حضرت شاہ غلام محی الدین المعروف بابوجی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:سید غلا م محی الدین.لقب:بابوجی۔اسی لقب سےمعروف ہیں۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت شاہ غلام محی الدین بن شیخ الاسلام پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی بن سید نذر دین شاہ الی آخرہ ۔علیہم الرحمہ۔ آپ کا سلسلۂ نسب چھبیس واسطوں سے حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سینتیس واسطوں سے حضرت سید نا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔
تاریخ ِ ولادت: ماہِ جمادی الاول/1309ھ،مطابق ماہِ دسمبر/1891ء " گولڑہ شریف"اسلام آبادپاکستان میں پیدا ہوئے۔حضرت پیر سید مہر علی شاہ آپ کی ولادت پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے فرمایا :"مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے گھر میں اللہ اللہ کرنے والی ایک روح آگئی ہے"۔
تحصیل ِعلم: آپ کی تعلیم و تربیت کے لئے نادر ِزمانہ اساتذہ مقرر کیے گئے ،علم التجوید میں قاری عبد الرحمن جونپوری سے استفادہ کیا اور علوم دینیہ کی تحصیل وتکمیل حضرت مولانا علامہ محمد غازی علیہ الرحمہ اوروالد ماجد حضرت پیر سید مہر علی شاہ علیہ الرحمہ سے کی ۔والدِ گرامی کے فیض ِتوجہ اور روحانی تربیت نے آپ کو جلد ہی مہرِ طریقت وشریعت بنادیا ۔
بیعت وخلافت: علمی و روحانی تکمیل کے بعد حضرت گولڑوی نے آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا لیکن آپ کسی کو بیعت کرنے پر تیار نہ ہوئے تا آنکہ حضرت پیر سید مہر علی شاہ علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا:" جوشخص تمہارے ہاتھ پر بیعت کرےگا اس کامیں ذمہ دار ہوں"(مہرِ منیر،ص368)
سیرت وخصائص:خلف الصدق،سیادت پناہ،جان ِایقاں،وکانِ عرفاں،وارث علوم مشائخِ چشتیاں،صاحبِ اوصافِ حمیدہ،لختِ جگرغوث الاسلام والمسلمین حضرت سید شاہ غلام محی الدین گولڑوی المعروف بابوجی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ حضرت سیدنا پیرمہرعلی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کےدریکتاتھے۔حضرت بابوجی علیہ الرحمہ پر"الولدسرلابیہ"کی اصطلاح صحیح معنوں میں صادق آتی ہے۔نقاش ازل جل جلالہ نےاس نقش ثانی کی ذات بابرکات کوایک ایساوصف اورروشن آئینہ بنایاجس میں حضرت اعلی گولڑوی کےفضائل وخصائل کی ہوبہوتصویروتمثیل نظروں کےسامنےآگئی۔
حضرت شاہ غلام محی الدین عالم ہونے کے باوجود عارف کی حیثیت سے معروف تھے۔ وہ خاموش مزاج، نام و نمود سے دور، خودی تعلی سے بے گانہ، تسلیم و رضا اور صبر و استقلال کے پیکر تھے۔ 37 سال مسند ارشاد پر جلوہ افروز رہے۔ اس پورے عرصہ میں صدور ،وزراء اور دوسرے اربابِ اقتدار سے دور رہے۔ وہ مشائخ چشت کی راہ کا عملی نمونہ تھے۔ ان کی بارگاہ میں شاہ وگدا دونوں حاضر ہوتے اور وہ سب سے مشائخ چشت جیسا سلوک کرتے۔ ارباب اقتدار کی طرف جھکاؤ اور میلان ان کے ہاں بالکل نہ تھا۔
ہر وقت باوضو رہنا۔ہروقت یادالہی میں مشغول ہونا،اوراپنی خودی کو مٹاکر مخلوقِ خدا کی خدمت میں مشغول اور احد من الناس ہوکر رہنا۔یہ آپ کےاوصاف حمیدہ تھے۔ آپ کے کمالات کے خود اعلیٰ حضرت گولڑوی قدس سرہ معترف تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ اپنے بالاخانہ پر تشریف فرما تھے کہ دور سے راولپنڈی کی طرف سے حضرت شاہ غلام محی الدین قدس سرہ کو آتے دیکھا اور فرمایا :غلام محی الدین ہے، پھر تبسم کرتے ہوئے فرمایا دیکھو گھوڑا دوڑ رہا ہے مگر اپنے کام (یاد حق) میں برابر مشغول چلا آرہا ہے۔(ایضاً،ص361)
اپنے شب و روز یاد الٰہی اور ذکر وفکر میں گزارتے۔ ہر وقت باوضو رہتے۔ تمام نمازیں باجماعت صفِ اول میں اداکرتے ۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ذکر و تسبیح میں مصروف رہتے۔بڑے سخی اور جواد تھے۔ بیواؤں، یتیموں، فقراءومساکین اور دوستوں کی امداداد و اعانت آپ کا شیوہ تھا۔ دینی مدارس، مذہبی و دینی اداروں، انجمنوں، پریشان حال لوگوں کے کام آنا آپ کا دستورِ حیات تھا اور یہ تمام کام راز دارانہ اور خفیہ طریقوں سے کرتے۔تحریک ختمِ نبوت سے آپ کا موروثی تعلق تھا۔ ختمِ نبوت کا نام لینے اور کام کرنے والوں سے بڑی محبت تھی۔ ان پر خصوصی توجہ فرماتے اور مالی تعاون بھی کرتے تھے۔
آپ کو بچپن ہی سے (Train) کے انجن سےخاصی دلچسپی تھی۔ایک مرتبہ کسی دوست نے انجن سے دلچسپی کا سبب پوچھا تو آ پ نے فرمایا! مجھے اس کی چارادائیں پسند ہیں:1۔ حوصلہ :کہ جتنی زیادہ آگ ڈالو ،اتناہی تیز چلتا ہے۔ 2۔ وفا :جہاں خود جائیگا وہیں تمام ڈبوں کو بلا تمیز ساتھ لے جائے گا۔ 3۔ ایثار :خود جلتا ہے اور دوسروں کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔ 4۔ استقامت : ہمیشہ معیّن راستہ (لائن) پر چلتا ہے۔ گویا آپ نے بڑے عام فہم انداز میں مرشد کی خصوصیات بیان فرمادیں۔(ایضا ً،ص366)
آپ کی طبیعت میں انکساری و تواضع کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی۔ بے پناہ شہرت ومقبولیت اور عزت و عظمت کے باوجود "احدمن الناس" ہوکر رہتے۔ آپ اولیاء مستورین میں سے تھے اور حتی الوسع خود کو مخلوق سے مخفی رکھتے۔ بظاہر ایسے لباس میں ہوتے کہ کوئی انہیں اھل اللہ کے گر وہ میں شامل نہ سمجھے۔ آپ کسی سے ایسی بات سننا گوارہ نہ کرتے جس سے اپنے متعلق کرامت یا مافوق الفطرت چیز کا ترشح ہورہا ہو۔ جب کبھی کوئی مزاج نا آشنا ایسی بات کہتا تو سخت غصّے میں آجاتے، اور پھر آئندہ کوئی بھی ایسی چیز کے ذکر اور بیان کی ہمّت و جرات نہیں کرتاتھا۔
(فی زمانہ علم وعمل سےخالی،اورتسبیح وعمامہ سےمسلح پیروں کی بہتات ہے،ہرکوئی اپنےفضائل وکرامات بیان کرنےمیں لگاہواہے،اورجعلی القابات وکرامات کانہ تھمنےوالاسلسلہ ہے۔جاہل مولوی وواعظ چندسکوں کےبدلےمیں انہیں عوام کےاندر خوب بڑھاچڑھاکرپیش کرتےہیں۔"تومرا حامی بگومن ترا حاجی بگویم"کےمصداق ایک دوسرے کی خوب تعریف و توصیف کی جاتی ہے۔میں ملتان شریف میں ایک عرس میں شریک تھا،اس خانقاہ کاسجادہ صورت سے بھی مسلمان نہیں نظرآتا۔وہاں کےایک مشہورواعظ انہیں ایسےالقابات سےنوازرہےتھے،کہ محسوس یہی ہوتاتھا کہ اس وقت غوث الاعظم ،ظل الہٰی حضرت ہی ہیں۔لاحول ولاقوۃ الاباللہ ۔اکابرین اولیاء کرام تو اپنے آپ کوچھپاتے تھے۔تونسوی غفرلہ۔)
علامہ محمداقبال قلندرلاہوری فرماتے ہیں:
؏:خداوندا!یہ تیرےسادہ دل بندےکدھرجائیں۔۔کہ درویشی بھی عیاری ہےسلطانی بھی عیاری۔
وصال: 2/ جمادی الثانی 1394ھ،مطابق 22/جون 1947ء کو رات گیارہ بجے دارالبقاء میں منتقل ہوگئے،اور حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے جوار میں آخری آرامگاہ بنی۔
ماخذومراجع: مہرِ منیر۔تذکرہ اکابر اہلسنت۔