(سیّدہ )عاتکہ( رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ )عاتکہ( رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
عاتکہ دختر عبدالمطلب بن ہاشم قرشیہ ہاشمیہ ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پھوپھی تھیں، ان کے اسلام کے بارے میں اختلاف ہے،اور ابن اسحاق اور علماکی ایک جماعت کا خیال ہے،کہ حضورِاکرم کی پھوپھیوں میں سے سوائے جناب صفیہ کے اور کسی نے اسلام قبول نہیں کیا،اور عاتکہ ابوامیہ بن مغیرہ مخزومی کی بیوی اور عبداللہ ام زبیر اور قریبہ کی والدہ تھیں،ان سے ام کلثوم دختر عقبہ بن ابی معیط وغیرہ نے روایت کی۔
عبیداللہ بن احمد نے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے حسین بن عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس سے،انہوں نے عکرمہ سے،انہوں نے ابن عباس سے (ح) عبیداللہ بن احمد نے یزید بن رومان سے،انہوں نے عروہ بن زبیر سےروایت کی ،کہ عاتکہ دختر عبدالمطلب نے ضمضم بن عمرو الغفاری کے قریش مکہ کے پاس آنے سے تین دن پیشتر ایک خواب دیکھا،جب صبح ہوئی تو اپنے بھائی عباس کو بلایااور بتایا ،کہ آج کی رات میں نے ایک خوفناک خواب دیکھا ہے،جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ہماری قوم پر بڑی مصیبت آنے والی ہے،انہوں نے پوچھا تم نے کیا دیکھا ہے،میں نے بتایا کہ ایک شتر سوار کو دیکھا،جو ابطح کے مقام پر اونٹ سے اترا اور بآواز بلند کہا،اے آل عذر! بھاگو،کہ تین دن کے بعدتم پر مصیبت آنے والی ہے، لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے،پھر اس کااونٹ کعبے میں داخل ہوا،اور لوگ اکٹھے تھے،پھرمیں نے دیکھا کہ اونٹ اس آدمی کو لے کر سیدھا کھڑا ہوگیا،اور کعبے کی چھت پر چڑھ گیا،اور وہاں اس نے بآوازبلند وہی جملے دہرائے،اے آل عذر! بھاگو،کہ تین دن بعد تم مصیبت کاشکار ہوجاؤگے،پھر وہ اونٹ ابو قبیس پہاڑ پر چڑھ گیا،اور شتر سوار نے وہی کلمات دہرائے ،پھر اس نے ایک پتھر اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی سے نیچے لڑھکا یا،جب وہ نیچے پہنچا تو ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا،اور کوئی گھر ایسا نہ تھا جس میں ایک آدھ ٹکڑانہ گراہو،عباس نے سن کر کہا، کسی سے اس کا ذکر نہ کرو،بہن نے بھائی سے کہا،آپ بھی خاموش رہیں۔
عباس کو راستے میں ولید بن عتبہ جو ان کا دوست تھا ،مل گیا،انہوں نے بہن کا خواب اسے سنایااورکہا کہ وہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرے،ولید نے باپ سے ذکرکیا،اور بات پھیل گئی،دوسرے دن صبح عباس طواف کعبہ کو گئے،تو ابوجہل سے جو چند آدمیوں میں کھڑااس خواب کے بارے میں گفتگو کررہا تھا،ملاقات ہوگئی،اس نے عباس سے کہا،اے ابوالفضل!تمہارے قبیلے میں یہ نبیہ کب سے پیدا ہوگئی ہے،انہوں نے کہا،تمہاراکیا مطلب ہے،ابوجہل نے عاتکہ کے خواب کا ذکر کیا،اور کہا،کیا یہ کافی نہیں تھا،کہ تمہارے مردوں میں پیغمبر پیداہواہے،کہ اب تمہاری عورتیں بھی نبوّت کا دعوٰی کرنے لگ گئی ہیں،اب ہم عاتکہ کے قول کے مطابق تین دن تک انتظار کریں گے،اگر وہ سچی نکلی،تو ٹھیک،ورنہ ہم تمہارے بارے میں یہ بات ریکارڈ پر لے آئیں گے کہ تمہارا خاندان سارے عرب میں سب سے زیادہ جھوٹا ہے،میں نے کہا،میری بہن نے کوئی خواب نہیں دیکھا،یہ افواہ ہے۔
جب شام ہوئی،بنو عبدالمطلب کی تمام خواتین میرے پاس آئیں،اور شکایتاً کہا،کہ میں نے اس فاسق وفاجر کی باتوں پر کیوں احتجاج نہیں کیا،اس خبیث نے پہلے تمہارے مردوں پر طعنہ زنی کی،پھر عورتوں کو بھی رگیدااور تم سنتے رہے،کیا تم میں غیرت نہ تھی،میں نے کہا،تم سچ کہتی ہو،اب میں اس کا مقابلہ کروں گا،اور اگر اس نے پھر ان باتوں کو دہرایا،تو میں اینٹ کا جواب پتھر سے دُوں گا۔
تیسرے دن میں صبح سویرے گھرسے نکلا،تاکہ ابوجہل سے آمناسامنا ہوجائے،اور اگر وہ کچھ کہے، تو میں اسے گالیاں دُوں،بخدا میں اس کی طرف جارہاتھا،کہ وہ بیت الحرام کے دروازے کی طرف مُڑ گیا،میں نے دل میں کہا،اے خدا تو اس پر لعنت بھیج،کیااس میں اور گالیاں دینے میں کچھ فرق ہے۔
اتنے میں ابوجہل نے وہ آوازسُن لی جو میں نے سنی تھی،ضمضم بن عمرو اپنے اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا تھا، اس نے اپنی سواری کو موڑا،قمیض پھاڑ دی،اُونٹ کا کان کاٹ دیا،اور چلّا چلّا کر کہنے لگا،اے قریش ، اپنے قافلے کی خیر مناؤ،اور جومال و متاع ابو سفیان لئے آرہاہے،اس کی فکر کرو،محمد اور اصحابِ محمد راہ میں حائل ہو گئے ہیں،مدد!مدد!چونکہ یہ ہمارا مال و متاع تھا،اس لئے میں ابوجہل کو بُھول گیا اور ابوجہل مجھے بُھول گیا،چنانچہ ہم معرکئہ بدر کے لئے روانہ ہوئے،اور قریش کو وہاں جو کچھ پیش آیا،وُہ عیاں ہے،خدانے عاتکہ کا خواب سچا کردیا،تینوں نے ذکرکیا ہے۔