ابوبصیر رضی اللہ عنہ
ابوبصیر رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوبصیر،ان کا نام عتبہ بن اسید بن جاریہ بن اسید بن عبداللہ بن ابوسلمہ بن عبداللہ بن غیرہ بن عوف بن ثقیف ہے،یہ ابومسعود کا قول ہے،بقول ابن اسحاق ان کا سلسلۂ نسب عتبہ بن اسید بن جاریہ ہے اور ایک روایت میں عبید بن اسید بن جاریہ مذکورہے،وہ بنوزہرہ کے حلیف تھے،علامہ طبری لکھتے ہیں،کہ ابوبصیر کی ماں کانام سالمہ تھا،جوعبد بن یزید بن ہاشم بن مطلب کی بیٹی تھی،اور ابوبصیر وہی آدمی ہیں،جوصلح حدیبیہ کے بعد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ۔
ابوجعفرعبیداللہ بن احمد نے باسنادہ یونس سے ،انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے،انہوں نے مسور اور مروان سے روایت بیان کی،کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد اچھی طرح امن قائم ہوگیا اور باہمی آمدورفت شروع ہوگئی،یہ حالت ہوگئی کہ جوآدمی بھی اسلام کے بارے میں گفتگو کرتامسلمان ہوجاتا،چنانچہ ان دو سالوں کے دَوران اتنے لوگ مسلمان ہوئے کہ اس سےپہلے نہیں ہوئے تھے،اور فی الحقیقتہ صلح حدیبیہ اسلام کی عظیم فتح تھی۔
جب حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں واپس تشریف لائے اور کفارقریش کی طرف سے مطمئن ہوگئے تو ابوبصیر جو بنوزہرہ کے حلیف تھے،آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے،کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے تھے،اس پر اخنس بن شریق ثقفی اور ازہر بن عبدعوف نے حضورِاکرم کو ایک خط لکھا،اور اپنے آزادکردہ غلام اور بنوعامر بن لوئی کے ایک آدمی کی معرفت وہ خط آپ کی خدمت میں بھیجااور درخواست کی کہ ان کے آدمی(ابوبصیر) کوواپس کردیاجائے،حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو بُلاکر فرمایا اے ابوبصیر!تمہاری قوم کے آدمی،تمہاری واپسی کا تقاضہ کررہے ہیں،اور شرائط معاہدہ کا تمہیں علم ہے،میں وعدہ خلافی نہیں کرسکتا،کیونکہ تمہاری قوم کا تقاضہ مبنی بر حق ہے، ابوبصیر نے عرض کیایارسولُ اللہ!کیاآپ مجھے ان مشرکین کے حوالے کرکے ابتلاء میں ڈالناچاہتے ہیں،حضور نے فرمایا،ابوبصیر!چندے اورصبر کرو،بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور اسی طرح کے اور بے بس لوگوں کے لئے نجات کا ضرورکوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا،تعمیل ارشاد میں ابوبصیر ان لوگوں کے ساتھ چل دئیے،جب ذوالحلیفہ میں پہنچے تو ایک دیوارکے پاس دم لینے کو بیٹھ گئے،ابوبصیر نے عامری کی تلوار بہانے سے اُٹھالی ،اور چشم زدن میں اسکی گردن اڑادی،یہ دیکھ کر غلام سرپٹ بھاگ کھڑاہوا،اورمسجدنبوی میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا،آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا،کہ یہ آدمی کسی مصیبت سے دوچارہواہے،کہنے لگا،یارسول اللہ ،آپ کے آدمی نے میرے ساتھی کو قتل کردیا ہے،اتنے میں ابوبصیر بھی تلوار لٹکائے وہاں پہنچ گئے اور عرض کیا،یارسول اللہ ،آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کی،اور مجھے اپنے پاس ٹھہرنے نہ دیا،حضور اکرم نے فرمایا،تیرابھلا نہ ہو،اگراُ س کے ساتھ اور آدمی ہوتے توتو نے لڑائی بھڑکا ہی دی تھی،ابوبصیر وہاں سے روانہ ہو کر عیص میں (جومکے سے شام کے راستے پر واقع تھا)آکر ٹھہرگئے،جو مسلمان صلح حدیبیہ کے بعد اِدھراُدھررُکے ہوئے تھے،وہ سب وہاں پہنچ گئے ،اور ان کی تعداد ساٹھ۶۰ستر۷۰ ہوگئی،چنانچہ قریش کا جوآدمی بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتاوہ اسے قتل کردیتے،اورجوکاروانِ تجارت مل جاتا اسے لوٹ لیتے،تنگ آکر قریش نے رسول اکرم کو لکھا،کہ ہمارے جو رشتہ دار اسلام قبول کرچکے ہیں،اور صلح حدیبیہ کے ماتحت وہ آپ کے پاس آنے سے رُکے ہوئے ہیں ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں،اورہم انہیں اس شرط کی بجاآوری سے مستثنٰے قرار دیتے ہیں،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کواطلاع دے دی،اور وہ سب لوگ مدینے آگئے۔
مروی ہے کہ ابوجندل بن سہل بن عمرو بھی ان لوگوں میں شامل ہوچکے تھے،جب قریش نے حضورِ اکرم کو اپنے ارادے سے مطلع کیا،تو آپ نے ابوبصیر اور ابوجندل ہر دوکولکھا،کہ وہ مدینے آجائیں، اوراپنے رفقا کو بھی ساتھ لے آئیں،جب حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گرامی نامہ وہاں موصول ہوا،توابوبصیر ان دنوں بیمار تھےاور جلد ہی فوت ہوگئے،ابوجندل نے ان کی تجہیزو تکفین کی،اور خود مدینے آگئے،ابوعمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابوبصیرہ،بقولِ ابوعمر،سیف بن عمر کو بیان ہے،کہ ابوبصیرہ انصاری جنگِ یمامہ میں شریک تھے اور وہاں ان سے ایک خبر نقل کی ہے،ابوعمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ،حافظ ابومسعود نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے،اور حجاج بن منہال نے حماد سے،انہوں نے علی بن ابوالعالیہ سے،انہوں نے ابوبکر بن حفص سے روایت کی کہ حضورِ اکرم عبداللہ بن رواحہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے،حاضرین نے عرض کیا ،یارسول اللہ ! یہ صاحب بیماری سے تو مریں گے نہیں،انہیں تو میدان جنگ میں شہیدہونے کی خواہش ہے،حضور اکرم نے دریافت فرمایا،آیا تمہیں علم ہے،کہ میر ی امت میں کون لوگ شہید ہوں گے؟صحابہ خاموش ہوگئے،عبداللہ بن رواحہ نے کہا،حاضرین!حضوراکرم کی بات کا جواب دو،صحابہ نے عرض کیا،جس کا گھوڑا زخمی ہوجائے اور وہ خود قتل ہوجائے،فرمایا اس طرح تو میرے شہیدوں کی تعداد مقابلتہً کمتر ہوگی،مقتول ،پانی میں غرق ہونے والا،ہیضے سے مرنے والا،طاعون سے مرنے والا بھی شہید ہے،اسی طرح وہ عورت بھی شہید ہے،جونفاس کی وجہ سے مرجائے،اس حدیث کو شعبہ نے ابو مصبح سے یا ابنِ مصبح سے اور انہوں نے عبادہ بن صامت سے روایت کیا،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے،نیز انہوں نے لکھا ہے کہ ان کے خیال میں اس ابوبکر ابن حفص بن عمر بن سعد بن ابی وقاص ہے۔