مسائلِ زکوٰۃ

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

الصّلوٰۃُ والسّلام علی سیّد المرسلین وعلی اَلہ واصحابہ اجم

 

نماز، روزہ کی طرح زکوٰۃ بھی سابقہ انبیا ء کرام کی شریعتوں میں شامل رہی ہے اگر چہ ان کے تفصیلی احکام جدا تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

ترجمہ : اور اس (اللہ جل شانہ ) نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے جب تک میں زندہ ہوں (مریم 31)

زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے لئے قرآن و حدیث میں سخت و عید آئی ہے۔

ترجمہ : ۔اور جو لوگ سونا، چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو (اے نبیﷺ) آپ انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے جس دن وہ (سونا، چاندی) جہنم کی آگ میں گرم کیا جا ئے گا۔ پھر اس سے ان کی پیشانیوں ، پہلوؤ ں اور پیٹھوں کو دا غا جائےگا (اور ان سے کہا جائے گا) یہ وہ مال ہے جسے تم نے اپنے لئے (بڑی چاہت سے) جمع کر رکھا تھا، تو (اب) اپنے جمع کئے ہوئے مال کا مزہ چکھو (توبہ54-34)

حدیث ۱:۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سید المرسلین ﷺنے ارشاد فرمایا! جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیا مت کے دن وہ (مال)اس کی گردن میں ایک زہریلے سانپ کی صورت میں طوق بنا کر لپیٹ دیا جائیگا۔(سنن ترمذی3012)

حدیث۲: ۔امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا! جب زکوٰۃ کا مال کسی مال میں مل جائے تو وہ اسے ہلاک کر دیگا۔(مشکوٰۃالمصابیح157)

مصارفِ زکوٰۃ

(۱)فقیر (۲)مسکین (۳)عامل (۴)رِقاب (۵)غارم (یعنی قرض دار) (۶)فی سبیل اللہ (۷)ابن السبیل(یعنی مسافر)

فقیر: ایسا شخص جو صاحبِ نصاب نہ ہو مگر اس کی ضروریات زیادہ ہوں۔۔یا۔۔اس کاقرض اتنا ہو کہ ادا کرنے کے بعد صاحبِ نصاب نہ رہے گا۔

مسکین: ایسا شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو حتیٰ کہ کھانے پینے کے لئے بھی محتاج ہو۔                            

عامل: ایسا شخص جسے بادشاہِ اسلام نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو۔                               

رقاب: ایسا شخص جسے آزاد کرنے کے لئے مالک نے مخصوص رقم کا مطالبہ کیا ہواسے مکاتب بھی کہتے ہیں۔                        

فی سبیل اللہ: ایسا شخص جو محتاج ہو،جہاد پر جانا چاہتا ہولیکن زادِراہ نہ ہو۔طالبِ علم دین کو بھی دے سکتے ہیں،جبکہ وہ فقط علم ِدین  میں مصروف ہو۔

فقیر ابن السبیل: ایسا شخص جو حالتِ سفر میں ہو اور اس کے پاس مال باقی نہ رہا ہو،چاہے اس کے گھر میں کثیر مال موجود ہو۔     

زکوٰۃ نکالنا کافی نہیں بلکہ اصل مستحقین تک پہچانا ،اور جائز شرعی مصارف پر صرف کرنا لازم ہے،ورنہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔

نصاب ِزکوٰۃ

اس سے مراد وہ کم از کم مالیت ہےجس کے مالک ہونے سے مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔ ساڑھے باون تولہ چاندی (612.36گرام)۔ یا ۔ اس کی رائج الوقت قیمت کے برابر نقد رقم ،یا مالِ تجارت ،یاساڑھے سات تولہ سونا (87.48 گرام)یاوہ مال جو اس کی حاجت سے زیادہ ہو۔

فائدہ: آج کل چاندی اور سونے کے نصاب کی مالیت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں !اگر اموال متفرق ہوں یعنی کچھ سونا ،کچھ چاندی اور کچھ مالِ تجارت یا رقم وغیرہ تو چاندی کے نصاب کا ہی اعتبار کیا جائے گا ۔کیونکہ فقراء کا چاندی کے نصاب میں فائدہ ہے۔ سونے کے نصاب کا اعتبار اس وقت کیا جائے گا جب صرف اور صرف سونا ہو اس کے علاوہ کچھ نہ ہو۔

مسائلِ زکوٰۃ

مسئلہ :۔ حولان ِحول کا مفہوم : زکوٰۃ فرض ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مال پر پوا قمری سال گزر جائے یعنی جس دن کوئی بالغ ، عاقل مسلمان زندگی میں پہلی بار مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق کم از کم نصاب کا مالک ہوجائے تو اسلامی کیلنڈر کی اسی تاریخ سے وہ ’’صاحب نصاب‘‘ قرار پاتا ہے لیکن اس پر اس دن زکوۃ واجب نہیں ، جب تک اس کی ملکیت میں مال پر پورا قمری سال نہ گزر جائے ۔ سال کے اختتام پر اسی قمری تاریخ کو زکوٰۃ دینی ہوگی۔

مسئلہ:۔سال بھر کم از کم نصاب کا ملکیت میں رہنا ضروری نہیں ہے بلکہ سال کے ابتداء اور سال کے انتہاء پر اگر اس کے پاس نصاب کی مقدار مال ہے ،تو اس پر زکوۃ و اجب ہوگی اگرچہ سال کے درمیان میں رقم کم ہوگئی تھی۔

مسئلہ:۔ ہر ہر رقم پر سال کا گزرنا شرط نہیں مثلا ً یکم رجب کو اگر کوئی شخص صاحب نصاب بن گیا پھر آئندہ سال جب یکم رجب آیا تو اس وقت بھی اگر وہ صاحب ِنصاب ہے تو ایسے شخص کو زکوۃ ادا کرنی ہے چاہے اس میں کچھ رقم ایک دن پہلے ہی آئی ہو۔

مسئلہ:۔ سال گزرنے کی شرط کا تعلق سونے، چاندی، نقد رقم،اور مویشیوں سے ہے۔ زرعی پیداوار، پھلوں، شہد، کانوں یا زمین سے نکلنے والی چیزوں پر سال گزرنے کا اطلاق نہیں ہو تا زرعی پیداوار کی کٹائی اور پھولوں کے اتارے جانے پر ہی زکوۃ واجب ہوگی۔

مسئلہ:۔محض رقم الگ کرینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی جب تک مستحقین تک نہ پہنچا دی جائے ،اگر خدا نخواستہ وہ رقم چوری ہوجاتی ہے تو زکوۃ اب بھی ادا کرنا لازم ہے ۔

مسئلہ:۔مسلمان تاجر کی ملکیت میں جو بھی مال ہے یعنی نقدرقم ، بینک اکاؤ نٹ، بانڈز، ڈیپازٹس ، سونا ، چاندی اور مال ِتجارت وغیرہ سب مال کی مجموعی مالیت پر زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے اور ادائیگیِ زکوۃ میں قیمت خرید کا اعتبار نہیں بلکہ موجودہ قیمت کا اعتبار ہے۔

مسئلہ:۔زکوۃ لازم ہونے کیلئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگرچہ صاحب نصاب تو ہے لیکن وہ اتنا مقروض نہ ہو کہ اس کے پاس موجود مال اگر قرض خواہ کو دیا جائے تو بقیہ مال مقدار ِنصاب کی حد سے کم ہوجائے تو اس صورت میں زکوۃ ادا کرنا واجب نہیں لیکن اگر قرض ادا کرنے کہ بعد اتنی رقم بچ جائے جو نصاب کی حد کو پہنچتی ہے تو اس بچ جانے والی رقم یا مال پر زکوۃ واجب ہوگی۔

قرض کی دو اقسام ہیں:

  معمولی قرضے جن کو انسان اپنی ذاتی ضروریا ت اور ہنگامی حالت کے لیے مجبوراً لیتا ہے۔
  وہ قرضے جو تجارتی مقاصد کیلئے بڑے بڑےسرمایہ دار فیکٹریاں وغیرہ لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پہلی قسم کے قرضے زکوٰۃ سے منہا کیے جائیں گے اور دوسری قسم کے قرضوں کاکوئی اعتبار نہیں۔ طویل المیعاد قرضے جنکی ماہانہ، سالانہ، اقساط ہوتی ہیں اور فی الفور ادائیگی لازم نہیں ہوتی، تو ایسے قرضے وجوب ِزکوٰۃ سے مانع نہیں یعنی ان قرضوں کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ زکوۃ دینی ہوگی۔(بہار شریعت ج ۱ص ۸۷۹)

مسئلہ:۔گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ قرض ہے اگر ایک شخص کےذمے کئی سال کی زکوٰۃ واجب الادا ہے تو حساب کر کے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ:۔ شیرٔز، بانڈز، دیگر ممالک کی کرنسی مثلاً ڈالر، ریال، پاؤنڈز وغیرہ قیمتی پتھر،ہیرے،جواہرات جو تجارت کیلئے ہوں ان پر زکوٰۃ لازم ہے۔ اسی طرح ایسے مکانات، پلاٹس، دکانیں یا فلیٹ جو تجارتی مقاصد کے لیے ہیں سب کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے اور قیمتِ خرید نہیں بلکہ قیمتِ فروخت کا اعتبار کیا جائے گا ۔جو مکانات وغیرہ کرایہ پر ہیں تو ان کی آمدنی پر زکوۃ لازم ہے۔

مسئلہ:۔ بچوں کی شایوں کیلئے رقم یا زیورات اگر نصا ب کی حد تک پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ لازم ہے اگر بالغ اولاد کو زیورات کا مالک بنایا ہے تو اس (بالغ) پر زکوٰۃ ہے اگر نابالغ کو مالک بنایا ہے تواس پر زکوۃ نہیں۔ اسی طرح حج کیلئے رقم جمع کی اور ایک سال گزر گیا تو اس پر بھی زکوٰۃ لازم ہے ۔

مسئلہ:۔ وہ کارخانہ جو پیداواری مقاصد کیلئے استعمال ہورہا ہو اس کے جامد اثا ثہ جات یعنی زمین، عمارت ، متعلقہ مشینری وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ کارخانے میں تیار مال، خام مال اور مارکیٹ میں کریڈٹ پر دیے ہوئے تمام مال کی قیمت پر زکوٰۃ لازم ہے۔

مسئلہ:۔ بعض حضرات کا خیال ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاتون بیوہ ہے یا کوئی یتیم ہے تو اس کو زکوٰۃ ضرور دینی چاہیے اس کے لیے خیال رہے کہ اگر وہ صاحب نصاب نہیں تو زکوٰۃ کے مستحق ہیں ورنہ نہیں۔ یہ بھی زکوٰۃ دینے والے کی ذمہ داری ہے کہ اپنے عزیز و اقارب، رشتے داروں، محلے پڑوس میں ملنے جلنے والوں، دوست واحباب جو مستحق ِّزکوٰۃ ہوں ان کو زکوٰۃ ادا کریں اور رشتہ داروں کو زکوٰۃ ادا کرنا سب سےافضل اور دوہر اثواب ہے، زکوٰۃ ادا کرنے کا ثواب بھی اور صلہ رحمی کا بھی، تمام رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں سوائے۔

(1)بنوہاشم(2)اپنی اَصل کو (ماں ،باپ ، دادا ، دادی ، نانا ، نانی) ( ۳)اپنی فرع کو ( بیٹا، بیٹی، پوتا ، پوتی ، نواسا ، نواسی) (4)میاں بیوی ایک دوسرے کو (5) غنی کے نابالغ بچے کو نہیں دی جاسکتی ان کے علاوہ باقی تمام رشتہ داروں مثلاً بھائی ، بہن ، چچا ، خالہ ، پھوپھی،ماموں وغیرہ اگر صاحبِ نصاب نہ ہوں تو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔

اہم مسئلہ:۔

آپ کے اپنے علاقے میں ضرور تمند ۔ یا۔ اہلسنت وجماعت کے دینی مدارس موجود ہیں اور آپ اس کے باوجود کسی دوسرے علاقہ میں زکوٰۃ دیتے ہیں تو آپ کا یہ عمل شریعت کی نظر میں غیر پسندیدہ ہے جیسا کہ فقہ حنفی کی مشہورو معرووف کتاب ’’المختصر القدوری‘‘ میں ہے:

ویکرہ نقل الزکوۃ من بلد الی بلد انما تفرق صدقۃ کل قوم فیہم(مختصر القدوری ج ۱ کتاب الزکوۃ ص ۳۱۹)

ترجمہ :۔فقہاء نے مکر وہ قرار دیا ہے کہ اپنے علاقہ کے علاوہ دوسرے علاقے میں زکوٰۃ دینے کو اور زکوٰۃ اپنے علاقے کے افراد میں تقسیم کرنی چاہئے۔البتہ اگر دوسرے علاقہ میں زیادہ ضرور ت مند ۔ یا رشتہ دار ہیں۔ یا۔ وہاں پر کوئی آفت وغیرہ آپہنچی ہو،جیسے زلزلہ،سیلاب وغیرہ تو پھر وہاں زکوٰۃ دینا مکروہ نہیں ہے۔

تجویزوآراء