چمڑے کی صنعت زوال پذیر

چمڑے کی صنعت زوال پذیر

ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ کے لئے نا قابل تلافی نقصانات

خدا خدا کر کے عید الاضحیٰ کے ایام اختتام پذیر ہوئے اور ملک میں کہیں بھی کوئی قابل ذکر حادثہ کے رونما ہونے کی اطلاعات اب تک نہیں ہیں، تاہم چمڑے کی صنعت میں زوال پذیری مدارس اسلامیہ کے لیے کسی بڑی ناگہانی مصیبت سے کم نہیں ہے۔ کسے خبر نہیں کہ نناوے فیصد مدارس اسلامیہ میں زیادہ تر یتیم و نادار اور غریب و مفلوک الحال طلبہ و طلبات داخلے کے لیے آتے ہیں، جہاں انہیں ادارہ کی جانب سے مفت رہائش، تعلیم، کتب سے لے کر طعام اور علاج معالجہ تک ساری سہولتیں مفت مہیا کرائی جاتی ہیں۔ خیال رہے کہ ہمارے معاشرے میں مرفع الحال گھرانے کے بچے سب سے پہلے انگریزی میڈیم اسکولوں میں داخلے کے خواہشمند ہوتے ہیں، پھر کسی وجہ سے کامیابی نہ ملے، تو علاقائی ہندی اور اردو میڈیم کے اسکولوں سے حصول تعلیم کے لیے منسلک ہو جاتے ہیں، جب کہ مدارس اسلامیہ میں عام طور پر ایسے بچے ہی آتے ہیں، جنہیں ساری سہولیات مفت میسر نہ آئیں، تو وہ کسی صورت تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ یقین نہیں آتا تو اپنے علاقے کے مدارس میں موجود طالبان علوم و فنون کے حالات کا جائزہ لے لیجیے۔ آپ کو بہترے ایسے طلبہ ملیں گے، جن کے پاس سونے کے لیے عمدہ بستر نہیں ہیں، نہ ہی موسم سرما میں خنکی سے بچنے کے لیے مناسب کمبل میسر ہے اور چند واجبی جوڑے کے علاوہ نہ ہی کپڑے موجود ہیں۔

ظاہر ہے کہ مدارس اسلامیہ کے سارے اخراجات مسلمانوں کی مالی اعانت سے پورے کیے جاتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ گنے چنے مدارس میں صوبائی حکومتوں کی طرف سے چند تعلیمی اور غیر تعلیمی اسٹاف کو تنخواہیں دی جاتی ہیں، لیکن ان کے ذریعہ مدارس کے جملہ اخراجات کی جزوی تکمیل ہی ہو پاتی ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ کسی بھی ادارہ کے اخراجات چند جلی عناوین کے تحت مندرج کیے جا سکتے ہیں، جیسے عمارت، صفائی و ستھرائی، طعام، انتظامِ رہائش، علاج و معالجہ، نظمِ تعلیم، پانی و بجلی، نقل و حمل، تعلیمی وغیر تعلیمی اسٹاف کی تنخواہیں وغیرہ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ چند صوبائی حکومتوں کے ضابطے کے مطابق علاقے کے گنے چنے مدارس ہی بعض تعلیمی وغیر تعلیمی اسٹاف کی تنخواہیں حاصل کرنے کے لیے منظور کیے گئے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ بعض افراد کے لیے حکومتی معاونت سے کسی بھی مدرسہ اسلامیہ کے کس قدر اخراجات پورے ہوتے ہوں گے؟ جب کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اشیائے خورد نوش میں بے تحاشہ گرانی نے اچھے اچھوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اور یہ امر بھی مسلم ہے کہ جب اشیائے خورد نوش میں اضافہ ہو جائے، تو پھر دوسری ساری چیزیں مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمارت کی تعمیر و مرمت سےلے کر، صفائی ستھرائی، کتب، پانی بجلی، نقل و حمل وغیرہ تمام معاملات مہنگے ہو گئے ہیں۔

یہاں صوبائی حکومتوں سے ملنے والی امداد کی حقیقت بھی سن لی جائے تو بہتر ہے، تاکہ مدارس اسلامیہ کے واقعی حالات ہماری نگاہوں کے سامنے رہیں۔ ملی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۰ تک صرف ۳۹ مدارس ہی یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے لیے امداد پاتے تھے، جو مایاوتی کے دور میں بڑھ کر ۱۰۰ تک جا پہنچے، بعد میں مزید اضافہ ہوا اور حالیہ اطلاعات کے مطابق ۴۷۸ مدارس رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں، جن میں سے صرف ۱۳۱۷ امداد کے مستحق قرار دیے گئے ہیں۔ جب کہ ملی گزٹ کے اندازہ کے مطابق صوبہ میں دس ہزار سے کہیں زیادہ مدارس موجود ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ صوبائی امداد کی ٹوٹی ہوئی بیساکھی کے سہارے کتنے مدارس زندہ رہ سکتے ہیں؟

بہر کیف، میں عرض یہ کر رہا تھا کہ مدارس اسلامیہ اپنے اخراجات کے پورا کرنے کے لیے دو مواقع کے منتظر رہتے ہیں، ایک رمضان المبارک اور دوسرا عید الاضحیٰ۔ رمضان المبارک میں عام طور پر مسلمان فطرہ، زکوۃ اور عطیات سے مدارس اسلامیہ کی مدد کرتے ہیں اور عید الاضحیٰ کے موقع پر قربان ہونے والی کھالیں فروخت کر کے رقم حاصل کی جاتی ہے۔ یہاں خیال رہے کہ رمضان المبارک میں ہونے والی آمدنی میں نقل و حمل اور واجبی اخراجات کی وجہ سے ایک معتدبہ حصہ مدارس اسلامیہ تک نہیں پہنچ پاتا، جب کہ عید الاضحیٰ کے موسم رحمت میں بہ آسانی ایک موٹی رقم مدارس اسلامیہ کو حاصل ہو جاتی ہے، جس سے چند ماہ کے اخراجات کا انتظام ہو جاتا ہے۔ تاہم پچھلے سال سے ہندوستان میں چمڑے کی تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ نام نہاد گؤرکھ شک تنظیمیں ہیں، جو سر عام بڑے جانور لے جانے والے ٹرک کے ڈرائیور اور ساتھیوں کو زرکوب کر رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں نے جانوروں سے متعلق سارے تجارتی معاملات بند کر دیے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ جھار کھنڈ میں دو سال قبل بڑے جانور کا فی چمڑا بارہ سو روپئے اور بکرا کا چمڑا ڈھائی سو میں فروخت ہوا تھا، جب کہ اس سال بڑے جانور کے چمڑے کی قیمت تین سو روپئےسے کم لگائی گئی ہے اور خصی کے چمڑے کی قیمت پچھتر روپئے لگی ہے۔ سنتے ہیں کہ دہلی میں تو صورت حال مزید خراب رہی ہے اور یہاں پر بکرے کی کھال قیمت چالیس روپئے سے بھی کم رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے اطراف و جوانب میں کھالیں حاصل کرنے کے لیے فلاحی تنظیموں کے رضا کارنسبتاً بہت ہی کم دکھائی دیے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ و اساتذہ عید الاضحیٰ سے بہت پہلے ہی علاقے میں ہونے والی قربانی کا جائزہ لیتے تھے اور جس گھر میں قربانی متوقع ہوتی، اس کے اہل خانہ سے اپنے مدرسہ کے لیے کھال دینے کا وعدہ تک کراتے تھے، لیکن ادھر دو سالوں سے کھال کی قیمتیں گرنے سے اب وہ جدوجہد دکھائی نہیں دیتی، بلکہ عینی شاہدین کے مطابق بہتری کھالیں یوں ہی پڑی پڑی ضائع تک ہو گئی۔ ہندوستان کےدوسرے شہروں سے آنے والی اطلاعات بھی کم و بیش یہی ہیں۔

صاحبو! چمڑے کی صنعت کے زوال پذیر ہونے سے ویسے تو بہت سارے افراد متأثر ہوئے ہیں، تاہم سب سے زیادہ نقصانات کی زد میں مدارس اسلامیہ آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ چمڑے سے ہونے والی آمدنی گھٹ کر دس فیصد تک پہنچ جائے تو حالات نہایت ہی تشویش ناک حد تک خراب سمجھے جائیں گے۔ یہ بتانا بہت ہی مشکل ہو گا، لیکن یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ ملک میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ اقتصادی اعتبار سے اپنے بد ترین دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس لیے پہلے سے کہیں زیادہ، سارے مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں چلنے والے مدارس اسلامیہ کی مزاج پرسی کریں، بلکہ ہو سکےتو ارباب حل و عقد، ملی خدمات گزار اور اصحاب ثروت کی انتظامیہ مدارس کے ساتھ نشست کرائی جائے، تاکہ مالی خسارے کی تلافی کے لیے کوئی اجتماعی لائحۂ عمل تیار کیا جا سکے۔ یقین جانیے کہ ہندو پاک میں پیغام اسلام کے ترو تازہ رکھنے کے لیے جو فعال و متحرک کردار فارغین مدارس اسلامیہ ادا کر ہے ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر میں عرض کروں کہ عہد حاضر میں یورپ میں امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ اور دوسرے ممالک میں اسلام کی جو رونق دکھائی دے رہی ہے، اس میں بھی ہندو پاک کے فارغین کا بہت بڑا حصہ ہے۔ خیال رہے کہ مؤخر الذکر رائے کسی جذباتی لگاؤ کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ دو دہائیوں سے ساری دنیا میں تبلیغی اور اصلاحی دوروں کے دوران میں اپنے ماتھے کی آنکھ سے دیکھا ہے کہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے اسلامی مراکز کے قیام سے لے کر مسلمانوں کی دینی رہنمائی اور غیروں تک اسلام پہنچانے میں زیادہ تر ہندو پاک کے فارغین مدارس اسلامیہ ہی پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔لہذا یہ ہم سبھوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ سب مل جل کر دینی باغیچوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں، تاکہ صبح قیامت تک یہاں سے دین اسلام کی خوشبو دور نزدیک تک پھیلتی رہے۔

(مضمون نگار لون اسٹار کالج ہیوسٹن، امریکہ کے ورلڈ لینگویج دیپارٹمنٹ میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں)


متعلقہ

تجویزوآراء