عقیدت کے رنگ

"شہید ممتاز حسین قادری" علیہ الرحمتہ الباری"

 
تحریر مکمل عقیدت کے رنگ میں ہیں کہ یہ
عزت رسول کا معاملہ ہے کیونکہ کل قیامت
کے دن حضور علیہ السلام کو منہ دیکھانا ہے
 
عشق الفت گاہ شہادت میں  قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونے کو 
 
آج ملک ممتاز حسین قادری قدسراہ النوارنی کو حکومت وقت نے رات کی تاریک میں سزائے موت کے فیصلہ پر عمل کرتے پھانسی دے کر شہید کر دیا۔ مجھے غازی ملت ملک ممتاز قادری کی شہادت پر رشک آرہا ہے۔ 
حضور علیہ السلام کے نام پر قربان ہونے والیں مقدس جانوں کے واقعات صرف کتابوں کے اوراق پہ لکھیں سیاہ الفاظوں کی لکیروں کی حد تک پڑھتے تھے جن کو پڑھ کر ہی عشق مصطفی دل میں آتش کی طرح پھیلنے لگتا تھا مگر آج غازی ممتاز قادری رحمتہ اللہ علیہ کی شہادت کو دیکھ کر تاریخ میں لکھے واقعات تازہ ہو جاتے ہیں۔
آج ممتاز قادری کی شہادت "غازی علم الدین" کی شہادت کی توقیر یاد دیلا رہی ہے، عامر چیمہ کی شہادت کی داستان سنا رہی ہے،معرکہ کربلا میں ہونے والے خونی پس منظر کو پیش کر رہی ہے،بلکہ بات کروں اصحاب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو مجھے معرکہ اُحد و بدر حنین و خندک و تبوک میں شہید ہونے والے صحابہ کی شہادتیں یاد ارہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ غازی ملت کی شہادت ایسے بہت سے عظیم تاریخی واقعات کی ترجمانی کر رہی ہے کہ جن میں عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے رضا کارانہ طور پر اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوم جھوم کر جانیں قربان کی ہیں ۔جن واقعات کو امام اہل سنت اعلحضرت نے اس طرح اس شعر میں قلم بند فرما دیا
"حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ _____ مرادن عرب
 
اور جو صاحبان ایمان دنیا سے محبوب آقا کے نام پر شہید ہونے لگتے ہیں انکی موت کی حسرت کو دیکھ کر بھی خود موت کو بھی موت لینے پر تمنا ابھرتی ہو گی، مجھے معرکہ اُحد میں شہید ہونے والے صحابی رسول حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ کی شہادت کا وہ نورانی منظر یاد آرہا ہے کہ جس کو دیکھ کرکائینات کی ہر شے حضرت زیاد کے قدموں پہ تصدق ہونے کو مچل رہی ہوگی، حضرت زیاد جب زخموں سے چور چور ہو کر زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ان کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پانی پلانے لگی تو حضرت زیاد رضی اللہ عنہ نے  امی عائشہ سے فرمایا  میری ایک آخری خواہش ہے کیا آپ پوری کر سکتی ہیں؟ 
بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہاں زیاد بولو تمہاری کیا خواہش ہے؟
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے آقا کو خبر کر دی جائے کہ ان کا غلام دنیا سے جانے لگا ہے مگر تمنا یہ ہے کہ آگر میں چلنے کے قابل ہوتا تو ضرور اپنے آقا تک چل کر جاتا مگر میں زخموں سے چور ہو کر چلنے سے قاصر ہوں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاس میری یہ عرض پہنچا دی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس چل کر تشریف لے آئیں تاکہ میں انکی گود میں اپنی جان دے دوں، 
حضور اکرم کو انکی اس خواہش کا بتایا گیا میرے آقا خود چل کر حضرت زیاد کے پاس تشریف لے گئےاور جب ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے تو ارشاد فرمایا کہ 
"زیاد آنکھیں کھولوں دیکھو میں تمہارے پاس آگیا ہوں" حضرت زیاد کے کانوں میں جب حضور اکرم کے مقدس کلامات گونجے تو آپ کی آنکھ کھول گئی حضور اکرم نے اپنی گود میں انکا سر اُٹھا کر رکھ لیا اس کے بعد حضرت زیاد نے حضور اکرم کے چہرہ پاک پر نگاہ جماہی اور کلمہ پڑھتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے،
غازی ممتاز قادری بھی اپنی جان نبی مکرم کے حوالے کرتے ہوئے اس جہاں سے لافی زندگی کی طرف بڑھ چکے ہیں۔ان کی شہادت بھی تاریخ میں ہونے والے ایسے ہی عظیم واقعات کو مثالیں پیش کر رہی ہے۔
قادری صاحب کی ہمت و جرت و بہادری پر رشک آرہا ہے۔ بسنے کو آج بھی اس دنیا میں ہزاروں لوگ بستے ہیں جو سر ہاتھ میں اُٹھائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے لئے پھرتے ہیں مگر فدا ہوجاؤں میں ملک ممتاز قادری پر کہ ان ہزراوں میں سے میرے آقا نے اپنی ناموس کے لئے گر کسی کو چنا ہے تو وہ"ملک ممتاز حسین قادری" شہید رحمتہ اللہ علیہ کو چنا ہے۔ 
میرے آقا کو ان مرد مومن سے کس قدر محبت ہوگی؟ حضور کی کیسی نوازشات ان پر ہو رہی ہوں گی، آخر اسی ادائے کرم پر جمیل رضوی بھی فرما گئے۔
 
میں وہ سنی ہو جمیل قادری مرنے کے بعد 
میرا لاشہ بھی پڑھے گا الصلوتہ والسلام
 
اور پھر جس وقت ممتاز قادری کی لحد میں میرے آقا جلوہ گر ہو گے اس وقت ممتاز قادری سے کیا فرمائے گے اس بات کو اعلحضرت نے ایک نعت کے مقطع میں ارشاد فرمایا
 
کیوں رضا آج گلی سنی ہے 
اٹھ میرے دھوم مچانے والے
اور ہھر جب ممتاز قادری اپنی قبر میں حضور کے استقبال کے لئے کھڑے ہوگے تو اس وقت ان کی کیا کیفیت ہوگی اس کو اس انداز میں دیکھئے
 
قبر میں سرکار آئے تو میں قدموں میں گیروں
گر فرشتے بھی اٹھائے تو میں ان سے یوں کہوں
اب کو پائے ناز سے میں اے فرشتوں کیوں اٹھوں
مر کے پہنچا ہوں یہاں اس دل رباء کے واسطے
 
مجھے سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا
مصطفی جان رحمت پہ _____ لاکھوں سلام
 
ممتاز قادری کی شہادت کو بس اتنا کمال  کافی ہے کہ اس مرد حق نے اپنی جان "ناموس" مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دی ہے اور حضور اکرم کی ناموس پر جان دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
اور عجب بات کو یہ ہے کہ جس کو معلوم پڑھ جائے کہ اس کو کچھ لمحوں کے بعد سزائے موت ہونے والی ہے اس شخص کی حالت غیر ہو جاتی ہے چہرہ کا رنگ اڑ جاتا ہے،دل و دماغ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، حسرتوں کے پل بن جاتے ہیں، 
 
مگر مگر ممتاز قادری کے آخری لمحات باوجود اس کے کہ انکو سزائے موت کا معلوم ہو چکاتھا اس پر بھی اس باکمال انسان نے اپنے آپ کو سجایا، عمامہ پہنا، نیا جوڑا زیب تن کیا، سرمہ لگایا، داڑھی میں تیل لگایا، اور اٰل و اصحاب مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم و رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پر سلام پیش کیا، ان تمام لمحات میں ملک ممتاز قادری کے چہرہ پر نہ کوئی ڈر کے آثار بھٹک رہے تھے نہ تو کوئی غم کے داغ ،بلکہ چہرہ و جسم پر اطمینان و سکون کی وہ لہر دوڑ رہی تھی کہ جو مچل مچل کر جان ان پر فدا کرنے کو راہ شہادت گاہ میں دوڑتی نظر آرہی تھی، انکی آنکھیں  جان ان پر لٹانے کو ترس رہی تھی، لبوں پر مسکراہٹ مہک رہی تھی، چہرہ چودویں کے چاند کی طرح سے دمک رہا تھا، گویا ملک ممتاز قادری رحمتہ اللہ علیہ کی یہ حالت بزبان حال یہ کہہ رہی تھی کہ
آپ کی یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی
جان لینے کو دلہن بن کےقضاء آئی ہے
اور حکومت وقت کا ممتاز قادری کو شہید کر دینے کے بعد آج قادری صاحب کی شہادت پر ملک و ملت کی ہر آنکھ اشکبار ہے، بلکہ ہوا و فضاء بھی قادری صاحب کی شہادت پر سوگ وار ہے۔ گویا امام اہل سنت کا یہ شعر ان وقت ان تاریخی جملوں کی عکاسی کر رہا ہے جس میں امام نے فرمایا
 
عرش پہ دھومیں مچیں وہ  مومینِ صالح ملا
فرش  سے ماتم اٹھے وہ  طیب  و طاہر گیا
 
ملک ممتاز حسین قادری رحمتہ اللہ علیہ کو شہید کرنے والے یہ بھول گئے کہ "غازی ملت شہید"ہو سکتا ہے مگر "شہید ملت" کا عزم و ارادہ انکا مشن تا قیامت تک شہید نہیں ہو سکتا۔
عالم اسلام کا ہر بچہ بچہ اس مشن کے لے ہر دم تیار ہے۔
کیونکہ یہ اعزا کی بات ہوتی ہے جو ناموس رسالت پر جان قربان کر دیتا ہے تو وہ دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ ہی رہتا ہے۔یہی بات ملک ممتاز قادری نے شہید ہونے سے پہلے کچھ اس طرح سے کہی تھی۔
 
میرے جنازے پہ رونے والوں 
فریب میں ہو بغور دیکھو
مرا نہیں ہوں غم نبی میں
لباس ہستی بدل گیا ہوں
 
اللہ ممتاز قادری کو غریقِ رحمت فرمائے ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے اور ہمیں تعلیم اسلام پر عمل پرا ہو کر شہادت کی موت عطاء فرمائے آمین
 
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزهء نورسته اس گھر کی نگهبانی کرے
 
العارض: عادل نجم حریم
29.02.2016
۲۰۔جمادی الاخر۔ا۴۳۷
 

 


متعلقہ

تجویزوآراء