ابوالحجاج الثمانی،ان کانام عبدبن عبدیاعبداللہ بن عبد تھا،یہ اپنی کنیت سے زیادہ مشہور ہیں،ہم عبداللہ اور عبد کے تراجم میں ان کا ذکر کر آئے ہیں۔
منصور بن ابوالحسن فقیہ الطبری نے باسنادہ تا احمد بن علی،انہوں نے ابوالربیع سلیمان بن داؤد البغدادی سے(نہ کہ زہرانی سے)،انہوں نےبقیہ بن ولید سے،انہوں
نےابوبکر بن عبداللہ بن ابومریم سے،انہوں نے ہیثم بن مالک الطائی سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن عائد الازوی سے،انہوں نے ابوالحجاج الثمانی سےروایت کی،حضورِاکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے،تو قبر کہتی ہے،ارے نابکار!میرے بارے میں توکس غلط فہمی کاشکار تھا،کیاتجھے معلوم نہیں تھا،کہ
میں فتنے اور اندھیرے کا گھرہوں،اور تومیرے متعلق کیوں مبتلائے فریب تھا،کہ تو میرے پاس سے اکڑتے گزرجاتےتھے،حضورِاکرم نے فرمایا،اگرمُردہ نیکوکارہوا،یعنی
وہ نیکی کا پرچار کرنے والا اور بُرائی سے روکنے والا ہواتو خوداس کی طرف سے جواب دے گی،میں تجھے سرسبزکردوں گی اور تیرے جسم کو نور بنادوں گی،اور تیری رُوح
کو خداکے پاس بھیج دُوں گی۔
ابن عائد کہتے ہیں،میں نے ابن الحجاج سے پوچھا،کہ فداد سے کیا مراد ہے،انہوں نے کہا،فدادوہ آدمی جو ایک پاؤں آگے رکھے اور دوسرا پیچھے،جس طرح کہ اے میرے
بھتیجے،کبھی تم چلتے ہو،وہ کپڑے پہنتا ہےاوراتراتاہے،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔