ابوخراش ہذلی رضی اللہ عنہ
ابوخراش ہذلی رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوخراش ہذلی،شاعر تھےاور ان کا نام خویلد بن مرہ بن عمروبن معاویہ بن تمیم بن سعد بن ہذیل ہے،اتنے تیزرفتار تھے کہ دوڑ میں گھوڑے سے آگے نکل جاتے تھے،زمانۂ جاہلیت میں عرب کے بہادروں میں شمار ہوتے تھے،اسلام قبول کیا،تو نہایت اچھے آدمی ثابت ہوئے۔
جمیل بن معمر الجمحی نے ان کے بھائی زہیر کو جن کاعرف عجوہ تھا،اور اسلام لاچکے تھے،فتح مکہ کے موقع پر قتل کردیا گیاتھا،اور جمیل ابھی کافر تھا،اور ایک روایت میں ہے کہ زہیر ان کے عمزاد تھے، ابن ہشام کا قول ہے،کہ زہیر جنگ حنین کے موقعہ پر قیدی بنالئے گئے تھے اور ان کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھ دیئے گئے تھے،جمیل نے جو اسلام لا چکے تھے،اور ابو خراش نے ان کا مرثیہ کہا،ابوعبیدہ کا قول بھی یہی ہے،اور پہلا قول محمد بن یزید کا ہے۔
ابوخراش کہتاہے۔
۱۔قفجع اضیافی جمیل بن معمر ھذی فخرتاوی الیہ الارامل
(ترجمہ)جمیل بن معمر نے میرے مہمانوں کومغموم کردیا،میرابھائی معززتھا،اور بیوہ عورتوں کی پناہ تھا۔
۲۔طویل نجادالسیف لیس اذااھتزوااسترخت علیہ الحمائل
(ترجمہ)اس کی تلوار کی پیٹی لمبی تھی،وہ کوتاہ قامت نہیں تھا،جب وہ جھوم کر چلتا،تو تلوار کی پیٹی ڈھیلی ہوجاتی۔
۳۔الیٰ بیتہ یاوی الغریب اذاشتا ومھتلک باتی الدریسین عائل
(ترجمہ)جب قحط پڑتا تو غریب اس کے پاس پناہ لیتے وہ مال خرچ کرنے والا،پرانے کپڑے پہننے والا اور دوسروں کابوجھ اٹھاتاتھا۔
۴۔تکادیداہ تسلمان ردائہٗ من الجود لما استقبلتہ الشمائل
(ترجمہ)جب قحط کی ہوائیں چلتیں تو بوجہ سخاوت اس کی چادر اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی۔
۵۔فاقسم لولا قبتہ غیر موثق لابک بالجوع الضباع النواھل
(ترجمہ)بخدااگرتواسے اس وقت ملتا،جب وہ آزادہوتا،توبھوکے بجوتمہیں کھانے کو آتے۔
۶۔وانّک لوواجھتہ وتقیتہٗ ونا زلتہ اوکنت ممن ینازل
(ترجمہ)اگرتواس کے سامنے آتا اور اس سے ملتا اور اسے جنگ کے لئے للکارتایا اگرتو جنگ کرنے والاہوتا۔
۷۔لکنت جمیلا اسوء الناس صرعۃ ولکن اقران الظھور مقاتل
(ترجمہ)تواے جمیل،تواس بُری طرح پچھاڑاجاتا،مگر وہ سواری کے مقابل ہی لڑنے والے ہوتے ہیں۔
مندرجہ ذیل اشعار انہوں نے اپنے بھائی عروہ بن مروہ کے مرثیے میں کہے ہیں ان کا شمار ان کے عمدہ اشعار میں کیا جاتا ہے۔
۱۔تقول اراہ بعد عروہ لاھیا وذالک رزوٌ ماعلمت جلیل
(ترجمہ)تم کہتی ہو،کہ عروہ کی موت کے بعد میں کھیل کود میں مصروف ہوگیاہوں اور میں نے اس مصیبت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
۲۔فلاتحاسبنی انی تنابیت عھدہٗ ولکن صبری یا امیم جمیل
(ترجمہ)اے امیمہ!یہ خیال نہ کرو کہ میں اس کے وعدے کوبُھول گیاہوں یااس زمانے کو بُھول گیا ہوں،جوعروہ کے ساتھ بسر کیا تھا،لیکن بات یہ ہے کہ میں صبر جمیل کی دولت سے مالامال ہوں۔
۳۔ الم تعلمی ان قد تفرق قبلنا خلیلا صفاءٍ مالک وعقیل
(ترجمہ)کیاتمہیں علم نہیں،کہ اس سے پیشتر بھی ہم سے دو مخلص دوست،مالک اورعقیل جُدا ہوگئے ہیں۔
ابوعمر کہتے ہیں،ابوخراش نے بھی اس کے مرثیے میں بعض عمدہ اشعار کہے ہیں۔
۱۔حمدت الٰہی بعد عروۃ اذنجا خراش وبعض اثمِ اھون من بعض
(ترجمہ)جب عروہ کے بعد خراش بچ نکلا،تو میں نے خداکاشکر ادا کیا،کیونکہ بعض مصائب دوسروں کے مقابلے میں آسان ہوتے ہیں۔
۲۔علی انّھا تدی الکلوم وانّما توکل بالادنی و ان جل مایمضی
(ترجمہ)اگرچہ تمام زخموں سے خون بہنے لگ جاتا ہے،لیکن ہمارا غم قریب تریں واقعہ سے ہوتا ہے، خواہ اس سے پہلے ایک بڑے زخم سے ہمیں پالا پڑچکاہو۔
۳۔فواللہ ما انسی فتیلا زرئۃ بجانب قومی مامشیت علی الارض
(ترجمہ)بخداجب تک میں زمین پر چلتا رہوں گا،میں اس مقتول کو نہیں بھولوں گا،جسے تو نے میرےقبیلے کے قرب و جوار میں پچھاڑدیا تھا۔
۴۔ولم ادر من القی علیہ رداءہ علی انَّہ قد سلّ من ماجد محض
(ترجمہ)نہ معلوم کس شخص نے اپنی چادر اس پر ڈال دی تھی،بلاشُبہ وہ کوئی اچھا اور معززآدمی ہوگا۔
ابوعمرکہتے ہیں،غزوۂ حنین وطائف کے بعد،کوئی ایسا عرب نہیں رہ گیاتھا،جواسلام نہ لایاہو،ان میں کچھ تو حضورِ اکرم کی خدمت میں حاضر ہوگئے،اورکچھ حاضری سے محروم رہے،چنانچہ انہوں نے دینی تعلیم کے اسی حصے پرقناعت کرلی تھی،جو اہلِ وفد دربارِ رسالت میں حاضر ہو کر سیکھ سکے تھے، ابوخراش بھی مسلمان ہو گئے،اور بڑھ چڑھ کر اسلام کی خدمت کی،انہوں نے حضرت عمر کے عہدِ خلافت میں وفات پائی۔
ان کی وفات یوں واقع ہوئی،کہ یمن کے کچھ لوگ حج کرنے جارہے تھے،ان کے مہمان ہوئے،وُہ ان کے لئے پانی لینے گئے،تاکہ انہیں کھلائیں،پلائیں اور ان کے لئے کچھ پکانے کا بندوبست کریں، اس دوران میں انہیں سانپ نے ڈس لیا،وہ جلدی جلدی واپس لوٹے،پانی ،بکر ی کا گوشت اور برتن ان کے حوالے کیئے کہ پکاؤ ،اور کھاؤ،اور جومصیبت انہیں پیش آئی تھی،مہمانوں کو اس کے بارے میں کچھ نہ بتایا،رات گزرگئی،جب صبح ہوئی تو مہمانوں نے دیکھا،کہ ابوخراش فوت ہوچکے تھے، چنانچہ وہ اس وقت تک ٹھہرے رہے،جب تک ان کی تدفین و تکفین سے فراغت نہ ہوگئی۔
ابوعمر نے ان کا ذکر کیا ہےلیکن دربار رسالت میں ان کی حاضری کا ذکر نہیں کیا،البتہ انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے،کیونکہ وہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں مسلمان ہوگئے تھے،اس لئے تو انہوں نے لکھاہے کہ حنین اور طائف کے غزوات کے بعد تمام عرب مسلمان ہوگئے تھے، بعض علماء کا قول ہے کہ فرد بن معاویہ،جس کے متعلق عربی زبان میں ایک ضرب المثل مشہور ہے، ازنی من فرد،ابوخراش کی نسل سے تھا۔