ابورمداء،اورایک روایت میں ابوالربداء البلوی ہے،جو اس قبیلے کے آزاد کردہ غلام تھے،اکثر اہلِ حدیث انہیں رمداء لکھتے ہیں،اور اہلِ مِصر ربداء لکھتے
ہیں،ابن غفیر نے ابوالربداء لکھاہے،اور انہیں اس خاندان کی ایک عورت (جس کانام ربداءدختر عمروبن عمارہ بن عطیتہ البلوی تھا)کاغلام بتایا ہے، ان سے مروی ہے
کہ وہ بکریاں چراتے تھے کہ حضور ان کے پاس سے گزرے،اس ریوڑ میں ان کی بھی دوبکریاں تھیں،حضورِاکرم نے ان سے پانی طلب کیا،انہوں نے آپ کے لئے دو بکریوں کا
دودھ دوہا،پھر دم لیا،اوردونوں بکریوں کے تھنوں میں دُودھ پھربھرگیا،انہوں نے اس کا اپنی مالکہ سےذکرکیا ،اس نے انہیں آزادکردیا،اورانہوں نے اپنی کنیت
ابوالربداء رکھ لی۔
اور ابن وہب نے ان کی حدیث ابن لہیعہ سے،انہوں نے ابوسلیمان مولی ام سلمی سے،انہوں نے ابوالرمداء البلوی سے روایت کی،کہ ایک شرابی کو حضورِاکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس لائے، آپ نے حدلگانے کا حکم دیا،اس آدمی کو اسی جُرم میں تین چاردفعہ سزادی گئی،آخری موقعہ پر حضورِ اکرم نے حکم دیاکہ اسے بچھڑے پر
چڑھایاجائے۔ابوحاتم کہتے ہیں کہ عجل سے مراد گائے کی کھال پر لٹاناہے،پہلے زمانے میں بعض خطرناک مجرموں کوگائے کے رنگ کئے ہوئے چمڑے پر لٹاکر گردن کاٹ دیتے
تھے،(اس بناء پر یہ حدیث مخدوش ہے،کیونکہ شرابی کو یہ سزاکیسے دی جاسکتی ہے)،مترجم۔