ابودجانہ سماک بن خرشہ اور ایک روایت میں سماک بن اوس بن خرشہ بن لوذان بن عبدود بن زید بن ثعلبہ بن طریف بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج الاکبرانصاری
خزرجی ساعدی از قبیلۂ سعد بن عبادہ مذکورہے،یہ دونوں قبیلے طریف پر جمع ہوجاتے ہیں،غزوۂ احد میں انہوں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کا دفاع
کیاتھا،ابودجانہ کا شماردلیراوربہادرسپاہیوں میں ہوتاتھا۔
عبیداللہ بن احمدنے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابنِ اسحاق سے،انہوں نے محمد بن مسلم زہری، عاصم بن قتادہ ،محمد بن یحییٰ بن حبان اور حصین بن عبدالرحمٰن بن
عمروبن سعدبن معاذوغیرہ سے روایت کی کہ حضور اکرم نے دوزرہیں پہن رکھی تھیں،فرمایااس تلوارکاحق کون اداکرے گا،کئی آدمی لینے کو اُٹھے،لیکن آپ نے کسی کو نہ
دی،آخرابودجانہ اُٹھے اور حضورِاکرم سے پوچھا،یارسول اللہ !تلوارکاکیا حق ہے،آپ نے فرمایا،تواس سے دشمن پر اسطرح وار کرے کہ ٹیڑھی ہوجائے ابودجانہ نے
کہا،میں اس کا حق ادا کرونگا،چنانچہ آپ نے وہ تلوار ان کے حوالے کردی،ابودجانہ جب بھی جنگ ہوتی،نہایت دلیری اور شجاعت کامظاہرہ کرتے اور اکڑاکڑکرچلتے،نیزان
کے پاس سُرخ رنگ کی پٹی تھی،جسے وہ پیشانی پر باندھ لیتے تو لوگوں کومعلوم ہوجاتا،کہ وہ آمادۂ پیکار ہیں، جب انہوں نے حضورِاکرم کے ہاتھ سے تلوار لے لی
،توسُرخ پٹی نکالی اورسرپر باندھ لی اور دونوں صفوں کے درمیان اکڑاکڑکرچلنے لگ گئے،حضورنے دیکھاتوفرمایا،ہرچند خداکو یہ انداز ناگوار لیکن ایسے مواقع پر
چنداں حرج نہیں۔
ابودجانہ جنگ یمامہ میں شامل تھےاور مسیلمہ کذاب کے قتل میں ،زید بن عاصم اوروحشی کے ساتھ شریک تھے،ابودجانہ عتبہ بن غزوان کے بھائی تھے ،اورحضورِاکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان میں سلسلہ مواخات قائم فرمادیاتھا،ہم سماک کے ترجمے میں زیادہ تفصیل سے ان کے حالات لکھ آئے ہیں،ابوعمرابونعیم اور ابوموسیٰ نے
انکاذکرکیاہے۔