(سیّدہ)عاتکہ(رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ)عاتکہ(رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
عاتکہ دختر زید بن عمرو بن نفیل قرشیہ عدویہ،ہم ان کا نسب ان کے بھائی سعید بن زید کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں،یہ خاتون عمر بن خطاب کی عمزاد تھیں،ان کا نسب نفیل میں جمع ہوجاتا ہے،مدینے کو ہجرت کی ،عبداللہ بن ابوبکر صدیق کی زوجہ تھیں،چونکہ یہ خاتون بڑی حسین وجمیل تھیں،اس لئے شوہرکو ان سے اتنی سخت محبت تھی،کہ وہ ان سے جدائی برداشت نہیں کرسکتے تھے،اور غزوات میں شریک نہ ہوتے،چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا،کہ بیوی کو طلاق دے دو،اس پر انہوں نے ذیل کے اشعار کہے۔
(۱)یَقُولُونَ طَلَّقَھَا وَخِیمَ مَکَانَھَا مُقِیمَاتَمنَی النَّفسَ اَحلَام نَائِمِ
(ترجمہ)میرے لوگ کہتے ہیں کہ اسے طلاق دےاور گھر سے نکال دےجبتک وہ رہے گی تیرا نفس غلط تصورات میں مبتلا رہے گا۔
(۲)وَاَنَّ فِرَاقِی اَھلَ بَیتِ جَمِیعُھُم عَلٰی کَثرَۃِ مِنِّی لِاَحدِی العِظَائِمِ
(ترجمہ)اورمیری جدائی پرسب گھروالے مصر ہیں،میرے لئےایک بہت بڑی مصیبت ہے۔
(۳)اَرَانِ وَاَھلِی کَالعُجُولِ تَرُوحَتِ اِلٰی بَوھَاقَبلَ العِشاءِالرَّوَائِمِ
(ترجمہ)میری بیوی اور میری مثال اس اونٹنی کی سی ہے جو اپنے بچے کے منہ کو اس طرح سونگھتی ہے گویا وہ اس کا دس ماہ کا بچہ ہے۔
حضرت ابوبکر نے انہیں اتنامجبور کیاکہ عبداللہ نے بیوی کو طلاق دے دی،مگر ان کادل اِدھر ہی متوجہ رہا،چنانچہ ایک دن حضرت ابوبکر نے انہیں سُنا،وہ یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔
(۱)اِعَاتَکَ مَاَنسٰکَ مَادُرِّشَارِق وَمَانَاحَ قَمَرِی اَلحَمَامِالمَطُوقِ
(ترجمہ)اے عاتکہ !میں تجھے اس وقت تک نہیں بھولوں گا،جب تک مشرق سےروشنی نمودار ہوتی رہیگی اور طوق وار قمری کوکو کرتی رہے گی۔
(۲)اِعَاتَکَ قَلبِی کَلَّ یَومٍ وَلَیلَۃٍ اِلَیکَ بِمَاتَخفِی النُّفُوسَ مُعَلِّقَ
(ترجمہ)اے عاتکہ !میرادل رات دن (ان جذبات کی وجہ سے جودل میں چھپے ہوئے تھے)تجھے یاد کرتا رہتاہے۔
(۳)وَلَم اَرمَثَلِی طَلَّقَ الیَومِ وَلَیلَۃِ وَلَامِثلَھَافِی غَیرِجُرمِ تَطَلِّقُ
(ترجمہ)کوئی آدمی ایسا نہیں ملے گا،جس نے میری طرح ایس عورت کو طلاق دی ہو،اور نہ کسی نے ایسی عورت دیکھی ہوگی،جسے بغیر از جرم طلاق ہوگئی ہو۔
(۴)لَھَاخَلَقَ جَزِلَ وَرَایِ وَمَنصَبَ وَخَلَقَ سُوِی فِی الحَیَاءِوَمُصَدِّقِ
(ترجمہ)اس کے اخلاق عظیم ہیں اور وہ صاحب الرائے والمنصب ہے،وہ مکمل حیا کی مالک اور راست باز ہے۔
حضرت ابوبکر کو بیٹے پر رحم آگیا،اور رجوع کی اجازت دے دی،عبداللہ محاصرۂ طائف میں حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ تھے،تیر سے زخمی ہو گئے اور مدینے میں وفات پائی، عاتکہ نے ان کی یاد میں ذیل کے اشعار کہے۔
(۱)وَزِئتُ بِخَیرِالنَّاسِ بَعدَنَبِیُّھُم وَبَعدَاَبِی بَکرِوَمَاکَانَ قَصَرَا
(ترجمہ)میں اس آدمی کی موت پر رو رہی ہوں جو محمد رسول اللہ اور ابوبکر کے بعد کسی سے کمتر نہ تھا۔
(۲)فَالَیتُ لَایَنفَکَ عَینِی خَزِینَۃً عَلَیکَ وَلَایَنفَکُ جَلدِی اَعبَرَا
(ترجمہ)میں نے قسم کھائی ہےکہ میری آنکھیں تجھ پر ہمیشہ روتی رہیں گی،اور میری کھال ہمیشہ غبار آلود رہے گی۔
(۳)فَلِلہِ عَینَامَن رَائَ مِثلِہِ فَتٰی اَکرَّوَاَخمٰی فِی الھَیاجِ وَاَصبَرَا
(ترجمہ)میری آنکھوں !تمھیں خداکی قسم !کون ہے جس نے ایسا باربار حملہ کرنے والااور میدان جنگ میں دلیری سے لڑنے والا اور صبر کرنے والا دیکھاہے۔
(۴)اِذَاشُرِعَت فِیہِ اِلَّاسِنَّۃُ خَاضَھَا اِلَی المَوتِ حَتّٰی یُترَکَ الرُّوحُ اَحمِرا
(ترجمہ)جب لڑائی میں نیزے تان لئے جاتے ہیں،تووہ میدان جنگ میں گُھس جاتاہے،تاآنکہ اس کا نیزہ خون پی پی کر سُرخ ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد زید بن خطاب نے ان سے نکاح کیا،ایک روایت میں ہے ،کہ ایسا نہیں ہوا،چنانچہ زید جنگ یمامہ میں شہید ہوگئے،بعد میں حضرت عمر نے بارہویں سال ہجری میں عاتکہ سے نکاح کیا،حضرت عمر نے دعوتِ ولیمہ میں جن لوگوں کو بلایا تھا،ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے، خلیفہ سے کہا،امیرالمومنین آپ مجھے عاتکہ سے کچھ پوچھنے کی اجازت دیں،چنانچہ حضرت علی نے دروازے کے ایک طرف کھڑے ہوکر عاتکہ سے پوچھا،اے اپنے نفس کی دشمن،تیرایہ قول کدھر گیا۔
فَالَیتُ لَایَنفَکَ عَینِی خَزِینَۃً عَلَیکَ وَلَایَنفَکُ جَلدِی اَعبَرَا
عاتکہ رو پڑیں ،خلیفہ نے کہا،اے ابوالحسن،آپ کواس کی کیا ضرورت پڑگئی،سب عورتیں اسی طرح کرتی ہیں،حضرت علی نے سورۂ صف کی پہلی دو آیات تلاوت فرمائیں۔
یَااَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوالِمَ تَقُولُونَ مَالَاتَفعَلُونَ کَبُرَمَقتاًعِندَاللہِ اَن تَقُولُومَا لَاتَعقِلُون،
جب حضرت عمرشہید ہوئے تو جناب عاتکہ نے یہ دو شعر کہے۔
(۱)عَینَ جُودِی بَعبَرَۃَ وَنَحِیب لَاتَملِی عَلَی الاِمَامِ النجِیبٖ
(ترجمہ)اے میری آنکھ تو آنسو بہااور امام نجیب پر آہ و زاری کرنے میں تامل نہ کر۔
(۲)قُل لِاھلِ الضَرَّاءَوَالبُوسَ مُوتُوا قَدسَقَتَہُ المَنُونَ کئسَ شَعُوبَ
(ترجمہ)اور لڑنے والے بہادروں کو کہہ دو کہ تم مرجاؤ کہ موت نے امام نجیب کو تمام قبائل کی موت کا پیالہ پلادے۔
عمر رضی اللہ عنہ کے بعد ان سے زبیر بن عوام نے نکاح کیا،جب وہ قتل ہوگئے تو عاتکہ نے ان کے بارے میں ذیل کے اشعار کہے۔
(۱)غَدَرَابن جَرَمُوزبِفَارِسِ بَھمَۃِ یَومَ اللقَاءِوَکَانَ غَیرَمَعرِد
(ترجمہ)اے عمرو جرموز تو نے بہادر شاہ سوار کو دھوکا دیا جو لڑائی کے دن پیچھے ہٹنے والانہ تھا۔
(۲)یَاعَمرُولَونَبھَتُہٗ لَوِجَدتَہٗ لَاطَائِشاًرَعشِ الجِنَانِ وَلالیَد
(ترجمہ) اے عمرواگرتو اسے متنبہ نہ کردیتا،تو تو اسے بزدل اور کانپتے ہاتھوں والا نہ پاتا۔
(۳)کَم غَمرَۃِ قَدخَاضَھَا لَم یَثِنہُ عَنھَاطَرادَکَ یَاابن فَقَعَ القِرَدَدِ
(ترجمہ)کتنے ہی خطرناک جنگوں میں وہ گُھس کیا،اور اسے اے جنگل کی کھمبی تیراحملہ نہ روک سکا۔
(۴)ثَکلَتِکَ اُمُّکَ اَن ظَفَرت بِمِثلِہٖ مِمَّن مَّضٰی مِمَّن یَرُوحُ وَیَغتَدِی
(ترجمہ)تیری ماں تجھے روئے،کیا تونے کبھی اس جیسے آدمی سے گزرے ہوئے لوگوں میں یا عہد حاضر کے لوگوں میں مقابلہ کیا۔
(۵)وَاللہِ رَبِّکَ اَن قَتَلتَ لِمُسلِماً حِلَّت عَلَیکَ عَقُوبَۃَ المُتَعَمِّدَ
(ترجمہ)بلاشبہ تو نے ایک مسلمان کو قتل کیا ہے،اور تجھے قتل عمد کی سزادینا لازمی ہوگیاہے۔
اس کے بعد حضرت علی نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا،جواب میں عاتکہ نے کہلابھیجا اے امیرالمومنین!آپ سلف کے نشان رہ گئے ہیں،اور مسلمانوں کے سردار ہیں،اور میں آپ کے نام کی برکت سے موت کی تکالیف کو اپنے سے دُور دھکیلتی ہوں،چنانچہ امیرالمومنین نے نکاح کا خیال ترک کردیا۔
جناب عاتکہ کو نماز عشا مسجد میں ادا کرنے کی عادت تھی،جب حضرت عمر نے نکاح کی خواہش کااظہار کیا،تو عاتکہ نےیہ شرط پیش کی کہ انہیں مسجد میں جانے سے نہیں روکا جائے گا،کچھ دنوں کے بعد حضرت عمر اس شرط کی بجا آوری سے تنگ آگئے اور حوصلہ جواب دے گیا،ایک رات عاتکہ سے پہلے گھر سے نکل گئےاور راستے میں ایسی جگہ چھپ گئے کہ عاتکہ کو پتہ نہ چل سکے،چنانچہ جب وہ ان کے پاس سے گزریں،تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی سرین پر تھپڑ مارا،جس سے وہ گھبراگئیں،اور پھر کبھی رات کو گھر سے باہر نہ نکلیں،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔