقمیصی ھذا فالقوہ علی وجہ ابی یات بصیرا۔
(قرآن کریم ۱۳/۴)
لے جاؤ ایہہ کرتا میرا منہ پدر تے لاؤ
اَکَھاں وچ روشنائی اوسی ویکھ لوو، اَزماؤ
قرآن مجید میں ہے یوسف علیہ السلام کی قمیص یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر رکھی گئی فارتد بصیرا (۵/۱۳) تو ان کی آنکھیں روشن گئیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ محبوبان خدا کے جسم سے لگنے والے کپڑے بھی شفا بخش اور رحمتوں، برکتوں کا باعث ہوتے ہیں، شفا تو اللہ نے ہی دینی تھی مگر قمیص کے ذریعے دے کر اور پھر اس کو قرآن پاک میں بیان کر کے بتا دیا کہ یہ کوئی بدعت یا ناجائزکام نہیں میرے نبیوں کی سنت ہے، اسی لیے صحابہ کرام بھی حضور علیہ السلام کی مستعمل اشیاء سے برکت حاصل کرتے۔
- ایک صحابی (سنان بن طلق) نے خود مانگ کر حضور علیہ السلام سے آپ کی قمیص مبارک کا ٹکڑا بطور تبرک اپنے پاس رکھا، یہی ٹکڑا اباً عن جدّ محمد بن جابر کے پاس آیا۔
یغسلھا للمریض لیستشفیٰ بھا۔(خصائص ج ۱ ص ۱۱۲)
یہ قمیص کا ٹکڑا مریضوں کو دھو کر پلایا جاتا اور اس کی برکت سے شفا حاصل کی جاتی۔
- حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا، آپ تشریف لائے اور اپنی قمیص مبارک کا ان کا کفن دیا، ان کا جنازہ خود پڑھایا، خود قبر میں اترے قبر کو فراخ و ہموار کیا اور قبر میں لیٹ گئے اور فرمایا “سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں کو زندہ کرتا اور مارتا ہے اور خود ایسا زندہ ہے کہ کبھی نہ مرے گا اے اللہ! میری امی فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور اس کو اس کی حجت (نکیری کے سوالات کے جوابات) خوب سمجھا دے اور اس کی قبر کو وسیع کر دے اپنے نبی (محمدﷺ) اور اس سے پہلے نبیوں کے طفیل بے شک تو بہت رحم فرمانے والا ہے۔
(حلیۃ الاولیاء ج ۳ ص ۱۲۱)
جب آپ قبر سے باہر تشریف لائے تو چشمان مبارک آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں، واپسی پر حضرت عمر نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! آج آپ نے جو اس بی بی کے ساتھ سلوک فرمایا ہے وہ اس سے پہلے کبھی کسی کے ساتھ کرتے نہ دیکھا گیا۔
فقال یا عمر ھذہ المراۃ کان امی بعد امی۔(دیلمی، ابن عساکر)
فرمایا یا عمر! یہ عورت میری ماں (کے فوت ہو جانے) کے بعد میری ماں تھی اور پھر فرمایا میں نے اس کو اپنی قمیص اس لیے پہنائی ہے
لتکسیٰ من حلل الجنۃ واضتجعت معھا لیھون علیھا۔
تاکہ اللہ اس کو جنت کا حُلہ پہنائے اور قبر میں اس لیے لیٹا ہوں کہ اس پر نرمی اور آسانی ہو جائے اور اس کو وقار اور سکون حاصل ہو۔ (الاستعیاب ج ۲ ص ۷۷۴)
پھر ارشاد فرمایا کہ بے شک جبریل امین نے مجھے میرے رب کی طرف سے یہ خبر دی ہے
انھا من اھل الجنۃ ان اللہ تعالیٰ امر سبعین الفامن الملائکۃ یصلون علیھا۔
(المستدرک للحاکم ۳ ص ۱۰۸)
کہ یہ بی بی جنتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتوں کو اس پر جنازہ پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے۔
جُبّہ مُبارک:
انوار محمدیہ ص ۳۲۵ پہ ہے کہ حضور علیہ السلام کا ایک جُبّہ طیا لسانی (ایک چادر جو قاضی اور عُلماء کندھے پر ڈالتے تھے)جو ایرانی طرز کا تھا، جس میں دیبا کا ایک ٹکڑا جیب کی جگہ لگا ہوا تھا اور اس کے بازوؤں پر دیبا کے کف لگے ہوئے تھے، جسے آپ زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی وفات کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ اُم المؤمنین بیماروں کو دھو کر پلاتیں اور انہیں شفا ہو جاتی۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا کے پاس بھی حضور علیہ السلام کا ایک جُبّہ تھا۔
قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یلبسا فنحن نغسلھا للمرضیٰ یستشفی بھا۔
(مسلم شریف ج ۲ ص ۱۹۰، حجۃ علی العالمین ص ۴۳۱)
فرماتی ہیں اس جبہ کو حضور علیہ السلام پہنا کرتے، ہم اس کو دھو کر بغرض شفا بیماروں کو پلاتے ہیں اور شفا حاصل کرتے ہیں۔
حالیہ دور کا ایک ایمان افروز واقعہ
جناب علی محمد صاحب تارڑ ساکن بھیکھو (ضلع گجرات) کہتے ہیں کہ میں جب حج بیت اللہ شریف کے لئے حجاز مقدس گیا تو مجھے مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جُبّہ مبارک اور غلافِ کعبہ کا ایک ایک ٹکڑا ملا۔ واپسی پر وہ دونوں بغایتِ احترام پاکستان لے آیا۔ خدا کی حکمت کہ عرصہ دو سال بعد ایک دن صبح کو اٹھا تو اچانک میری بینائی میں کمی آگئی۔ بڑی تشویش لاحق جب دوسرے دن صبح کو اُٹھا تو بینائی بالکل ختم ہو چکی تھی اور میں اندھا ہو گیا تھا۔
ایک آدمی کے ساتھ شہر گیا۔ ڈاکٹر سے آنکھیں ملاحظہ کروائیں۔ تو اُنہوں نے مشورہ دیا کہ لاہور میو ہسپتال جاؤ۔ وہاں معائنہ کراؤ۔ بڑی پریشانی سے ایک آدمی کے ساتھ لاہور میو ہسپتال پہنچا اور آنکھوں کا معائنہ کروایا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آنکھوں میں سفید موتیا ہے۔ کچھ عرصہ بعد ہسپتال میں آنکھوں کا اپریشن کرواؤ، یا کم از کم تین ماہ علاج کرواؤ۔ شاید نظر ٹھیک ہو جائے۔ چند دن کی دوائی لے کر واپس گھر پہنچا۔ بڑی مصیبت و پریشانی کا عالم کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ گاہے گاہے یہ شعر زبان پہ جاری ہو جاتا۔
یا رسول اللہ انظر حالنا
یا حبیب اللہ اسمع قالنا
ایک دن بیٹھے بیٹھے خیال کہ جُبّہ مبارک کا ٹکڑا جو حجاز مقدس سے لایا تھا، اُسے آزما کر دیکھنا چاہئے۔ گھر والوں سے کہا کہ فلاں ٹرنک مجھے پکڑاؤ۔ انہوں نے تعمیل کی۔ میں نے بسم اللہ شریف پڑھ کر ٹرنک کھولا، اور ٹٹول کر وہ ڈبیہ نکالی اور باوضو ایک گلاس میں پانی لے کر ان ٹکڑوں کو بھگو بھگو کر آنکھوں پہ لگانا شروع کیا۔ خدا کی قسم! چند ساعتوں کے بعد میری بینائی بحال ہو گئی۔فالحمد للہ علی ذلک۔
(قرطاس مقبول فی معجزات رسول ص ۱۸۶ مؤلفہ مولوی نصیر احمد چشتی)
ہوتی ہے شفا دم میں دم آتا ہے بے دم میں
محبوب خدا کا ہے کیا خوب شفا خانہ
تہبند مُبارک:
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ٗ فرماتے ہیں کہ ایک عورت ایک چادر لے کر درِ نبوت پر حاضر ہوئی اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! یہ چادر میں نے اپنے ہاتھوں سے بُنی ہے اور آپ کے لئے لائی ہوں۔ آپ نے قبول فرمائی۔ پھر اسے بطور تہ بند باندھ کر ہماری طرف تشریف لائے۔ صحابہ میں سے ایک نے دیکھ کر کہا۔ کیا اچھی چادر ہے یا رسول ﷺ! مجھے پہنا دیجئے۔ رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا۔ بہت اچھا۔ کچھ دیر بعد حضور علیہ السلام مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے۔ پھر واپس آئے تو چادر لپٹی ہوئی آپ کے پاس تھی۔ وہ آپ نے سائلِ صحابی کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام نے اس سے کہا کہ تو نے چادر کا سوال کر کے اچھا نہیں کیا۔ حالانکہ تجھے معلوم تھا کہ آپ کسی کا سوال رد نہیں فرماتے۔ اور اس وقت آپ کو اس کی ضرورت تھی۔
فقال الرجل واللہ ماسالتھا الا لتکون کفنی یوم اموت قال سھل فکانت کفنہ۔
(فوائد دورۂ حدیث شریف ص ۱۳۶، بخاری ۱ص ۱۷۰)
اس نے کہا اللہ کی قسم! میں نے صرف اس لیے سوال کیا کہ میرے مرنے پر یہ چادر۔ (جو آپ کے جسم سے لگ چکی ہے) میرا کفن بنے۔ حضرت سہل فرماتے ہیں کہ وہی چادر اس کا کفن بنی۔
دَر پر تِرے جو آئے گا جھولیاں بھر کے جائے گا
جود و کرم ہے تیرا عام تجھ پر دُرود اور سلام
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حدیث نقل کی ہے کہ حضور علیہ السلام کی صاحبزادی کا انتقال ہوا تو بعد از غسل آپ نے اپنا مبارک تہبند دیا اور فرمایا۔
اشعر نَھا ایاہ۔ (مسلم ج ۱ ص ۳۰۵) ان کے کفن کے ساتھ میرا تہبند بھی ملادو۔
علامہ نووی شارحِ مسلم فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنا تہبند مبارک کیوں عطا فرمایا۔
والحکمۃ فی اشعارھا بہ تبریکھا۔
اس میں حکمت یہ تھی تاکہ ان کے کفن میں برکت ہو جائے۔
ناظرینِ گرامی! اس حدیث اور فاطمہ بنت اسد والی حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ اپنی مستعل اشیاء کوباعثِ برکت و رحمت تصور فرماتے تھے۔
لحاف مُبارک:
حضرت ابو عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میرے دادا کے پاس رسول اللہﷺ کا لحاف تھا۔ جب حضرت عُمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ، خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے دادا موصوف کو کہلا بھیجا۔ چنانچہ وہ اس لحاف کو چمڑے میں لپیٹ کر لائے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ، اسے اپنے چہرے پر ملنے لگے۔ (تاریخ صغیر امام بخاری)
چارپائی مبارک:
حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک چار پائی بطور ہدیہ پیش کی تھی، جس کے پائے ساگوان کی لکڑی کے تھے۔ حضور علیہ السلام اس پر آرام فرمایا کرتے تھے۔ جب وفات شریف ہوئی تو آپ کو اسی پر رکھا گیا۔ آپ کے بعد حضرت صدیق اکبر کو بھی اس پر رکھا گیا۔ پھر لوگ بطور تبرک اپنے مردوں کو اسی پر رکھا کرتے تھے۔ یہ چار پائی بنو اُمیہ کے عہد میں میراثِ عائشہ صدیقہ میں فروخت ہوئی۔ عبد اللہ بن اسحٰق نے اس کے تختوں کو چار ہزار درہم میں خریدا تھا۔(زرقانی علی المواہب)
پیالہ مُبارک:
حضرت عاصم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضور ﷺ کا ایک عریض و عمدہ پیالہ دیکھا، جو چوب نظارا کا بنا ہوا تھا اور اس پر لوہے کا ایک حلقہ بنا ہوا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ، نے چاہا کہ بجائے لوہے کے سونے یا چاندی کا حلقہ بنائیں مگر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ، نے کہا کہ جس چیز کو رسول ﷺ نے بنایا ہو، اُسے تبدیل نہ کرنا چاہئے۔ یہ سُن کر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ویسے ہی رہنے دیا اور فرمایا۔
لقد سقیت رسول اللہ علیہ وسلم فی ھذا القدح اکثر من کذا و کذا۔ (بخاری)
کہ میں نے اس پیالہ میں رسول اللہﷺ کو بارہا پانی پلایا ہے۔
وہی پیالہ حضرت نضر بن انس کی میراث سے آٹھ لاکھ درہم کا خریدا گیا۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے اس پیالہ کو بصرے میں دیکھا اور اس میں پانی پیا ہے۔
(شرخ شمائل للچوری بحوالہ شرح مناوی)
حضرت اسماء رضی اللہ عنہما و امام ابن مامون رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضور علیہ السلام کا ایک پیالہ تھا۔
فکنا نجعل فیھا المآء لمرضی فیستقون بھا۔
(شفا شریف ص ۱۶۵۔ جامع الصفات ص ۷۹)
ہم اس میں پانی ڈال کر بغرضِ شفاء بیماروں کو پلاتے تو شفا ہو جاتی۔
حضرت خداش بن ابی خداش رضی اللہ عنہ، کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پیالہ تھا، جو انہوں نے حضور علیہ السلام سے لیا تھا۔ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ، کبھی کبھی حضرت خداش کے ہاں تشریف لے جاتے تو ان سے وہی پیالہ طلب فرماتے۔ اسے آبِ زم زم سے بھر کر پیتے اور اپنے چہرے پر چھینٹے مارتے۔
(اصابہ ترجمہ حضرت خداش و کنز العمال)
ناظرینِ گرامی! حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ، باوجود یہ کہ اس قسم کے امور میں بہت ہی محتاط تھے، لیکن حضرت خداش رضی اللہ عنہ کے گھر جا کر اس پیالے کو حاصل کر کے اس میں پانی ڈال کر سر اور چہرے کو مشرف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس پیالے کی برکت کے وہ بھی قائل تھے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ پیالہ کئی مرتبہ دھویا گیا اور استعمال کیا گیا مگر ان کا اِعتقاد تھا کہ ایک بار بھی دستِ مبارک کا لگ جانا ہمیشہ کی برکت کا باعث ہے۔
عصأ مبارک:
حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ حضور سیّدِ عالمﷺ نے مجھ کو خالد بن سفیان بن بیخ بزلی کے قتل کرنے کے لئے بھیجا۔ میں جب قتل کر کے واپس خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھ کو اپنا عصاء دیا اور فرمایا۔
تحضر بھذہ فی الجنۃ۔ اس کے ساتھ جنت میں چلے جانا۔
وہ عصاء مبارک حضرت عبد اللہ کے پاس رہا۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو وصیت کی کہ اس عصاء کو میرے کفن میں رکھ کر میرے ساتھ دفن کر دینا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
(زرقانی علی المواہب، حیوۃ الحیوان)
حضرت محمد بن سیرین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ، کے پاس حضور علیہ السلام کا ایک چھوٹا سا عصاء مبارک تھا۔ جب وہ فوت ہوئے تو ان کی وصیت کے مطابق وہ ان کے ساتھ دفن کیا گیا۔ (بہیقی، ابنِ عسا کر)
نعلینِ مبارک:
علی راس ھذا الکون نعل محمد، فجمیع الخلق تحت نعالہ لدی الطور موسیٰ نودی اخلع واحمد، لم یؤذن العرش بخلع نعالہ۔
(جواہر البحاری ج ۳ ص ۴۳۰ امام یوسف نیہانی)
اس جہان کے سر پر حضور علیہ السلام کی نعلین پاک ہیں اور ساری مخلوق اس نعلین کے سائے میں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر جوتےاتارنے کا حکم ہوا اور ہمارے آقا علیہ السلام کو عرش پہ بھی نعلین نہ اتارنے کا کہا گیا۔
چوں سوئے من گذر آری من مسکین زنا داری
فدائے نقش نعلیت کنم جاں یا رسول اللہ
(مولانا جامی)
یا رسول اللہ اگر آپ اس مسکین (جامی) کے پاس سے گزریں تو آپ کی نعلین پاک کے نشان پر جامی کی جان قربان ہو جائے۔
ھذا مثال نعالہ صلوا علیہ واٰلہ
نعلین شریفین چپلی کی شکل کی تھیں ہر ایک میں دو تسمے تھے دوہری تہہ والا ایک تسمہ انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی کے بیچ میں جب کہ دوسرا درمیانی انگلی اور بنصر (چھنگلی کے ساتھ والی) کے بیچ ہوا کرتا۔ یہی وہ نعلین پاک ہے جس کے متعلق شاہان عالم بھی کہتے آئے ہیں۔
جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاک حضور
تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں
(حسن رضا بریلوی)
کبھی عرش پر کبھی فرش پر:
جب امام الانبیاء ﷺ معراج کی رات عرش معلّٰی کے قریب پہنچے تو چاہا کہ جوڑا اتاروں کہ حضرت موسیٰ کو تو طور پہ آنے کے لئے حکم ہوا۔
فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طوی۔ (طٰہٰ)
نعلین اتارو بے شک یہ مقدس وادی ہے۔
اور عرش معلّٰی تو کوہ طورر سے کہیں افضل و اعلیٰ ہے۔ رب العالمین کی طرف سے پیغام آیا کہ موسیٰ علیہ السلام کو جوڑا اتارنے کا حکم اس لیے ہوا تاکہ وادی مقدس کی خاک ان کے قدموں کو لگے جس سے ان کو مزید بزرگی حاصل ہوا اور آپ کو جوڑا پہنے رکھنے کا حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ کی نعلین مقدس کی خاک عرش معلیٰ کو لگے تاکہ عرش اعظم عظیم تر ہو جائے۔
(احیاءالقلوب ص ۷۹، ریاض الناصحین ص ۳۰۵، قصص الانبیاء ص ۴۵۵، درۃ النا ج ص ۸۷، نادر المعراج ص ۲۸ شیخ العالم اکبر آبادی)
محمد پیارا بڑی شان والا
سَنے جوڑے عرشاں تے چڑھ جان والا
وقیل للحبیب تقدم علی بساط العرش بنعلیک لیتشرف العرش بغبار نعل قدمیک۔
(روح البیان ج ۵ ص ۳۷۰)
اور حبیب کو فرمایا گیا نعلین سمیت آئیے تاکہ آپ کی نعلین کی دھول سے میرا عرش بزرگی پالے۔
(احکام شریعت ص ۱۶۰ پہ ہے کہ اس روایت کو موضوع کہنا اعلیٰ حضرت کی طرف جو منسوب کیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے دیکھیے فتاویٰ نعیمیہ ۲ ص ۲۶)
عرش کی زیب و زینت پہ عرشی درود
فرش کی طیب و نزہت پہ لاکھوں سلام
ہم نکموں نے قالین پر قدم رکھنا ہو تو جوتا اتار نا پڑتا ہے اور ہمارے آقا کے جوتوں کے بوسے لینے کو عرش معلّٰی ترس رہا ہے
نعلین پائے او را عرش گو نگاہ کن
جاہل کہ در نیامد معنیٔ استوار
(حضرت امیر خسرو)
نقش نعلین تو عزّ و جاہِ من
سنگ بابِ تُسب قبلہ گاہِ من
آپ کی نعل پاک میری شان و شوکت ہے اور آپ کے دروازے کا پتھر میرا قبلہ ہے۔
نثار نقش نعلیت جبینم
ازیں بہتر مصلائے نہ بینم
آپ کے نقش پر میری پیشانی نثار ہو کہ اس سے بہتر کوئی جانے نماز میں نہیں دیکھا اور یہی نعلین مقدس جب مکہ کی گلیوں میں لگتی ہے تو ارشاد ربانی ہوتا ہے
لا اقسم بھذا البلد وانت حل بھذا البلد۔(القرآن)
مجھے اس شہر کی قسم ہے کہ اس میں آپ رہتے ہیں۔
کھائی قرآں نے خاک گذر کی قسم
اس کف پا کی حرمت پہ لاکھوں سلام
نعلین مصطفیٰﷺ کی مٹی کی برکت:
ایک یہودی نابینا ہو گیا تو اس کی بیٹی نے دوائی کہہ کر اس کی آنکھوں میں آپ ﷺ کی نعلین پاک کی خاک ڈال دی۔ اللہ نے اپنے نبی کی خاک نعلین پاک کی برکت سے یہودی کی بینائی واپس کر دی۔ بیٹی سے کہنے لگا کتنا اچھا حکیم ہے مجھے اس کے پاس لے چلو شکریہ ادا کروں تو بیٹی نے بتا دیا یہ وہی ہیں جن کو دن رات بُرا کہتے ہو، ان کے جوتے کی خاک تیری آنکھوں میں ڈالی ہے، یہودی غصے میں لال پیلا ہو گیا۔ کہنے لگا میں یہ آنکھیں رہنے ہی نہیں دوں گا جس میں میرے دشمنوں (معاذ اللہ) کے جُوتے کی تونے خاک ڈال دی ہے (تفصیلی واقعہ اصل کتاب میں دیکھیے)
آخر کن وچہ پیا آوازہ خالق دی سرکاروں
ایہہ اکھاں ہُن مول نہ جاون خاک نبی دی پاروں
تینوں ضد شیطان چڑھائی تو کفروں باز نہ آویں
خاک نعلین دی اکھیں پا کے دوزخ مول نہ جاویں
(اکرام محمدی ص ۱۸۹)
سرکار کا یہ معجزہ دیکھ کر مسلمان ہو گیا اور دوزخ سے بچ گیا۔ ہماری ہزار تبلیغیں وہ کام نہیں کر سکتیں جو کام نبی پاک کے جوتے کی خاک نےکر دکھا ئی ہے۔
ادیم طائی نعلین پاکن شراک رشتۂ جانہائے ماکن
فراز عرش سے میرے حضور کو ساغر
ملا یہ حکم کہ نعلین زیرِ پا آؤ
صحابہ کرام علیھم الرضوان کی کامیابی کا راز:
کیا وجہ ہے کہ تھے وہ بھی انسان (صحابہ کرام)، اور ہم بھی انسان، وہ بھی یہی قرآن، نماز پڑھتے ہم بھی، مگر وہ سمندر کے پاس جاتے تو وہ ان کو راستہ دے دیتا، جنگل کے بادشاہ ان کے سامنے دم ہلانا شروع کر دیتے، قیصر و کسریٰ ان کا نام سُن کر لرزہ بر اندام ہوجاتے وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ان کا تعلق حضور علیہ السلام کے ساتھ علمی، عقلی نہ تھا بلکہ عشقی تھا۔
اولیاء کرام میں سے کئی ایسے ہوئے کہ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے تہجد کی نماز پڑھتے رہے، ہر رات قرآن ختم کرتے رہے حالانکہ صحابہ میں سے کسی کے یہ معمولات نہ تھے اگر چہ ان کا ایک سجدۂ کائنات کی عبادت پہ بھاری ہے لیکن اتنی کثرت کے ساتھ عبادات ان کی ثابت نہیں کیں اور اگر کوئی صحابی ایسا کرنا بھی چاہتا تو حضور علیہ السلام خود منع فرما دیتے۔
اور فرماتے ولنفسک علیک حق ولزوجک علیک حق۔
اپنے نفس و اہل و عیال کے حقوق بھی ادا کرو۔
جس قدر اب مدارس ہیں۔ ڈگریاں، سندات و علوم و کتب، لائبریاں ہیں کیا اس دور میں تھیں؟ ہر گز نہیں، مگر اُدھر دن بدن عروج ہی عروج تھا ادھر پستی ہی پستی ۔ وہاں تو کئی ایسے بھی تھے کہ ادھر کلمہ پڑھا ادھر حضور علیہ السلام کے قدموں میں جان دے دی نماز روزے کا موقع ہی نہیں ملا، مگر کیا ساری کے غوث قطب بھی اس کی شان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ وجہ صرف عشق رسول ہے جو قرآن نے بھی بیان فرمائی ہے۔
وہ عالم بھی تھے عابد تھے سخی بھی تھے مگر قرآن نے جو سب سے پہلا تعارف کرایا ہے والذین معہ اشداء علی الکفار۔ وہ اپنے نبی کے دشمنوں پر بڑے سخت تھے۔ ہم اگر کسی کا تعارف کرائیں اور شروع ہوتے ہی کہیں یہ بڑے سخت ہیں تو وہ کہے گا میرا علم، سخاوت، عبادت تجھے نظر نہیں آتی اور سب سے پہلے میری سختی کو بیان کرنا شروع کر دیا ہے لیکن اللہ نے صحابہ کرام کی عبادت ریاضت کا ذکر بعد میں اور ان کے عشق مصطفیٰ کا ذکر پہلے فرما کر بتا وہ سب کچھ گوارا کر لیتے مگر محبوب کے دشمنوں کے ساتھ ان کی کبھی صلح نہ ہوتی
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
اے طیبہ جملہ علتہائے ما
سارے صحابہ عبادت والے علم والے تھے مگر کیا وجہ ہے کہ جنت میں معراج کی رات حضور علیہ السلام بلال حبشی کے قدموں کی آواز سُن رہے ہیں علی المرتضیٰ کی نماز عصر حضور علیہ السلام کے آرام پہ قربان ہو رہی ہے؟ کیا ان کے سامنے نماز وقت پر پڑھنے والی آیت نہ تھی ہم آج جھگڑتے ہیں کہ درود اونچی پڑھیں یا آہستہ فلاں پڑھیں کہ فلاں، آپ خود سُنتے ہیں کہ نہیں یہ سب باتیں ہمارے دلوں میں محبت رسول نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور ہمیں بے ادبی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ مجنوں لیلیٰ کے خیال میں سب حیل و حجت بھول گیا اور ہم اللہ کے رسول کی بارگاہ میں درود و سلام پیش کرتے ہوئے جھگڑ رہے ہیں۔ کیا یہ عشق کی انتہا نہیں کہ خدا کی نماز پڑھتے ہوئے اگر رسول بلا لیں تو نماز وہیں چھوڑ دو کہیں نہیں جائے گی۔
پہلے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں جاؤ جو فرمائیں وہ کرو پھر خدا کی بارگاہ میں آؤ اور نماز وہیں سے شروع کر دو جہاں پہ چھوڑ کر گئے تھے۔
اگر چہ صحابہ کرام کے حضور علیہ السلام کے ساتھ اس عشقی تعلق کے بے شمار واقعات احادیث کی کتب میں موجود ہیں مگر سرکار کے تبرکات کے حوالے سے چند ہی لکھے جاتے ہیں۔