ابوبکرہ،ان کا نام نقیع بن حارث بن کلدہ بن عمرو بن علاج بن ابی سلمہ بن عبدالعزی بن غزہ بن عوف بن ثقیف الثغفی ہے،اورثقیف کا نام قسی تھا،ایک روایت میں ان
کا نام ابن مسروح مولی حارث بن کلدہ مذکور ہے،ہم نے نقیع کے ترجمے میں ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے،وہ بس کرتا ہے۔
ان کی ماں کا نام سمیہ تھا،جوحارث بن کلدہ کی لونڈی تھی،اور زیاد بن ابیہ کے اخیانی بھائی تھے، ابوبکرہ ا ن لوگوں میں سے ہیں،جو محاصرۂ طائف کے موقعہ پر
اپنے آقا کو چھوڑکر حضور اکرم کے پاس آگئے تھے اور اسلام قبول کر لیا تھا،اور آپ نے انہیں آزادفرمادیاتھا،اور ابوبکرہ کنیت عطاکی تھی،ابوبکر ہ کہاکرتے
،میں تمہارادینی بھائی ہوں،حضورِ اکرم کے مولیٰ ہوں،سب لوگ میرے باپ ہیں،لیکن اگر مجھے کسی آدمی سے منسوب کرناچاہتےہو توابن مسروح کہہ لو۔
جناب ابوبکرہ فاضل اور صالح صحابہ میں شمارہوتے تھے،انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کے خلاف زناکی شہادت دی تھی،پھرانکار کر دیا تھا،اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
انہیں حد قذف لگائی تھی،اور مردود الشہادۃ قرار دیا تھا،پھر حکم دیا،توبہ کرو،تاکہ یہ تعزیر منسوخ ہو جائے،انہوں نے توبہ کی،اور خلیفہ نے تعزیر پر خط نسخ
کھینچ دیا۔
جناب ابوبکرہ کہنےلگے ،اب میں کبھی بھی بعد ازیں دو آدمیوں کے بارے میں شہادت نہیں دونگا، چار۴گواہوں میں سے تین منکر ہوگئےتھے،چوتھا گواہ زیاد بن ابیہ
تھا،وہ کہنے لگا،میں نے مغیرہ کو آگے پیچھے حرکت کرتے دیکھا،اس کا سانس پھولاہواتھا،اور عورت کی ٹانگیں گدھے کے کانوں کی طرح کھڑی ہوئی تھیں،مزید مجھے علم
نہیں کہ کیا ہوا،زیادحد حذف سے بچ گیا۔
جناب ابوبکرہ عمر بھر عبادت الہٰی میں منہمک رہے،ان کے اخلاف بصرہ کے شرفا اور علماء میں شمار ہوتے تھے
خطیب عبداللہ بن احد بن محمد نے،ابومحمد جعفر بن احمد سے ،انہوں نے حسن بن شاذان سے،انہوں نے عثمان بن احمد السماک سے،انہوں نے حنبل بن اسحاق سے ،انہوں نے
خلیل بن عمر بن ابراہیم العبدی سے،انہوں نے والد سے،انہوں نے قتادہ سے،انہوں نے حسن سے،انہوں نے ابوبکرہ سے روایت کی،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا،جب دو مسلمانوں کا باہم مقابلہ ہو جائے اور ایک دوسرے کو قتل کردے،تو دونوں کا ٹھکانا جہنم ہو گا،میں نے کہا،ابّا جان! قاتل کےمتعلق تو یہ سزادرست
ہے،لیکن مقتول کو کیوں جہنم میں جاناہوگا،ان کے والد نے جواب دیا،کہ جو سوال تم نے مجھ سے کیا ہے،یہی سوال میں قتادہ سے کیا تھا،انہوں نے جواب دیا تھا،چونکہ
دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے چاہتے تھے،عمر بن ابراہیم نے اس حدیث کو اسی طرح حسن سے،انہوں نے ابوبکرہ سے روایت کی،لیکن حسن نے ابوبکرہ سے نہیں سُنی،بلکہ
احنف سے سُنی،جنہوں نے ابوبکرہ سے روایت کی۔
جناب ابوبکرہ نے بصرے میں ۵۱یا۵۲ہجری میں وفات پائی،انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ ابوبرزہ اسلمی پڑھائیں،جناب حسن سے مروی ہے کہ صحابۂ کرام میں
سے جو لوگ بصرے میں سکونت پذیر ہوگئے تھےان میں سے کو بھی عمران بن حصین اور ابوبکر کے پائے کا نہ تھا۔