ابومسلم خولانی عابد،انہوں نے زمانہ جاہلیت پایا،حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے اسلام قبول کیا،لیکن زیارت سے محروم رہے اورمدینے میں اس وقت
آئے،جب حضورِ اکرم کا وصال ہوچکاتھا،اورحضرت ابوبکرخلیفہ بن گئے تھے،ان کا شمار کبارتابعین میں ہوتاہے،شامی تھے، اورنام عبداللہ بن ثوب تھا،ایک روایت میں
عبداللہ بن عوف آیاہے،لیکن اول الذکر زیادہ مشہور ہے، یہ صاحب بڑے پارسا،عبادت گزار،عالم فاضل اور صاحبِ کرامت بزرگ تھے،ان سے ابوادریس خولانی وغیرہ
نےجوتابعین شام سے تھے،روایت کی۔
اسماعیل بن عیاش نے شرجیل بن مسلم خولانی سے روایت بیان کی،کہ اسود غسی نے یمن پرحملہ کرکے قبضہ کرلیا،ابومسلم خولانی کوبلوایا،اورکہا،کیاتم میری نبوت کی
شہادت دیتے ہو،انہوں نے جواب دیا،مجھے تمہاری بات سنائی نہیں دیتی،پھراس نے پوچھا،کیاتم محمد کی نبوّ ت کے قائل ہو، انہوں نے کہاہاں،اس پراس نے اپنے پہلے
سوال کوبارہادہرایا،جس کاجواب ابومسلم نے وہی دیا، جو پہلی باردیاتھا،اسود نے حکم دیا،کہ چتاجلائی جائےاورانہیں اس میں پھینک دیا جائے،لیکن آگ میں انہیں
کوئی تکلیف نہ پہنچی،اسودکومشورہ دیاگیا کہ اسے اپنے پاس سے دُوربھگادے،ورنہ تیرے پیرو کاروں میں بددلی پیداہوگی،چنانچہ انہیں وہاں سے نکل جانے کا حکم ملا۔
ابومسلم مدینے آگئے،مگرحضورِاکرم فوت ہوچکے تھے،اورابوبکر کا عہد خلافت تھا،مسجدنبوی کے سامنے انہوں نے اونٹ کوبٹھایااورمسجد میں داخل ہوکرایک ستون کے ساتھ
قیام کیااورنمازادا کی، حضرت عمرنے انہیں دیکھاتودریافت کیا،کہ کہاں سے آئے ہو،انہوں نے یمن کانام لیا،حضرت عمر نے دریافت کیا،اس آدمی کاکیابناجسے ایک
کذاب نے آگ میں ڈالاتھا،انہوں نے کہا،اس آدمی کا نام عبداللہ بن ثوب تھا،پوچھا،وہ تمہی تو نہیں ہو،کہا،ہاں میں ہی ہوں،حضرت عمرنے انہیں گلے سے
لگالیا،اوررونے لگ گئے،پھروہ انہیں حضرت ابوبکرکے پاس لے گئے،انہوں نے کہا،خداکاشکرہے کہ میں زندہ ہوں اورامتِ محمدیہ میں اس شخص کو دیکھ رہاہوں،جسے وہ
ابتلاپیش آیا جو حضرت ابراہیم کو پیش آیاتھا۔
اسماعیل بن عیاش سے مروی ہے کہ انہوں نے جوخولان کے ایک آدمی کوجویمن کے آبادکاروں میں سے تھا،بنوعنس کے آبادکاروں سے کہتے سنا،کہ تمہارے جھوٹے ساتھی نے
ہمارے ایک ساتھی کوآگ میں ڈالا،جس سے اسے کوضررنہ پہنچا۔
ابوعمرکہتے ہیں،اس حدیث کاپہلا حصہ عبداللہ بن زید کے بھائی حبیب بن زیدبن عاصم انصاری کے بارے میں مشہورہے۔جوانہیں مسیلمہ کذاب کے ساتھ پیش آیا،جس نے
انہیں قتل کرادیاتھا،اور ان کے تمام اعضا ایک ایک کرکے کاٹ دیئے گئے تھے،اوراس کا آخری حِصہ بنوخولان کے ایک آدمی کے بارے میں ہےجسے اسودعنسی نے یمن میں
جلادیاتھااوران کا نام ذویب بن وہیب تھا،اوراسماعیل بن عیاش کی حدیث غیرشامیوں کے لئے حجت نہیں بن سکتی،ہاں البتہ شامیوں سے مروی ان کی حدیث میں مضائقہ
نہیں،ابوعمرنے ان کا ذکرکیاہے۔