ابوحجش اللیثی رضی اللہ عنہ
ابو حجش اللیثی،ابوموسیٰ نے اذناً ابوعلی المقری سے،انہوں نے احمد بن عبداللہ سے انہوں نے ابومحمد بن حیان سے،انہوں نے ولید بن ابان سے،انہوں نے علی بن حسن
ہسنجانی سے،انہوں نے اسحاق قروی سے،انہوں نے عبدالملک بن قدامہ سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے اپنے والد سےاور انہوں نے ابن عمران
عمر سے روایت کی کہ وہ مسجد میں نمازکوآئے، جماعت کھڑی تھی،اور تین آدمی جن میں ایک ابوحجش لیثی تھے،علیحدہ بیٹھے تھے،اس نے کہا،اٹھو نماز میں شریک
ہوجاؤ،دوآدمی تواُٹھ کھڑے ہوئے لیکن ابو حجش نے انکار کردیا،اتنے میں بعد از فراغت حضورِ اکرم ادھر آگئے اور آپ کو ابو حجش کے انکا ر کے بارے میں بتایا
گیا،فرمایا،بیٹھو ،میں وضاحت کئے دیتاہوں،اللہ تعالیٰ ابوحجش کی نمازسے بالکل بےنیاز ہے،آسمانوں میں ایسے فرشتے بھی ہیں،جو عبادت الٰہی میں مصروف ہیں اور
قیامت تک سرنہ اٹھائیں گے،ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے اورلکھا ہے کہ ابونعیم اورابوزکریا نے بھی ان کا ذکر کیا ہے،لیکن ہمیں ابونعیم کی کسی ایسی کتاب کا
علم نہیں ہوسکا،جس کا تعلق صحابہ سے ہو۔
ابوحجیچہ وہب بن وہب (ایک روایت میں وہب بن عبداللہ ہے)مراد وہب الخیر السوائی ہیں ، جوحرثان بن سواءۃ بن عامر بن صعصعہ کی اولادسے ہیں،یہ ابوعمرکا قول
ہے،ہم ان کی نسبت (وہب کے ترجمے میں )حبیب بن سواءۃ سے بیان کر آئے ہیں،ابوحجیفہ کوفے میں ٹھہر گئے تھے،یہ کم عمر صحابہ میں سے تھے،جب حضورِ اکرم نے وفات
پائی،ان دنوں یہ بالغ ہورہے تھے،انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع اور روایت کا موقعہ ملا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے انہیں کوفے میں بیت المال کا نگران مقررکیا تھا،اور تمام جنگوں میں شریک ہوئے تھے،حضرت علی انہیں اچھاجانتے،قابل اعتماد گردانتے
اور انہیں وہب الخیر کے لقب سے یاد فرماتے،اسی طرح وہب اللہ کہہ کر انہیں بلاتے۔
ابوالفرج بن محمود نے ابوعلی حسن بن احمد سے،انہوں نے قراءۃ (میں وہاں موجودتھا،اور سن رہا تھا) احمد بن عبداللہ الحافظ سے،انہوں نے ابومحمد عبداللہ بن جعفر
الموصلی سے،انہوں نے محمد بن احمد بن مثنی سے،انہوں نے جعفر بن عون سے ،انہوں نے ابوعمیس سے،انہوں نے عون بن ابوجحیفہ سے،انہوں نے اپنے والد سے روایت کی،کہ
حضورِاکرم نے ایک خشک وادی میں کیمپ لگایا ہوا تھا،اتنے میں بلال آگئے اور آپ نے انہیں نماز کی اجازت دی،آپ نے وضوفرمایا،لوگ آآکر دورکعت نماز ادا
کررہے تھے،اُونٹ،عورتیں اور گدھے آگے سے گزر رہے تھے،نیز ان کے بیٹے عون نےبتایا،کہ ان کے والد نے گوشت سے ثرید تیار کیا،وہ کھارہے تھے،کہ حضورِ اکرم تشریف
لے آئے،فرمایا،اے ابوحجیفہ!ہاتھ کو روک لے،کیونکہ اکثرلوگ جودنیا میں پیٹ بھرکر کھاتے ہیں وہ آخرت میں بھوکے رہیں گے،اس کے بعد ابوحجیفہ نے کبھی پیٹ بھر
کر نہ کھایا،اگر صبح کا کھانا کھا لیتے تو رات کو نہ کھاتے،اور رات کو کھالیتے توصبح نہ کھاتے،بشر بن مروان کے عہد میں بصرے میں ۷۲ ہجری میں فوت
ہوئے،ابونعیم،ابوعمر اور ابوموسیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے۔