ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبدمناف قرشی،عبشمی،ان کی والدہ فاطمہ دختر صفوان بن امیہ بن محرث تھیں،ابوحذیفہ سابقین اولین سے ہیں،حبشہ اور
مدینے کو ہجرت کی۔
ابوجعفر بہ اسنادہ یونس سے،انہوں نے ابن اسحاق سے بہ سلسلہ مہاجرین حبش ابوحذیفہ بن عتبہ کا نام لیا ہے جنگ یمامہ میں شہید ہوئے،ان کی بیوی سہلہ دختر سہیل
بن عمروحبشہ میں ان کے ساتھ تھیں،وہاں ان کا بیٹا محمد بن ابوحذیفہ پیداہوا،یہ لاولد رہے۔
اور اسی اسناد سے بہ سلسلہ شرکائے بدرابوحذیفہ کا نام ابن اسحاق نے تحریر کیا ہے،ابوحذیفہ فضلائے صحابہ سے تھے،جو شرف و فضل کے حامل تھے،اور حضورِاکرم صلی
اللہ علیہ وسلّم پر دارارقم سے پہلے ایمان لاچکے تھے۔
انہوں نے حبشہ کو ہجرت کی ،اور وہاں سے واپس آگئے اور ہجرت مدینہ تک حضورِاکرم کی صحبت میں رہےمدینے کو ہجرت کی،تو آپ نے عبادبن بشر انصاری کے ساتھ ان کی
مواخات قائم کردی، تمام غزوات میں شرکت کی اور جنگ یمامہ میں شہید ہوئے،ان کی ترپن یا چوّن برس تھی،ان کا نام مہشم،ہشیم یاہاشم تھا۔
ابوحذیفہ طویل القامت،خوش چہرہ،بھینگے اور عمررسیدہ تھے،جب غزوۂ بدر میں انہیں مقابلے کے لئے بُلایاگیا،اور حضورِاکرم نے انہیں منع کردیا،تو ان کی ہمشیرہ
ہندہ نے ان کے خلاف ذیل کے دوشعر کہے۔
فماشکرت ابارباک من صغر حتیٰ ثبیت شباباً غیر محجون
(ترجمہ)تونے اپنے باپ کا جس نے تجھے بچپن سے پالا،تاآنکہ تو ایک تندرست اورتواناجوان بن گیا، شکرادانہیں کیا۔
الاحول الا تعل المثوم طائرہ ابوحذیفۃ شرالناس فی الدین
(ترجمہ)ابوحذیفہ،بھینگا،کھوسٹ،بدبخت اور دین اسلام میں بدترین انسان ہے۔
یہ ان کی ہمشیرہ کی بےجازبان درازی ہے،ورنہ وہ خیرالناس فی الدین تھے،رضی اللہ عنہ،ابوحذیفہ سالم کے مولی تھے،جنہیں ان کی بیوی سہلا نے دودھ پلایا تھا،خود
سالم بھی اچھے مسلمان شمار ہوتے تھے۔
ابوجعفر نے باسنادہ ابنِ اسحاق سے ،انہوں نے یزید بن رومان سے،انہوں نے عروہ بن زبیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی،کہ جب حضور اکرم کے
حکم سے غزوۂ بدر میں مقتول مشرکین کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پھینکی گئیں،اور آپ کنوئیں کے دہانے پر تشریف فرماہوئے،توآپ نے عتبہ،شیبہ،امیہ،ابوجہل وغیرہ
کا نام لے لیکر مخاطب فرمایا،اے سرداران قریش،تم سے خدانے جووعدہ فرمایاتھا،وہ پوراہواہےیانہ،ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا گیا تھا،تووہ پورا ہوگیا ہے،ابن ِاسحاق
سے منقول ہے،جب حضورِاکرم نےیہ الفاظ فرمائے،تو آپ نے جناب ابوحذیفہ کو دیکھا،کہ ذہنی پریشانی سے ان کے چہرےکارنگ پھیکا پڑگیاہے،فرمایا،ابوحذیفہ!غالباً تم
اپنے والد کی اس حالت سے افسردہ ہوگئے ہو،انہوں نے عرض کیا،یارسول اللہ!میرے دل میں اپنے والد کے بارے میں اور اسے کے قتل کے بارے میں کوئی پریشانی
یاافسردگی پیدا نہیں ہوئی، میں اسے صائب الرائے،بردبار اور سلجھاہوا آدمی سمجھتا تھااور مجھے قوی امید تھی،کہ اس کے یہ اوصاف اسے اسلام کے قریب تر لے آئیں
گے،جب میں نے اس کے انجام کو دیکھا کہ اس کی موت کفر پر ہوئی ہے،اورمیری آرزو اور خواہش پوری نہیں ہوئی،تومجھے اس کا رنج ہوا،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے سناتوان کے لئے دعائے خیر فرمائی،تینوں نے ان کا ذکر کیاہے۔