قربانی کے فضائل و مسائل

قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضور ﷺ کو قربانی کا حکم دیا، ارشاد فرمایا فَصَلِّ لِرَ بِّکَ وَانْحَرْ (پارہ 30، سورۂ کوثر) یعنی تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ احادیث طیبات میں قربانی کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں۔یہاں چند حدیثیں ذکر کی جارہی ہیں:

 حدیث: سرکار کائنات ﷺ کا ارشاد عالیشان ہے کہ انسان بقر عید کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتاجو اﷲ تعالیٰ کو خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیاری ہو،یہ قربانی قیامت میں اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے یہاں قبول ہو جاتا ہے، لہٰذا خوش دلی سے قربانی کرو۔ (ترمذی)

حدیث: جس شخص نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی تو وہ (قربانی) آتش جہنم سے حجاب (یعنی روک) ہو جائے گی۔ (المعجم الکبیر)
 قربانی نہ کرنے والے کو وعید سناتے ہوئے اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں قربانی کی وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ (ابن ماجہ)

حکایت: حضرت سیدنا احمد بن اسحاق رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ میرا بھائی غربت کے باوجود اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہر سال بقر عید میں قربانی کیا کرتا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد میں نے ایک خواب دیکھا کہ قیامت برپا ہو گئی ہے اور لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکل آئے ہیں، اچانک میرا مرحوم بھائی ایک ابلق گھوڑے گھوڑے پر سوار نظر آیا، اس کے ساتھ اور بھی بہت سارے گھوڑے تھے۔ میں نے پوچھا، اے میرے بھای! اﷲ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ کہنے لگے اﷲ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا۔ پوچھا کس عمل کے سبب؟ کہا ایک دن کسی غریب بڑھیا کو بہ نیت ثواب میں نے ایک درہم دیا تھا وہی کام آگیا۔ پوچھا یہ گھوڑے کیسے ہیں؟ کہا یہ سب میری بقر عید کی قربانیاں ہیں اور جس گھوڑے پر میں سوار ہوںیہ میری سب سے پہلی قربانی ہے۔ میں نے پوچھا اب کہاں کا ارادہ ہے؟ کہا جنت کا۔ یہ کہہ کر میری نظر سے اوجھل ہو گیا۔ (درۃ الناصحین)

قربانی کے مسائل:۔ قربانی ہر مالک نصاب پر واجب ہے ، یعنی جس کے پاس ساڑھے باون تولہ (612 گرام 360 ملی گرام) چاندی یا ساڑھے سات تولہ (87 گرام 480 ملی گرام) سونا یا ان دونوں میں سے کسی کی قیمت کا مالک ہو وہ صاحب نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے۔ قربانی جس طرح مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے، عورتوں کے پاس اگر زیورات ہیں اور وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بیٹھیں تو ان پر قربانی واجب ہے۔ انسان اگر ہر سال مالک نصاب ہے تو اس پر ہر سال اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے، اگر اپنی طرف سے نہ کرکے کسی دوسرے کے نام سے کرے گا تو اس سے واجب ادا نہ ہوگا اور وہ گناہ گار ہوگا۔ اور اگر دوسرے کی طرف سے بھی کرانا چاہتا ہے تو اس کے لئے دوسری قربانی کا انتظام کرے۔

قربانی کے جانور:۔ بھینس ، بکری دنبہ ، بھیڑاونٹ وغیرہ نر ہوں یا مادہ ان سب کی قربانی جائز ہے،اونٹ کی عمر پانچ سال، بھینس دو سال اور بکرا بکری کی عمر ایک سال ہو اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں۔البتہ دنبہ یا بھیڑکا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا فربہ ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ قربانی کا جانور بے عیب ہونا چاہیئے اندھا لنگڑا، کان کٹا، ناک کٹاان سب کی قربانی جائز نہیں۔ بڑے جانور جیسے بھینس وغیرہ میں 7 افراد شریک ہو سکتے ہے، قربانی میں ثواب حاصل کرنے کی نیت ہونا چاہیے۔

 قربانی کے ایام:۔ قربانی کے تین دن ہیں، ذی الحجہ (بقر عید) کی 10، 11 اور 12 تاریخ، ان تین دنوں میں قربانی کی جائے گی۔ قربانی کے لیے سب سے افضل پہلا دن ہے، پھر دوسرا اور پھر تیسرا دن۔ قربانی کے وقت میں قربانی ہی کرنی لازم ہے، کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔

قربانی کا طریقہ:۔ قربانی کرنے سے پہلے جانور کو چارہ پانی دے دیں، پہلے سے چھری تیز کرلیں اور جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ منھ اس کا قبلہ کی طرف ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر جلد ذبح کر دیں، اور ذبح کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھیں۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ. لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ. اَللّٰھُمَّ لَکَ وَ مِنْکَ بِسْمَ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ. قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعا پڑھیں اللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَماَ تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم.اور اگر دوسرے کی طرف سے قربانی کرنا ہے تو مِنِّی کی جگہ من کہہ کر اس کا نام لے۔

قربانی کا گوشت اور کھال:۔ بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصہ کرے، ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے، ایک حصہ اپنے اعزاء و اقربا کے لئے اور ایک حصہ فقراء و مساکین کے لئے۔ اور اگر سارا گوشت اپنے استعمال میں لے لیا تب بھی کوئی حرج نہیں۔ قربانی کی کھال کو صدقہ کر دے یا اپنے استعمال میں لے آئے۔ اور اگر اس کو بچ دیا تو اس کی قیمت صدقہ کر دے۔ کھال مساجد اور مدارس دینیہ کو بھی دینا جائز هے.

تجویزوآراء