سردی کا موسم – مومن کیلئے موسم بہار

یہ سردی کا موسم ہے ، لوگوں کے لباس وہیئت پر ہر طرف سے سردی کے آثار ظاہر ہیں ، بعض علاقوں میں سردی سے لوگ سخت پریشان ہیں ، ہر شخص نے اپنی اپنی حیثیت و وسعت اور علاقے کے مطابق گرم کپڑے ، لحاف اورمکان رہائش کا انتظام کیا ہے ، حتی کہ بازاروں اور سڑکوں پر بھی موسم سرما کی آمد کےآثارپائے جارہے ہیں ، ایسے موقعہ پر اپنی بساط ، مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے لوگوں کے رجحانات مختلف ہیں ، کوئی سردی سے کبیدہ خاطر ہے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنکی زبانوں پر سردی کی برائی ہے اور ایسے لوگ بھی ہمیں ملیں گے جنکے لئے موسم سرما کی آمد خوشی کا باعث ہے ۔

لیکن شرعی اعتبار سے موسم سرما سے متعلق ایک مومن کا موقف کیا ہونا چاہئے اس سے عمومی طور پر لوگ غفلت میں ہیں ، لہذا موسم سرما کی مناسبت سے خیر کے طالب مسلمانوں بھائیوں کے لئے چند ہدایات رکھی جارہی ہیں ۔

1- سردی کا اصل سبب :

اس دنیا میں کسی بھی چیز کے وجود کا اللہ تبارک وتعالی نے ایک سبب رکھا ہے جسکا علم عام طور پر لوگوں کو ہے ،مثلا ًبارش کا ایک سبب ہے، گرمی کا ایک سبب ہے، اسی طرح رات و دن کی آمد کا ایک سبب ہے، لیکن بسا اوقات کسی چیز کے وجودکا ایک باطنی سبب بھی ہوتا ہے جسکا علم صرف عالم الغیب والشہادۃ کے پاس ہے ، البتہ اگر وہ چاہتا ہے تو اپنے مخصوص بندوں کو ان میں سے بعض چیزوں کا علم دے دیتا ہے ، چنانچہ اس دنیا میں سردی وگرمی کا ایک محسوس سبب ہے جسے عام طور پر لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں جیسے سورج کی گردش ، موسم سرما یا گرما کا داخل ہونا اور ہواؤں کا چلنا وغیرہ ، لیکن اسکا ایک باطنی سبب بھی ہے جسکا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ملا ہے ، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا فَقَالَتْ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ] [صحیح بخاري: 537 كتاب مواقیت الصلاة، صحیح مسلم: 617 كتاب المساجد، بروایت أبو هریرة

جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب ؛ میرے ایک حصے نے دوسرے کوکھا لیا ،لہذا اللہ تعالی نے اسے دوسانس کی اجازت دے دی ، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسرا سانس گرمی کے موسم میں ، اسطرح تمہیں جو سخت گرمی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اور جو سخت سردی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کے زمہریر کی وجہ سے ہے ۔

ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ<>[صحیح البخاري:534 كتاب مواقیت الصلاة،صحیح مسلم:615 كتاب المساجد بروایةأبو هریرة]

جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو ، ، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے ۔

ان دونوں حدیثوں سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سردی وگرمی کے اس ظاہر سبب کے علاوہ جو لوگوں کو معلوم ہے اسکا ایک باطنی اورحقیقی سبب بھی ہے اور وہ ہے جہنم کے دو سانس ، یعنی جہنم جب اپنا سانس باہر کرتی ہے تو موسم گرم ہوجاتا ہے اور جب وہی سانس جہنم اندر کرتی ہے تو موسم میں سردی چھا جاتی ہے ۔نیز ان حدیثوں سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ اہل سنت وجماعت کے عقیدہ کے مطابق جنت وجہنم مخلوق اور اس وقت بھی موجود ہیں، البتہ اسکا مکان وجود کہاں ہے یہ صرف اللہ تعالی کو معلوم ہے ۔

2- فطری وطبعی چیزوں کو برا بھلا مت کہو :

چونکہ سردی وگرمی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ، ان میں سختی وگرمی بحکم الہی ہے لہذا انھیں گالی دینا اور برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے ، چنانچہ حدیث قدسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے : يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ۔ [صحیح البخاري: 4826 بدء الخلق، صحیح مسلم: 2246 الأدب بروایةأبو هریرة]

آدم کابیٹا مجھ کو دکھ دیتا ہے ، اسطرح کہ وہ زمانے کا گالی دیتا ہے ، حالانکہ میں زمانہ ہوں ، رات ودن کو میں ہی پھیر تا ہوں ۔

یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوا اور اس طرح کی دیگر فطری اور بحکم الہی آنے جانے والی چیزوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ، کیونکہ علی سبیل المثال ہوا حکم الہی کے تابع ہو کر چلتی ہے، اب اسے برا کہناگویا اسکے خالق اور اسمیں متصرف ذات کو برا کہنے کے ہم معنی ہےلہذا اگر کوئی شخص سخت یا تیز و تند ہوا دیکھے تو برا بھلا کہنے کے بجائے یہ چاہئے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اس ہوا کے شر سے اسے محفوظ رکھے اور اسمیں جو حیر کا پہلو ہو اس سے محروم نہ کرے ۔[سنن ابو داود:5097 الادب ، سنن ابن ماجہ : 3727 الادب بروایت ابو ہریرہ]

اسی شرعی قاعدے کے تحت ہر مسلمان کو چاہئے کہ جہاں وہ سردی سے بچنے کے لئے ظاہری اسباب اختیار کرے وہیں اس طرف بھی توجہ دے کہ اس موسم میں ہمارے لئے خیر کے پہلو کیا ہیں؟ کیونکہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے:﴿وَهُوَالَّذِيجَعَلَاللَّيْلَوَالنَّهَارَخِلْفَةًلِّمَنْأَرَادَأَنيَذَّكَّرَأَوْأَرَادَشُكُوراً﴾[الفرقان: 62]اور اسی نے رات ودن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا ، اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا اردہ رکھتا ہو ۔

3- موسم سرما میں مومن کے لئے خیر کے پہلو:

ا - روزہ : روزہ کو اسلام میں جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ، یہی کیا کم ہے کہ حدیث قدسی میں ارشاد نبوی ہے : اللہ تعالی فرماتا ہے :«كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ»۔ ۔۔الحدیث [صحیح البخاری: 1894 الصوم، صحیح مسلم: 1151 الصوم بروایةأبو هریرة]

ابن آدم کے تمام اعمال اسکے لئے ہیں سوا روزے کے جو میرے لئے ہے اور میں ہی اسکا اجر دوں گا ۔

علاوہ ازیں روزے کو اللہ تعالی نے جہنم سے ڈھال اور جنت کا راستہ قرار دیا ہے ، روزے دار کی دعاوں کی قبولیت کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے ، روزہ دار کی منھ کی بو مشک سے بھی زیادہ پسند کرتا ہے اور روزہ داروں کے لئے جنت کا ایک دروازہ خاص کر رکھا ہے وغیرہ۔{دیکھئے صحیح الترغیب 1/ 576 وبعدھا }

اب اگر غور کیا جائے تو نیکیوں پر حریص مسلمان موسم سرما میں ان فضیلتوں کو بڑی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے ، کیونکہ سردی کے موسم میں دن چھوٹا ہوتا ہے ، موسم ٹھنڈا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو بھوک و پیاس کا احساس کم اور کم ہی ہوتا ہے ، لہذا بڑیآسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہے مسلمانوں کی توجہ اسی طرف دلاتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :«،الْغَنِيمَةُ الْبَارِدَةُ الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ[سنن الترمذي 797 الصوم مسند أحمد:4/335 بروایة عامر بن سعود].

ٹھنڈی {بڑی آسان } غنیمت یہ ہے کہ سردی کے موسم میں روزہ رکھا جائے ۔

یعنی جسطرح وہ مال جو اللہ کے دشمنوں سے حاصل ہو اور اسمیں لڑائی نہ کرنی پڑے ، مٹھ بھیڑ نہ ہو اور نہ ہی جان کا خطرہ مول لینا پڑے تو اس سے ایک انسان کسقدر خوش ہوتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی طرف کسقدرراغب ہوتا ہے اسی طرح سردی کے موسم میں روزہ بلا مشقت و پریشانی کے رکھا جا سکتا ہے ۔

ب - تہجد کی نماز :

تہجد اور شب بیداری اللہ تعالی کےنیک بندوں اور جنت کے وارثین کا شیوہ رہا ہے ، ارشاد ربانی ہے : ﴿كَانُواقَلِيلاًمِّنَاللَّيْلِمَايَهْجَعُونَ*وَبِالْأَسْحَارِهُمْيَسْتَغْفِرُونَ﴾ [الذاريات: 17، 18].

وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے ۔

﴿وَالَّذِينَيَبِيتُونَلِرَبِّهِمْسُجَّداًوَقِيَاماً﴾ [الفرقان: 64].

اور {اللہ رحمان و رحیم کے خاص بندے وہ ہیں }جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ، فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ، وَمُكَفِّرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ، وَمَنْهَاةٌ لِلْإِثْمِ»۔ [سنن الترمذي:3549 الدعوات، مستدرك الحاکم، 1/321 بروایةأبو أمامة]

تم لوگ قیام اللیل کا اہتمام کرو اسلئے کہ یہ تم سے قبل نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اور یہ تمھارے رب کی قربت کے حصول کا ذریعہ ہے ، قیام اللیل گناہوں کی معافی اور گناہوں سے بچنے کا سبب ہے ۔

نیز فرمایا أَقْرَبَ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِيْ جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرَ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُاللَّهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ ۔ [سنن الترمذي: 3579 الدعوات، صحیح ابن خزیمة: 1147 بروایةعمروبنعسبة]

اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے ، لہذا اگر تم سے ہو سکے تو ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جو اس وقت اللہ تعالی کو یاد کرتے ہیں ۔

قابل غور ہے کہ موسم سرما کی راتیں قیام اللیل اور تہجد کے لئے کسقدر مناسب ہیں کیونکہ موسم سرما کی راتیں اسقدر طویل ہوتی ہیں کہ بندہ اگر رات میں دیر گئے سوئے تو بھی تہجد کے لئے آسانی سے بیدار ہو سکتا ہے اسلئے کہ جن دنوں میں یہ سطریں لکھی جارہی ہیں عشاء کی اذان اور طلوع فجر کے درمیان دس گھنٹے سے زیادہ کا وقفہ ہے ، اب اگر ایک مسلمان اس میں سے چار گھنٹے بھی اپنے ضروریات کے لئے رکھ لے تو باقی ساڑھ پانچ گھنٹے یا اس سے زیادہ کی مدت کسی بھی شخص کے نیند سے آسودہ ہونے کے لئے کافی ہیں۔ درج ذیل حدیث میں اسی طرف مومن کی توجہ مبذول کی گئی ہے : الشِّتَاءُ رَبِيعُ الْـمُؤْمِنِ، قَصُرَ نَهَارُهُ فَصَامَ، وَطَالَ لَيْلُهُ فَقَامَ{ مسند احمد : 3/75 ،شعب الایمان 3/416، مسند ابویعلی :1386 بروایت ابو سعید الخدری ، امام نور الدین رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن کہتے ہیں}

سردی کا موسم مومن کے لئے بہار کا موسم ہے کہ اسکی راتیں لمبی ہوتی ہیں جنمیں وہ قیام کرلیتا ہے اور دن چھوٹے ہوتے ہیں جنمیں وہ روزے رکھ لیتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے بہت سے نیک بندے موسم سرما کی آمد پر خوش ہوتے تھے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ موسم سرما کی آمد پر فرماتے :سردی کو خوش آمدید ، اس موسم میں برکتیں نازل ہوتی ہیں ، اس طرح کہ تہجد کے لئے رات طویل ہوجاتی ہے اور روزہ رکھنے کے لئے دن چھوٹا ہوجاتا ہے ۔

ایک اور بزرگ حضرت عبید بن عمیر رحمہ اللہ موسم سرما کی آمد پر فرماتے : اے اھل قرآن تلاوت قرآن کے لئے رات لمبی ہو گئی ہے اورر وزہ رکھنے کیلئے دن چھوٹا ہوگیا ہے لہذا اس موسم میں دن کو روزہ اور رات میں تہجد کا خصوصی اہتمام کرو۔ {لطائف المعارف 453}

ج – صبر :

اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ دونوں عبادتوں میں سردی سخت رکاوٹ بنتی ہے اور اسکے لئے صبر اور برداشت کی ضرورت پڑتی ہے ، لیکن ایک مومن کو اچھی طرح جاننا چاہئے کہ صبر وہ نیکی ہے جس پر اللہ تعالی بے حساب اجر دیتا ہےإِنَّمَايُوَفَّىالصَّابِرُونَأَجْرَهُمبِغَيْرِحِسَابٍ﴾﴿ [الزمر: 10]

صبر کرنے والوں کو انکا اجر بے حساب دیا جائے گا ۔

ارشاد نبوی ہے :وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْ رِ[صحیح البخاري: 1469 الزکاة،صحیحمسلم: 1053 الزکاةبروایةأبوسعیدالخدري]

اور جو صبر کرنا چاہتا ہے اللہ تعالی اسے صبر کی توفیق دیگا اور {یاد رہے کہ }صبر سےبہتر اور وسیع تر کوئی عطیہ کسی شخص کونہیں دیا گیا ۔

واضح رہے کہ علماء کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں جس صبر کی فضیلت وارد ہے اسکی تین قسمیں ہیں

{1} اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ مصائب پر صبر ۔

{2} اللہ تعالی کی حرام کرہ چیزوں سے رکنے پر صبر۔

{3} اللہ تعالی کے اوامر کی ادائیگی پر صبر ۔

صبر کی یہی تیسری قسم سورۃ العصر میں زیادہ واضح ہے اور اسی قسم کی سردی کے موسم میں زیادہ ضرورت پڑتی ہے لہذا جو شخص اس صبر میں کامیاب ہو گیا وہ سردی کے موسم میں تہجد بھی پڑھ لیگا اور روزہ بھی رکھ لیگا ۔ کیونکہ سردی کے موسم میں نرم وگرم بستر سے اٹھنا ، تہجد کے لئے وضو کرنا ، سردی کی حالت میں نماز میں کھڑے ہونا ، اور روزہ رکھنے کے لئے سحری کے وقت میں کچھ کھانا نیز جسم میں پانی وکھانے کی کمی کی وجہ سے جب سردی زیادہ محسوس ہوتو اسے برداشت کرنا ، یہ سب کچھ بغیر صبر کے ممکن نہیں ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

میری امت کا ایک شخص رات کو بیدار ہوتا ہے ،وضو اور اسکی پریشانی پر اپنے نفس کو مجبور کرتا ہے تو جب وضو کے لئے اپنے ہاتھوں کو دھولتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے ، جب چہرہ دھولتا ہے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے ، جب سرکا مسح کرتا ہے تو ایک تیسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب پیر دھولتا ہے تو چوتھی گرہ بھی کھل جاتی ہے ، یہ دیکھ کر پردہ کی آڑمیں موجود فرشتوں سے اللہ تعالی فرماتا ہے : میرے اس بندے کو دیکھو ؛ اپنے نفس پر زور دیکر وضوکی تکلیف برداشت کررہا ہے اور مجھ سے کچھ سوال کررہا ہے لہذا تم سب گواہ رہو کہ میرے بندے نے مجھ سے جو کچھ مانگا اسے ہم نے دے دیا ، میرے بندے نے مجھ سے جو کچھ مانگا اسے ہم نے دے دیا ۔ {مسند احمد : 4/201 ، صحیح ابن حبان 2/347 بروایت عقبہ بن عامر }

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں کو دیکھکر اللہ تعالی ہنس دیتا ہے ، ایک وہ شخص جو سرد رات میں اپنے بستر اور لحاف سے اٹھکر وضو کرتا ہے ، پھر جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں سے پوچھتا ہے :میرے بندے کو یہ تکلیف برداشت کرنے پر کس چیز نے ابھارا ہے ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ آپ کی رحمت کا امید وار ہے اور آپ کے عذاب سے خائف ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم لوگ گواہ رہو میں نے اسکی امیدیں پوری کردیں اور جس چیز سے خوف کھا رہا ہے اس سے امن دےدیا ۔ {الطبرانی :صحیح الترغیب 1/402 }

مسلمان بھائی : اس سردی کے موسم میں آپ بھی اپنے رب رحیم کے ہنسنے کا سبب بن سکتے ہیں اور جسے دیکھکر اسکے رب نے ہنس دیا وہ کامیاب ہوا ۔ ﴿ذَلِكَهُوَالْفَوْزُالْعَظِيمُ﴾ [التوبة: 72] سب سے عظیم کامیابی یہی ہے ۔


متعلقہ

تجویزوآراء