ابوحسن انصاری مازنی ،بروایتے،ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے،ایک روایت میں ان کا نام تمیم بن عبدعمر ہے،وہ یحییٰ بن عمارہ کے دادا اور عمر بن یحییٰ کے والد
اور امام مالک بن انس کے شیخ ہیں،مدنی ہیں،انہیں صحبت نصیب ہوئی،یہ بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر میں شریک تھے۔
عمروبن یحییٰ نے والدسے،انہوں نے دادا سے،انہوں نے رسولِ کریم سے روایت کی،آپ نے فرمایا،اگرکوئی شخص مجلس سے اُٹھ کر باہر چلاجائے اور پھر واپس آجائے تو
وہ اس نشست کا ذیادہ مستحق ہے۔
یہ ابوالحسن وہی ہیں جنہوں نے زید بن ثابت کو یوم الدار کے موقعہ پر (جب انہوں نے انصارکومخاطب ہوکرکہاتھا،اے انصار!اللہ کے دین کی امدادکے لئےدوبارہ اٹھ
کھڑے ہو)کہاتھا، بخدا،اے ابوالحسن!ہم ہرگز تمہاری بات نہیں سُنیں گے اور نہ تمہاری اطاعت کریں گے،ہم قرآن کی اس آیٔت کا مصداق نہیں بننا چاہتے
"اِنَّا اَطَعنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَنَا فَاَضَلُّونَ السَّبِیلِ"
۱یک روایت میں ہے کہ یہ قول نعمان زرقی کا ہے۔
اسی طرح عمروبن یحییٰ نے باپ سے ،انہوں نے داداسےروایت کی،کہ ہم حضورِاکرم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے،کہ ایک شخص اٹھا،اورجوتے اٹھانا بُھول گیا،ایک اور شخص
نے جوتااٹھایا اور اپنے نیچے رکھ لیا،اتنے میں اس آدمی نے واپس آکر پوچھا،کہ میرے جُوتے کِسی نے دیکھے ہوں،اس آدمی نےکہا،میں نے اُٹھائے ہیں۔
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،تم نے کیوں اپنے مومن بھائی کو پریشان کیا ہے،اس نے کہا، یارسول اللہ،بخدامیں نے مذاق کیا تھا،فرمایا،درست ہے،لیکن
پھربھی اسے جو پریشانی ہوئی ہے اس کا خیال رکھتے،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔