ابو حفص کبیر
ابو حفص کبیر (تذکرہ / سوانح)
احمد بن حفص المعروف بہ ابو حفص کبیر بخاری : مجتہد عصر امام دہر فاضل بے عدیل فقیہ بے تمثیل تھے،فقہ وحدیث امام محمد سے حاصل کی ۔آپ کے اصحاب اس قدر تھے کہ شمار میں نہ آسکتے تھے چنانچہ سمعانی شافعی نے لکھا ہے کہ بخارا کے پاس ایک گاؤں آباد ہے جہاں فقہاء کی ایک جماعت آپ کے اصحاب میں سے رہتی تھی۔کہتے ہیں کہ آپ اور خلف بن ایوب اور ابو سلیمان تینوں امام محمد سے تحصیل علم کیا کرتے تھے۔ خلف بن ایوب سلیمان جس قدر ایک برس میں یاد کیا کرتے تھے،آپ ایک مہینہ میں یاد کرلیا کرتے تھے اور جو وہ ایک مہینہ میں حفظ کرتے تھے مگر آپ کچھ نہیں لکھتے تھے۔ انہوں نے اس کا سبب پوچھا ،آپ نے فرمایا کہ میں اپنے سینہ میں لکھتا جاتا ہوں انہوں نے کہا کہ یہ بات ہم نے مانی لیکن اگر آپ لکھتے جائیں تو بعد وفات کے آپ کی نشانی باقی رہے آپ نے فرمایا کہ یہ بات تو درست ہے لیکن میں کیا کروں کہ میرے راستہ وطن میں دریا حائل ہے، مباد اجب میں واپس جاؤں تو کشتی میں پانی آجائے اور کتابوں کو بھگودے جس سے میری محنت کتابت برباد جائے مگروہ بضد ہوئے پس آپ نے بھی لکھنا شروع کیا یہاں تک کہ جب تینوں نے علم تحصیل کر کے فتوےٰ دینے کی اجازت امام محمد سے حاصل کی تو خلف اور ابو سلیمان سمر قند کو گئے اور آپ کشتی میں بیٹھ کر بخار ا کی طرف آئےک،اتفاقاً جیسا آپ نے کہا تھا ویسا ہی ہوا کہ آپ کی کشتی میں پانی بھر گیا اور تمام کتابیں بھیگ گئیں ، آخر آپ جان بچا کر بمشکل کنارہ پر پہنچے اور کسی آدمی کو بخار میں بھیج کر کتابت کا سامان منگوایا اور جس قدر پڑھاتھااس کو یاد پر لکھنا شروع اور ایسا لکھا کہ بجز تین پانچ مسئلوں کے الف اور واؤ تک مقدم و مؤخر نہ ہونے پایا۔ کفایہ وعنا یہ شروح ہدایہ وغیرہ میں لکھا ہے کہ امام شمس الائمہ فرماتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں امام بخاری صاحب صحیح بخدا میں تشریف لائے اور فتوےٰ دینے کے لائق نہیں ہیں مگر امام بخاری بازنہ آئے ،آخر الامر ایک دن لوگوں نے ان سے پوچھا کہ اگر دو لڑکوں نے ایک بکری یا گائے کا دودھ پیا ہو تو ان کا کیا حکم ہے؟ امام بخاری نے کہا کہ ان میں حرمت رضاع کی ثابت ہو جاتی ہے! جب لوگوں نےان کی فقاہت کی یہ لیاقت دیکھی تو ہجوم کر کے ان کو بخار اسے نکال دیا۔
کہتے ہیں کہ بخار امیں ایک دفعہ ایسا قحط نازل ہو اکہ گیہوں کا ایک بوجھ جس کو ایک گدھا اٹھا سکے ایک سو دینار کو میسر آتا تھا ۔ آپ نے یہ حال دیکھ کر اپنے خزانچی کو فرمایا کہ جس قدر کا خزانہ ہے اس کے گیہوں خرید لوگوں کو ارزاں دینے شروع کردو ، چنانچہ ایک خر وار گیہوں کا سودینار کو خرید کر اسی کو بیچنا شروع کیا یہاں تک کہ دس دینار تک پہنچ گئے تھےکہ خزانہ خالی ہو گیا ۔آپ نے فرمایا کہ الحمد للہ ہم نے آخرت کا خزانہ پُر کیا ۔ایکؔ پیر مرد آپ کی خدمت میں اکثر آیا کرتا تھا مگر پوچھتا کچھ نہیں تھا۔آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کس لیے اس کثرت سے ہمارے پاس آتے ہو؟ پیر مرد نے عرض کیا کہ میں تین باتوں کےلیے آتا ہوں جو آپ سے میں نے سنی ہیں،اول یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ العالم والمتعلم فی الاجر سواء ،دومؔ ان مجلس العالم ینزل فیہ رحمۃ من السماء وینادی متادی اللہ یقول انی قد غفرت ذنوبکم وبدلت بسیّا تکم حسنات ارجعو ا مغفورین ۔ سومؔ النظر الیٰ وجہ العالم عبادۃ ۔آپ یہ بات سن کر رو پڑے اور فرمایاکہ یہ بات صحیح ہے مگر نہ مجھ جیسے عالم کے دیکھنے میں ثواب ہے بلکہ یہ منصب خلف بن ایوب جیسے عالم کو حاصل ہے۔ یہ بات سن کر شخص مذکور بخار اسے بلخ میں آیا اور خلف بن ایوب کی مجلس میں کثرت سے آنا شروع کیا۔ آخر الامر خلف نے ایک دن اس سے اس بات کا سبب پوچھا ،اس نے وہی جواب دیا جو آپ کو دیا تھا۔خلف اس بات سے زار زار روئے اور فرمایا کہ بات اسی طرح ،مگر نہ مجھ جیسے عالم کے دیکھنے میں بلکہ ابو حفص کبیر جیسے عالم کی زیارت میں ثواب ہے۔
کہتے ہیں کہ آپ نے ایک دفعہ چاہا کہ مکان بنوا کر وقف کردیں ،معاروں سے آپ نے لاگت کی نسبت پوچھا ، انہوں نے کہا کہ اسّی ہزار درم اس مکان پر لاگت آئے گی ۔پس آپ نے اسّی ہزار درم نقد کردیااور فرمایا چونکہ میری نیت ثواب کی ہے اس لیے میں نہیں چاہتا کہ اس کام کا سر برا ہکار شاید شرئط کی مخالفت سے عذاب اخروی کا مستحق ٹھہرے۔ محمد بن طالوت والی بخار انے چاہا کہ آپ کی زیارت کرے ۔لوگوں نے اس کوممانعت کر کے کہا کہ تو ان کے سامنے ان کے دبدبہ کے سبب سے بھی نہ کر سکے گا لیکن اس نے نہ مانا اور ملاقات کے لیے گیا، اور سلام کر کے بیٹھ گیا ۔ آپ نے اس سے ہر چند پوچھا کہ تیرا مطلب کیا ہے ؟مگر آپ کی ہیبت سے کچھ نہ کہہ سکا ۔جب وہاں سے رخصت ہو کر مکان پر آیا تو لوگوں سے اس نے کہا کہ جیسا تم کہتے تھے وہی ہوا کہ جب امام نے میری طرف دیکھا تو میں بیہوش ہوگیا تھا۔ آپ نے ۲۱۳ھ میں فرمایا تھا کہ اگر میں ان سات سال آئندہ میں نہ مروں تو خدا کے نزدیک میری کچھ بھی قدر نہیں سو ایسا ہی ہوا کہ ابھی سات برس نہ گزرنے پائے تھےکہ آپ ۲۱۸ھ میں اس دار فانی سے رہگز رائے عالم جاودانی ہوئے۔ ’’عابد عالم ‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)