ابوشریح خزاعی کعبی،ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے،ایک روایت میں خویلد بن عمرو،ایک میں عمروبن عمرو،ایک میں کعب بن عمرو اور ایک میں ہانی بن عمروہے،فتح
مکہ سے پیشتر ایمان لائے، بنوکعب بن خزاعہ کا ایک علم فتح مکہ میں ان کے پاست تھا،ہم باب حاء میں ان کا ذکر کرآئے ہیں، ابو شریح اپنے عہد کے عقل مندوں میں
شمارہوتے تھے وہ کہاکرتے،کہ جب تمہارے کانوں میں یہ بات پہنچے کہ میں نے نکاح کرلیا،یامیں نے سلطان سے نکاح کی درخواست کی ہے،توجان لو کہ میں پاگل
ہوگیاہوں،اسی طرح اگر کسی کو میراگھی،دُودھ یا برۂ آہو مل جائے،تومیری طرف سے اسے کھانے پینےکی اجازت ہے۔
کئی آدمیوں نے باسنادہم تا ابوعیسیٰ ترمذی قتیبہ سے،انہوں نے لیث بن سعد سے،انہوں نے سعید بن ابوسعیدسے،انہوں نے ابوشریح عدوی سے روایت کی،کہ انہوں نے
عمروبن سعیدسے،جو بعوث(معدی کرب کا گھوڑا)کومکے روانہ کررہے تھے،کہا،اے امیر! مجھے اجازت دیجئے،تاکہ میں آپ کو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاوہ خطبہ
سناؤں،جوآپ نے فتح مکہ کے دن ارشادفرمایاتھا، اورجومیں نے اپنے کانوں سے سُنا،آنکھوں سے دیکھااوردل میں محفوظ کرلیاتھا،حضورِاکرم نے اللہ کی حمدوثناء کے
بعدفرمایا،کہ مکے کو اللہ نے عزت عطافرمائی ہے،یہ عزت انسانوں کی دی ہوئی نہیں اورجو شخص اللہ اوررسول پرایمان رکھتاہے،وہ میرے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنا
چاہتا اسے چاہئیے کہ اس(کعبہ) کی حدود میں خونریزی نہ کرے،اوردرخت نہ کاٹے اور اگرکوئی شخص میرے حملے کو جواز بنائے تو اسے کہو،کہ مجھے تو خدانے اجازت دی
ہے،اورتمہیں نہیں دی،اورمجھے بھی آج کے تھوڑے وقت کے لئے دی گئی تھی اور اب اسے وہ حرمت واپس مل گئی ہے،جو کل تک اسے حاصل تھی،مزید حضور ِاکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا،کہ حاضرین کا فرض ہے کہ میری یہ ہدایت غائبین تک پہنچائیں،ابوشریح سے پوچھاگیا،کہ عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا،انہوں نے کہاکہ میں تم
سے اس معاملے کے متعلق زیادہ جانتاہوں،کہ حرم کعبہ کسی گناہ گار کو پناہ نہیں دیتا اور نہ قاتل کواورنہ جزیے میں خیانت کرنے والوں کو اورابوشریح ۶۸ ہجری میں
فوت ہوئے،ابونعیم ، ابوعمر اور ابوموسٰی نے ان کاذکرکیاہے۔