عبدالرحمٰن ابن ام الحکم
عبدالرحمٰن ابن ام الحکم (تذکرہ / سوانح)
۔ان کا ذکر حضرت معاویہ اور وائل بن حجرکے قصہ میں آتاہے ان کی والدہ ام الحکم ابوسفیان بن حرب(والدہ حضرت معاویہ کی بیٹی اور حضرت معاویہ کی بہن ہیں) ان عبدالرحمٰن کے والد کانام عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن ربیعہ بن حارث بن حبیب بن حارث بن مالک بن حطیطہ بن جشم بن قسی ہے۔ثقفی ہیں۔اوربعض لوگ ان کا نسب اس طرح بیان کرتے ہیں عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابی عقیل۔ کنیت ان کی ابوسلیمان اور بعض لوگ ابومطرف کہتے ہیں یہ اپنی والدہ ام الحکم ہی کی طرف زیادہ منسوب کیے جاتے ہیں اسی وجہ سےہم نے ان کاذکریہاں کیاانھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت کی (یعنی ان کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی دوسرا صحابی راوی ہوتا ہے جس کو یہ ذکرنہیں کرتے)اوربعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ خود صحابی ہیں۔انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازپڑھی ہے ان سے اسماعیل بن عبیداللہ اور عزاز بن حریث اوریعقوب بن عثمان نے روایت کی ہے ان کے ماموں حضرت معاویہ نے انھیں ۵۰ھ میں کوفہ کا عامل مقررکیاتھاپھران کو معزول کرکے نعمان بن بشیرکوان کی جگہ پر مقرر کیا یہ اپنے زمانہ حکومت میں بہت بدسیرت رہے۔ہمیں حافظ قاسم بن علی بن حسن نے اجازۃً خبردی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے خبردی وہ کہتے تھے میں ابوالوفاء سے پڑھا وہ عبدالعزیز بن احمد سے روایت کرتے تھے وہ کہتے تھے ہمیں عبدالوہاب میدانی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوسلیمان بن زبرنے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن احمد بن جعفر نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن جریرطبری نے بیان کیاوہ کہتے تھے مجھے ہشام بن محمد سے روایت کرکے خبردی گئی وہ کہتے تھے کہ حضرت معاویہ نے عبدالرحمٰن بن ام الحکم کوکوفہ پرعامل مقررکیا ان کا طریق حکومت وہاں بہت برارہا وہاں کے لوگوں نے ان کونکال دیاتویہ اپنے ماموں معاویہ کے پاس چلے گئے حضرت معاویہ نے کہا میں تم کو کوفہ سے بہترمقام دیتاہوں یعنی مصر اور ان کو مصرکاحاکم بنادیاچنانچہ یہ مصر کی طرف روانہ ہوگئے جب یہ خبر معاویہ بن خدیج سکونی کوپہنچی تووہ مصرسے دومنزل ان کے استقبال کے لئے آئے اور کہا آپ اپنے ماموں کے پاس لوٹ جائیےکیوں کہ آپ ہم لوگوں کے یہاں ویسی حکومت نہیں کرسکتے جیسی ہمارے بھائیوں یعنی اہل کوفہ کے یہاں کرچکے ہیں پس یہ اپنے ماموں کے پاس لوٹ گئے اور بعض لوگوں نے بیان کیاہے کہ کوفہ سے ان کے معزول ہونے کاسبب علاوہ ان کے بدسیرت ہونے کے یہ بھی تھا کہ عبداللہ بن ہمام سلولی نے چنداشعارنظم کئے اور ایک پرچہ میں لکھ کر جامع مسجد میں ڈال دئیے وہ اشعار یہ ہیں ؎
۲؎ الا بلغ معاویتہ بن صخر٘ فقد خرب السواد فلاسوادا ٘اری العمال اقساء علینا ٘بعاجل نفعہم ظلمواالعباد٘
۱؎ ہم نے ان کے نام کے ساتھ سیدنااوررضی اللہ عنہ کی لفظ نہیں لکھی بدوں وجہ اول یہ کہ ان کا صحابی ہوناثابت نہیں صرف ایک ضعیف قول ہے دوسری یہ کہ مصنف ان کوبدسیرت بتاتے ہیں گومیرا ناقص خیال یہ ہے کہ اگریہ آج کل ہوتے تویقینا کاملین اولیاء اللہ میں ان کاشمارہوتا اس زمانہ کے اعتبار سے بدسیرت رہے ہوں گے۔۱۲
۲؎ترجمہ آگاہ رہو معاویہ بن صخر کویہ پیغام پہنچادو ٘کہ سواد(کوفہ)ویران ہوگیااوراب آباد نہ ہوگا ٘ ہم تمہارے عاملوں کودیکھتے ہیں کہ ہمارے لیے قسائی بنے ہوئےہیں ٘اپنےدنیاوی نفع کے لئے بندگان (خدا)پرظلم کرتے ہیں٘
۱؎قبل لک ان تدارک مالدینا٘وتدفع عن رعیتک الفسادا٘ وتعزل تابعا ابداہواء٘ بحر بمن بلادتہ البلادا ٘اذاقلت اقصر عن ہواہ ٘تمادی فی ضلالتہ وزادا٘
یہ اشعار جب حضرت معاویہ کو پہنچےتوانھوں نے عبدالرحمٰن کومعزول کردیا۔ان کو حضرت معاویہ نے مقام جزیرہ کا حاکم بھی بنایاتھا۔ان عبدالرحمٰن نے ۵۳ھ میں روم میں جہاد کیا اوروہیں عمربسرکی اورجب دمشق سے ضحاک قیس مرج راہط کی طرف گیا توانھوں نے دمشق پر بھی قبضہ کرلیا اور لوگوں کو مروان بن حکم سے بیعت کرنے کاحکم دیا۔عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں ان کی وفات ہوئی ان کاتذکرہ ابن مندہ اور ابونعیم اورابوموسیٰ نے لکھا ہے مگرابوموسیٰ نے ان کا تذکرہ مختصر لکھا ہےاورابن مندہ اورابونعیم نے کہاہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی عقیل ثقفی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں وفد بن کر آئے تھے ان کاشماراہل کوفہ میں ہے۔ان کی حدیث عبدالرحمٰن بن علقمہ سے مروی ہے اور بعض لوگوں کابیان ہے کہ یہ عبدالرحمٰن ام حکم بنت ابی سفیان کے بیٹے ہیں ابن مندہ اور ابونعیم نےاپنی سند سے عون بن ابی حجیفہ سے انھوں نے عبدالرحمٰن بن علقمہ ثقفی سے انھوں نےعبدالرحمٰن بن عقیل سے روایت کی کہ وہ کہتے تھے میں ایک وفد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا جس وقت ہم لوگوں نے دروازہ پر پہنچ کر اونٹ کو بٹھلایا اس وقت تک میری یہ حالت تھی کہ روئے زمین پر کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہمیں ناپسند نہ تھا مگرجس وقت ہم آپ کے پاس سے اٹھ کر چلے اس وقت یہ حالت تھی کہ دنیامیں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہمیں محبوب نہ تھا میں کہتاہوں یہ ابن مندہ اور ابونعیم کا کلام تھا مگر صحیح یہ ہے کہ یہ عبدالرحمٰن بن ام حکم صحابی نہیں ہیں اور ابوعقیل ان کے بیٹے نہیں ہیں تابعی ہیں محمد بن سعد نے کہا ہے کہ اہل طائف کے پہلے طبقے سے ہیں اورابوزرعہ نے کہاہے کہ یہ تابعی ہیں کوفہ کے رہنے والے نہیں ہیں ہاں وہاں حاکم تھے اور بہت دنوں حاکم بھی نہیں رہے کہ ان کوکوفہ کا رہنے والا کہہ دیاجائے پس شاید یہ کوئی اورشخص ہوں واللہ اعلم یہ وہی شخص ہیں جنھوں نے جمعہ کے دن بیٹھ کر خطبہ پڑھناشروع کیا تو حضرت کعب بن عجزہ نے یہ کیفیت دیکھ کر کہا کہ اس خبیث کو دیکھو بیٹھ کر خطبہ پڑھتاہے حالاں کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۲؎ واذا راؤ تجارۃ اولہواانفضواالیہاو ترکوک قائما۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)