حضور تاج الشریعہ اور شرح قصیدہ بردہ

امام شرف الدین بوصیری (۶۰۸ھ۔ ۶۹۶ھ) کے مبارک و مسعود قصیدے کے متعدد نام ہیں، کوئی اسے ’’قصیدہ میمیہ‘‘ کہتا تو کوئی ’قصیدۃ البراۃ‘، کوئی ’’الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ‘‘ نام سے موسوم کرتا تو کوئی ’قصیدۃ البردۃ‘ سے، مگر مؤخر الذکر اسم سے وہ زبان زد خواص و عوام ہوا، اس مشہور زمانہ قصیدے کو قصیدہ بردہ کے نام سے اس لیے شہرت ملی کہ عربی زبان میں ’بردہ‘ ردا (یعنی چادر) کو کہتے ہیں اور اس چادر (بردہ) کا حضور علیہ السلام کی مدح و ثنا میں کہے جانے والے قصائد و مدائح کے ساتھ بڑا گہرا ربط رہا ہے۔ صحابی رسول حضرت کعب بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی شان میں جب اپنا قصیدہ لامیہ (بانت سعاد) پیش کر کے اپنے کلام کو حسن و زینت بخشی اور گویا بزبان حال یہ کہتے ہوئے کہ مان مدحت محمدا بمقالتی لکن مدحت مقالتی بمحمد، اپنا قصیدہ لے کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو کونین کی زیب و زینت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسے سماعت فرما کر انہیں بطور تحفہ اپنی ردائے مبارک یعنی اپنی بردہ شریف عطا فرمائی، اسی وجہ سے ان کے قصیدہ، بانت سعاد کو بھی قصیدہ البردۃ کہا جاتا ہے وجہ تسمیہ جاننے کے لیے ایک یہ حدیث پاک بھی ملاحظہ فرمالیں، جسے امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں نقل فرمائی ہے: عن ابی عمر و بن العلا، ان کعب بن زھیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لما انشد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قصیدتہ بانت سعاد رمی الیہ ببردۃ کانت علیہ فلما کان زمن معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کتب الی کعب بعنا بردۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بعشرہ آلاف درھم، فابی علیہ فلما مات کعب بعث معاویۃ الی اولادہ بعشرین الف درھم و اخذ منھم البردۃ التی ھی عند الخلفاء آل العباس و ھکذا قال خلائق آخرون۔ [1]

(۱) ترجمہ: حضرت ابو عمر و سے مروی ہے کہ حضرت کعب بن زھیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنا قصیدہ بانت سعاد سنایا تو اس وقت حضور کے جسم اطہر پر جو چادر مبارک تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن زھیر کو بطور تحفہ عطا فرمادی پھر جب حضرت امیر معاویہ کا دور خلافت آیا تو انہوں نے حضرت کعب کو پیغام بھیجا کہ حضور کی وہ چادر مبارک تم مجھے دس ہزار درہم میں بیع کردو، انہوں نے حضرت امیر معاویہ کی اس پیش کش کو قبول نہ فرمایا مگر جب ان کا وصال ہوگیا تو حضرت امیر معاویہ نے ان کی اولادوں کے پاس بیس ہزار درہم بھجوا کر وہ ردائے مبارک حاصل کر لی جو عباسی خلفاء کے پاس تھی۔

اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ امام شرف الدین بوصیری علیہ الرحمہ کے ساتھ عالم رویا میں پیش آیا جس کی وجہ سے ان کے قصیدے کا نام بھی قصیدہ بردہ شریف پڑا، عصیدۃ الشہدا شرح قصیدۃ البردۃ میں ہے: کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے امام شرف الدین بوصیری کے قصیدے کو عالم خواب میں سماعت فرمایا اور خوش ہوکر اپنی ردائے مبارک (بردہ شریف) ان کے بیمار جسم پر ڈالی اور اپنا دست شفا پھیرا جس کی برکت سے وہ فوراً شفا یاب ہوگئے۔ ؎

سب طبیبوں نے دے دیا ہے جواب
آہ! عیسی اگر دوا نہ کرے

خود امام شرف الدین بوصیری اسی قصیدے کے ایک شعر میں اس طرف یوں اشارہ کرتے ہیں:

کم ابرات و مصبا باللمس راحتہ
واطلقت اربا من ربقۃ اللمم

(ترجمہ: حضور علیہ السلام کے کف مبارک نے نہ جانے کتنے بیماروں کو چھو کر اور مسح فرما کر شفا بخشی ہے اور نہ جانے کتنے محتاجوں کو پریشانی اور گناہوں کے پھندے سے نجات دی ہے)۔

لہٰذا اس چادر مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام بھی قصیدہ بردہ شریف مشہور ہوا۔

یہ قصیدہ میمیہ ہے وہ قصیدہ لامیہ ہے، نام دونوں کا ہی قصیدہ بردہ ہے فرق یہ ہے کہ صاحب قصیدہ لامیہ (حضرت کعب بن زبیر) کو حضور علیہ السلام کی ردائے مبارک (بردہ شریف) عالم بیداری میں ملی اور صاحب قصیدہ میمیہ (امام بوصیری) کو چادر مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثنا عالم رویا میں نصیب ہوئی۔

حضور کی اس چادر مبارک کی برکت سے امام شرف الدین بوصیری کے اس قصیدے کو اتنی مقبولیت نصیب ہوئی کہ آج اسلامیان عالم کے سینوں میں عشق رسالت کی جو بات جگانے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے سے ان کے قصیدے کے اشعار کی صدا سنائی دیتی ہے:

مولای صل وسلم دائما ابدا
علی حبیبک خیر الخلق کلھم
ھو الحبیب الذی ترجی شفاعتہ
لکل ھول من الاھوال مقتحم
محمد سید الکونین والثقلین
والفریقین من عرب ومن عجم

عشق رسالت کی ہر درسگاہ میں اسے شامل نصاب رکھا گیا ہے، اسے عشق رسالت کی تکمیل کا ذریعہ تصور کیا گیا بلکہ عشق رسالت کی سند مانا گیا۔

قصیدہ بردہ شریف جو عربی زبان میں مدح نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مشتمل، علوم و فنون کا جامع، عربی ادب کا شاہکار اور زبان و بیان کے لحاظ سے انتہائی فصیح و بلیغ قصیدہ ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ قصیدہ بارگاہ رسالت میں مقبول اور اتنا مقبول ہے کہ اس کے اشعار دربار خدا وندی میں مستجاب اور روحانی فوائد کا خزینہ ہیں، اس قصیدہ مبارکہ کی اتنی ساری خصوصیات کی وجہ سے اکابر علما وائمہ نے اس کی عربی زبان میں شرح فرمائی ہے جن میں سر فہرست، ملا علی قاری (المتوفی ۱۰۱۴ھ) کی ’’زبد ۔ ۃ‘‘ علامہ عمر بن آفندی خرپوتی (م ۱۲۹۹ھ) کی ’’عصید۔ ۃ الشہدۃ‘‘، علامہ ابراہیم بیجوری (م ۱۲۷۶ھ) کی ’’شرح بردہ‘‘، علامہ شیخ زادہ (م ۹۵۱ھ) کا ’’حاشیہ بردہ‘‘، امام ابن حجر مکی (م ۹۷۴ھ) کی ’’عمدۃ‘‘، امام قسطلانی (م۹۲۳ھ) کی ’’الانوار المضیۃ فی شرح الکواکب الدریۃ‘‘، علامہ ابن ھشام (م ۷۲۱ھ) کی ’’الکواکب الدریۃ‘‘، علامہ ابن ھشام (م۷۶۱ھ) کی ’’الکواکب الدریۃ‘‘، امام زکریا انصاری (م ۹۲۶ھ) کی ’’الزبدۃ الرانقۃ فی شرح البردۃ الفائقۃ‘‘، علامہ ابن علان صدیقی مکی کی ’’الذخر والعدۃ فی شرح البردۃ‘‘ ہیں۔ اور ان علمائے کبار کے علاوہ جن عظمائے اسلام کا نام بطور شارح بردہ آتا ہے مگر ان کی شروح دستیاب نہ ہوسکیں ان میں یہ حضرات قابل ذکر ہیں: امام جلال الدین محلی (م ۸۶۴ھ) (صاحب تفسیر جلالین)، امام زرکشی (م ۷۹۴ھ) (صاحب کتاب ’’البرہان فی علوم القرآن‘‘)، علامہ ابن العماد حنبلی (م ۸۰۸ھ) (صاحب کتاب ’’شذ رات الذھب‘‘)، محمد بن عبد اللہ بن مرزوق مالکی (م۷۸۱ھ) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔

لیکن ان میں سے اکثر شروح میں یا تو محض فنی گفتگو ہے یا محض لفظی و معنوی اور پھر یہ کہ یہ تمام شروح آج سے کئی کئی سو سال پہلے کی ہیں جو شارح کے اپنے زمانے کے حالات و مقضیات کے مطابق ہیں اور اس دور کے تناظر میں لکھی گئی ہیں، اس زمانے میں ایسی عربی شرح کی ضرورت تھی جو اس زمانے اور اس دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق ہو جس میں اشعار کی شرح کے ساتھ ساتھ عقائد و معلومات اہل سنت کا کامل بیان اور فرقہائے باطلہ کی تردید بھی ہو، نیز علوم متداولہ کی جامع ہونے کے ساتھ سابقہ تمام شروح کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے بھی ہو۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہوں جد کریم وارث علوم اعلیٰ حضرت، جانشین مفتی اعظم شارح قصیدہ بردہ حضور تاج الشریعہ کی قبر انور پر کہ آپ نے اس ضرورت کو محسوس فرماتے ہوئے قصیدہ بردہ کی ایک ایسی عربی شرح فرمائی جو یقیناً علماء و طلبہ کے لیے یکساں مفید ہے، جس میں علمی و فنی گفتگو بھی ہے، اور علوم متداولہ مثلا نحو و صرف، معانی و بیان، ادب و منظق، علم کلام و حدیث اور علم فقہ و اصول فقہ کی اصطلاحات اور ان کی تعریفات بھی ہیں اور اکابر علمائے اہل سنت کی کتابوں سے عقائد اہل سنت کا اثبات بھی، خصوصا جا بجا اعلیٰ حضرت امام اہل سنت کی تصنیفات سے معمولات اہل سنت کی وضاحت بھی ہے اور دیگر شارحین کے تسامحات پر تنبیہ بھی، گویا حضور تاج الشریعہ کی شرح ’’الفردہ فی شرح البردۃ‘‘ سابقہ تمام شروح کی جامع اور قاری کی تشنگی کو دور کرنے والی ہے۔

قصیدہ بردہ شریف میں کل دس فصلیں ہیں۔

پہلی فصل عزلیات میں ہے:

اس فصل میں حضرت تاج الشریعہ نے علم نحو و صرف اور علم معانی و بیان کے اعتبار سے شرح فرمائی ہے اور نحوی و صرفی ادوات و حروف کی جگہ جگہ مکمل تحقیق بیان فرمائی ہے مثلا فصل اول کا یہ شعر:

نعم سری طیف من اھویٰ فارقنی
والحب یعترض اللذات بلالم

ترجمہ: ہاں ہاں (مین اقرار کرتا ہوں کہ) مجھے اپنے محبوب کی یاد اور اس کا خیال خواب میں آیا جس نے مجھے بے چین اور بے خواب کردیا اور محبت ایسی چیز ہی ہوتی ہے جو خوشی میں رکاوٹ بن جاتی ہے (حائل ہوجاتی ہے درد و الم کے ساتھ)۔

اس شعر کے تحت حضور تاج الشریعہ لفظ ’’نعم‘‘ اور ’’بلی‘‘ کے درمیان فرق واضح فرماتے ہیں اور شارح کے ایک تسامح پر تنبیہ بھی فرماتے ہیں اور پھر حاصل کلام کے طور پر امام جلال الدین سیوطی کی کتاب ’’ھمع الھوامع‘‘ سے اپنے دعوے کو مدلل و مبر ہن کر کے تحریر فرماتے ہیں:

ہم نے مختصر الفاظ میں زیادہ معانی و مفاہیم کے ساتھ ’’ھمع الھومع‘‘ سے کچھ مباحث قارئین کرام کے گوش گزار کیے اور جو کچھ مقاصد و مطالب کی توضیح اور ابہام کا انکشاف اس میں کیا گیا تھا، ہم نے یہاں بیان کر دیا نیز (شارح قصیدہ بردہ) علامہ خر پوتی نے جو شعر ’نعم‘ متعلق نقل کیا تھا اس کی درست صورت یوں ہوسکتی ہے، جو میں عرض کر رہا ہوں:

بعد نفی قل نعم او عند اعلام کذا
بعد ایجاب نعم لا بعد ایجاب بلی

شعر کی اس صورت کو تسلیم کر لینے سے علامہ خرپوتی نے جو وجہیں ’’نعم‘‘ کے متعلق شروع میں بیان کیں وہ صحیح و درست ہوجائیں گی۔۔۔ الخ۔ [2]

المختصر حضور تاج الشریعہ نے فصل اول میں علم نحو و صرف، علم بدیع، معانی و بیان کی اعلی بحثیں اور ائمہ علوم و فنون کی کتابوں سے نقول پیش فرمائے ہیں۔

دوسری فصل نفس امارہ کے بیان میں ہے:

چوں کہ نفس امارہ تصوف کا ایک اہم باب لہٰذا اس فصل کی شرح میں حضرت نے مذکورہ علوم و فنون کے ساتھ ساتھ علم تصوف و روحانیت سے بھی کلام کیا ہے مثلا یہ شعر ملاحظہ ہو:

وراعھا وھی فی الاعمال سائمۃ
وان ھی استحلت المرعی فلاتسم

ترجمہ: تو نفس کی نگرانی کر اس حال میں کہ وہ چرنے میں مصروف ہوا اور اگر وہ اس چراگاہ عمل کو لذیذ جانے تو اس کو تو چرنے نہ دے۔

حضور تاج الشریعہ اس شعر کی صوفیانہ تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے عار باللہ! اپنے نفس کو معرفت الٰہی اور اللہ کی محبت میں فنا کر دے اور اس کی رضا حاصل کر اور اعمال کر اور اعمال کی تعداد گننے میں نہ رہ اس لیے کہ اعمال میں باقی رہنا صلحا اور زہاد کا مرتبہ ہوتا ہے بلکہ تو ملاحظہ واجب الوجود میں مستغرق ہو جا اور اپنے قعود و سجود پر نظر کرنا چھوڑ دے اس لیے کہ اگر کہ تو گنتیوں میں پھنسا رہا تو محبوب ہوجائے گا اور اگر تو اس کو چھوڑ کر اس سے بالا تر منزل کو پہنچ جائے گا تو تو مطلوب ہوجائے گا، کیوں کہ اعمال و استدلال سے ماورا اصول کمال کی منزل ہوتی ہے اور یہی حقیقت وصال ہے، تو نفس اپنی خباثت کی وجہ سے ذکر و فکر میں پڑا رہنا چاہتا ہے فعلیک بالتحول ولو بالتحمل۔ [3]

تیسری فصل مدح نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر مشتمل ہے:

اس میں جد کریم حضور تاج الشریعہ نے اپنے جد کریم سیدنا اعلیٰ حضرت اور دیگر اکابر علمائے اہل سنت کی کتب سے عشق رسالت کا درس دینے کے ساتھ عقائد و معمولات اہل سنت کا واضح بیان فرمایا ہے اور احادیث مبارکہ سے حضور علیہ السلام کے فضائل و شمائل بیان فرمائے ہیں اور حضور کے حسن صورت و سیرت کا نقشہ کھینچتے ہوئے، حضور علیہ السلام کے جمال طلعت کا احادیث سے تفصیلی بیان فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر قصیدہ بردہ شریف کا انتہائی معروف شعر ملاحظہ ہو:

ھو الحبیب الذی ترجی شفاعتہ
لکل ہول من الاھوال مقتحم

ترجمہ: وہی اللہ کے حبیب ہیں جن کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے اور جن کی شفاعت ہی سے تمام سختیوں اور ہولناکیوں کے آپڑنے کے وقت توقع ہے۔

اس شعر کی شرح میں حضرت تاج الشریعہ پہلے حضور علیہ السلام کے حبیب اللہ ہونے پر قرآن و حدیث سے شواہد پیش فرماتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوبیت کے ساتھ آپ کی شفاعت کے معانی و مفاہیم کی وضاحت، المعتقد المنتقد اور المعتمد الممستند سے کر کے، شفاعت میں سے بعض کفار کے اوپر سے تخفیف عذاب کی شفاعت بھی ہے اور اس کی مثال میں ابو طالب ہیں لہذا یہاں سے ابو طالب کے کفر و ایمان کی بحث چل پڑتی ہے تو شرح المطالب فی مبحث ابی طالب کے مباحث لائے جاتے ہیں اور اس ایک شعر کی شرح تقریبا بارہ تیرہ صفحات میں جا کر مکمل ہوتی ہے، اس فصل میں ایک مقام پر حضرت تاج الشریعہ حبیب و خلیل کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے علامہ ابو بکر بن فورک کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:

’’اس کلام میں متکلمین بیان فرماتے ہیں کہ ’’خلیل‘‘ بالواسطہ واصل حق ہوتا ہے، فرمان باری تعالیٰ کے بموجب (وکذالک نری ابرٰھیم ملکوت السمٰوت والارض) [4] لیکن اس کے برعکس حبیب اپنے رب کی بارگاہ میں بغیر کسی واسطے کے پہنچتا ہے اس فرمان باری تعالیٰ کے بموجب (فکان قاب قوسین او ادنی) [5] اور بعض علماء کا کہنا ہے کہ خلیل وہ ہوتا ہے جس کی مغفرت حد و طمع میں ہوتی ہے رب تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے (والذی اطمع ان یغفرلی خطیئتی یوم الدین) [6] اور حبیب وہ ہوتا ہے جس کی مغفرت حد یقین میں ہوتی ہے بوجہ ایں فرمان باری تعالیٰ (لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تأخر) [7] خلیل نے کہا (ولا تحزنی یوم یبعثون) [8] اور حبیب سے کہا گیا (یوم لا یخزی اللہ النبی) [9] یعنی مانگنے سے پہلے بشارت سنا کر آغاز کیا گیا۔ خلیل نے آزمائش میں کہا (حسبی اللہ) اور حبیب سے کہا گیا (یا یھا النبی حسبک اللہ) [10] خلیل نے عرض کیا (واجعل لی لسان صدق الآخرین) [11] اور حبیب سے فرمایا گیا (ورفعنالک ذکرک) [12] یعنی بغیر مانگنے عطا کیا گیا، خلیل نے دعا کی (واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام) اور حبیب کو بشارت سنائی گئی (انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت) [13]

(ترجمہ از الوردہ، ص ۲۷۰، ۲۷۱)

مذکورہ بالا سطور میں ایک جگہ علماء کا یہ قول نقل ہوا کہ حضرت خلیل کی مغفرت حد طمع میں ہیں، حضور تاج الشریعہ اس قول پر یوں تنبیہ فرماتے ہیں:

تنبیہ: قارئین کرام کو طمع کے معنی پر آگاہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں جس کا ذکر ابھی ماسبق میں گزرا۔

یہ بات جاننا انتہائی ضروری ہے کہ کسی بھی نبی کا طمع کرنا (خواہش اور تمنا کرنا)، (صلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی سائر النبین) درجۂ یقین سے نہیں گرتا اس لیے کہ انبیائے کرام کی امید و رجاء وہ پایۂ ثبوت اور یقین کی منزل میں ہوتی ہے اور آیت پاک کے دوسرے پہلو کے متعلق قارئین کرام کا متفکر اور فکر مند ہونا لازمی ہے کہ تمام انبیائے کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام تو معصوم عن الخطاء ہیں تو آیت پاک میں خطیئۃ، مؤول ہے اور اپنے ظاہری معنیٰ میں نہیں ہے اور معاملہ تواضع پر محمول ہے یا پھر خطا یا خطیئۃ سے حضرت ابراہیم کے اصحاب و خواص کی خطائیں مراد ہیں جیسا کہ اس فرمان کے متعلق کہا گیا ہے (واستغفر لذنبک وللمومنین) تو اب معنی یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بارے میں خبر دی کہ ان کو اس مغفرت کا یقین ہے جو مغفرت کہانبیائے کرام کے ساتھ مختص ہے اور قربیٰ کی مغفرت سے جدا اور الگ ہے یا پھر وہ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ وہ مرتبۂ شفاعت کے خواہاں اور متمنی ہیں جو کہ سید الانبیاء کے وسیلے اور وساطت سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اور حضور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضور سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بایں طور پر ممتاز اور منفرد ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور کو یہ فرما کر بشارت دی (لیغفر لک)

یعنی اس کو حضور کے سپرد اور حضور کے ذمے پہ باقی نہ چھوڑا بر خلاف حضرت خلیل کے علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام۔ [14]

چوتھی فصل میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بیان میں ہے:

اس میں میلاد مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء منانے کی مشروعیت پہ بحث کی گئی ہے اور دلائل و براھین سے ثابت فرمایا ہے کہ میلاد مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء منانا ایک ایسا نیک عمل ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت اور سلف صالحین کا تواتر عملی ہے اور جسے مسلمانوں نےاپنے آباء و اجداد اور اسلاف سے ورثے میں پایا ہے۔ آغاز فصل میں حضرت تاج الشریعہ یوں رقم طراز ہیں:

’’شاعز ذی فہم اس شعر میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منا رہے ہیں اسی وجہ سے وہ بہت ہی عمدہ اور نرالے طریقے سے چشن میلاد النبی منانے کی مشروعیت پر تنبیہ کر رہے ہیں کہ وہ ایسی سنت جمیلہ ہے کہ مسلمانوں نے اسے اپنے اباؤ اجداد سے ورثے میں پایا ہے اور ہر زمانے و عصر میں نسلاً بعد نسل مسلمانوں میں جاری و ساری رہی ہے۔

لہٰذا قارئین کرام کے لیے امام بوصیری جیسی شخصیت بحیثیت امام و مقتدا کافی ہے کہ ان کی بات مانی جائے۔

جیسا کہ اس سے قبل ناظم نے حضور کے نسب شریف کی شرف و بزرگی اور شرک کی نجاست سے اس کے پاکی و طہارت پر تنبیہ کی تھی۔ تو حضور کے آباؤ اجداد اور مہات میں حضرت آدم و حوّا سے لے کر حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنھمانک کوئی بھی مشرک نہ تھا بلکہ سب موحد تھے اور پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مزید فضل پر فضل فرمایا کہ اس نےآپ کے والدین کریمین کو دوبارہ زندہ فرمایا اور پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہیں توحید کی فضیلت کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بھی فضیلت نصیب ہوئی، جد کریم امام ہمام شیخ احمد رضا قدس سرہ کا اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ ہے جس کا نام ’’شمول الاسلام لا صول الرسول الکرام‘‘ ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےمجھے اس کی تعریب و تحقیق اور اس پر اہم تقریرات کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، فالحمد للہ علی ذالک۔ [15]

پانچویں فصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے بیان میں ہے:

اس فصل کی شرح میں کثرت کے ساتھ حضور کے معجزات، آیات و احادیث کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں، ایک مثال ملاحظہ ہو:

اقسمت بالقمر المنشق ان لہ
من قلبہ نسبۃ مبرورۃ القسم

ترجمہ: میں شق ہونے والے چاند کی سچی قسم کھاتا ہوں کہ بے شک اس شق قمر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب شریف سے ایک مشابہت و مناسبت ہے۔

اس شعر کے تحت حضور کے معجزہ شق القمر کی ایک روایت غریبہ ان الفاظ میں نقل فرماتے ہیں:

’’علامہ خرپوتی نےشق قمر کے متعلق ایک حکایت نقل کی ہے جس میں غرابت ہے مگر ان کی روایت پر بھروسہ و اعتماد کرتے ہوئے ہم اسے یہاں نقل کئے دیتے ہیں‘‘

مذکورہ شعر میں امام شرف الدین بوصیری نے چاند کی قسم اٹھائی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا جائز ہے یا نا جائز؟ اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت تاج الشریعہ رقم طراز ہیں:

یہ قسم جو امام شرف الدین بوصیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب سے صادر ہوئی بتا رہی ہے کہ مؤمن سے جب، اللہ تبارک و تعالیٰ کے شعائر اور نشانیوں کی تعظیم و اجلال کے طور پر قسم صادر ہو، مشرکوں کے طریقے اور بے تکی باتیں کرنے والوں سے بچتے ہوئے اور تفاخر ممنوع سے دور رہتے ہوئے، تو یہ قسم اس قسم میں نہیں جو ہر طرح ممنوع ہے، اور اس طرح قسم کھانا کیوں کر ممنوع ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے (ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب) اور فرماتا ہے (ومن یعظم حرمت اللہ)، تو ان شعائر کی تعظیم رب تعالیٰ کی تعظیم ہے۔ [16]

چھٹی فصل شرف قرآن کے بیان میں ہے:

اس کے اشعار کی شرح میں علم عقائد کی مشہور معرکۃ الآراء بحث، کلام باری تعالیٰ کے تعلق سے انتہائی فاضلانہ اور پر مغز بحث کی ہے اور کلام نفسی و کلام لفظی کی بحث میں اعلیٰ حضرت کے رسالہ ’’انوار المنان فی توحید القرآن‘‘ سے نقول پیش کیے ہیں اور شرف قرآن کے متعلق بحث امام اہل سنت کی تصنیف لطیف ’’انباء الحی بان کلامہ المصون تبیانا لکل شئی‘‘ سے پیش فرمائی ہے۔ خوف طوالت سے مثالیں پیش کرنے سے گریز کر رتے ہوئے کلام کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر حضور تاج الشریعہ کی شرح بردہ کے تعرف میں مذکورہ بالا سطور کافی ہیں، فقس علی ھذا الباقیات۔

الغرض حضور تاج الشریعہ کی یہ عربی شرح ’’الفردہ‘‘ یقیناً اسم با مسمیٰ ہے اور قصیدہ بردہ شریف کی ایک منفرد و بے مثال شرح ہے جو پڑھے پڑھائے جانے کے لائق ہے۔

جس طرح عالم عرب کی محافل مولد و قیام میں قصیدۂ بردہ کی تلاوت نہایت محبت سے کی جاتی ہے بالکل اسی طرح یہاں بر صغیر ہندو پاک میں اہل سنت کی کوئی محفل حدائق بخشش کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، امام شرف الدین بوصیری اور امام اہل سنت اعلی حضرت کے مابین جو چیز مشترک تھی اسے عشق رسالت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عشق رسالت ہی کا صدقہ ہے کہ اس مبارک و مسعود قصید کی بزبان عربی شرح کرنے کی سعادت سر خیل خانوادۂ اعلیٰ حضرت حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے حصے میں آئی، عشق رسالت کی جس شاہ راہ پر امام شرف الدین بوصیری اور امام اہل سنت اعلیٰ حضرت چلے اسی پر حضور تاج الشریعہ نے رواں دواں رہتے ہوئے یہ شرح فرمائی۔

حضور تاج الشریعہ کی ایک عادت کریمہ یہ بھی تھی کہ آپ اس مبارک و مسعود قصیدے کی خلوت و جلوت میں کثرت کے ساتھ تلاوت فرماتے تھے، محافل میں ترنم سے گنگنا کر اہل دل کے قلب و روح کو کیف و سرور کی لذتوں سے آشنا کر دیتے۔

بڑے بڑے علماء، حضرت سے قصیدہ بردہ شریف پڑھنے کی اجازت طلب کرتے اور حضرت انہیں اجازت سے مشرف بھی فرماتے، حضرت مولانا افروز قادری چریا کوٹی اپنا واقعہ یوں تحریر فرماتے ہیں: ’’کسی موقع پر میں نے حضرت سے قصیدہ بردہ شریف پڑھنے کی اجازت طلب کی تو حضرت نے زبانی عنایت فرمادی۔ میں نے عرض کیا حضور! تحریری درکار ہے۔ فرمایا تب لکھئے میں اس پر دستخط کئے دیتا ہوں، میں نے لکھنا شروع کیا، حضرت نے فی البدیہہ ایسا مقفیٰ اور مسجع اجازت نامہ املاء کروایا کہ میں تو عشق عشق کر اٹھا۔ ذرا جملوں کے زیر و بم دیکھیں بلکہ سیاق و سباق کی تفہیم کے لیے پورا اجازت نامہ نقل کیے دیتا ہوں:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد اللہ المک المنعام، والصلوٰۃ والسلام علی سیدنا محمد النعمۃ المھداۃ رحمۃ للانام، وعلی آلہ الکرام وصحبہ العظام، ومن تبعھم با حسان الی قیام الساعۃ وساعۃ القیام وبعد!

قد استجزت لقرأۃ بردۃ المدیح فھا انا ذا اجیز المستجیز۔۔۔۔۔ بھا وبکل ما اجزت من مشانخی الکرام رحمھم اللہ تعالیٰ، اسئل اللہ سبحانہ وتعالی ان یسدد خطای وخطاہ ویو فقنا بمایحبہ ویرضاہ اوصیہ بملازمۃ السنۃ ومصباحۃ اھلھا ومجانبۃ البدعۃ ومفارقۃ اھل الھویٰ والاستقامۃ علی نھج الھدیٰ)‘‘ [17]

اس شرح کی انفرادیت و خصوصیت قارئین کرام مذکورہ بالا سطور میں ملاحظہ فرما چکے، اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر فقیر راقم الحروف کے ذہن میں زمانہ طالب علمی ہی میں یہ خیال آتا تھا کہ کیوں نہ اس کا اردو زبان میں ترجمہ اور کہیں کہیں مناسب تشریح کردی جائے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فقیر راقم الحروف کو توفیق مرحمت فرمائی اور فقیر نے اپنے دور طالب علمی ہی میں ’’الفردہ‘‘ کا ترجمہ اور اس کی شرح بنام ’’الوردہ فی شرح الفودہ‘‘ بحول اللہ تعالیٰ مکمل کردی جو پچھلے سال عرس رضوی کے موقع پر چھپ کر شائع بھی ہوگئی، فقیر نے حضور تاج الشریعہ سے اس بات کا جب ذکر کیا تو حضرت نے مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا تھا۔

اس کام کا آغاز راقم الحروف نے ہدایہ، حسامی اور مدارک وغیرہ (یعنی جماعت سادسہ کی کتابوں) کا درس لینے کے وقت کر دیا تھا اور اختتام توضیح و تلویح، بخاری، مسلم وغیرہ یعنی جماعت ثامنہ کی کتابوں کا درس لینے کے وقت کر دیا اور مقصد صرف یہ تھا کہ فقیر کو بھی قصیدہ بردہ شریف کے فیوض و برکات نصیب ہوں، اللہ تعالیٰ فقیر کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ اس کے لکھنے میں میری نیت و ارادے میں خلوص کی کوئی کمی رہ گئی ہو تو معاف فرمائے، اور اپنے حبیب کے ثنا خوانوں میں فقیر راقم الحروف کا نام بھی قصیدہ بردہ شریف کے شارح و مترجم کی حیثیت سے قبول فرمائے نیز شارح قصیدہ بردہ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی قبر انور اور مرقد منیف پر صبح و شام انوار تجلیات کی بارش نازل فرمائے۔

تیرے دامن کرم میں جسے نیند آگئی ہے
جو فنا نہ ہوگی ایسی اسے زندگی ملی ہے
ترا دل شکستہ اخترؔ اسی انتظار میں ہے
کہ ابھی نوید وصل تیرے در سے آرہی ہے



[1] ۔ تاریخ الخلفا، ص: ۲۱ ۔

[2] ۔ ترجمہ از الوردۃ فی شرح الفردہ مصنفہ، فقیر راقم الحروف، ص ۹۱ ، ۹۲ ۔

[3] ۔ ترجمہ از: الوردہ ص ۱۳۱ ۔

[4] ۔ الانعام ۷۵ ۔

[5] ۔ النجم ۹ ۔

[6] ۔ الشعراء ۸۲ ۔

[7] ۔ الآیۃ الفتح: ۲ ۔

[8] ۔ الشعراء ۸۷ ۔

[9] ۔ التحریم: ۸ ۔

[10] ۔ الانفال: ۶۴ ۔

[11] ۔ الشعراء: ۸۴ ۔

[12] ۔ الانشراح: ۴ ۔

[13] ۔ الاحزاب: ۳۳ ۔

[14] ۔ وردہ شرح فردہ، ص ۲۷۱ ، ۲۷۲ ۔

[15] ۔ وردہ، ص ۳۳۷ ، ۳۳۸ ۔

[16] ۔ الوردہ، ص ۴۰۷ ۔

[17] ۔ تجلیات تاج الشریعہ س ۲۱۱ ، ۲۱۲ ۔


متعلقہ

تجویزوآراء