کامیاب دھرنا

میرا دل کہہ رہا تھا کہ ایک مثال قائم کریں اور اعلان کیا جائے کہ جو نقصان دھرنے کے دوران ہوا ہے ، چاہے وہ کسی نے بھی کیا ہو جیسے میٹرو بس کے اسٹیشن کی توڑ پھوڑ وغیرہ وہ سب نقصان ہم سنی پورا کریں گے، تاکہ ان لوگوں کہ منہ پر تمانچہ ہو جو اپنے ناکام دھرنے کے دوران نہ جانے کیا کچھ کر کے بھی امن کے داعی بنے پھرتے ہیں۔


دنیا نیوز کے پروگرام " نقطۂ نظر " کے میزبان نے میری اس دلی خواہش کو پورا کردینے والی خبر اپنے پروگرام میں دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے مشہور سنی تاجر جناب " جناب رفیق پردیسی صاحب " نے دھرنے کے دوران ہونے والے نقصان کی پھرپائی کی ذمہ داری لیتے ہوئے حکومت وقت سے کہا ہے کہ وہ اس نقصان کی ایک ایک پائی حکومت وقت کو دینگے۔


ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دھرنے کا موازنہ پاکستان کے کسی بھی دھرنے سے نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اب تک جتنے بھی دھرنے ہوئے، چاہے وہ کسی مذہبی شخصیت نے دیئے ہوں یا کسی کرکٹ کے کھلاڑی نے ، وہ سب کے سب اپنے اپنے خالص سیاسی اور ذاتی مفاد کے لئے تھے اور سب کے پیچھے بڑے بڑے اسپانسرز موجود تھے ،120 دن مجرے کی محفل لگا کر کوئی ہماری ماؤں بہنوں کو تماشہ بنا کے سر عام رقص کرواتا رہا تو کوئی انہیں ماؤں بہنوں کو سیف شیلڈ کے طور پر استعمال کر کے بھی جرأت و بہادری کے نعرے لگاتا رہا ، مگر قربان ان ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے جیالوں پر کہ جو بھوک و پیاس کو برداشت کر کے صرف اس لئے حکومت وقت کو للکار رہے تھے کہ انکا ایجنڈا کوئی قومی اسمبلی کی سیٹ یا ایوان اقتدار کے حوس نہیں، بلکہ ملکِ پاکستان کے جمہور عوام کے دلی جذبات کی حقیقی نمائندگی ہے ،کہ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں مگر عزت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آنچ آجائے تو ہمارا جینا ہی بیکار ہے ، یہ ایک لازوال کاوش تھی اور اس نے ثابت کیا ہے کہ آج بھی اگر اہل حق ہوں تو 313 ہزاروں پر بھاری ہیں ، ذرا غور کریں کیا کوئی موازنہ ہے سابقہ دو دھرنوں اور اس ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے دھرنے میں ؟

وہ ہزاروں لوگوں کو ڈیلی ویجز پر لے کے آئے تھے
یہاں کسی کو کوئی رقم نہیں دی گئی


اُن کے لئے روز انواع و اقسام کے کھانے آتے رہے
یہ 4 روز بھوکے پیاسے چنوں پر زندگی گزارتے رہے


اُ ن کا ایک لیڈر روز اسلام آباد کے اپنے محل میں جاکے سیر ہوجاتا تھا
یہاں قائدین بھی اپنی قوم کے ساتھ بھوکے پیاسے رہے


اُنکا ایک لیڈر ایئرکنڈیشن کے بم پروف ڈبے میں سکون کرتا رہا
یہاں قائدین تپتی دھوپ میں اپنی قوم کے درمیان رہے


وہ سیاسی قد کاٹ کے لئے شہر اقتدار آئے تھے
یہ گنبدخضراء کے مکیں کی ناموس کے لئے آئے تھے


وہ دنیا مانگنے آئے تھے
یہ دین بچانے آئے تھے


وہ رسوا ہوکر گئے تھے
یہ امت کو جگا کر گئے ہیں


ہرگز ہرگز کوئی موازنہ نہیں, کوئی موازنہ نہیں
بلکہ موازنہ کی بات کرنے والوں کے لئے یہ مقولہ یاد آرہا ہے کہ
"کہاں گنگو تیلی ، کہاں راجہ بوس

اور جب معاملہ عزت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو تو لوگ نہیں گنے جاتے، جذبے دیکھے جاتے ہیں ، لوگوں کی کثرت نہ پہلے کبھی کامیابی کا پیش خیمہ رہی ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگی ،ہاں مگر تاریخ گواہ رہے گی کے بڑی بڑی جبہ و دستار والے، ململ کی گدیوں پر بیٹھ کے اپنے اجداد کی کرامت سنانے والے ،لاکھوں روپیہ اپنے جاہ و جلال کو برقرار رکھنے پر خرچ کرنے والے کچھ ابن دنیا صوفی اور علماء اپنے اجداد کے طریقہ سے بغاوت کر کے اپنے اپنے محلوں میں تماشائی بنے رہے اور امت کے کچھ جوانوں نے ایک بڑے معذور دیونے کے ساتھ مل کر ساری قوم کو عزت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا دھنگ سکھا دیا۔


جہاں تک رہی بات گالی گلوچ کی تو کسی بھی طریقہ سے اسکا دفاع نہیں کیا جاسکتا ، ہمیں مقصد کا حسن دیکھنا ہے نہ کہ کسی فرد واحد کا ذاتی عمل۔ جذبات اچھی چیز ہیں ،مگر اہل علم و دانش اور عام عوام کے درمیان زبان اور الفاظ کا امتیاز برقرار رہنا چاہئے۔


متعلقہ

تجویزوآراء