ذنب تحقیق وتنقیدکے میزان پر
ذنب تحقیق وتنقیدکے میزان پر
حضرت قبلہ علامہ مفتی محمدرمضان گل ترچشتی قادری
الفتح
اِنَّافَتَحنَا لَکَ فَتحاً مُّبِیناًOلَّیَغفِرَ لَکَ اللہُ مَاتَقَدَّ مَ مِن ذَنبِکَ وَمَاتَاَخَّرَ(الآیت)
‘‘بےشک ہم نے تمہارےلیےروشن فتح فرمادی تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشےتمہارےاگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے’’۔الخ(کنزالایمان
یہ ہے ترجمہ امام اہلسنّت ،مجدّددین وملّت،عظیم البرکت،اعلیٰ حضرت شیخ العرب والعجم، مفسّرِ اعظم،پروانۂ شمع رسالت،پاسبانِ شانِ نبوّت،محسن جماعت،پیرطریقت الحافظ القاری الحاج سیّدناومولاناشاہ احمدرضاخاں فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کالاریب ترجمہ خصوصاًاور عموماًتمام قرآن مجیدکاترجمہ جو کہ کنزالایمان سے موسوم ہے موافق احادیثِ صحیحہ،عقائدکامحافظ،صحیح العقل کارہبر،اہلِ حق کامؤیداور واضح اورمّصرّحِ حق،جوابات باطل کا بیان حق،بےاصل بیان سے مُبرّا،کلام معجزنظام کاباربط ترجمہ،مطابق تفاسیرِاربابِ علمِ لغت،اسلوبِ قرآن،آثارصحابہ رضی اللہ عنھم، انوارِبزرگان کا مصداق، الہامی اشارہ اور رُوحانی نظارہ ہے ؎
یہی کہتی ہے بُلبلِ باغ بتاں کہ رضاؔ کی طرح کوئی سحرِبَیاں |
نہیں ہند میں واصفِ شاہِ ہدیٰ مجھے شوخیٔ طبع رضا کی قسم! |
لیکن علّامہ غلام رسول سعیدی حال شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے نزدیک لِیَغفِرَلَکَ اللہُ(الآیت)کاترجمۂ اعلیٰ حضرت غیرصحیح ہے،کہ
‘‘ہمارے نزدیک یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ترجمہ لُغت،اطلاقاتِ قرآن، نظم قرآن اور احادیثِ صحیحہ کے خلاف ہے اس پر عقلی خدشات اور ایرادات ہیں’’۔(شرح صحیح مُسلم ص۳۲۵ج۷مطبوعہ لاہور)
اور اسی طرح اپنی مرقومہ شرح صحیح مسلم شریف کی مختلف جلدوں میں اس ترجمہ شریف پر باغیانہ ایسی ایسی واردات فرمائیں کہ الامان والحفیظ اور یمین ویسارسے بے پرواہوکروہ وہ موشگافیاں کیں کہ اربابِ ادب کو متحیر کردیااور اس پرطُرّہ یہ کہ اَسلاف میں جوبھی اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ کاہم خیال نظرآیاوہ بھی نشانۂ سعیدی بنااوراخلاف میں جس نے بھی دردِدین کااظہارکیاتائیدحق میں امام اہلسنت کا دم بھراوہ بھی رگڑاگیا ؎
گلۂ جَفائےوفائماجوحرم کواہلِ حرم سے ہے |
کسی بتکدے میں بیاں کروں توکہے صنم بھی ہَری ہَری |
ترجمۂ اعلیٰ حضرت میں بُنیادی اختلاف اس بات میں ہے کہ نسبت ذنب شفیع المذنبین ﷺ سے نہیں کی گئی لہٰذا
۱۔یہ تفسیراحادیثِ صحیحہ کے خلاف ہے اور عقلاًمخدوش ہے۔(شرح صحیح مسلم،ص۹۸)
۲۔اس تفسیرپرعقلی خدشات بھی ہیں۔(شرح صحیح مسلم ،ص۱۰۰،ج۳)
۳۔رسُول اللہﷺ کی صحیح اور صریح احادیث کے برعکس ہے۔(شرح صحیح مسلم،ص۶۹۱)
۴۔اس آیت سے اُمّت کی مغفرت لینا صحیح نہیں۔(شرح مسلم،ص۹۸،ج۳)
۵۔یہ ترجمہ صحیح نہں(تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں اور پچھلوں
کے)۔ (شرح صحیح مسلم ،ص ۶۹۴،ج۶)
۶۔اس ترجمہ کے غلط ہونے کی واضح دلیل ہے۔(شرح صحیح مسلم،ص۶۹۶،ج۶)
۷۔یہ ترجمہ صحیح نہیں۔(شرح صحیح مسلم،ص۳۲۵،ج۷)
۸۔یہ جوابات باطل وبے اصل ہیں۔(شرح صحیح مسلم،ص۳۲۲،ج۷)
۹۔یہ تمام احادیث کے خلاف ہے۔(شرح صحیح مسلم،ص۳۳۵،ج۷)
۱۰۔اعلیٰ حضرت نے تصریح کردی کہ لِیَغفِرَ لَکَ اللہُ مَاتَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَمَاتَاَخَّرَکا تعلق رسول اللہ ﷺسے ہےنہ کہ اگلے اورپچھلوں کے ساتھ۔(شرح صحیح مسلم،ص۳۳۵،ج۷)
۱۱۔یہ بات مان لینی چاہیے کہ یہ بات خلافِ تحقیق ہے اور یہ حق پرستی ہے۔(شرح صحیح مسلم،ص۳۴۶،ج۷)
۱۲۔اگرچہ اس ترجمہ کی بُنیادکمزوراورغلط ہے۔(شرح صحیح مسلم،ص۳۴۶،ج۷)
۱۳۔وہ ترجمہ کہ لُغت قرآن،اسلوبِ قرآں، احادیثِ صحیحہ، آثارِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، مُستندعلماکے اقوال وخود ان کے اکابرکی تصریحات کے خلاف ہےاوریہی حق پرستی ہے۔(شرح صحیح مسلم،ص۳۴۶،ج۷)وغیرہ وغیرہ۔
آنکھوں پہ کچھ ایسا ہی پٹہ ہے چڑھایا |
مجنوں نظرآئی اسے لیلیٰ نظرآیا |
یہ الزامات، خدشات اور ایرادات کے نشترذاتِ ستودہ صفات مُجدّدِ اُمّت پر کیوں؟کہ انہوں نے اپنے ترجمہ میں معصوم نبی،بےذنب نبی،بےذنب رسول منسوب ذنب نہیں کہا پھرمغفرتِ ذنبِ رسول کا نظریہ نہیں اپنایااس کے خلاف صرفی،نحوی منطقی بوقلمونیاں، ابحاث کے طوفان،ناعاقبت اندیشی،کے طویل بیان داغے کہ مدّتوں سے گستاخانِ رسولﷺ اورمخالفانِ بزرگان جو بدعقیدگی اور بےاَدبی کی وجہ سے منہ چھپاتے پھرتے تھےاعلیٰ حضرت اور مسلکِ اہلِ سنّت کے خلاف پھرپرتولتے نظرآئے ؎
وفاکے بھیس میں بیٹھاہے کوئی بے وفابن کر |
نگاہ غورسے دیکھوتوعُقدہ صاف ہوجائے |
اَلغرض علّامہ سعیدیؔ صاحب کی بےضرورت،بے وقت تحقیق،بے وجہ بے فائدہ تشریح و تصریح کے پَردہ میں تحقیق کے بہانے سے رُونماہونے والے لاوے نے اربابِ علوم، اصحابِ فنون،احبابِ معارف،عاشقانِ مصطفیٰ کو بہت ہی مجروح کیا،غیّورانِ ملّت،جَسُورَانِ جماعت کودِلی صدمہ پہنچایا۔
اوراس دِل ہلادینےوالی تشریح،رُلادینےوالی تصریح،تڑپادینے والی تحقیق،مُرجھادینےوالی تدریس،شرمادینےوالی تبلیغ اوراُکسادینےوالی تقریرنےدُنیائےاہلِ سنّت میں کُہرام غم اور طوفانِ اَلم بُرپاکردیا ؎
نچاماراہے یکسر،کیاعرب اور کیاعجم سب کو |
خُداغارت کرےاِس اختلافِ دین ومذہب کو |
کیایہ سعیدیؔ صاحب وہی ہیں۔
یہی علامہ غلام رسول سعیدیؔ جب مدرّسِ دارالعلوم نعیمیہ لاہورتھےاِنھیں اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے متعلّق اوران کے ترجمۂ قرآن کے متعلق فرماتے تھے:
‘‘اگرقرآن اردومیں نازل ہوتاتواسی ترجمہ میں ہوتا،اس ترجمہ کو اگرامام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ دیکھتے،امام رازی رحمتہ اللہ علیہ اورحضرت شامی رحمتہ اللہ علیہ دیکھتے تو سراہتے۔اکتسابِ فیض کرتے،زانوئے تلمّذ اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے خم کرتے،شاباش دیتے۔اور سعیدی صاحب فرماتے ہیں اس ترجمہ میں رازی رحمتہ اللہ کی موشگافیاں ہیں،غزالی رحمتہ اللہ علیہ کاتصوّف ہے۔جامی رحمتہ اللہ علیہ کی وارفتگی ہے نعمان رحمتہ اللہ علیہ کا تفقہ ہے۔آلوسی رحمتہ اللہ علیہ کی ژرف بینی ہے ۔۔۔۔۔مزیدفرماتے ہیں:
میں نے اعلیٰ حضرت کا زمانہ نہیں پایالیکن جب میں اعلیٰ حضرت کی تصانیف کو دیکھتاہوں، میرے دِل میں ایک شبیہ ابھرتی ہے۔جس کی آنکھوں میں فاروقی جلال،لبوں پر ملکوتی تبسّم، چہرہ ایسے جیسے کھلاہُواقرآن،گفتارمیں علی المرتضیٰ کی حلاوت،کِردارمیں ابوذر رضی اللہ عنہ کا استغناء، نفس میں گرمئی صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ،اندازمیں بلال رضی اللہ عنہ کی تب و تاب۔۔۔۔۔الغرض اعلیٰ حضرت کی شخصیت عُشّاق مصطفیٰ ﷺ کاایک جامع (توضیح البیان،ص۲۷،مطبوعہ لاہور) عُنوان معلوم ہوتی ہے’’
ان تمام گلہائےعقیدت کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئےمجدّدِ ملّت پر ایرادت،واردات اور جلوت و خلوت میں مُحسنِ اہلِ سنّت،شیخ الاسلام پرعقیدتِ صادقہ کو مخدوش کردینےوالے، غیروں کو جُرأت گستاخی فراہم کرنے والے،اپنوں کو جسارتِ مُقابلہ مُیسّرکرنے والے بیانات کہ درد مندان دیں ماتم کناں نظرآنےلگے ؎
اَپنوں کی یہ شانِ شریفانہ سلامت |
غیروں کوبھی یُوں زہراُگلتے نہیں دیکھا |
امام احمدرضاخاں نے ذنب کو بربنائے مجازِعقلی لِیَغفِرَلَکَ اللہُالخ میں بذریعہ اضافت لفظِ امّت رسولِ اکرمﷺ سے دُوررکھنےاور نسبت ذنب کو امّت کی طرف منسوب کرنے سے جوکرم فرمایاہے خالی الذہن لوگوں کو عصمتِ انبیاعلیہم السّلام پر غیر مسلم معترضوں سے چھٹکارامِلتاہے۔
نہ تنہامن دریں میخانہ مستم |
جُنیدوشبلی و عطارہم مست |
اوراب علّامہ سعیدیؔ صاحب شیخ الحدیث صدرمدرسین جامعہ دارالعلوم نعیمیہ لاہورکے نہیں بلکہ دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے ہیں بہت افسوس سے کہناپڑتاہے کہ علّامہ سعیدیؔ صاحب کی مخالفت مجدّدِِ ملّت کی وجہ سے ایک لمبی چوڑی عالمانہ، فاضلانہ،قاہرانہ محققانہ تحقیق کے باوجود بھی خود سعیدیؔ مفتی عبدالمجیدصاحب،رحیم یارخان بھی تمام سُنیوں،رضویوں، سعیدیوں کی آہ کوپیش کرتےنظرآتے ہیں۔
کہ علّامہ غلام رسول سعیدیؔ صاحب۔۔۔۔۔نے اعلیٰ حضرت کے ترجمۂ قرآن کے خلاف علمِ بغاوت بلندکرکےاہلِ سنّت کو نیچادکھانےاور وہابیّت کے پنجےمضبوط کرنے میں نہایت ہی تھوڑے عرصہ میں یقیناً وہ کام کردکھایاہےجوپوری ایڑی چوٹی کازورصَرف کرنے کے باوجود کم وبیش ایک سو سال کی طویل مدّت میں بھی وہ سرانجام نہ دے سکےجس سے علّامہ غلام رسول نے اپنے سعیدیؔ ہونے کی بجائے سعودی ہونے کاعملی مظاہرہ فرمایاہے۔
(کنزالایمان پر اعتراضات کااپریشن ص۵۵)
یہ حکمتِ لاہوتی یہ علمِ ملکوتی |
تیری خودی کے نگہبان نہیں توکچھ بھی نہیں |
اورعلّامہ غلام مہرعلی صاحب جواباتِ رضویہ ص۱۹۔
ممکن ہے کہ جب کاظمی صاحب ترجمہ البیان لکھوارہے ہوں توترجمہ لکھنےیاطبع کرنے والے کسی مولوی کو خریدکرکسی وہابی دیوبندی ایجنسی نے کاظمی صاحب کے ترجمہ میں کسی ضمیر فروش مولوی سے گناہ وخلافِ اولیٰ کے الفاظ درج کرادیے ہوں ؎
الٹی سمجھ کسی کو بھی ایسی خُدانہ دے |
دے آدمی کو مَوت پر یہ بدبلانہ دے |
ذنب کے متعلق
الذنب، الاثم و الجُرم والمعصیّۃ۔
ذنب گناہ،جُرم اور بدعملی کوکہاجاتاہے۔
(لسان العرب اَزامام محمدابن مکرم مصری ص۲۸۹)
الاثم
اسمٌ لافعال المطئیۃ عن الثواب۔اثم ایسے افعال کو کہتے ہیں جن کے کرنے سے آدمی ثواب سے محروم ہوجاتاہے۔(مفردات امام راغب ص۸)
ہرنبی و رسولﷺ ذنب،اثم،جُرم اور معاصی سے پاک مُبرّااور معصوم ہوتاہے۔
عصمت
حقیقۃ العصمۃ ان لایخلق اللہ تعالیٰ فی العَبد الذنب مع بقاء قدرتِہٖ و اختیارہٖ۔(شرح عقائد،علّامہ تفتازانی متوفی۷۹۱ ھ)
عصمت کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے میں ذنب باوجود بندے کی بقا اور اس کے اختیار کے پیدانہ کرے۔
بل ماھیۃ العصمۃ عنداھل سُنّت ان لایخلق اللہ الذنب فی العبد۔(حاشیہ لعصام علی شرح العقائدمولاناعصام الدّین متوفی ۹۴۲ ھ)
اہلِ سُنّت کے نزدیک عِصمت کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے میں ذنب(گناہ)پیدا ہی نہ کرے۔
وقد تقرر ان العصمۃ عند المتکلمین ان لایخلق اللہ فی النّبی ذنباً۔(نسیم الریاض،علّامہ شہابُ الدّین متوفی ۱۰۶۹ ھ)
علمامتکلمین میں عصمت کی تعریف یہ ہے کہ خدا،نبی میں کوئی گناہ پیدانہیں کرتا،
وھی عند ناان لایخلق فیھم ذنباً وَھِی عند الحکماملکۃ تمنعُ الفجور۔(شرح مواقف میرسیّدشریف علی جرجانی متوفی ۸۱۶ ھ)
ہمارے نزدیک عصمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبیوں میں گناہ پیدانہیں کرتا،حکماکے نزدیک عصمت ایک ایساملکہ ہے جو برائی سے روکتاہے۔
وعد م خلق اللہ الذ نب فی العبد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(نبراس ص۵۵۲ علّامہ عبدالعزیزپرہاروی)
خداتعالیٰ کابندےمیں گناہ کو پیدانہ کرنے کانام عصمت ہے۔
مذکورہ حوالہ جات سے آپ نے دیکھ لیا،ذنب اور عصمت ایک دوسرے کی ضِد ہے۔ ذنب والا معصوم نہیں اور معصوم ذنب والا نہیں۔مذنب نہیں۔
یہی ترجمہ مجدّد دین و ملّت نےاختیارفرمایا جس میں وہ منفرد نہیں جسےہواخواہاں نےمنشائے خداکے خلاف ترجمہ کرنےوالاکہا۔
ذنب کا ترجمہ مجازعقلی کی بناپرمضاف الیہ امت بناکرکرنے سے عقیدۂ عصمت محفوظ رہ سکتاہے۔
ذنب سے ذنب اُمّت فرمانے والے اکابرین
امام اہلِ سُنّت مجدّدِ اُمّت علّامہ فخرالدّین رازی متوفی ۶۰۶ ھ۔
امام علّامہ ابواللیث سمرقندی متوفی ۳۷۳ ھ۔
امام الصُّوفیاصاحب الحقائق محمّدبن حُسین ابوعبدالرحمٰن سلمی نیشاپوری، طبقات الصوفیا ،متوفی ۴۱۲ ھ
امام مسلک قاضی عیاض مالکی رحمتُہ اللہ علیہ،الشفاء، ص۱۳۸،ج۲،مصر۔
امام ابوالعباس احمد بن محمدسہل بن عطاء الزاہدی بغدادی متوفی ۳۹۹ ھ۔
امام ابوالقاسم ھبتہ اللہ بن سلام بغدادی، الناسخ والمنسوخ ،۴۱۰ ھ۔
امام مذہب ملاعلی قاری متوفی ۱۰۱۴ ھ ،شرح شفا،ص۱۷۵،ج۴۔
امام حقیقت علّامہ شہابُ الدین خفاجی متوفی ۱۰۶۹ ھ، نسیم الریاض ص ۱۷۵، ج۴
امام ابوحبان اندلسی ،تفسیرالبحرالمحیط، ص۵۲۸،ج۴،بیروت۔
امام حنفیت علّامہ سفی تفسیر مدارک التنزیل، ص۵۴۵،ج۳۔
امام تفسیرسیّدمحمودآلوسی ،رُوح المعانی، ص۷۷،ج۱۳،ملتان شریف۔
امام واعظ علّامہ مُلّامُعین کاشفی،تفسیرحُسینی،ص۱۰۷۰۔
امام ِشریعت مفتی احمدیارخان گجراتی، نُورالعرفان،ص۷۷۵۔
امام الفقاہت سیّدمحمد بن ادریس شافعی متوفی ۲۰۴ ھ، احکام القرآن ،ص۳۸،ج۱
امام التصوف شیخ اکبرابن العربی، فتوحاتِ مکیہ، ص۳۳۸،ج۱۳۔
امام المعارف علی شریف جرجانی،شرح المواقف،ص۲۷۹،ج۸۔
امام العلوم والفنون تفتازانی مختصرمعانی۔
مذکورہ زعماائمہ کرام ذنبککاترجمہ ذنبِ مؤمنین اُمّتِک کرنے والے ہیں یہاں اکیلے مترجم امام احمدرضاخاں رحمتہ اللہ علیہ نہیں جسے سعیدی صاحب نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کا نشانہ بنالیا ہے اور کئی غیر ضروری ابحاث پرقلمی جولانیاں رکھاکرعاشقانِ رسول کو اپنے سے نیچادکھلانےکی سعیٔ ناتمام، ناکام بلکہ بدنام سامنے لارہے ہیں۔ترجمہ ذنب، مغفرتِ ذنب،لام تعدیہ کہ تعلیلیہ اور مغفرتِ ذنب کو حضور کے لیے مغفرت کااعلانِ کلی خُصوصیت عظیم آپ ﷺ کے لیے ثابت کررہے ہیں ؎
شاعرکی نَواہوکہ مُغنی کانفس ہو |
ہوجس سےچمن افسردہ وہ بادِسحرکیا |
اے اہلِ نظر!ذوقِ نظر خُوب ہے لیکن |
جوشے کی حقیقت کو نہ سمجھے نظر کیا |
حضرت سعیدی صاحب کی دُہن
حضرت کی دُہن کہ ذنب منسوب بہ رسول اللہﷺ ہےلہٰذامغفرتِ رسُول ہے اور بس حالانکہ لم یکن للنبی ذنب فماذایغفر لہ۔۔۔اس دُھن کے خلاف کوئی بھی نظرآیا وہ غیرصحیح،غلط،مخدوش،مردُودہےاگرچہ وہ ممدوح عالم کیوں نہ ہو،مجدّدومُفتی کیوں نہ ہو غیر معتبرہےاور اس دھن میں نہ معلوم کتنےطالب علم ساتھی،مَسلک کے گول مول، غیرتِ مِلی سے ناآشنامحبتِ ایمانی سے نابلد،جذبۂ اسلامی سے کورے،دُنیوی شُہرت کے خواہاں دُھنے گئے۔ان ہمنواؤں میں کچھ توصِرف بےسوچے سمجھےہمنوائی کی حَد تک دھن میں ہم آواز نظر آئے اور کچھ سوچ سمجھ کر ابوالخیربَن کر حضرت سعیدی صاحب کے تبتع میں مغفرتِ ذنب کا نغمہ اَلاپتےحضرت سعیدی صاحب سے بھی ایک دو قدم آگے بڑھ گئے۔حضرت سعیدی صاحب نے ذنب کو منسوب الیٰ الرسولﷺ کاارتکاب توکیالیکن ترجمہ نہیں کیا اور اگرترجمہ کیا تو ذنب‘‘بمعنی خلاف اولیٰ کام’’کیا۔اگرچہ دونوں باتیں غیرت مندسُنی کے لئے باعثِ آزار ہیں، ذنب کا ترجمہ نہ بھی ہو توذنب،ذنب ہی رہےگا،ذنب ہرحال میں ذنب ہےگناہ ہے جس سے اللہ کاہرنبی ورسُول پاک ہے۔اوراگرذنب کاترجمہ خلاف اولیٰ ہے۔نبیِّ اولیٰ کی صفت غیر اولیٰ نہیں ہوسکتی۔
لَقد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ طنبی کی ہراَدا،ہرپَیروی احسن، اولیٰ،اجمل واکمل ہے ؎
الغرض اُن کے ہرمُوپہ لاکھوں دُرود |
اُن کی ہرخُوخصلت پہ لاکھوں سلام |
نبی کاہرفعل اولیٰ ہے۔اُمّتی یہ حق نہیں رکھتاکہ آقاکی سنّت کوغیراولیٰ کہے،جوکیااچھاکیا، کرنا بھی اولیٰ نہ کرنابھی اولیٰ۔
حَسُنَت جَمِیعُ خِصَالِہٖ |
صَلّواعَلَیہِ وَاٰ لِہٖ |
اورمذکورہ ہر دوطریقوں سے سعیدی صاحب کی طرح کوئی طریقہ بھی اختیارکرکے تحقیقی انیق کے پاپڑبیلتےرہنادل آزارباعثِ سدبارہوگااوریہ کام اپنانے والے کا انجام بہت بے قرار اور بیمارہوگا۔ع: علمےراہِ حق ننماید جہالت است
اورعلّامہ سعیدی صاحب سے ان کے نظریہ کو اَپناتے ہوئےایک دوقدم آگے بڑھنےوالے صاحبزادہ مولاناابوالخیرپیرمحمدزبیرصاحب نے ذنب کو باترجمہ اپنی تحریروتقریرمیں حضور ﷺ سے منسوب کر کے رَائیَ سُوءَ عَمَلِہٖ حَسَنَۃٌکےپیشِ نظربہت کچھ کہتے ہوئے یعنی مسلک رضاوالے معاذاللہ ثم معاذاللہ اعلیٰ حضرت رحمتُہ اللہ علیہ کو نبیوں،وَلیوں بلکہ خود حُضور امام الانبیاﷺسے بڑھ کرسمجھتے ہیں۔ (مغفرت ذنب ازصاحبزادہ ص۳۔۱۳)
وہ کچھ کہہ ڈالاجونہ کہناتھا ؎
گھائل تیری نگاہ کا بنوعِ دگرہرایک |
زخمی کچھ ایک بندہ درگاہ ہی نہیں |
جن کے ردّ عمل میں جواباتِ رضویہ ازعالم ربّانی،محقق لاثانی علّامہ غلام مہرعلی اور کتاب معرکۂ ذنب ازعلّامہ مہر علی منصۂِ عام پر پیش ہوئی ؎
سمجھتے تھےرہےگی جنگ محدودوگل و بُلبل |
مگرتخریب نظمِ گلستاں تک بات جاپہنچی |
ابھی ابھی یہ بات صاحبزادہ ابوالخیرعلّامہ محمدزبیرصاحب،رُکن الاسلام حیدرآباد کی اور آپ کے متعلق اس معاملہ میں مزید کچھ لکھناچاہتاتھاکہ حضرت مولانابشیرالقادری صاحب خطیب مسجدسُبحانی اورنگی۱۳؎کراچی سے ملاقات ہوئی،انہوں نے فرمایاکہ قائداہلِ سنّت علّامہ شاہ احمدنورانی میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ایک کثیرتعدادجماعت کے سامنےاِس نظریۂ ذنب کے متعلّق مخالفتِ اعلیٰ حضرت سے مراجعت لکھوالی تھی اور وہ تحریرمیرے پاس ہے میں پہلی فرصت میں پیش کردوں گا۔لہٰذابس۔۔۔اوردُعاہے اللہ تعالیٰ ان کے پیش روعلّامہ سعیدی صاحب کودیگرمسائل میں مراجعت کرنے کی طرح یہاں بھی مراجعت کی توفیق نصیب فرمائے ؎
ازکنزوھدایہ نتواں بافت خُدارا |
یک پارہ دِل خواں کہ کتابے بہ ازاں نیست |
علّامہ سعیدی صاحب نے ترجمۂ اعلیٰ حضرت رحمتُہ اللہ علیہ لِیَغفِرَ لَکَ اللہُ مَاتَقَدَّمَ مِن ذَنبِکاوراس کے موافق ومُطابق اکابرین علمائے کرام وصوفیائے کرام کےترجمہ کے خلاف جس اندازکواختیارفرمایاہواہےوہ ہرذی شعور کے سامنے ہے۔کتنےدل اندہ گیں ہوئے، کتنے ضمیربےیقین ہوئے اورکتنے مخلص بے تمکین ہوئےبلکہ مبرّاعن الدّین ہوئے ؎
دِ ل کے پھپھولے جَل اُٹھےسینےکے داغ سے |
اس گھرکوآگ لگ گئی گھرکے چراغ سے |
اگرچہ اس آگ سے مختلف مقامات مُلک وغیرمُلک سے سوختاں کی چیخیں،پکاریں،سِسکیاں جہاں زمانےنےسُنیں علّامہ سعیدی نے بھی سُنی ہوں گی۔لاہور،گوجرانوالہ،چشتیاں شریف، ملتان شریف،رحیم یارخاں،حیدرآباداور خودکراچی سے دَرد کی آہیں اُٹھیں ان تمام میں میرے نزدیک آہ بصُورت مغفرتِ ذنب مقالہ ازسیّدی مخدومی محقّقِ اہل سنت محترم علامہ مفتی سیّدشاہ حسین گردیزی دامت برکاتہم العالیہ طویل تشریح سعیدی پر اطول تصریح گردیزی ہےجس میں تقریباً ہر مسئلہ میں صَرفی نحوی منطقی روایات ودرایات پر علمی و اَدبی ابحاث ہیں جویانِ راہ کے لیے کافی حدتک سامانِ خیرمیسّرآسکتاہے ؎
دیکھ!اس قوم کی تذلیل نہ ہونے پائے |
اَپنےایوان میں جس قوم کی آواز ہےتُو |
علّامہ سعیدیؔ صاحب نے ترجمۂ اعلیٰ حضرت اور دیگرہم مسلک ومذہب بزرگوں کے خلاف اپنی لمبی اورطویل تشریح و تحقیق میں زیروبَم کے طعن کا تان اَلاپتےہوئےکہ:جس ترجمہ میں مغفرت کا تعلّق اگلوں پچھلوں کے ساتھ کیاگیاہےوبلغت،قرآن مجید کی بکثرت آیات میں انبیاعلیہم السّلام کے ساتھ مغفرت کےتعلّق، نظمِ قرآن،احادیث،آثاراور فقہااسلام کی تصریحات کے خلاف ہےاس لیے وہی ترجمہ صحیح ہے جس میں مغفرت ذنوب کاتعلق رسُول اللہﷺ کے ساتھ ہے۔الخ(شرح مُسلم ص۳۴۶)
سب سے آخرمیں فرماتے ہیں:
ہم نے اَپنےاکابرکے جس ترجمہ پر تنبیہ کی ہے وہ ترجمہ ہر چندکہ لُغت،اسلوب قرآن، احادیثِ صحیحہ،آثارصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم مُستندعلماکےاقوال اور خودان اکابرکی تصریحات کے خلاف ہے۔۔۔اس ترجمہ کی اصل عطاخراسانی اور شیخ مکّی کے اقوال میں موجود ہے۔ (شرح صحیح مسلم ص۳۴۶)
جیسےہرمؤید ومصدق متقدمین یامتاخرین یا معصرین میں ہو،سعیدی کے نزدیک وہ خلافِ تحقیق ہے اسی طرح کیونکہ عطاخراسانی بھی اسی نشانے پر تھے،ان کے تمام مناصب اور مراتب کوقابلِ ذکرنہ سمجھتےہوئےاپنی تشریح میں ان کے متعلّق کچھ منفی رائے رکھنےوالے علماکانام مثلاً امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں ضعفامیں بتایاامام ابنِ حبان نے حافظہ کرردی کہا اوربتایا کہ وہ خطاکرتےاورخطاکاانہیں علم نہیں ہوتاتھا،اس لیے ان کی روایات سے استدلال کرناباطل ہے۔(شرح مسلم ص۳۲۴)
اوراسی صفحہ پرایک اور عطاخراسانی۱۶۳ ھ میں فوت ہونےوالے کاذکرکیا۔کہ عطاخراسانی بہت بدشکل تھا،یہ تناسخ کاقائل تھا،حلول کا قائل تھا۔۔۔اورالوہیت کا مدعی تھا۔(شرح مسلم ص۳۲۴)
یہاں اس کی اِس طورمیں ذکرکرنے کی ضرورت نہیں تھی اور وہ عطاخراسانی جو ۱۳۵ ھ میں فوت ہوگیاوہ اور تھا۔وہ ایک مفسر،محدّث تابع شبِ زندہ دارپرہیزگارتھا،کبارمیں شامل تھا۔
عطاخراسانی رحمتہ اللہ علیہ بن عبداللہ الخراسانی ہی عطابن مُسلم ہیں۔
عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمراور عبداللہ بن اسعدی رضی اللہ عنہم نے ان سےروایات کی ہیں جو مراسیل میں شمارہیں وہ کثیرالارسال شخص تھے۔
حضرت انس،حضرت سعیدابن مسیّب،حضرت عکرمہ، حضرت عروہ رضی اللہ عنہم سے اور دیگرحضرات سے روایات کیں۔
اوران سے ان کے بیٹے امام عثمان، امام اوزاعی،امام معمر،شعبہ، امام سفیان یحییٰ بن حمزہ، اسمٰعیل رضی اللہ عنہم نے روایات کیں
۶۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ ابوایّوب،عطاابنِ میسرہ، عروہ بن عروہ بن رویم رحمتہ اللہ علیھم ان سے روایت کرتے تھے۔آپ نے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو دیکھاتھا۔ امام نسائی نے فرمایاکہ ان کی روایت میں کوئی حرج نہیں امام احمدبن حنبل،یحییٰ ابنِ معین عجلی اوریعقوب بن شیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرمایاوہ ثقہ تھے۔ ابوحاتم نے فرمایا لاباس بہاس کی روایت میں کوئی حرج نہیں وہ اللہ کے نیک بندے تھے۔ امام دارقطنی نے فرمایاوہ ثقہ تھےاور اسی طرح امام ترمذی نے فرمایاوہ ثقہ تھے ان سے مالک،معمررضی اللہ عنہماجیسے بزرگوں نے روایت کی۔ امام ترمذی نے فرمایاوہ ثقہ تھے لم اسمع ان احداً من المتقد مین تکلم فیہ میں نے نہیں سُناکہ متقدمین میں سے کسی نے اس کی ثقاہت پراعتراض کیاہو۔ حضرت عثمان بن عطافرماتے ہیں،میرے والدمسکین لوگوں میں بیٹھتےاور انہیں تعلیم دیتے۔ امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں،‘‘طبقۂ تابعین میں یہ تین قابل ذکر ہیں:
حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ،عطاابن ابی رباح اور عطابن مسلم الخراسانی رحمتہ اللہ علیہ ۔اور فرمایا سوائے ابنِ حبان رضی اللہ عنہ کے ان پر کسی نے جرح نہیں کی۔امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ ،امام مالک رحمتہ اللہ علیہ اورامام شعبہ رضی اللہ عنہ اور امام ثوری رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں ثقہ کہاہے’’۔(الاتقان)
آپ کے متعلق مماتی فرقےکےمشہورمولوی طاہرپیری نے لکھاہےکہ عطابن ابی مسلم خراسانی نےصحابہ سے مرسل وغیرمرسل طریقےسے روایت کیاانہیں امام جرح وتعدیل یحییٰ ابنِ معین اور امام المحدّثین ابن ابی حاتم نےاپنے والدکے حوالے سے ثقہ کہاہے۔(نیل السائرین ص۲۵مردان)
ابن سعدنے کہاوہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرداورثقہ تھےاور حضرت انس سے شاگرد تھے۔اسی طرح طبرانی نے فرمایا۔
(میزان الاعتدال مطبوعہ سانگلہ ہل ص۷۳،ج۳تہذیب التھذیب ص۱۹۰،ج۷،نیل السائرین ص۲۵وغیرہ)
متاعِ دین و دانش لُٹ گئی اللہ والوں کی |
یہ کس کافراَداکاغمزۂ خونریزہے سَاقی |
عطاالخراسانی رحمتہ اللہ علیہ نے ذنبکسےذنب ابویک آدم وحَوّالیاہے۔اس ترجمے میں آپ کا تسامح کہاجاسکتاہےغیرصحیح اور غلط ترجمہ کہاجاسکتاہےجیسے اکابرین متقدمین نے کہالیکن ان کے ترجمےہر اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت خراسانی کا تتبّع کرنے والاکہناایک بڑی زیادتی ہےجیسے علّامہ سعیدی صاحب نے امام اعلیٰ حضرت پاسدارعصمتِ انبیا،نگران مسلک نگہبان مشرب اولیامہربان فقراکومتبسم کیاہے ؎
سُنیّت سے کھٹکےسب کی آنکھ میں |
پُھول ہوگئےہیں خار ہم |
درد
آعندلیب مِل کے کرے آہ وزاریاں |
تُوہائےگل پُکارمیں چلّاؤں ہائے دل |
شیخ العرب والعجم،مفسّر ومحقق معظّم،علوم کثیرہ کے عالم،محدّث و مجدّدِاعظم،فقیہ ومفکّرِ دوراں،پیشوائےزماں،مقام مصطفیٰ کےپاسبان مُرشد،بےداغ شخصیت،مقتدائے مقبول،عاشقِ رسول، پیرطریقت،سراپابرکت،ممدوح عالم،اہلسنّت کے امام،ذوالمجد والاحترام،الفاضل،الحافظ،القاری،سیّدی سندی آقائی ومولائی ذخری لیومی وغدی المفتی الشاہ احمدرضاخان قادری بریلوی رحمتہ اللہ علیہ۔ زمانہ حضرت کو غوث،قطب،ابدال،استاذالعلما،رئیس الفقرا،تاجدارِ فنون،سراللہ المکنون غیرہ جو کچھ کہتاہےانہیں نبی کی طرح معصوم تونہیں کہتا،وہ سب کچھ ہیں لیکن انسان ہیں۔ اگران میں کسی کوکوئی سقم،تسامح خلاف اور غلط بات نظرآئے تو اختلاف کا حق رکھتاہے اور اکابرین ومعاصرین کے اختلافات بھی دیکھے ؎
گلہائےرَنگارَنگ سے ہےزینتِ چمن |
اے داغ اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے |
لیکن افسوس اوردَردتوایسے اختلاف سے ہے جسے بذاتِ خوددُرست صحیح سمجھےاور دوسروں کی سمجھ کو غلط اور غیردُرست سمجھے ؎
ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتاہے بَہاراں |
اَوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا |
شاید کہ زمیں ہویہ کسی اور جہاں کی |
تُو جس کو سمجھتاہے فَلک اپنے جہاں کا |
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی ذات میں اگرذنب کو بلاواسطہ نبی پاکﷺ کی ذات میں منسوب نہ کرنے اور مغفرتِ ذنب کو سرکارﷺ کے لیے اس تشریح پر بات نہیں کی کہ شاید دیگرمسائل میں تغیّرتبدل جائزناجائزراجح مرجوح ناسخ منسوخ کی طرح اس تشریح پر نظر ثانی ہوجائے۔
لیکن علامہ سعیدی نے نامعلوم کیاکچھ سوچ کر اس مخالفت اعلیٰ حضرت کے معاملے میں شدّت دکھائی کہ ہر ملنے والے کو مایوس فرماتے رہے ؎
کیاخبرکتِنےسفینےڈبوچُکی |
کتاب مُلّا و صُوفی کی ناخوش اندیشی |
اورحضرت علّامہ غلام رسول سعیدی صاحب تھے کہ ہر لمحہ مخالفتِ اعلیٰ حضرت پہ تُل کر عقیدتوں کا خون کرنے پر ڈٹےہوئے تھے۔نہ معلوم کیا نشہ تھاکہ امام اہل سنّت کوایک عام آدمی سمجھ کران کی ہردینی خدمت سے صَرف نظر کرکے انہیں غلطی کرنے والامخدوش، اَپنے بزرگوں سے اختلاف رکھنےوالا،خُداکی منشاکے خلاف ذنب کوغیرنبی سے منسوب کرنے والاکہ اگرجماعت اہلِ سنت بریلویہ سے نفرت دِلانے پرجمےہوئے تھےع
چُوں کُفر ازکعبہ برخیزوکُجاماندمسلمانی
بلکہ ان دنوں راقم الحروف غیرمعروف دیہاتی صحرائی بھی اَپنےاُستادمعظم محدثِ اعظم سیّدی سندی مولاناابوالفضل محمدسرداراحمدصاحب فیصل آبادی رحمتُہ اللہ علیہ کی ہدایت کے تحت (کہ اپنے ہم مسلک علمااور اولیاسےجہاں جاؤملتے رہاکرو)حاضر ہواتودرسگاہِ سعیدی میں اتّفاقاًوہاں دیگرعلمائے کرام بھی موجود تھےاور امام اہلِ سنّت کی شاعری پر تبصرہ اور اعتراض پرمحفل گرم تھی اور اس بات پر بحث تھی کہ اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ کایہ شعرکہ ؎
کون دیتاہے دینے کومُنہ چاہیے |
دینےوالاہے سچّاہمارانبیﷺ |
درست نہیں تو فقیرنے عرض کی کہ لینےدینےکےلیے منہ دیکھےجاتے ہیں حُضورِ نبی اکرم ﷺ نے بھی فرمایا: اُطلُبواالحَوَائِجَ مِن حِسَانِ الوُجُوہِ۔
توسعیدی صاحب نے فوراًفرمایایہ حدیث ہی نہیں دیگرعلمائے کرام تھے جن کی اکثریت علّامہ کی تائیدمیں نظرآئی فقیریہاں سے طوطی بہ نقارخانہ کے تصور سے بلابحث واپس آگیااگلے دن چند حوالے کتبِ علماسے لے کر گیا تو سعیدی صاحب نے فرمایامیں نے کہیں دیکھا کہ کسی عالم دین نے اس کوحدیث ماننے سے انکارکیاہےلیکن عرضِ ثبوت پر خاموش ہوگئے جبکہ شیخ سعدی رحمتُہ اللہ علیہ نےاعلیٰ حضرت سے برسوں پہلے اس حدیث کی مطابقت میں رقم فرمادیا ہے کہ ؎
ہرحاجت بہ نزدیکِ ترشرو |
کہ ازخوئےبدش فرسودہ گردی |
ان دنوں عرسِ خطیبِ پاکستان مولاناحافظ محمدشفیع اوکاڑوی پر تشریف لائے ہوئے شیخ القرآن ابُوالبیان علّامہ غلام علی اوکاڑوی رحمتہ اللہ علیہ سے علّامہ کوکب نُورانی کے گھرمیں راقم الحروف کی ملاقات ہوئی اورعلّامہ سعیدی صاحب کے متعلّق بھی ذکرتشریح لِیَغفِرَ لَکَ اللہ ہوا۔
توحضرت مولاناشیخ القرآن رحمتہ اللہ علیہ نے موجودہ حاضرین کے سامنے فرمایا،ملاناگلترؔ صاحب! اس معاملے میں آپ سعیدی صاحب سے زیادہ نہ اُلجھو
بس تجربہ کردیم دریں دیرِ مکافات |
بادردمنداں ہر کہ دراُفتاداُفتاد |
حضرت نے سردست ایک مرقومہ پرچہ بھی مجھےتھمادیاجومیرے پاس اب بھی موجود ہے جو متعلّق لِیَغفِرَ لَکَ اللہُ مَاتَقَدَّ مَ مِن ذَنبِکہے۔
اوریہی ہدایت وتلقین فرمائی کہ قدرت ایسے دریدہ دہنوں اوراکابرپر خواہ مخواہ اعتراض کرکے نیچادکھانےوالوں اور مَسلک ومذہب کا شیرازہ بکھیرنے والوں کو سبق جلد ترمل جاتا ہے ؎
چُوں خُدا خواہد کہ پَردہ کس دَرَد |
میلش اندر طعنۂ پاکاں زند |
بےاَدب تنہانہ خودراداشت بَد |
بلکہ ایں آفت ہمہ آفاق زد |
اس پر فقیربھی خاموش اور فقیرکے ملنےوالے اکثررضوی سُنی دوست بھی خاموش دیکھے گئے اکثراہلسُنّت کے مختلف جرائداورکُتب اس نظریے پر تبصرے کرتے رہے۔فقیر تو حسبِ استطاعت تشریح سعیدی رَوی اورباغیانہ تحریرکے جواب سے خاموش رہالیکن حال ہی میں کچھ محققانہ اور مخلصانہ مضامین نظرسے گُزرے ؎
فقیہِ شہر کی تحقیر کیامجال مری |
مگریہ بات کہ میں ڈھونڈتاہوں دل کی کُشاد |
ان میں کنزالایمان پر اعتراضات کاآپریشن ازقلم مفتی محمدعبدالمجیدسعیدی رضوی، رحیم یارخاں۔ازمغفرت ذنب ازقلم مفتی پیرمولاناشاہ حسین گردیزی،کراچی اگرچہ علاوہ ازیں گردوپیش سے سعیدی صاحب کی تحقیق و تشریح وایرادات کے جوابات واردہورہے ہیں لیکن ان ہردورسالوں میں کافی وشافی دائرہ اَدب موادموجودہے ورنہ ؎
بنےہیں سنگدل مجبورہوکراس ستمگرسے |
جواب آخرانہیں دیناپڑاپتھرکاپتھرسے |
پھرعلّامہ محقق گردیزی صاحب کے مضمون ‘‘مغفرت ذنب’’ پر تائیدوتصدیق فرمانے والے علماپر ایک مضمون کودارالعلوم نعیمیہ کراچی سے نکلنےوالے رسالہ ‘‘النعیم’’مارچ ۲۰۰۴ء میں خود نوشتہ حضرت سعیدی لیکن اپنے کو محدّثِ اعظم کہلوانے کے لیے ازتحریر مولانامحمّدنصیراللہ نقشبندی مدیراعلیٰ ماہنامہ النعیم کراچی طبع کرادیا۔
یہ حق جُوئی اور صدق کی وفاداری ؟
حضرت علّامہ سعیدی صاحب کی اعلیٰ حضرت رحمتُہ اللہ علیہ کے ترجمے کو غلط ثابت کرانے والی تشریح نارواپردُکھ سے مجبورہوکرگذارشات کے لیے توبہت سارے مواقع ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے بطفیلِ نبی اکرمﷺ اَب صرف دُعَاہے یارب ہمیں دین وملّت کے نفع ونقصان سے بے نیازہوکرایساکرنے سے بچاکہ مولانانصیرُاللہ صاحب جیسے کئی طالب علم اس سوچ قاہرانہ سے مُتاثر ہوکرمُستقبل میں یہ نہ کہیں کہ
چیست یاراں بعدازیں تدبیرِ ما |
رُخ سوئےمیخانہ داردپیرِ ما، |
شیخ ازسرِ نبی بیگانہ شُد |
بعدازیں بیتُ الحرم بُت خانہ شد |