ابومحذورہ موذن،ان کے نام کے بارےمیں اختلاف ہے،کسی نےسمرہ بن معیر،کسی نے اوس بن معیراورکسی نےمعیربن محیریرلکھاہے،ہم ان کانسب اوس اورسمرہ کے ترجمے میں
لکھ آئے ہیں، ابویقطان کے مطابق ان کابھائی اوس بن معیرغزوۂ بدرمیں بحالتِ کفرماراگیاتھا،اورابومحذورہ کانام سلمان یاسمرہ تھا،ابوعمرلکھتے ہیں،بعض لوگوں
نے ان کا نام مُعیّن تحریرکیاہےطبری لکھتے ہیں کہ ابومحذورہ کاایک بھائی تھاجس کانام انیس تھا،جوبدرمیں بحالتِ کفرقتل ہوا،محمدبن سعدکہتے ہیں،میں نے
ابومحذورہ کانسب ایک آدمی سے بطریق ذیل سُنا،سمرہ بن معیربن لوذان بن ربیعہ بن عریج بن سعد بن جمح،اوران کے بھائی کانام اویس تھابخاری اورابنِ معین کے
مطابق ان کا نام سمرہ بن معیرتھا، اوربقول کلبی ان کا نام اوس بن معیربن لوذان بن سعد بن جمح تھا،اورزبیرلکھتےہیں،کہ عریج لوذان اورربیعہ بنوسعدبن جمح کے
بھائی تھے،جواس کےخلاف کہتےہیں،وہ غلطی پرہیں،نیزیہ کہ ان کا بھائی انیس بن معیربحالتِ کفرغزوۂ بدرمیں ماراگیاتھا،اوران کی ماں بنوخزاعہ سے تھی،اوران کی
نسل ختم ہوگئی تھی۔
ابوعمرلکھتے ہیں کہ زبیر،ان کا چچا مصعب،ابن اسحاق اورمسیبی اس پرمتفق ہیں،کہ ابومحذورہ کانام اوس تھا،اوریہ لوگ انساب قریش کےماہرین سے ہیں،اورجس نے ان
کانام سلمہ کہاہے،وہ غلطی پرہیں اورابومحذورہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے،حضورِاکرم نے انہیں اذان دیتے سنا،ان کی آوازآپ کوپسندآئی،آپ نے
بُلایا،انہوں نے اسلام قبول کرلیا،اوریہ خدمت ان کے ذمہ لگادی گئی اورمکے میں وہ عرصے تک اذان دیتے رہے،ان کےبعدان کے چچازادبھائی ابن محیریز نے یہ خدمت
سنبھال لی،ان کےبعدان کابیٹاموذن بنا،پھریہ خدمت ربیعہ بن سعدبن جمح کے سپرد ہوئی،ابومحذورہ بہت خوش آوازتھے،حضرت عمرنے انہیں اذان دیتےسُنا،توکہنے لگےمیں
یہ سمجھا،قریب ہے کہ تمہاری باچھیں پھٹ جائیں۔
ابواسحاق بن محمدالفقیہہ وغیرہ نے باسنادہم تاابوعیسیٰ ترمذی،بشربن معاذسے،انہوں نے ابراہیم بن عبدالعزیزبن عبدالملک بن ابومحذورہ سے،انہوں نے اپنے
والداورداداسے،انہوں نے ابومحذورہ سے سنا،کہ حضورِ اکرم نےانہیں پاس بٹھاکرحرف بحرف اذان سکھائی،بشرنےان سے کہا،میرے سامنے اذان دہرائیے،انہوں نے ہماری اذان
کے ہرکلمے کودودودفعہ دہرایا۔
ابومحذورہ نے مکے میں ۵۷ سال ہجری یا۷۹ سال ہجری میں وفات پائی،وہ مدت العمر مکے میں سکونت پذیررہے،اورہجرت نہ کی،ان سے مروی ہے کہ آپ نےاپناہاتھ ان
کےسرپراور سینےپر ناف تک پھیرا،اورمکے میں اذان کہنے کی اجازت دی،پھرعتاب بن اسید حاکم مکہ ہوکر آئےاور ابو محذورہ ان کے عہدمیں بھی اذان دیتے رہےابونعیم
ابوعمراورابوموسیٰ نے ان کا ذکرکیاہے۔