ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ
ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف قرشی ہاشمی،حضورِاکرم کے ابنِ عم اوررضاعی بھائی تھے،دونوں نے حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیاتھا،ان کی والدہ کا نام غزنہ دخترقیس بن ظریف تھا،جوفہر بن مالک کی نسل سے تھے،اکثرکی رائے ہے،کہ ابراہیم بن منذر،ہشام بن کلبی اور زبیر بن بکارانہی کے اسلاف ہیں۔
ابوسفیان کا نام مغیرہ تھا،بعض لوگوں کاخیال ہے،کہ ان کی کنیت ہی ان کا نام تھی،اور مغیرہ ان کا بھائی تھا،جوشکل وشباہت میں حضورِاکرم سے ملتے جلتے تھےوہ جعفربن ابوطالب،حسن بن علی،فثم بن عباس کے علاوہ ابوسفیان بھی تھے،ابوسفیان خوشگوشاعروں میں تھے،حضورِاکرم کی ہجوکے جواب میں حسان بن ثابت نے ذیل کے دوشعرکہے تھے۔
۱۔الا ابلغ اباسفیان عنی مغلغلہ فقدبرح الخفاء
ترجمہ۔ابوسفیان کومیری طرف سے یہ بات پہنچادو،جوشہربہ شہر میں پھیلتی جائیگی کہ چھپی باتیں واضح ہوچکی ہیں۔
۲۔ہجوت محمداً واجبت عنہ وعنداللہ فی ذاک الجزاء
ترجمہ۔تونے رسولِ کریم کی ہجوکی ہےاورمیں انکی طرف سے جواب دے رہاہوں اور اس کا بدلہ خداکی طرف سے ملیگا۔
بعد میں ابوسفیان مسلمان ہوگئے اور اسلام کی عمدہ خدمت کی۔
ابوجعفر نے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے زہری سے،انہوں نے عبیدبن عبداللہ بن عتبہ سے،انہوں نے ابن عباس سے روایت کی کہ ابوسفیان بن حارث،عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ،مکہ اورمدینہ کے درمیان ثینتہ العقب کے مقام پر حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم ملے اور آپ سے ملاقات کی خواہش کی،چنانچہ ام سلمہ (ام المومنین) نے حضورِاکرم سے درخواست کی،یارسول اللہ!آپ کا عمزاد،عمہ زاد اورخُسر ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں،حضوراکرم نے فرمایا، مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں،عمزاد،ہتک عزت کا مرتکب ہوا،رہادوسرا،اس کا بیٹابھی تھا،اس نے کہاخداکی قسم!حضورِاکرم کو ہمیں ملاقات کی اجازت دیناہوگی،ورنہ اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑکر نکل کھڑاہوں گا،تاآنکہ بھوک اورپیاس سے مرجائیں گے،رسولِ کریم کو جب اس کا علم ہواتو،آپ کو رحم آگیا،اور ملاقات کی اجازت دے دی(میرے خیال میں یہ حدیث اس لئے مشکود ہے کہ حضورِ اکرم کی شانِ رحیمی کے خلاف ہے،کہ آپ ملاقات سے انکارفرمادیں،مترجم)ابوسفیان نے معذرت میں ذیل کے اشعار پیش کئے۔
۱۔لعمرک انی یوم احمل رایۃ لتغلب خیل اللات خیل محمد
ترجمہ۔بخداوہ دن بھی تھے جب میں نے لات کے لشکر کے خلاف کامیاب کرانے کے لئے علم بلند کیا تھا۔
۲۔لکا المظلم الحیران اظلم لیلہ فھذا اوانی حین اھدی فاھتدی
ترجمہ۔میں اس وقت اندہیرے میں پھنسے ہوئے،حیران آدمی کی طرح تھا،اب جب خدانے مجھے ہدایت دی ہے،میں سیدھے راستے پر چل رہاہوں۔
۳۔ھدانی ھاد غیر نفسی ودلنی علی اللہ من طردتہ کل مطرد
ترجمہ۔ایک ہدایت کارنے مجھے سیدھاراستہ دکھایا،اورمیری ذلت کو بدل دیا،اوراس نے خداکی طرف میری راہ نمائی کی،جسے میں بلکل مطرودکرچکاتھا۔
۴۔اصدوانا ءی جاھداعن محمد وادعی وان لم انتسب من محمد
ترجمہ۔اس وقت میں محمدرسول اللہ سے رکتاتھااوردُوربھاگتاتھااوراگرچہ میں محمد سے منسوب ہونا نہیں چاہتاتھا،لیکن مجھے لوگ ان سے منسوب کرتے ہیں۔
ابوسفیان حضوراکرم کے ساتھ فتح مکہ کے موقعہ پر اور غزوۂ حنین میں موجود تھے،اوروہاں ان کوایک عمدہ آزمائش پیش آئی۔
اسی اسناد سے یونس نے ابنِ اسحاق سے،انہوں نے عاصم بن عمربن قتادہ سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن جابر سے،انہوں نے اپنے والدجابربن عبداللہ انصاری سے روایت کی کہ مالک بن عوف اپنے ساتھیوں کو لئے حنین کو روانہ ہوئے،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آگے نکل گیا،اوراس نے وادی کے اطراف وجوانب میں اور گھاٹیوں میں آدمی چھپادئے،جب رسولِ کریم اور صحابہ صبح کے اندہیرے میں وادی میں داخل ہوئے تو وہاں چھُپے سواروں نے اچانک اس زورکاحملہ کیاکہ اسلامی پیادہ بھاگ کھڑی ہوئی،اورشترسوار بُری طرح باہم ٹکرائے،جب آپ نے یہ حالت دیکھی تو بھاگتوں کو واپس بُلایا،اہلِ بیت میں سے آپ کے ساتھ حضرت علی،ابوسفیان،فضیل بن عباس اور ربیعہ رہ گئے تھے،مہاجرین میں سے صرف حضرت ابوبکر اورحضرت عمر رضی اللہ عنہم ،حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضورِاکرم کے سفید خچر کی لگام پکڑی ہوئی تھی،جب لوگ واپس آگئے،تو آپ نے ابوسفیان کو جنت کی بشارت دی،اورمیں امید کرتاہوں،کہ تم حمزہ کے جانشین ہوگے، ان کا شمار فضلائے صحابہ میں ہوتاتھاروایت ہے کہ جب فوت ہونے لگے تو کہنے لگے،مجھ پر رونامت،کیونکہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے،میں نے اپنے دامن کو کسی گناہ سے آلودہ نہیں کیا۔
اسی اسناد سے ابنِ اسحاق سے مروی ہے کہ ابوسفیان نے حضورِ اکرم کی وفات پر ذیل کے اشعارکہے۔
ا۔ارقت وبات لیل لا یزول دلیل اخوالمصیبۃ فیہ طول
ترجمہ۔میں آنسوبہارہاہوں اور میری رات ختم نہیں ہوتی،اور مصیبت زدہ آدمی کی رات طویل تر ہوتی ہے۔
۲۔واسعد نی البکاء وذاک فیما احیب المسلمون بہِ قلیل
ترجمہ۔اس رونے سے مجھے سعادت نصیب ہوئی ہے،اوریہ ایسی مصیبت ہے،کہ مسلمانوں کو کم ہی ایسی مصیبت سے پالاپڑاہے۔
۳۔فقد عظمت مصیبۃ وجلت عشیۃ قیل قد قبض الرسول
ترجمہ۔جس شام یہ خبر پھیلی کہ رسولِ کریم فوت ہوگئے ہیں،اس مصیبت میں عظمت اورجلال پیداہوگیا۔
۴۔وتصبح ارضنا مما عراھا تکادبناجوابنھا تمیل
ترجمہ۔اورہماری زمین سرمازدہ ہوگئی،اورقریب تھا،اوراس کے کنارے ہمیں ساتھ لئے ایک طرف کو جُھک جائیں۔
۵۔فقد نا الوحی والتنزیل فینا بروح بہ و بغدو جبریل
ترجمہ۔وحی ختم ہوگئی،اورقرآن جسے جبرئیل صبح وشام لایاکرتے تھے،اترنابندہوگیاہے۔
۶۔وذاک احق ماسالت علیہ نفوس الناس اوکادت تسیل
ترجمہ۔چاہئیے تویہ تھا،کہ لوگوں کی روحیں سیلاب کی طرح بہنے لگ جائیں،لیکن ایسانہیں ہوا،عجب نہیں کہ اب بہنے لگ جائیں۔
۷۔نبی کان یجسلو الشک عنا بمایوحی الیہ ومایقول
ترجمہ۔حضور نبیِ کریم ایسے نبی تھے،جو ہمارے شکوک کو وحی کے ذریعے سے یا اپنےارشادات سے رفع فرمادیاکرتے تھے۔
۸۔ویھدینا فلا نخشی ضلالا علیناوالرسول لنادلیل
ترجمہ۔آپ ہمیں ہدایت فرماتے ہیں،اس لئے ہمیں گمراہی کاکوئی ڈر نہیں،اور آپ ہمارے لئے دلیل راہ ہیں۔
۹۔فلم تر مثلہ فی الناس حیًا ولیس لہ من الموتی عدیل
ترجمہ۔تمہیں زندہ لوگوں میں نہ تو آپ کا کوئی مثیل نظرآئے گا،اورنہ فوت ہوجانے والوں میں۔
۱۰۔افاطم ان جزعت فذاک عذر وان لم تجزعی فھو السبیل
ترجمہ۔اے فاطمہ اگرتواس موقع پر جزع فزع کرے،توتومعذورہے اور اگرنہ روئے تویہ بھی ایک مروج طریقہ ہے۔
۱۱۔فعودی بالعزاء فان فیہ ثواب اللہ والفضل الجلیل
ترجمہ۔اے فاطمہ!توماتم کر،کیونکہ اس میں خدا کی طرف سے تجھے ثواب ملے گا اور یہ بہت بڑی نیکی ہے۔
۱۲۔وقولی فی ابیک ولاتعملی وھل یجزی بفعل ابیک قیل
ترجمہ۔اورتوحضورِاکرم(اپنے والد)کی مدح کر،اورمت اکتا،کیونکہ مدحیہ اقوال کی کوئی تعدادبھی حضورِاکرم کے اعمال کی حریف نہیں ہوسکتی۔
۱۳۔فقبرابیک سید کل قبر وفیہ سید الناس الرسول
ترجمہ۔اورآپ کے والد کی قبرتمام قبروں کی سردار ہے،کیونکہ اس میں رسولِ کریم دفن ہیں،جوتمام انسانوں کے سردار ہیں۔
اورابوسفیان نے ۲۰ہجری میں وفات پائی،ان کی وفات کی وجہ یہ تھی،کہ حج کے موقعہ پر حجام نے ان کاسرمونڈا،تو اس نے مہاسے کوکاٹ دیا،جوان کے سر میں تھا،بیمارپڑگئے،اورصبح سے واپسی پر مدینے میں فوت ہوگئے،حضرت عمر رضی اللہ نے نمازجنازہ پڑھائی،ایک روایت میں ہے،کہ اپنے بھائی نوفل کی وفات کے تقریباً چارماہ بعدفوت ہوئے،انہوں نے وفات سے تین دن پہلے خود اپنی قبر کھود لی تھی،اورہجرت کا پندرہواں برس تھا،واللہ اعلم،ابونعیم،ابوعمر اورابوموسیٰ نے ان کاذکرکیا ہے۔