ابولبابہ رفاعہ بن عبدالمنذربروایت ابنِ اسحاق،احمد بن حنبل اورابنِ معین،بقول موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ
ابولبابہ رفاعہ بن عبدالمنذربروایت ابنِ اسحاق،احمد بن حنبل اورابنِ معین،بقول موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابولبابہ رفاعہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذربروایت ابنِ اسحاق،احمد بن حنبل اورابنِ معین،بقول موسیٰ بن عقبہ،ابنِ ہشام اورخلیفہ ان کا نام بشیرتھا،رفاعہ کے ترجمے میں ہم ان کا نام لکھ آئے ہیں، اوریہ اپنے قبیلے کے نقیب تھے،بیعت عقبہ میں موجودتھے،غزوۂ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسم نے انہیں اپناجانشین بناکرمدینے واپس کردیااورمالِ غنیمت سے انہیں حصہ عطافرمایا۔
ابوجعفرنے باسنادہ یونس سے ،انہوں نےابنِ اسحاق سے،بنواوس سے شرکائے بیعت عقبہ،رفاعہ بن عبدالمنذربن زبیربن زیدبن اُمیہ بن مالک بن عوف بن عمروبن مالک بن اوس کا ذکرکیاہے،ابولبابہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدرمیں موجودتھے،لیکن حضورنے انہیں اپناجانشین بناکرواپس کردیاتھااورابن ِاسحاق کی روایت کے مطابق،مہاجرین اورانصارکی ایک جماعت تھی، جوبدرمیں شریک نہ ہوسکی تھی،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مالِ غنیمت میں سے ان کا حصہ عطافرمادیاتھا،ابولبابہ بن عبدالمنذر بھی ان میں شامل تھے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینے کی نگرانی کے لیے واپس فرمادیاتھا،یہی صورتِ حال غزوۂ سویق میں پیش آئی تھی،وہ غزوہ احداورباقی تمام غزوات میں شریکِ جہاد رہے،اورفتح مکہ میں بنوعمروبن عوف کاعلم ان کے پاس تھا۔
ابولبابہ نے خودکومسجدکے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیاتھا،چنانچہ حوائج ضروریہ کے لیے ان کی بیٹی انہیں کھول دیتی،اسی طرح سات آٹھ دن بندھے رہے،اس کی وجہ یہ تھی کے جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کاجوبنواوس کے حلیف تھے،محاصرہ کیا،تو انہوں نے اس باب میں ابولبابہ سے مشورہ کیا،انہوں نے کہاکہ اگرتم ہتھیار ڈال دوگے ،توموت کے لیے تیارہوجاؤ،یہ بشری لغزش تھی جوان سےسرزدہوگئی،معاً انہیں خیال آیا کہ وہ دانستہ طورپراللہ اوررسول سے خیانت کر بیٹھے ہیں،اس لیے انہوں نے اپنے آپ کو مسجدنبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔
ایک روایت میں ہےکہ انہوں نے خودکوستون مسجدسے اس لیے باندھ لیاتھاکہ وہ غزوۂ تبوک میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ نہ دے سکے تھے،انہوں نے قسم کھائی تھی کہ جب تک ان کی توبہ قبول نہ ہوگی،وہ کچھ نہ کھائیں گے نہ پئیں گےچنانچہ ضعف کی وجہ سےوہ اتنے کمزورہوگئے، کہ ان پر غشی طاری ہوگئی،سات دن کے بعدان کی توبہ قبول ہوئی،توانہوں نے التجاکی کہ آپ ازراہ نوازش بہ نفس نفیس اپنی آزادفرمائیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کی رسیاں کھولیں توانہوں نے کہا،یارسول اللہ،میں نے عہدکیاتھا،کہ اگرمیری توبہ قبول ہوگئی تو میں اسی گھر سے جس میں مجھ سے یہ گناہ سرزدہواہے،علیحدہ ہوجاؤں گااوراپناتمام مال و متاع اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں گا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اے ابولبابہ! تجھے تیرے حصے کی اجازت ہے۔
عبداللہ بن عباس سے" وآخرون اعترفوابذنوبھم،خلطواعملاًصالحاوآخر سیٔا"، اس آیت کےنزول کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے،کہ ابولبابہ کے علاوہ سات آٹھ یانواورصحابی بھی غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرسکے تھے،ندامت اورپشیمانی کی وجہ سےانہوں نے خودکومسجدکے ستونوں سے باندھ دیاتھا،ندامت اور توبہ کوعمل صالح،اورغزوہ میں عدم شمولیت کوعمل سیئ سے تعبیر کیاگیاہے۔
حسن بن محمودبن ہبتہ اللہ شافعی دمشقی نے ابوالعشائرمحمدبن خلیل بن فارس سے ابوالقاسم علی بن محمد بن علی بن ابوالعلاء سے،انہوں نے ابومحمدعبدالرحمٰن بن عثمان بن القاسم المعروف بابن ابی نصر سے،انہوں نے ابواسحاق ابراہیم بن محمدبن ابوثابت سے،انہوں نے ابوعبداللہ محمدبن حمادظہرانی سے،انہوں نے سہل بن عبدالرحمٰن ابوالہثیم رازی سے،انہوں نے عبداللہ بن عبداللہ مدنی ابواویس سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن حرملہ سےانہوں نے سعید بن میپ سے،انہوں نے ابولبابہ بن عبدالمنذرانصاری سےروایت کی،کہ ایک بارحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقا پڑھی،ابولبابہ نے عرض کی،یارسول اللہ،کھجوریں کھلیانوں میں خشک کرنے کے لیے پھیلائی ہوئی ہیں ،آسمان میں کہیں بھی بادل کا کوئی ٹکڑاموجود نہ تھاحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ بارش کے لیے دُعافرمائی،آخری دفعہ فرمایا،اے اللہ تواتنی بارش فرماکہ ابولبابہ کو اپنے کپڑے اتارکراپنے کھلیان کاسوراخ اپنی دھوتی سے بند کرناپڑے،آسمان نے برسناشروع کیااوراس زورکی بارش ہوئی کہ لوگ ابولبابہ کے گرد جمع ہوگئےاوران سے کہاکہ جب تک وہ ننگے ہوکراپنے کھلیان کی نالی دھوتی سے بندنہیں کریں گے،بارش نہیں رُکے گی کیوں کہ آپ نے اپنی دُعا میں یہی فرمایاتھا،چنانچہ ابولبابہ نے کپڑے اتارکراپنی دھوتی سے نالی کو بندکیا،توبارش رُک گئی،ان کی وفات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوئی،ابونعیم ،ابوعمراورابوموسیٰ نے ان کا ذکرکیاہے۔