ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ:ابوموسیٰ کے چچاتھے،اوران کانام عبید بن سلیم بن حضار تھا،اورہم ان کا ذکر ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس کے ترجمے میں کرآئے ہیں،ابن
امداشنی نےان کا نام عبید بن وہب بیان کیا ہے لیکن بے سود بات کی اورابوعامر کبارصحابہ سے تھے،جو غزوۂ حنین میں شہید ہوئے تھے۔
عبیداللہ بن سمین نے باسنادہ تایونس ابن اسحاق سے روایت کی،کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعامرکوان لوگوں کے تعاقب میں روانہ کیا،جووادی اوطاس سے
بھاگ نکلے تھے،چنانچہ انہوں نے بعض بھاگنے والوں کو جالیا،اورتیراندازی کرکے ان میں سے بعض کو قتل کردیا اور باقی کو بھگادیا، بعض کا خیال ہے،کہ سلمہ بن
ورید بن صمہ نے تیر سے ابوعامرکوقتل کردیاتھا،سلمیٰ کا تیران کے گھٹنے پر لگاتھا،جس کے زخم سے وہ شہید ہوگئے تھے،ایک روایت میں ہے کہ ورید جسے ابوعامر نے
قتل کیا تھا،اس ہی نے ابوعامرکوقتل کیا تھا،لیکن یہ غلط ہے،کیونکہ ورید بہت بوڑھاہوچکاتھا،اوروہ اس جنگ میں حصہ نہیں لے سکا۔
یحییٰ بن محمود اورعبدالوہاب بن ابوحبہ نے باسنادہما مسلم سے،انہوں نے عبداللہ بن براداورابوکریب سےاور (لفظ براد استعمال ہواہے) انہوں نے ابواسامہ سے،انہوں
نے یزید سے،انہوں نے ابوبردہ سے،انہوں نے اپنے والد سے روایت کی،کہ جب حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے فارغ ہوئے،توآپ نے ایک لشکردیکر ابوعامرکووادی
اوطاس کی طرف بھیجا،وہاں انہوں نے ورید کو قتل کردیااوراس کے ساتھی بھاگ گئے،اس دوران بنو حیشم کے ایک آدمی نے ان کے گھٹنے پر تیر مارا،جوپھنس کررہ
گیا،ابوموسیٰ نے ان سے دریافت کیا،کہ آپ کس آدمی کے تیر سے زخمی ہوئے ہیں انہوں نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا،وہ اس پر حملہ آورہوئے ،اور اسےقتل
کردیا،واپس آکر انہوں نے تیر نکال دیا،اوران سے کہا،آؤ،میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں،انہوں نے جواب دیا،کہ حضورصلی اللہ علیہ
وسلم سے میرا سلام عرض کرنا،اور درخواست کرنا،کہ میری مغفرت کی دُعافرمائیں،تھوڑی ہی دیر کے ابوعامرفوت ہوگئے،واپس آکر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو
واقعہ کی اطلاع دی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکے لیے ہاتھ اٹھائے،اے اللہ تو قیامت کے دن ابوعامر کو اپنی اکثر مخلوق پر فضیلت عطار
کیجیو،ابوعمراورابوموسیٰ نے ان کا ذکرکیا ہے۔