شیخ حافظ محمد صدیق قادری بانیِ خانقاہ بھرچونڈی شریف رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی:حافظ محمدصدیق بھرچونڈی۔لقب:خورشید ِولایت۔سلسلۂ نسب اسطرح ہے: شیخ حافظ محمد صدیق قادری،بن میاں محمد ملوک (علیہماالرحمہ)آپ کے خاندان کے لوگ عرب سے کیچ مکران کے راستے سندھ میں داخل ہوئے، اور بھرچونڈی شریف سے تین میل دور ایک جگہ پر ڈیرہ لگایا اور پھریہیں آباد ہوگئے۔
تاریخ ِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت تقریباً 1234ہجری بمطابق1818ءکو بھرچونڈی شریف ضلع گھوٹکی صوبہ سندھ میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:ابتدائی تعلیم اپنے گھر کے نزدیک مکتب میں حاصل کی ۔اس کے بعد موضع جندو ماڑی احمد پور شرقیہ کے ایک مدرسہ میں داخلہ لیا۔آپ کی عمر بارہ برس کی تھی کہ آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو حضرت پیر سید حسن شاہ صاحب جیلانی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں بھرچونڈی شریف لے گئیں۔ آپ نے بڑی شفقت سے آپ کو قرأت و تجوید سے قرآن کریم حفظ کرایا۔آپ کی قرأت پورےسندھ میں مشہورتھی۔
بیعت وخلافت: آپ حضرت سید محمد حسن شاہ جیلانی قادری علیہ الرحمۃ بانی سوئی شریف کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے،اورخلافت سےمشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: شیخ المشائخ،امام الصوفیاء،شیخ الاتقیاء،حضرت شیخ محمدصدیق قادری بانیِ خانقاہ بھرچونڈی شریف ۔آپ علیہ الرحمہ نےخانقاہ بھرچونڈی شریف کی اساس رکھی۔اس خانقاہ نےآگےچل کرملک وملت کی راہنمائی میں بڑا اہم کرداراداکیا۔حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمہ مادرزادولی تھے۔سلہ عالیہ اویسیہ کے روح رواں حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی علیہ الرحمہ کااحمدپورشرقیہ سے روزانہ گزر ہوتا۔ آپ وہاں تعلیم حاصل کرتےتھے۔تو وہ اپنے احباب سے فرماتے کہ اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء سے
کسی کامل کی خوشبو آرہی ہے۔ خادم نے عرض کیا ایک تھان کھدر (کپڑے)کالےکر طلباء میں تقسیم فرمائیں پتہ چل جائے گا۔
چنانچہ ایک ایک طالب علم کوخواجہ سیرانی نے بلاکر اپنے ہاتھوں سے کسی کو قمیض کا کپڑا کسی کو چادر کا کپڑا پیش کیا۔ اس دوران ہر ایک طالب علم ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن ایک بچہ دور ایک گوشے میں کھڑا ٹکٹکی باندھے حضور خواجہ سیرانی کو دیکھ رہا تھا۔ جب سب طلباء فارغ ہوگئے تو حضرت خواجہ سیرانی نے اس بچے کو بلاکر چادر پیش کرنا چاہی تو اس بچے نے عرض کیا۔ حضور!میں تو ایسی چادر چاہتا ہوں کہ جو نہ میلی ہو، نہ ہی چھوٹی ہو، اور نہ ہی پھٹے، حضرت خواجہ سیرانی نے چادر پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہی بچہ ہے۔ وہ چادر آج تک آستانہ عالیہ بھرچونڈی شریف میں موجود ہے۔
آپ نے اپنے وجود مبارک کو سنت ِمصطفیٰ ﷺمیں ڈھال رکھا تھا ۔بے نماز آدمی سے راہ ورسم لین دین کھانا پینا اچھا نہ سمجھتےتھے۔جس شادی میں ڈھول باجے نقارے بجائے جاتے، اس شادی میں اپنے مریدین کو شرکت سے منع فرماتے تھے۔ آپ نے اپنے سلسلہ طریقت کی بنیاد تین چیزوں پر رکھی۔ اول :تلاوت قرآن۔دوم:نماز۔سوم: ذکر خدا۔آپ نے بھر چونڈی شریف میں ایک عظیم الشان اور ایسی مسجد تعمیر کروائی جس کی مثال آپ کے زمانہ یا آپ کے زمانے کے بعد اب تک نہیں ملتی۔اینٹیں بنانے والے اور اینٹیں پکانے والے مزدور با وضو اور پھر مسجد کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدور اور معمار باوضو۔ حالت یہ تھی کہ گارا بنانے والا اگر گارا بنارہا ہے تو زبان پر ذکر الٰہی جاری ہے۔ معمار اینٹ ہاتھوں سے لگا رہا ہےمگر زبان پر ذکر خدا جاری ہے۔ مسجد کی تعمیر میں پیر و مرید، امام اور مقتدی، فقراؤ خلفأ، خادم و مخدوم سب کے سب ہی گارا اینٹ اٹھانے میں لگے ہوئے ہیں لیکن ذکر الٰہی میں رطب اللسان ہیں۔بلا وضو ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئی۔
آپ کاہرکام اللہ جل شانہ اوراس کےحبیب ﷺرضاہوتاتھا۔کوئی دنیاوی منفعت اس میں نہ ہوتی ۔آپ کے زمانے میں ایک شخص مہمان ہوا۔ لنگر کی تقسیم عشاء کے بعد ہوتی تھی۔ مہمان نے عشاء سے قبل کھانا طلب کیا۔ فقیروں نے کہا کہ نماز کے بعد ہی دال دلیہ تقسیم ہوگا۔ چلو تم بھی نماز پڑھ لو اور پھر کھالینا۔ اس نے کہا میری چالیس برس کی عمر ہوگئی ہے۔ آج تک نما زنہیں پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے تو میری روٹی بند نہیں کی۔ آج تم ہو کہ بغیر نماز پڑھے روٹی نہیں دیتے۔ فقیروں نے یہ بات آپ کی خدمت میں عرض کی تو آپ نے اس کو طلب کیا اور فرمایا :کہ یار بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔وہ توشانِ بےنیازی کامالک ہے۔ ہم سے اگر یہ سوال ہوا کہ تم نے ایک بے نماز کو کیوں کھانا کھلایا۔ تو ہم کیا جواب دیں گے۔ آپ کے ان سیدھے سادھے لفظوں میں وہ مٹھاس اور کشش تھی کہ اس شخص پر رقت طاری ہوگئی اور چالیس سالہ گناہوں کا دفتر آنسوؤں سے دُھلنے لگا،اوروہ تائب ہوکراللہ جل شانہ کافرمانبرداربندہ بن گیا۔
وصال : 10/جمادی الثانی 1308ھ،مطابق 1890ء کو ہوا۔ مزار پُر انوار بھرچونڈی شریف میں مرجع خاص وعام ہے۔
ماخذومراجع: انسائیکلوپیڈیااولیائےکرام،ج،1۔