ابوثروان تمیمی راعی رضی اللہ عنہ
ابوثروان تمیمی راعی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوئے،ان کا بیان ہے،کہ وہ بنوعمروبن تمیم کے اونٹ چراتے تھے،کہ حضوراکرم
صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے بھاگ کر آئے اور اونٹوں میں چُھپ گئے،حضور کو دیکھ کر اونٹ بدک گئے،میں نے آپ سے پوچھا، تم کون ہو کہ میرے اونٹ بدک گئے
ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم سے رفاقت کا خواہشمندہوں میں نے پھراپنا سوال دہرایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اگرتم مجھ سے نہ پوچھو،
توتمہاراکیا بگڑتا ہے،میں نے کہا،تم وہ آدمی تو نہیں ہو جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ہا ں درست ہےاور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے مجھے اسلام کی دعوت دی، میں نے کہا،بھاگو یہاں سے ،خداان اونٹوں کو مبارک نہ کرے جن میں تم پناہ لو،اس پر آپ نے ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا،اے
خدا!تواس شخص کی بدبختی اور زندگی میں اضافہ فرما،یہ شخص طویل عرصے تک زندہ رہا،اور اپنی موت کی دعامانگتارہا،لوگ اسے کہتے،اے ابوثروان،حضورِ اکرم نے تمہیں
بددعا دی ہے،تم اس مصیبت سے شاید ہی چھٹکاراپاسکو،وہ جواب میں کہتے،نہیں،میں بعد میں مسلمان ہوگیا تھا، حضورِاکرم نے مجھے معاف فرمادیاتھا،اور دعائے خیر
فرمائی تھی،لیکن آپ کی پہلی دعا پہلے مقبول ہوگئی،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔
نوٹ۔حیف ہے کہ علامہ ابنِ اثیر نے اس حدیث کو کیسے اس مجموعے میں جگہ دی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش کے ڈرسے بھاگنا اور پھر ابوثروہ کو اس حیرت
انگیز بد دعاسے نوازنا،ایجاد بندہ ہے،دونوں باتیں آپ کی شان کے خلاف ہیں،مترجم۔