حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ رونق رضوی گونڈوی
حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ رونق رضوی گونڈوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ رونق رضوی گونڈوی
ولادت
فاضل گرامی حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ رونق رضوی ۴؍جنوری ۱۹۴۴ء کو ننہال کے موضع جوڑیکوئیاں ضلع گونڈہ میں پیدا ہوئے جو قصبہ بچڑوا سے قریب ہے۔ ابتدائی پرورش والدین کے زیر سایہ ہوئی لیکن جب مولانا عبدالمصطفیٰ رونق کی عمر سات سال کی ہوئی تو والد ماجد کے سایہ عاطفت سےمحروم ہوگئے اور ان کی پرورش نانا نانی کے زیر سایہ ہونے لگی۔
خاندانی حالات
والدین کریمین بڑے زمیندار تھے۔ مولانا رونق کا سلسلہ نسب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ یہی وجہ ہےکبدیقی لکھتے ہیں آپ کے جد کریم بسڈیلہ ضلع بستی سے ترک وطن کر کے پچڑ واکے رجسٹر واضلع گونڈہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ اس وقت مولانا عبدالمصطفیٰ رونق کےجد مکرم ریلوے میں ملازم تھے ان دنوں آپ آبائی وطن چھوڑ کر قصبہ اترولہ ضلع گونڈہ میں مع اہل وعیال سکونت پذیر ہوئے۔
تعلیم وتربیت
مولانا عبدالمصطفیٰ رونق نے اپنے آبائی وطن رجڑ واضلع گونڈہ عبدالمجید شاہ (جوگاؤں کے چوں کو پڑھایا کرتے تھے) سے ناظرہ قرآن پاک ختم کیا اور اردو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں اس کے بعد مدرسہ فضل رحمانیہ پچڑ وا میں حفظ قرآن مکمل کیا۔ فضل رحمانیہ پثرواگونڈہ ہی میں متقدر اساتذہ کرام کی نگرانی میں درس عالیہ کی ابتداء کی، بعدہ مدرسہ عتیقیہ (پچڑوا گونڈہ) تلشی پور گونڈہ میں داخلہ لیا تقریباً تین سال تک وہاں حصول علم میں مشغول رہے، پھر ۱۹۷۵ء میں تکمیل علم کے لیے دارالعلوم مظہر اسلام بریلی تشریف لے گئیے، اور ۱۹۶۳ء میں سند فراغت حاصل کی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ شہزادہ صدر الشریعہ قاری رضا المصطفیٰ امجدی دارالعلوم امجدیہ کراچی
۲۔ حضر مفتی محمد شریف الحق رضوی امجدی اشرفیہ مبارکپور
۳۔ حضرت مولانا قمر الدین اعظمی
۴۔ حضرت مولانا قمر الدین گونڈوی
۵۔ قاری محمد یوسف بستوی
تدریس اور امامت وخطابت
فراغت کے بعد مولانا عبدالمصطفیٰ رونق حضرت مولانا عتیق الرحمٰن کے حکم سے عتیق المدارس بڑھی میں نائب صدر المدرسین کی حیثیت سے تقریباً ایک سال تک مشغول تعلیم رہے۔ پھر وہاں چھوڑ کرمدرسہ لطیفیہ شہرت گڈھ میں دو سال تک صدر المدرسین کے فرائض انجام دیتے رہے اسے بھی خیر آباد کہنے کے بعد ڈیڑھ سال تک مصروبیہ ضلع بہرائچ شریف کے مدرسہ میں صدر مدرس کے منصب پر فائز رہے۔ پھر مدرسہ بحر العلوم خلیل آباد ضلع بستی میں درجہ حفظ کے مدرس کی حیثیت سے مشغول خدمت رہے۔ لیکن فتنہ کے باعث چند چند مہینے کے بعد مستعفی ہوکر مسعود العلوم چھوٹی تکیہ بہرائچ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
جون ۱۹۷۰ء تک مسعود العلوم بہرائچ میں خدمت دین کرتے رہے۔ جولائی ۱۹۷۰ء میں مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی کے حکم سے بمبئی پہنچے جہاں مولانا رونق امامت پر مامور ہوئے لیکن بمبئی کے امراء کے مازج تحکمانہ اور مولانا رونق کی خود داری نے وہاں نہ رہنے پر مجبور کیا۔
بالآخر مولانا رونق بمبئی کوخیر بد کہہ کر مفتی عزیز الرحمٰن بہاری کےہمراہمانڈلی احمد آباد گجرات پہنے اور وہاں کے مدرسہ تعلیم القرآن کے صدر، جامع مسجد کے خطیب اور گنج مسجد کے پنج وقتہ امام مقرر ہوئے۔ بحسن وخوبی سات سال تک مولانا رونق خدمت دین میں مشغول رہے۔ لیکن کسی مجبوری کے تحت وہاں سے مستعفی ہوکر احمد آباد درویش کی مسجد میں بحیثیت امام وخطیب اور دارالعلوم شاہ عالم مین نائب مفتی کی خدمات انجام دیتے رہے۔ لیکن اراکین مدینہ مسجد کے بے حد اصرار پر مولانا رونق وہاں سے ۱۹۸۱ء میں مدیہ مسجد ہمت نگر صابر کانٹا میں تشریف لے گئے۔ اور مسلسل تین سال تک خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ۲۲؍رجب المرجب ۱۴۰۵ھ؍۱۹۸۵ء میں ہمت نگر کو خیر باد کہہ کر مع اہل وعیال اترولہ ضلع گونڈہ میں مقیم ہوئے۔ اس وقت مولانا رونق امرناتھ ضلع تھانہ کی جامع مسجد میں خطیب وامام اور قاضی شہر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
عقد مسنون
مولانا عبدالمصطفیٰ رونق کا عقد مسنون جناب عبدالقیوم صدیقی مرحوم موضع لوگہنوا ملحق تلشی پور ضلع گونڈہ کی دختر سے زمانہ طالب علمی ہی میں ہوچکا تھا، بعد فراغت ۱۳؍جولائی ۱۹۶۳ء میں رخصتی ہوئی۔ مولانا رونق کی بارہ اولادیں ہوئیں۔ لیکن تین لڑکیاں بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئیں۔ اور کل پانچ لڑکیاں اور چار لڑکے بقیہ حیات ہیں۔ فرزندوں کے نام بتریب عمر یہ ہیں۔
۱۔ مولوی عطاء محمد رضوی متعلم الجامعۃ الاشرفیہ جماعت سادسہ
۲۔ ضیاء محمد رضوی متعلم الجامعہ الاشرفیہ جماعت ثالثہ
۳۔ رضا محمد عرف خورشید رضا متعلم الجامعۃ الغوثیہ اترولہ درجۂ چہارم
۴۔ محمد اعجاز رضا متعلم الجامعہ الغوثیہ اترولہ درجۂ دوئم۔
بیعت وخلافت
حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ رونق زمانہ طالب علمی میں شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم قدس سرہٗ سے شرف بیعت حاصل کر چکے تھے۔ کافی دنوں کے بعد ۱۹۷۰ء میں حضرت مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا بریلوی نے خلافت عطا فرمائی۔ جانشین مفتی اعظم علامہ محمد اختر رضا قادری ازہری بریلوی نے بھی اجازت دی مولانا رونق کو ۱۹۸۵ء میں خلافت واجازت سے نوازا۔
مفتی اعظم کی خصوصیات
حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی کی خصوصیات کے متعلق فرماتے ہیں:۔
سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمہ والرضوان کی ہر با ت اور ہر ادا تاثیر اور دلفگار ہوا کرتی تھی۔ اتباع سنت رسول ﷺ اور حق گوئی وامر بالمعروف۔۔۔ اورنہی عن المنکر تو آپ کی سراشت میں داخل تھی۔ جو خاصانِ خدا ہی کا حصہ ہے [1] ۔
نمونۂ کلام
مولانا عبدالمصطفیٰ رضوی شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ تخلص رونق اختیار کرتے ہیں۔ آپ کا کلام اکثر ماہنامہ استقامت کانپور، ریاض عقیدت اور کبھی کبھی اخبارات میں بھی شائع ہوتا رہتا ہے۔ نمونہ کے لیے دو شعر ملاحظہ ہوں۔
الٰہی عطا ہو مجھے چشم بینا
نظر جب اُٹھے سامنے ہو مدینہ
میں کھو جاؤں عشق نبی میں کچھ ایسا
بنے میرا مدفن بھی کوئے مدینہ [2]