ابوزیدعمروبن اخطب انصاری،ایک روایت کی روسے وہ عدی بن حارثہ بن ثعلبہ بن عمروبن عامر کی اولاد سے تھے،اوراوس اور خزرج ان کے بھائی تھے،جس شخص سے ان کی یہ
روایت منسوب ہے، اس نے ان کا نسب یوں بیان کیا ہے،عمروبن اخطب بن رفاعہ بن محمود بن بشر بن عبداللہ بن ضیف بن احمربن عدی بن ثعلبہ بن حارثہ بن عمروبن
عامرالانصاری،ہرچندیہ اوس اور خزرج کی اولاد سے نہیں ہیں لیکن انہیں انصاری اس لئے کہاجاتاہے،کیونکہ یہ عدی بن حارثہ بن ثعلبہ بن عمروبن مزیقیا بن عامر
ماءالسماءکی اولادسے تھے،جو ان کے بھائی تھے،کیونکہ اوس اور خزرج دونوں حارثہ بن ثعلبہ کی اولاد سے تھے،اورعربوں میں اکثر ایساہوتا ہےکہ وہ اپنے بھائی کے
بیٹے کو اس کے چچاکی طرف اس کی شہرت کی وجہ سے منسوب کردیاکرتے تھے۔
ایک راویت کی روسےوہ حارث بن خزرج کی اولاد سے تھے،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور روایت سے فیضیاب ہوئے،نیز و ہ عزرہ بن ثابت محدث کے
داداتھے،اورعزرہ کہاکرتے ،کہ میرے والد نے حضورِاکرم کے عہد میں قرآن جمع کیا تھا،لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔
عمروبن اخطب حضورِاکرم کے ساتھ جہاد میں شریک رہے،آپ نے ان کے سرپر ہاتھ پھیراتھا،اور دعافرمائی تھی،اسماعیل اور ابراہیم وغیرہ نے باسناد ہم محمدبن عیسٰی
سے،انہوں نے محمد بن بشارسے، انہوں نے ابوعاصم سے انہوں نے عزرہ بن ثابت سے ،انہوں نے علباءبن احمر سے،انہوں نے ابوزیدبن اخطب سے روایت کی کہ رسولِ کریم نے
ان کے سرپر ہاتھ پھیرااور میرے لئے دعا فرمائی،عزرہ سے مروی ہے کہ ان کے دادا نےایک سو بیس ۱۲۰برس عمر پائی اور ان کے سرمیں صرف چندبال سفیدتھے۔
نیزعررہ نے علیاء بن احمرسے،انہوں نے ابوزید انصاری سے روایت کی،کہ انہوں نے حضورِاکرم کی انگشتر ی تیارشدہ دیکھی تھی،جس میں سیاہ رنگ کانگینہ تھا،تینوں نے
اس کاذکر کیا ہے،ابوموسٰی نے بھی ان کاذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ اپنی کنیت سے زیادہ مشہورتھے،اوران کا نام عمروبن اخطب تھا،ان کا ذکرانہوں نے اسماء کے
تراجم کے تحت کیا ہے،ابنِ اثیر لکھتے ہیں کہ ابن مندہ نے مختصراً کنیتوں کی ذیل میں ان کا ذکر کیا ہے،اوربیان کیا ہے،کہ ابوزید کو حضورِاکرم سے سماع حاصل
ہے،اوران سے حسن بن ابوالحسن بصری نے روایت کی،ابنِ مندہ نے ان کا نام عمروبن اخطب لکھا ہےاور ان کے حالات کو انہوں نے ابوموسیٰ کے مقابلے میں زیادہ تفصیل
سے بیان کیا ہے،اس لئے ان پر استدراک کی کو ئی وجہ نہیں۔