دفن ہم نے خاک میں تاباںستارہ کرد یا
دفن ہم نے خاک میں تاباںستارہ کردیا
عالمِ اسلام میں عشق رسولﷺ کی طاقت بن کر ابھرنے والا یہ گنجینہ نور آج دفن ہوکر چہارسو خوشبو بکھیرے گا.
زمین و آسمان بھی حیران ہیں کہ یہ کون ذی احترام ہے جس نے عشق رسالت مآب ﷺ میں پھانسی کے پھندے کو حضورﷺ کی طرف سے ملنے والا غلامی کا پٹہ سمجھ کر گلے میں پہن لیا اور سند یافتہ عاشق صادق ٹھہرا.
یہ کون ہے جس کے جنازے میں شریک ہونے والے درسگاہوں سے، خانقاہوں سے، آرام گاہوں سے نکل کر ایک ہی سمت میں درود و سلام کی صدائیں لگاتے بڑھے چلے جارہے ہیں..
یہ کون ہے جس کے دیدار کے لئے محلات میں پرتعیش زندگی گزارنے والے لوگ کل صبح سے اب تک قطار درقطار کھڑے ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب ہوکر اپنی بار ی کاانتظار کررہے ہیں،
یہ کون ہے جس کا جنازہ دیکھ کر ہر شخص یہی تمنا کرتا ہے کہ کاش اس کی جگہ میں لیٹا ہوتا..
یہ کون ہے جس کے جنازہ آنے کی خبر پاکر پردہ نشین عورتیں دور دراز مقامات سے اپنے محرم کے ساتھ اس نیت سے سفر کرکے پہنچ رہی ہیں کہ رب تعالیٰ ہماری خالی گود میں ممتاز قادری جیسے سپوت کی خیرات ڈال دے.
جس منصب جلیلہ کو پالینے کے لیے وقت کے بڑے بڑے عابد و زاہد و شیوخ مصلیّٰ بچھاکر مناجات میں مشغول رہے، سجدوں میں اپنی پیشانیاں رگڑتے رہے، غلاف کعبہ کو تھام کر ملتزم سے لپٹ لپٹ کرمصروف دعا رہے مگر غازی نے نہ تو کنز و قدوری کھول کر دیکھی،
نہ بخاری و مسلم کے دروس لیے مگر اس کے لمحے بھر کے فیصلے نے سو صدی کا سفر طے کرادیا اور اربابِ زہد و تقویٰ، اصحابِ منبر و محراب دیکھتے رہ گئے.
یہ منظر گواہی دے رہے ہیں کہ اللہ اس بندے سے کتنا محبت فرماتا ہے.
جب ام الخبائث پینے والا، لحمِ خنزیر کھاکر اس کی تاثیر سے ہذیان بکنے پر آیا، ملک میں گویا زلزلہ بپا ہوگیا، طوفان کھڑا ہوگیا، ادیب لکھ رہے تھے، خطیب شعلہ بیانی کررہے تھے، مگر وقت کے راجپال، سلمان رشدی کی معنوی اولاد کو اسفل السافلین کی راہ دکھانا کسی صوفی باصفاء یا کسی سیاسی راہنما کے حصے میں نہ آئی بلکہ اس سعادتِ عظمیٰ سے وطن عزیز کے ایک سپاہی کے دامن کو سجایا گیا اور اس کے سینے پر "عاشق نامدار" کا تمغہ جرأت سجادیا گیا.
کسے خبر تھی کہ وطن عزیز کی ناموس کی قسم کھاکر وردی پہننے والا اپنے آقاﷺ کی ناموس کا سپاہی بن کر پہرا دے گا.
غازی زندہ ہے ..... غازی زندہ ہے
اپنے دم خم سے نہیں....
بلکہ مصطفیٰ کریم ﷺ کی خاک قدم بن کر زندہ ہے..
مجھے ناز ہے کہ میں نے غازی ممتاز قادری کی صدی پائی ہے،
مجھے فخر ہے کہ میرے رب نے میرے دل کو غازی کی محبت سے سرشار کیا ہے،
ہمارے دلوں میں غازی کی محبت ازخود پیدا نہیں ہوئی،
بلکہ غازی ممتاز قادری سے محبت کرنے کی توفیق وہی پاتا ہے جس کے دل کو رب نے اپنے محبوب ممتاز قادری کی محبت کے لیے چن لیا..
جس نے پوری امت کی جانب سے وہ قرض چکایا ہے کہ اس کی لگائی ہوئی ضربوں سے یورپ و امریکہ اور ان کے حواریوں کے ایوانوں میں دراڑیں پڑچکی ہیں..
آئیے اور ہم بھی ممتاز قادری کے خاکِ قدم کو چوم کر اور سونگھ کر اپنی منزل کی بو پالیں.
ابوسعد محمد انعام المصطفیٰ اعظمی