ابوہریرہ دوسی رضی اللہ عنہ
ابوہریرہ دوسی رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوہریرہ دوسی،حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے صحابہ ہیں،جنہوں نے آپ سے کثیراحادیث روایت کیں،وُہ دوسی ہیں،اوردوس بن عدنان بن عبداللہ بن زہران بن کعب بن حارث بن کعب بن مالک بن نضر بن ازدسے ہیں۔
خلیفہ بن خیاط اور ہشام بن کلبی نے ان کا نام عمیربن عامربن عہدذی الشری بن طریف بن عتاب بن ابوضعب بن منبہ بن سعد بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس لکھا ہے،ان کے نام کے بارے میں اتنااختلاف ہے،کہ صحابہ کی جماعت میں کسی اور کے بارے میں اتنااختلاف نہیں،ایک روایت میں عبداللہ بن عامرایک میں بربرین عشرقہ،ایک میں سکین بن دومہ،ایک میں عبداللہ بن عبدشمس اور ایک میں عبدشمس مذکورہے،یہ روایات یحییٰ بن معین اور ابونعیم نے بیان کی ہیں،اسی طرح ایک روایت میں ان کا نام عبدنہم اور ایک میں عبدغنم آیاہے،محرر بن ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ان کے والد کا نام عبدعمروبن عبدغنم تھا،اورعمرو بن علی القلاس کاقول ہے کہ اسے باب میں صحیح بات یہ ہے کہ ان کا نام عبدعمرو بن غنم تھا،ان تمام ناموں میں جو تبعید پائی جاتی ہے،وہ قبول اسلام کے بعد بدل دی جاتی تھی،کیونکہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبد شمس،عبدغنم اورعبدالعزیٰ طرز کے ناموں کو نہیں رہنے دیتے تھے،ایک روایت کی روسے اسلام میں ان کا نام عبداللہ یاعبدالرحمٰن تھا،بقول ہثیم بن عدی جاہلیت میں ان کا نام عبدِشمس اوراسلام میں عبداللہ تھا،ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے بعض ابوہریرہ کے دوستوں نے ابوہریرہ سے یہ روایت بیان کی،کہ جاہلیت میں ان کا نام عبد شمس تھاجسے قبول اسلام کے بعد حضورِاکرم نے عبدالرحمٰن بنادیا،اورکنیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی آستین میں بلی کا ایک بچہ لئے پھرتےتھے،اس لئے لوگ انہیں ابوہریرہ کہنے لگ گئے،ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان کی آستین میں بلی کا بچہ دیکھاتوفرمایا،تم ابوہریرہ ہو۔
اورکثیرالتعداد آدمیوں نے اپنے اسناد سے امام ِترمذی سے ،انہوں نےاحمد بن اسماعیل مرابطی سے، انہوں نے روح بن عبادہ سے،انہوں نے اسامہ بن زیدسے،انہوں نے عبداللہ بن رافع سےروایت کی کہ میں نے ابوہریرہ سے ان کی کنیت کی وجہ دریافت کی،انہوں نے کہا،میرے پاس چھوٹی سی بلی تھی،جسے میں رات کوایک درخت پربٹھادیتا،اورجب صبح ہوتی،تواسے پکڑلاتا،اوردن بھرکھیلتارہتا، اس لئے میری یہ کنیت پڑگئی،ابوہریرہ اصحاب صفہ میں سے تھے،امام بخاری کے مطابق ان کا اسلامی نام عبداللہ تھا۔
ابنِ اثیرلکھتے ہیں،کہ ہم نے ان ناموں کا ذکراہلِ علم کی پیروی کی غرض سے کیاہے،ورنہ ان کے ذکرمیں کیادھراہے،وہ اپنی کنیت کی وجہ سے مشہور ہیں،اورنام معدوم ہوچکے ہیں۔
ابوہریرہ فتح خیبر کے سال اسلام لائے اور آپ سے ایسے چمٹے کہ زندگی بھرساتھ نہ چھوڑا،اس مواظبت سے ان کی غرض علم دین کا حصول تھا،چنانچہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعافرمائی تھی،ابراہیم وغیرہ نے ابوعیسیٰ سے،انہوں نے ابوموسیٰ سے،انہوں نے عثمان بن عمرسے، انہوں نے ابن ذہب سے،انہوں نے سعیدالمقبری سے،انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی کہ میں نے حضوراکرم کی خدمت میں گزارش کی،یارسول اللہ جو کچھ آپ سے سُنتا ہوں ان میں سے اکثر باتیں بھول جاتاہوں،فرمایا،اپنی چادربچھاؤ،میں نے تعمیل ارشادکی،توآپ نے کثیرالتعداد احادیث روایت فرمائیں اورکہا،کہ چادرکوسمیٹ لو،چنانچہ ان احادیث میں سے کوئی حدیث میں عمربھرنہ بھولا،اورامام ترمذی نے ابن منیع سے،انہوں نے ہشیم سے،انہوں نے یعلی بن عطاء سے،انہوں نےولید بن عبدالرحمٰن سے،انہوں نے ابن عمرسے روایت کی کہ انہوں نے ابوہریرہ سے کہاچونکہ آپ اکثروبیشتر حضورکی خدمت میں موجودرہتے تھے،اسی لئے آپ کواحادیث زیادہ یاد ہیں۔
ابوالفرج بن ابوالرجاء نے ابوالفتح اسماعیل بن فضل بن احمدبن اخشیدسے،انہوں نے ابوطاہر محمد بن احمد بن عبدالرحیم سے،انہوں نے ابوحفص کنانی سے،انہوں نے ابوالقاسم بغوی سے،انہوں نے زہیر بن حرب سے،انہوں نے سفیان بن عینیہ سے،انہوں نے زہری سے،انہوں نے اعرج سے،انہوں نے ابوہریرہ کو کہتے سُنا،لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ کیسے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی کثرت سے احادیث روایت کرتاہے،خداشاہد ہےکہ میں ایک مسکین آدمی تھا،اورصرف شکم پُری پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف رہتا،مہاجرین ابیع وشری کے لیے بازارچلے جاتے،اورانصار اپنی روزمرہ مصروفیات میں منہمک رہتے،اس دوران میں میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سُناجوشخص اپناکپڑابچھائے گاوہ مجھ سے سنی ہوئی باتوں کو نہیں بھولے گا،میں نے کپڑا بچھادیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث ارشاد فرمائیں،میں نے کپڑے کولپیٹ لیااورپھر وہ احادیث میں کبھی نہ بھولا۔
عمربن طبرز کے علاوہ کافی لوگوں نے ابوالحصین سے،انہوں نے ابن غیلان سے،انہوں نے ابوبکرسے،انہوں نے جعفت بن محمد بن شاکرالصائغ سے،انہوں نے عفان سے،انہوں نے حماد بن سلمہ سے،انہوں نےابوسنان سے،انہوں نے عثمان بن ابوسودہ سے،انہوں نے ابوہریرہ سےروایت کی،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جوشخص اپنے بھائی کی عیادت یاملاقات کے لیے جاتاہے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے،تجھے مبارک ہو،تونے نہایت عمدہ کام کیاہے،میں نے اس کے عوض تیرے لیےبہشت میں مقام بنادیاہے۔
امام بخاری لکھتے ہیں کہ کم و بیش آٹھ سو اصحابہ اور تابعین نے ابوہریرہ سے روایت کی،صحابی راویوں میں ابن ِعباس،ابنِ عمر،جابر اورواثلہ بن اسفع جیسے لوگ شامل ہیں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے انہیں بحرین کا والی مقرر کیا،پھر معزول کردیا،بعد میں پھر مقرر کرنا چاہا،لیکن انہوں نے انکارکردیا،مدینہ میں سکونت اختیارکرلی اوروہیں وفات پائی،بقول خلیفہ ان کی وفات ۵۷ ھمیں ہوئی،ہشیم بن عدی کاقول ہے کہ ان کی وفات ۸۵ ھمیں ہوئی،اس وقت ان کی عمر۸۷ برس تھی،ایک روایت میں ہے کہ ان کی وفات عقیق کے مقام پر ہوئی،ان کی میت مدینہ لائی گئی اورولید بن عتبہ بن ابوسفیان نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی جواپنے چچامعاویہ بن ابوسفیان کی طرف سے مدینے کا حاکم تھا،ابونعیم اور ابوموسیٰ نے مختصراً اورابوعمرنے تفصیلاً ان کا ذکرکیاہے۔