امام اہل سنت اور علم تفسیر

امام اہل سنت اور علم تفسیر

علامہ محمد فیض احمد اویسی رضوی

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت قدس سرہ ان ہستیوں میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرما یا

افمن شرح اللہ صد رہ للاسلام فھو علی نورہ من ربہ ۔ (القرآن پ ۲۳ سورۃ الزمرآیت نمبر۲۲)

یہ شرح صدر ہی تو تھا کہ قلیل عرصہ میں جملہ علوم و فنون سے فراغت پالی ور نہ عقل کب باور کرسکتی ہے کہ چودہ سال کی عمر میں جملہ علوم و فنون از بر ہوں۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

اور علوم و فنون صرف ازبر نہ تھے بلکہ ہر فن پر مبسوط تصانیف موجود ہیں اور وہ بھی کسی سے مستعار نہیں بلکہ قلم رضوی کے اپنے آبدارموتی ہیں اور تحقیق کے ایسے بہتے ہوئے بحر ذخار کو دیکھ کر بڑے بڑے محققین انگشت بدنداں ہوجاتے ہیں۔ آپ کو قلم کا بادشاہ کہاجاتا ہے۔ تجربات اور شواہد بتاتے ہیں کہ جس بندۂ خدا کو جس فن کی مہارت نصیب ہو وہ دوسرے فن میں ہزاروں ٹھوکریں کھاتاہے۔ مثلاً حضرت امام بخاری قدس سرہ کر دیکھئے کہ دنیائے اسلام نے فن حدیث کا انہیں ایساامام مان ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی ، لیکن فقہی استنباط اور تاریخی حیثیت سے آپ کو وہ مرتبہ حاصل نہیں جو فن حدیث میں حاصل ہے، لیکن اعلی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ(۱۲۷۲ھ۔۱۳۴۰ھ)کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کو ہر فن کے ماہرین نے مانا ہے کہ آپ ہر فن میں مہارت تامہ رکھتےہیں۔ چنانچہ شاعروں نے آپ کو امام الشعراء سمجھا، فقہاء نے آپ کو وقت کاابوحنیفہ مانا، محدثین نے امیر الحدیث وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے خود اعلی حضرت قدس سرہ نے اپنے لئے فرمایااور بجافرمایا:

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم

جس سمت آگئے ہو سکے بٹھادئے ہیں

اس وقت فقیر کا موضوع سخن فن تفسیر ہے(میں اس میں یہ) واضح کروں گا کہ آپ اس فن کے بھی مسلم امام ہیں۔ اگرچہ اعلی حضرت قدس سرہ نے پورے قرآن پاک کی کوئی تفسیر نہیں لکھی۔ لیکن حق یہ ہے کہ اگرآپ کی تصانیف کا بالاستعیاب مطالعہ کر کے تفسیری عبارات جمع کی جائیں تو ایک مبسوط تفسیر معرض وجود میں آسکتی ہے۔ چنانچہ فقیر اویسی غفرلہ نے اس کام کا آغاز کررکھا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کے اتمام کی توفیق عطافرمائے۔

شرائط تفسیر:

امام جلال الملتہ والدین حضرت علامہ سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے ‘‘الاتقان’’میں لکھا ہے کہ مفسر اس وقت تفسیر قرآن لکھنے اور بیان کرنےکا حق رکھتاہے جب چودہ فنون کی مہارت حاصل کرےورنہ تفسیر نہیں تحریف قرآن کا مرتکب ہوگااس قاعدہ پر اعلی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نہ صرف ان فنون میں ماہر ہیں بلکہ پچاس فنون پر کامل دسترس رکھتے ہیں، بلکہ بعض فنون پر آپ کی درجنوں تصانیف ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ کو مستقل طور پرلکھنےکاموقع نہیں ملا، لیکن آپ کی تصانیف سے قرآنی ابحاث کی ایک ضخیم تفسیر تیارہوسکتی ہے اور فقیر اویسی نے اس کے اکثر اجزاء کو جمع کیا ہوا ہے،بنام ‘‘تفسیرامام احمد رضا’’خدا کرے کوئی بندۂ خدا اس کی اشاعت کے لئے کمربستہ ہوجائے(آمین) علاوہ ازیں تفاسیر پر آپ کے عربی حواشی کے اسماء ملتے ہیں۔مثلاً

۱۔ الزلال الاتقی عن بحر سفینہ اتقی۔

۲۔حاشیہ تفسیر بیضاوی شریف۔

۳۔حاشیہ عنایت القاضی شرح بیضاوی

۴۔حاشیہ معالم التنزیل

۵۔حاشیہ الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی

۶۔حاشیہ الدر المنثور(سیوطی)

۷۔حاشیہ تفسیر خازن

علاوہ ازیں بعض آیات اور سورتوں پر آپ کی متعدد تصانیف موضوع تفسیر پر ملتی ہیں جنھیں ملک العلماء علامہ ظفرالدین بہاری(رحمتہ اللہ علیہ)نے جمع فرمایاہے۔چند ایک کے اسماء درج ذیل ہیں۔

۸۔ انوارالعلم فی معنی میعاد استجب لکم۔

یہ فارسی زبان میں ہے، یہ ۱۳۲۷؁ ھ تک غیر مطبوعہ تھی۔اس میں اعلی حضرت قدس سرہ نے تحقیق فرمائی کہ اجابت دعا کے کیا معنی ہیں اثر ظاہر نہ ہونا دیکھ کر بے دل ہونا حماقت ہے۔

۹۔الصمصام علی مشکک فی آیۃ علوم الارحام۔

اس میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے پادریوں کا رداردوزبان میں فرمایاہےجو کہ طبع شدہ موجود ہے۔

۱۰۔انباء الحی ان کتابہ المصون، تبیان لکل شئی۔

یہ اردو زبان میں ہے اس میں اعلی حضرت قدس سرہ نے سورہ فاتحہ سے حضورﷺ کے فضائل (مقدسہ )کو ثابت فرمایا ہے۔

۱۱۔النفحۃ الفاتحہ من مسلک سورۃ الفاتحۃ۔

یہ اردو زبان میں ہے۔ مذکورہ بالارسائل صرف موضوع تفسیر سے متعلق ہیں۔ بعض اوقات کسی مسئلہ کے متعلق استفسار پر آپ نے تفسیری نقطہ نگاہ سے حل فرمایا۔دراصل آپ کو دنیا کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے فتاویٰ کے جوابات سے فرصت ہی کم ملی ورنہ اگرآپ اس طرف توجہ دیتے تو تفسیر کاایک ایک جز بھی ہزاروں صفحا ت پر پھیلتا۔صرف بسم اللہ شریف کی تقریرپرمختصر سے وقت میں آپ کا ایک طویل مضمون موجود ہے جو آپ نے عید میلادالنبیﷺ کے موقع پر بریلی شریف میں بیان فرمایاتھاجو سوانح اعلی حضرت میں ص/۹۸ سے شروع ہوکر ص/۱۱۲تک ختم ہوتاہے۔ اسی طرف پھر دوسراوعظ ص/۱۱۲ سے شروع ہوکرص/۱۳۱ تک ختم ہواہے یہ بھی تقریرکےرنگ میں ہوا جو تحریر کے میدان سے کوسوں دورسمجھاجاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اتنے صفحات کا مضموب بیان کر جاناکسی مرد میداں کاکام ہے۔اور وہ بھی مضمرانہ رنگ میں۔

۱۳۔تفسیر سورۃ والضحی لکھی تو سینکڑوں صفحات بھردئیےجس کی ایک ایک سطر کئی تفاسیر کے مجموعہ کو دامن میں لئے ہوئے ہے۔

آپ کے تلامذہ کو رشک ہوتاتھاکہ ایسے بحرپایاں کے قلم سے جس طرح فقہ اور حدیث اور دیگر فنون کے دریابہائے گئے ہیں۔ کچھ تفسیری نوٹ بھی آپ کی یادگار ہوں تو زہے قسمت، اگرچہ اجمالی طور پر ہی سہی، چنانچہ صدرالشریعہ حضرت مولانا حکیم امجد علی صاحب مصنف ‘‘بہارشریعت’’ قدس سرہ (اللہ تعالی اپنی خاص رحمتوں سے نوازے)نے اہلسنت پر احسان عظیم فرمایا کہ اعلی حضرت قدس سرہ کی عدیم الفرصتی کے باوجود قرآن مجید کا ترجمہ لکھوا ہی لیا۔ چنانچہ سوانح نگار حضرات قرآن مجید کے ترجمے کے متعلق یوں ہی لکھتے ہیں کہ صدرالشریعہ حضرت مولانا امجد علی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ترجمۂ قرآن کی ضرورت پیش کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت سے گزارش کی، آپ نے وعدہ تو فرمالیا لیکن دوسرے مشاغل دینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی۔ جب حضرت صدرالشریعہ کی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا چوں کہ ترجمے کے لئے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لیے آپ رات کو سوتے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایاکریں، چنانچہ حضرت صدر الشریعہ ایک دن کاغذ قلم دوات لے کر حاضر ہوگئے، اور یہ دینی کام بھی شروع ہوگیا۔ ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ زبانی طور پر آیت کریمہ کا ترجمہ فرماتے جاتے اور حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمتہ لکھتے جاتے، لیکن اس طرح پر نہیں کہ پہلے آپ کتب تفاسیر وحدیث و لغت ملاحظہ فرماتے اور آیات کو سوچتے پھر ترجمہ بیان فرماتے۔ وہ قرآن مجید کا فی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر اسی طرح بولتے جاتے تھے جیسے کوئی پختہ یادداشت کا حافظ اپنی قوت حافظہ پر زور ڈالے بغیرقرآن شریف پڑھتاچلاجاتا ہے علماء کرام جب دوسری تفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کا یہ برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیر معتبرہ کے بالکل عین مطابق ہے، الغرض اسی قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہا۔ پھر وہ مبارک ساعت بھی آگئی کہ قرآن مجید کا ترجمہ ہوگیا اور حضرت صدرالشریعہ کی کوشش بلیغ کی بدولت سنیت کو کنزالایمان کی دولت عظمیٰ نصیب ہوئی۔

(فجزاہ اللہ تعالیٰ عنا وعن جمیع اھل السنۃ جزاء کثیراواجراجزیلا)

حضرت محدث کچھوچھوی سید محمد صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کے علم قرآن کا اندازہ اس اردو ترجمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی کوئی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے، نہ فارسی میں ہے، اور نہ اردو میں اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اس جگہ لایا نہیں جاسکتا جو بظاہر ترجمہ ہے مگر درحقیقت وہ قرآن مجید کی صحیح تفسیر ہے، اور اردو زبان میں روح قرآن بلکہ فقیر اویسی کا ذوق یوں گواہی دیتا ہے:

ہست قرآن در زبان اردوی

مثنوی چوں در زبان پہلوی

محقق حضرات نے اس ترجمہ کو دیکھ کر مندرجہ ذیل آرا قائم فرمائی ہیں:

۱۔ ترجمہ اعلیٰ حضرت تفاسیر معتبرہ قدیمہ کے مطابق ہے۔

۲۔ اپنی تفویض کے مسلک اسلم کا عکس ہے۔

۳۔ اصحاب تاویل کے مذہب سالم مؤید ہے۔

۴۔ زبان کی روانی اور سلاست میں بے مثال ہے۔

۵۔ عوامی لغت و بازاری زبان سے یکسر پاک ہے۔

۶۔ قرآن حکیم کے اصلی انشاء ومراد کو بتاتا ہے۔

۷۔ آیاتِ ربانی کے انداز خطاب کے ۔۔۔ترجمان ہے۔

۸۔ قرآن کے مخصوص محاوروں کی نشاندہی کرتا ہے۔

۹۔ قادر مطلق کی ردائے عزت و جلال میں نقص وعیب کا دھبہ لگانے والوں کے لیے تیغ براں ہے۔

۱۰۔ حضرات انبیاء علیھم السلامکی عظمت و حرمت کا محافظ ونگہبان ہے۔

۱۱۔ عام مسلمین کیلئے بامحاورہ اردو میں سادہ ترجمہ ہے۔

۱۲۔ لیکن علماء کرام و مشائخ عظام کے لئے معرفت کا امنڈتا ہو سمندر ہے۔

بس اتنا سمجھ لیجئے کہ قرآن حکیم قادر مطلق جل جلالہ کا مقدس کلام ہے اور کنزالایمان اس کا مہذب ترجمان ہے۔

فقیر (اوریس غفرلہ) نے جہاں بھی آپ کی تصانیف میں تحقیق مفسرانہ دیکھی تو رازی و غزالی رحمتہ اللہ علیھما کے قلم سے آفرین و تحسین سنی، اختصار کے پیش نظر چند ایک نظائر مشتے نمونہ از خروارے ملاحظہ ہوں جو آپ کی تصانیف سے اخذ کئے گئے ہیں۔

پیشانی کا داغ:

سائل نے صرف اتنا استفسار کیا کہ بعض نمازیوں کو بکثرت نماز، ناک اور پیشانی پر جو سیاہ داغ ہو جاتا ہے اس سے نمازی کو قبر وحشر میں خداوند کریم جل جلالہ کی پاک رحمت کا حصہ ملتا ہے یا نہیں، زید کا کہنا ہے کہ جس شخص کے دل میں بغض کا سیاہ داغ ہوتا ہے اس کی شامت کی وجہ سے، اس کی ناک یا پیشانی پر کالا داغ ہوتا ہے۔ یہ قول زید کا باطل ہے یا نہیں۔ اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے قلم کو جنبش ہوئی تو چھ صفحات مفسرانہ حیثیت سے لکھے اور ثابت فرمایا کہ نشانی کے متعلق چار قول ماثور ہیں۔ اور ہر ایک کاحکم جدا جدا اور آیت، سیماھم فی وجوھھم من اثر السجودکا ایسا مفہوم ادا فرمایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان اوہام کا ازالہ فرمایا جو پیشانی کے داغ کو سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود میں سمجھتے ہیں۔ یہ مضمون سوانح احمدرضا میں چند صفحات پر پھیلا ہو اہے جو نہایت قابل مطالعہ ہے تمام تحقیق تفاسیر معتبرہ کے حوالہ جات سے مزین ہے۔

آیت میثاق:

واذ اخذ اللہ میثاق النبین (الی آخر الایۃ)سے حضور اکرمﷺ کی فضیلت مطلقہ پر گفتگو فرماتے ہوئے آخر میں تحریر فرمایا:

اقو ل و باللہ التوفیق۔پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس مضمون کو قرآن کریم کس قدر مہتم بالشان ٹھہرایا اور طرح طرح سے موکد فرمایا۔

اولا۔انبیا علیھم الصلوۃ والسلام معصوم ہیں زنہار حکم الٰہی کے خلاف ان سے محتمل نہیں۔ کافی تھا کہ رب تعالیٰ بطریق امرانھیں فرماتا کہ اگر وہ نبی تمہارے پاس آئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا مگر اس پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ ان سے عہدو پیمان تھا جیسے کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ کےساتھ محمد الرسول اللہﷺ،تاکہ ظاہر ہو کہ تمام ماسوی اللہ پر پہلا فرض ربوبیت الٰہیہ کا اذعان ہے پھر اس کے برابر رسالت محمدﷺ پرایمان

(ﷺوبارک شرف وبجل وعظیم)

ثانیا۔اس عہد کو لاقسم سے موکد فرمایا لتومنن بہ ولتنصر نہجس طرح نوابوں سے بیعت سلاطین لی جاتی ہے۔

ثالثا۔نون تاکید:

رابعا۔وہ بھی ثقیلیہ لا کر ثقل تاکید اور دوبالا فرمایا

خامسا۔یہ کمال اہتمام ملاحظہ کیجئے کہ حضرات انبیاعلیھم السلامابھی جواب نہ دینے پائے خود ہی تقدیم فرماکر پوچھا جاتا ہے اقررتمکیااس امر پر اقرار لاتے یعنی کمال تعجیل و تسجیل مقصود ہے۔

سادسا۔اس قدر پر بھی بس نہ فرمائی بلکہ ارشاد فرمایا واخذ تم علی ذالکم امریخالی اقرار ہی نہیں بلکہ اس پر میرا بھاری ذمہ لو۔

سابع۔ علیہ یا علی ھذاکی جگہ علی ذالکمفرمایاکہ بعد اشارت عظمت ہو۔

ثامنا۔اور ترقی ہوئی کہ فاشھد و!ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ حالانکہ معاذاللہاقرار کر کے مکر جانا ان پاک مقدس جنابوں سے معقول نہ تھا۔

تاسعا۔کمال یہ ہے کہ صرف ان کی گواہی پر اکتفانہ ہوا بلکہ فرمایا وانامعکم من الشٰھدین میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہوں سے ہوں۔

عاشر۔سب سے زیادہ نہایت کا یہ ہے کہ اس قدر عظیم جلیل تاکیدوں کے بعد بآنکہ انبیاء علیھم السلام کو عصمت عطا فرمائی یہ سخت شدید تہدید بھی فرمائی گئی کہ فمن تولی بعد ذالک فاولٰئک ھم الفاسقوناب جو اس اقرار سے پھرے گا فاسق ٹھہرے گا۔ یہ وہی اعتنائے تام و اہتمام تمام ہے جو باری تعالیٰ کو اپنی توحید کے بارے میں منظور ہوا کہ ملائکہ معصومین کے حق میں بیان فرماتا ہے۔

ومن یقل منھم انی الٰہ من د ونہ فذ الک نجزیہ جھنم کذالک نجزی الظالمین۔ جو ان میں سے کہے گاکہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں اس کو جھنم کی سزادیں گے ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ستمگاروں کو۔ گویااشارہ ہوتاہے کہ جس طرح ہمیں ایمان کے جزاول لاالہ الاللہ کااہتمام ہے یوں ہی جزدوم محمد الرسول اللہﷺسےاعتنائے تام ہے کہ میں تمام جہانوں کا خدا کہ ملائکہ مقربین بھی میری بندگی سے سر نہیں پھیر سکتے۔ اور میرا محبوب سارےعالم کا رسول و مقتداء کہ انبیاء و مرسلین بھی اس کی بیعت و خدت مےمحیط دائرہ میں داخل ہوئے۔

اور اس سے قبل اس آیت کا تبصرہ کئی صفحات پر فرمایا، تبصرہ کر کے پھر معتبر تفاسیر اور محققین علماء کرام کی تصانیف کے خلاصہ کو دریادر کوزہ کی مثال قائم فرمائی۔

کلی علم غیب:

اور یہ صرف اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کا حصہ تھا کہ جب اعدائے دین نے شان نبوت و رسالت اور شان ولایت پر ہاتھ ڈالا تو اعلیٰ حضرت کا قلم ڈھال بنا اور مذہب مہذب اہلسنت کے جمیع مسائل کو قرآنی اصول کے مطابق ڈھالنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ حقیقت کو نصف النہار سے زیادہ آشکار فرمایا چنانچہ علم غیب کلی اہلسنت اور مخالفین کے مابین نزاع کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ جب گویاہوئے تو جلال الملت و الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کو بھی ساتھ لیا۔

چنانچہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے علم غیب کلی کے دعویٰ میں تحریر فرمایا:

بے شک حضرت عزت عظمت نے اپنے حبیب کریمﷺ کوتمام اولین و آخرین کا علم عطا فرمایا، مشرق تا مغرب عرش تافرش سب انہیں دکھایا۔ ملکوت السمٰوٰت۔کاشاہد بنایا روز اول سے آخرت یعنی روز قیامت تک کے سب ماکان ومایکونانہیں بتائے، اشیائے مذکورہ سے کوئی ذرہ حضورﷺ کے علم سے باہر نہ رہا، علم حبیب کریمﷺ ان سب کو محیط ہوا، نہ صرف اجمالا بلکہ ہر صغیرہ وکبیرہ پر رطب ویابس کا جو پتہ گرتا ہے زمین کی اندھیریوں میں جو دانہ کہیں پڑاہے سب کو جداجداتفصیلا جان لیا۔ الحمد للہ حمدا کثیرا، بلکہ یہ جو کچھ بیان ہوا ہرگز محمد رسول اللہﷺکا پوراعلم نہیں ﷺ والہ واصحابہ اجمعین بلکہ حضورﷺ(کےعلم)سے ایک چھوٹا حصہ ہے، ہنوزاحاطہ علم محمدی میں وہ ہزاردوہزار بے حد کنار سمندر لہرارہے ہیں جن کی حقیقت وہ جانیں یا ان کا عطا کرنے والا مالک و مولا جل و علا(والحمد للہ العلی الاعلے) کتب حدیث و تصانیف علماء قدیم و حدیث میں اس کے دلائل کا شافی و بیان وافی ہے۔

اس کے بعد علم غیب کے مسئلہ کو قرآنی آیات سے ثابت فرما کر آخر میں اصول قرآنی پر بحث فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

عبارت اعلیٰ حضرت قدس سرہ:۔

اور اصول میں مبرہن ہوچکا کہ نکرہ حیز نفی میں مفید عموم ہے اور لفظ کل تو ایسا عام ہے کہ کبھی خاص ہوکر مستعمل ہی نہیں ہوتا اور عام افادہ استغراق میں قطعی ہے۔ اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے بے دلیل شرعی تخصیص وتاویل کی اجازت نہیں، ورنہ شریعت سے امان اٹھ جائے، نہ حدیث احاد اگر چہ کیسی اعلیٰ درجہ کی صحیح ہو، عموم قرآن کی تخصیص تراخی نسخ ہے اور اخبارکا نسخ ناممکن، اور تخصیص عقلی عام کو قطعیت سے نازل نہیں کرتی نہ اس کے اعتماد پر کسی ظنی سے تخصیس ہوسکےتو بحمداللہ کیسے نص صریح قطعی سے روشن ہوا کہ ہمارے حضور صاحب قرآنﷺ کو اللہ عزوجل نے تمام موجودات جملہ ماکان وما یکون الی یوم القیامۃ جمیع مند رجات لوح محفوظ۔کا علم دیا اور شرق وغرب، سماء وارض عرش و فرش میں کوئی ذرہ حضورﷺ کے علم سے باہر نہ رہا۔

جو کچھ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اصول تفسیر میں مسطور اپنا مسلک واضح فرمایا وہی حصول امام سیوطی سیکڑوں سال پہلے بیان فرما گئے، چنانچہ حضرت علامہ جلال الدین السیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

العام لفظ یستغرق الصالح لہ من غیر حصر و صیغۃ کل مبتداءۃ۔والمعروف بال، واسم لجنس المضاف والنکرۃ فی سیاق النفی، العام الباقی علی عمومہ من خاص القرآن ماکان مخصصا لعموم السنۃ وھو عزیز قال ابن الحصار انما یرجع فی النسخ الی نقل صریح عن رسول اللہ ﷺ اوعن صحابہ یقول آیۃ کذ ا نسخت کذا قال ویحکم بہ عند وجود التعارض المقطوع بہ مع علم التاریخ لیعرف المتقدم والمتاخر قال و لایعتمد فی النسخ قول عوام المفسرین بل ولا اجتھاد المجتھدین من غیر نقل صحیح ولا معارضۃ بنیۃ لان النسخ یقضمن رفع حکم واثبات حکم تقرر فی عھد ہ ﷺ والعتمد فیہ النقل والتاریخ دون الرای والجتھاد قال الناس فی ھذا بین طرفی تفیض فمن قائل لا یقبل فی النسخ اخبار الاحاد العدول ومن یکتفی فیہ بقل مفسر او مجتھد و الصواب خلاف قولھما اذا سیق العام للمدح والذ م فھل ہو باق علی عمومہ فیہ مذ اھب احد ہا نعم اذالا صرف عنہ ولا تنافی بین العموم وبین المد ح اوالذ م الخ:

تبحر فی الفن التفسیر کےنمونے:

بالاستیعاب تو نہیں چند آیات کے نمونے تفسیری حیثیت سے فقیر یہاں عرض کرتا ہے۔

(۱)فتاویٰ افریقہ ص/۱۷میں ہے سائل نے عبدالمصطفٰے نام رکھنے کے متعلق لکھا ہے تو اعلیٰ حضرت نے عبدالمصطفٰے نام رکھنے کے جواب میں آیت وانکحو الایامی منکم والصالحین من عبادکمالخ سے استدلال فرمایا اس کے بعد تفسیر القرآن بالحدیث کے قاعدہ پر آیات کی تفسیر اور اپنے موضوع کو احادیث مبارکہ کے چند حوالہ جات سے مزین فرمایا پھر اس کے بعد تفسیر القرآن بالقرآن جو تفسیر کا اعلیٰ درجہ ہے آیت مذکورہ کے لئے یعبادی الذ ین اسرفواسےاستنباط فرمایا۔ آپ کے اس استدلال پر امام فخرالدین رازی کی ‘‘تفسیر کبیر’’ کو سامنے رکھئےتو یقین آئے گا کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ طرز استدلال میں امام رازی ہیں۔

(۲)اسی فتاویٰ افریقہ میں ص/۹ میں سائل نے سوال کیا کہ آپ نے اپنی بعض تصانیف میں اہل اسلام کو مخاطب فرمایاکیا آپ کا خدائے تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں جبکہ آپ دوسروں کو تمہارا خدا کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے صرف اسی ایک چھوٹے سے سوال پر اختصاراً دس آیات اور دس احادیث سے جواب مرحمت فرمایا جو آپ کی قرآن دانی کا بین ثبو ت ہے۔

(۳)اسی فتاویٰ افریقہ میں بدمذہب سے بیزاری کے متلق درجنوں آیات سے استدلال کے بعد متعدد احادیث مبارکہ سے استشہاد فرمایا۔

(۴)اسی فتاویٰ افریقہ کے ص/۱۳ پر آیت وسیلہ کا بیان مفصل و مفسرفرمایا کہ جس میں وسیلہ کی تمام شقوں کی تفصیل پھر اس پر اسلاف صالحین کے ارشادات کی تزئین کے بعد پیری مریدی کے تمام اقسام واضح فرمائے جن میں سچے اور جھوٹے پیروں فقیروں کی پہچان آسان فرمادی۔ جو اسلاف صالحین کی تصانیف میں یکجاکہیں ایسی تحقیق کے ساتھ نہ ملے گی۔ پھرکمال یہ ہے کہ صرف ایک جملہ کی تحقیق پر کتاب کے کئی صفحات پُر فرمائے۔ امام فخرالدین رازی قدس سرہ کو ناقدین نے معاف نہ فرمایا کہ امام موصوف آیت کے مضمون کو اتنا طویل دیتے ہیں کہ فن تفسیر کا رنگ بکھر جاتا ہے لیکن ہمارے امام ممدوح کا مضمون اتنا پر بہار ہے کہ جتنا طویل ہوتاگیا ہے اتنا فن تفسیر اجاگر ہوتا چلاگیا ہے اگر وہی ناقدین ہمارے امام ممدوں کے مضمون کو دیکھ لیے تو قلم رضا کو چوم لیتے۔

(۵)اکثر مفسرین صرف ناقل ہوتے ہیں، استنباط کرنے والی گنتی کے چند ملیں گے لیکن اعلیٰ حضرت قدس سرہ کو اللہ کی طرف سے تائید غیبی نصیب تھی کہ آیت کی تفسیر میں نقول معتبرہ کے ساتھ احادیث مبارکہ سے جب استنباط فرمایاتو دریا بہادئے، چنانچہ آیت ان اشکر لی والوالد یککی تفسیر میں حقوق الاولاد علی الوالد کے اسی (۸۰)حقوق گنائے جو سب آیت کی تفسیر سے متعلق اور احادیث مبارکہ سے مستنبط ہیں صرف اسی مضمون پر ایک مستقل رسالہ ‘‘مشتعلتہ الارشاد’’ تیار ہوگیا۔

اس کے علاوہ اور درجنوں بحثیں آیات کی تفسیر میں لائی گئیں جنھیں پڑھنے کے بعد تصدیق ہوتی ہے کہ اعلیٰ حضرت کا تبحر فی فن التفسیر بے مثال ہے۔

(۶)اجمالی آیات کی تفسیر میں مفسرین کا ہمیشہ اختلاف چلا آرہا ہے، لیکن مفسرین کی عادت رہی ہے کہ اپنے موقف کو دلائل سے ثابت کرتے وقت زیادہ سے زیادہ دلائل قائم کئے لیکن اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا طرزنرالاہےکہ جب اپنے موقف کی توضیح فرماتے ہیں تو سینکڑوں دلائل وبراہین حوالہ قلم فرماتے ہیں چنانچہ ‘‘تجلی الیقین’’ کی تصنیف ایک شہسوار قلم ہونے کی جیتی جاگتی دلیل ہے کہ منکرین نے جب آقائے کونین ماوائے ثقلین، رحمت کل ،ہادی سبل، سیدالرسلﷺ کی افضلیت کا انکار کیا تو درجنوں آیات قرآنیہ مع حوالہ جات تفاسیرمستندہ اور درجنوں احادیث صحیحہ اور اقوال اسلاف صالحین کی مدلل تصانیفات سے استدلال فرمایا۔ اس تصنیف پر اعلیٰ حضرت قدس سرہ کو یوں انعام نصیب ہوا کہ حبیب کبریاﷺنے زیارت بشارت سے نوازاجس کا ذکر امام اہل سنت رضی اللہ عنہ نے تجلی الیقین کے آخر میں خود بیان فرمایا ہے۔

(۷)صرف ایک آیت پر سینکڑوں صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھ دی جو پوری کتاب تفاسیر کے حوالے جات کے علاوہ اپنے استنباط کے ساتھ اصول تفسیر سے موضوع کو مضبوط وموثوق فرمایا۔ مثلا آیت ممتحنہ کی تفسیر ‘‘الحجتہ الموتمنہ’’ قابل مطالعہ کتا ب ہے۔

(۸)مختلف مسائل پر تفاسیر گننے بیٹھتے تو تفاسیر کے حوالہ جات کے ڈھیر لگادیتے چنانچہ ما اھل لغیر اللہ بہ۔ کی توثیق میں تفسیر معتبرہ کے حوالہ جات لکھوائے ‘‘حیات اعلی حضرت’’ مؤلفہ ملک العلماء مولانا ظفرالدین بہاری، میں مذکور ہے کہ اس سلسلہ میں آپ نے ۳۶ تفاسیر کے اقتباسات تحریر کرائے اور فرمایا کہ ان کے علاوہ اور بھی حوالہ ہائے تفسیر موجود ہیں۔

(۹)تفسیر میں قرآنی نکات بیان فرمائے تو خود مفسرین حیرت میں آگئے۔ ملفوظ شریف حصہ چہارم میں فرمایا کہ ساتوں آسمان سات زمینیں دنیا ہے اور ان سے ورا سدرۃ المنتہیٰ ہے، عرش و کرسی ، دار آخرت، دار دنیا شہادت ہے اور دارآخرت غیب، غیب کی کنجیوں کو مفاتیح اور شہادت کی کنجی کو مقالید کہتے ہیں۔ قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے۔ وعند ہ مفاتیح الغیب لا یعلمھا لا ھوا۔اور دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے لہ مقالید السمٰوٰت والارض۔مفاتیح کا حرف اول میم‘‘م’’ اور آخری حرف ‘‘حا’’ اور مقالید کا پہلا حرف ‘‘م’’اور آخری حرف ‘‘د’’ مرکب کرنے سے نام اقدس ظاہر ہوتا ہے یعنی محمدﷺ اس سے یا تو اس طرف اشارہ ہے کہ غیب و شہادت کنجیاں سب دے دی گئی ہیں، یعنی محمد الرسول اللہﷺ کوئی شئے ان کے حکم سے باہر نہیں۔

دوجہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی دل وجان نہیں

کہوکیاہے وہ جو یہاں نہیں، مگر اک نہیں کہ وہاں نہیں

یا اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ مفاتیح و مقالید غیب و شہادت سے سب حجرہ ہائے خفا یا عدم میں مقفل تھے وہ مفاتیح و مقالید جس سے ان کا قفل کھولا گیا اور میدان ظہور میں لایا گیا وہ ذات اقدس محمدﷺ تھی، اگر آپ تشریف نہ لاتے تو سب اسی طرح مقفل حجرہ عدم یا خفا میں رہتے۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے

(۱۰)اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا تبحر فی فن التفسیر سمجھئے یا کرامت کہ خلاف عادت قرآن کی آیات سے برجستہ مخالف کو جواب دیا، چنانچہ ایک رافضی نے کہا کہ انا من المجرمین منتقمون۔کے عدد(۱۲۰۲) ہیں اور یہی عدد ابوبکر،عمر،عثمان رضی اللہ عنھما کے ہیں (معاذاللہ) اعلیٰ حضرت قدس سرہ یہ سن کر بے قرار ہوگئے فوراً بلاتاخیر برستہ کئی صفحات جوابات فرمائے۔ وہ جوابات پڑھئے (رافضی لعنھم اللہ تعالیٰ) کے بنائے مذہب ایسے ہی اوہام بے سروپادر ہواہے، اولاً ہر آیت عذاب کے عددواسماء اخبار سے مطابق کرسکتےہیں۔ اور ہر آیت ثواب کے اسماء کفار سے، کہ اسماء میں وسعت وسیعہ ہے۔ رافضی نے آیت کو ادھرپھیرا کوئی ناصبی ادھر پھیردےگا اور (رافضی و ناصبی) دونوں ملعون ہیں، رافضی نے اعداد غلط بتادئے۔

امیرالمومنین حضرت عثمٰن غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پاک میں الف نہیں لکھا جاتا تو بارہ سو ایک ہیں ناکہ دو۔

۱۔ ہاں رافضی بارہ سو عدد کا ہے کہ ابن سباو رافضیہ۔

۲۔ ہاں رافضی بارہ سو عدد ان کے ہیں، ابلیس، یزید، ابن زیاد، شیطان۔

۳۔ ہاں رافضی اللہ عزوجل فرماتاہے ان الذ ین فرقوا د ینھم وکانو شیعا لست منھم فی شئی۔

بے شک جنہوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ در گروہ ہوگئے اے نبی تمہیں ان سے کچھ علاقہ نہیں (سورہ الانعام، رکوع۲۰)

اس آیت کریمہ کے عدد ۲۸۲۸ہیں اور یہی عدد ہیں روافض اثنا عشریہ شطانیہ اسماعیلیہ کے اور اگر اپنی طرح سے اسماعیلیہ میں الف چاہئے تو یہی عدد ہیں روافض اثنا عشریہ و نصیریہ اسماعیلیہ کے۔

۴۔ ہاں اور رافضی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لھم اللعنت ولھم سوء الدار(سورہ الرعد۳)ان کے لئے ہے لعنت اور ان کے لئے ہے براگھر، اس کے عدد ۶۴۴:اوریہی عدد ہیں شیطان الطاق طوسی حلی کے۔

۵۔ نہیں اور رافضی بلکہ اللہ عزوجل فرماتا ہے اولٰئک ھم الصد یقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم(سورہ الحدید۳) وہی اپنے رب کے ہاں صدیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان کا ثواب ہے اس کے اعداد۱۴۴۵/اوریہی عدد ہیں ابوبکر،عمر،عثمان،علی سعید رضی اللہ عنھما کے۔

۶۔ نہیں رافضی! بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اولٰئک ھم الصد یقون والشھداء عند ربھم اجرھم ونورھم۔وہی اپنے رب کے حضور صدیق و شہداہیں ان کے لئے ہے، ان کا ثواب اور ان کا نور(سورہ الحدید۳)

۷۔ نہیں رافضی! بلکہ اللہ عزوجل فرماتا ہے۔ والذ ین آمنو ا باللہ و رسلہ اولئک ھم الصد یقون،(سورہ الحدید۳)جو لوگ ایمان لائے اس کے رسولوں پر وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق وشہید ہیں۔ ان کے لئے ان کا ثواب اور ان کا نور۔

آیت کریمہ کے عدد ہیں تین ہزار سولہ (۳۰۱۶) اور یہی عدد ہیں صدیق ، فاروق، ذوالنورین،علی، طلحہ، زبیر،سعید، ابوعبیدہ، عبدالرحمٰن (ابن عوف) کے۔

آخر میں فرمایا الحمدللہ آیت کریمہ کا تمام کمال مدح بھی پورا ہوگیا۔ اور حضرات عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنھم اجمعین کے اسماء طیبہ بھی سب آگئے جس میں اصلاً تکلیف و تصنع کو دخل نہیں، چند روزوں سے آنکھ دکھتی ہے، یہ تمام آیات عذاب و اسماء اشراروآیات مدح و اسماء اخیار کے عدد محض خیال میں مطابق کئے جس میں صرف چند منٹ صرف ہوگئے اگر لکھ کر اعداد جوڑے جاتے تو مطابقتوں کی بہار نظر آتی مگر بعونہ تعالیٰ اس قدر بھی کافی ہے۔ وللہ الحمد واللہ اعلم۔

اس فتاویٰ کو نقل کر کے مستفتی نے لکھا ہے شیعہ یعنی رافضٰ کا ماشاءاللہ۔۔۔بلکہ قیمہ ہوگیا، اب مجال دم زدن نہیں، فقیرنے یہ کرامت اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت مجدددین و ملت، امام اہل سنت و جماعت بچشم خود ملاحظہ کی کہ چند لمحوں میں ان تمام آیات و اعداد کی مطابقت زبان فیض و الہام ترجمان سے فرمائی یہ رات کا وقت تھا، قریب نصف گذر چکی تھی۔ واللہ باللہ ۔۔۔اخبارواشرارکے اسماء بلا سوچے اور بے تامل کئے فرمادیتے کہ فقیر سوااس کے اندازہ نہیں کرسکتا کہ یہ اعلیٰ حضرت کی کرامت کا اظہار بذریعہ القاء ربانی و الہام سبحانی تھا۔


متعلقہ

تجویزوآراء