ہارون رشید کا ایک عجیب واقعہ
ہارون رشید کا وزیر فضیل بن ربیع روایت کرتا ہے کہ میں مکہ کے سفر میں ہارون رشید کے ساتھ تھا جب ہم حج کے ارکان ادا کر کے فارغ ہوگئے تو ہارون نے مجھے پوچھا کہ یہاں مردان خدا سے کوئی ایسا پاکباز مرد ہے جس کے قدمبوسی کی سعادت میں حاصل کروں۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں عبد الرزاق صنعانی بڑے با خدا اور صاحب دل آدمی ہیں چنانچہ ہم ان کی خدمت میں پہنچے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد خلیفہ نے مجھے اشارہ کیا کہ ان سے پوچھ۔ آپ کو کسی کا کچھ قرضہ دینا ہے۔ میں نے خلیفہ کا یہ اشارہ پاکر دریافت کیا جس کے جواب میں عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہاں مجھے فلاں شخص کا قرضہ دینا ہے خلیفہ ہارون نے حکم دیا کہ جن لوگوں کا آپ پر قرضہ آتا ہے وہ چھڑا دیں۔ ازاں بعد ہارون نے مجھ سے کہا اے فضیل ہنوز میں سیر نہیں ہوا بلکہ میرا دل کسی اور خدا ترس سے ملنے کو چاہتا ہے۔ میں نے کہا سفیان بن عینیہ یہاں موجود ہیں ان سے چل کر ملئے چنانچہ ہم سفیان کی خدمت میں پہنچے۔ ہارون نے بہت سی گفتگو کے بعد کہا آپ کو کسی کا قرضہ دینا ہے سفیان نے کہا ہاں۔ یہاں بھی ہارون نے ان کا قرضہ چھڑوا دیا اور پھر میری طرف مخاطب ہوکر کہا۔ فضیل، ابھی مجھے پورا اطمینان نہیں ہوا اور مجھے کسی ایسے شخص سے ملنے کی خواہش ہے جوان دونوں سے بڑھ کر ہو مجھے فوراً یاد آگیا اور میں نے شتابا نہ لہجہ میں کہا خلیفہ! یہاں خواجہ فضیل عیاض رحمۃ رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں ان کے پاس چلنا چاہیے۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے ہیں تو آپ حجرے میں قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے اور نہایت ترتیل کے ساتھ یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ اَمْ حَسِبَ الَّذِیۡنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ۔ یعنی کیا بدکاروں کا گمان ہے کہ ہم انہیں ایمانداروں اور شائستہ کاروں کے برابر کردیں گے۔ جب اس آیت کے پُر اثر الفاظ ہارون رشید کے کان میں پڑے تو بے ساختہ بول اٹھا فضیل! بس یہی ایک آیت بس کرتی ہے۔ فضیل کہتے ہیں میں نے حجرے کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ خواجہ نے فرمایا کون؟ میں بولا امیر المومنین ہارون رشید! فرمایا۔ ’’مالی ولا امیر المومنین‘‘ یعنی مجھ میں اور امیر المومنین میں کیا تعلق۔ ہارون نے کہا میں اپنے نفس کی شفاعت کے لیے آیا ہوں اور یہ کام کرنا آپ کو ضرور ہے خواجہ نے جھٹ چراغ گل کر دیا اور حجرے کا دروازہ کھول کر ایک کونے میں کھڑے ہوگئے ہارون حجرے میں آکر آپ کو ڈھونڈنے لگا اور دفعۃً اس کا ہاتھ خواجہ پر جا پہنچا آپ نے فرمایا آہ آج تک میں نے اس ہاتھ سے زیادہ نرم کوئی ہاتھ نہیں دیکھا بشرطیکہ دوزخ کی آگ سے نجات پائے۔ یہ سن کر ہارون رونے لگا اور اس قدر رویا کہ بے ہوش ہوگیا ہوش میں آنے کے بعد بولا خواجہ مجھے کچھ نصیحت کیجیے فرمایا اے امیر المومنین تیرے جد امجد نے جو جناب نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واحب الاحترام چچا تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک قوم پر حکومت کرنے کی درخواست کی تھی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے جواب میں فرمایا تھا کہ اے میرے بزرگ چچا آپ کا ایک سانس خدا کی فرمانبرداری تھی میں ان ہزار برسوں سے کہیں بہتر ہے جن میں خلق آپ کی اطاعت کرے ’’لان الا مارۃ یوم القیامۃ لدامۃ‘‘ کیونکہ حکومت قیامت کے دن باعث ندامت ہوگی۔ ازاں بعد ہارون رشید بولا کچھ اور بھی نصیحت کیجیے۔ خواجہ فضیل قدس سرہ نے فرمایا۔ اے امیر المومنین مجھے خوف ہے کہ مباد اتیرایہ خوبصورت اور دلگیر چہرہ دوزخ کی آگ میں مبتلا ہو تجھے خدا ترسی اور اس سے بہتر اس کی حق گذاری چاہیے۔ جب یہ سب باتیں ہوچکیں تو ہارون رشید نے کہا کہ کیا آپ کو کسی کا کچھ قرض دینا ہے فرمایا ہاں خدا کا بہت بڑا قرضہ میرے ذمہ ہے جس کے ادا کرنے میں مشغول ہوں حق تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے جمع کردے۔ آپ کی یہ عبرت انگیز باتیں سن کر ہارون نے ہزار طلائی دینار کی ایک تھیلی خواجہ کے آگے رکھ دی اس پر خواجہ نے برہم ہوکر فرمایا اے امیر المومنین افسوس میری یہ نصیحتانہ باتیں تجھے کچھ بھی مفید نہ پڑیں کیونکہ میں تجھے نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تو مجھے مصیبت و بلا میں ڈالتا ہے۔ ہارون روتا ہوا باہر نکل آیا اور مجھے کہنے لگا کہ حقیقت میں خواجہ فضیل بن عیاض ایک پاک اور معزز فرشتہ ہے۔ منقول ہے کہ خواجہ نے ماہ محرم 87 ہجری میں بمقام مکہ وفات پائی۔
(سیر الاولیاء)