ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ
ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوذرغفاری،ان کے نام کے بارے میں بڑااختلاف ہے،ایک روایت میں جندب بن جنادہ ہے،جو باقی روایتوں کے مقابلوں میں اصح اورذیادہ عام ہے،ایک دوسری روایت میں بریر بن عبداللہ بریربن جنادہ بن قیس بن عمروبن ملیل بن صعیر بن حرام بن غفار ہے،ایک اور روایت کے مطابق جندب بن جنادہ بن سفیان بن عبید بن حرام بن غفار بن ملیل بن ضمرہ بن بکربن عبدمناہ بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکۃ الغفاری آیاہے،ان کی والدہ رملہ دختردقیعہ بنوغفارسے تھیں،ابوذرقدیم الاسلام تھے اور کبار صحابہ میں سے تھے،اور فاضل شمارہوتے تھے،اسلام لانے والوں میں پانچویں نمبر پر تھے،بعدازقبولِ اسلام وہ اپنے قبیلے میں واپس چلے گئے تھے،اور وہیں قیام پذیر رہے،تاآنکہ حضورِ اکرم نے مدینے کوہجرت فرمائی،توجناب ابوذر وہاں پہنچ گئے۔
کئی روایوں نے باسنادہم جو محمد بن اسماعیل تک ہے،عمروبن عباس سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن مہدی سے،انہوں نے مثنی سے،انہوں نے ابوحمزہ سے،انہوں نے ابنِ عباس سے روایت کی،کہ جب ابوذر کوحضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا علم ہوا،انہوں نے اپنے بھائی سے کہاکہ تم اونٹنی پر سوارہو،اور وادیِ حجاز میں جاکر اس شخص کے حالات وواقعات دریافت کر کے آؤ،جو نبوّت کا دعوی کرتا ہے اور کہتاہے کہ اس پر آسمان سے وحی اترتی ہے،اس کی باتیں سنو،اورپھر مجھے آکر بتاؤ،ان کابھائی مکے آیا،حضورِاکرم کی باتیں سنیں اور پھرواپس بھائی کے پاس گیا،اسے بتایا،کہ مدعی نبوّت مکارم اخلاق کی تعلیم دیتاہے،اورجوکلام آپ پر اترتا ہے وہ شعر نہیں ہے،ابوذر نے کہا،جو میں چاہتاتھا،اس سلسلے میں میری تسلی نہیں ہوئی،رختِ سفر باندھا،پانی کا مشکیزہ ساتھ لیا،اور مکے کو چل دئیے،وہ مسجدالحرام میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں آئے،وہ حضوراکرم کو نہیں جانتے تھے،کسی سے دریافت کرنامناسب نہ جانا،اس طرح رات کا کچھ حصہ گزرگیا،ابوذر لیٹ گئے،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا ،تو سمجھ گئے کہ غریب الوطن ہے،جب ابوذر نے حضرت علی کو دیکھا،تو ان کے پیچھے چل دیئے،لیکن دونوں نے صبح تک ایک دوسرے سے بات نہ کی،چونکہ مسجد میں حضورِاکرم سے ملاقات کا احتمال تھا،اس لئے ابوذراپنا توشہ دان اور مشکیزہ لے کر مسجد الحرام میں آگئے،وہ دن بھی گزرگیا،شام ہوگئی لیکن ابوذر حضورِاکرم کی زیارت نصیب نہ ہوئی،وہ اپنی جگہ پر لیٹ گئے،اس رات کو حضرت علی پھر ان کے پاس سے گزرے ،کہنے لگے کیااس آدمی کو آج تک گھر نہیں ملا،انہیں اٹھایا،وہ ان کے ساتھ چل دیئے،مگر دونوں نے باہم کوئی گفتگو نہ کی،تاآنکہ تیسرادن بھی گزرگیا،اس رات کو حضرت علی نے پھر ابوذر کواٹھایا،اورپوچھا کہ تم یہاں کیوں آئے ہو،انہوں نے کہا کہ اس شرط پر بتاتاہوں،کہ آپ میری راہنمائی کریں،حضرت علی نے انہیں حضورِاکرم کے بارے معلومات پہنچائیں اور بتایا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں،کل صبح جب میں آؤں تو تم میرے پیچھے پیچھےآنا،اگر مجھے کوئی خطرہ محسوس ہوا،تو میں اس بہانے کھڑاہوجاؤں گا،گویا میں پانی گرارہا ہوں،جب میں چل پڑوں،توتم بھی میرے ساتھ میرےگھرمیں داخل ہوجانا، دوسری صبح وہ اس طریقے سے حضورِ اکرم کی خدمت میں پہنچ گئے،آپ کی گفتگو سنی اور مسلمان ہوگئے،اس کے بعد حضورِاکرم نے فرمایا،اب تم اپنے قبیلے میں واپس چلے جاؤ،ان میں تبلیغ کرو،اور جب میں بلاؤں تو میرے پاس آجانا،ابوذر نے کہا،یارسول اللہ!اس ذات کی قَسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ مَیں مشرکین کے سامنے جاکر اپنے ایمان کااعلان ضرورکروں گا،چنانچہ سیدھے کعبے میں گئے اور بہ آواز بلند کلمۂ شہادت پڑھا،مشرکین قریش ان پر ٹوٹ پڑے اور انہیں زمین پر گرالیا،حضرت عباس ان پر گِرگئے،اورکہنے لگے،اے قریش!کیاتمہیں علم نہیں کہ یہ شخص بنوغفار سے ہےاور تمہارے تجارتی قافلے جو شام کو جاتے ہیں،وہیں سے گزرتے ہیں،اس طرح انہیں چھڑا لیا،دوسر ے دن پھر ابوذر نے کعبے میں جاکراپناعمل دہرایا،مشرکین پھران پرجھپٹے اورانہیں زمین پر گرالیا،اس بار بھی حضرت عباس نے ان پراوندھے ہوکرانہیں بچایا،ان کے قبولِ اسلام کے بارے میں ہمیں بڑی لمبی حدیث سُنائی گئی ہے،لیکن ہم نے ازخوف طوالت اسے چھوڑدیاہے،جناب ابوذر نے ۳۱یا۳۳سن ہجری میں بہ مقام ربذہ وفات پائی،اورعبداللہ بن مسعود نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی،اوراسی سال وہ بھی فوت ہوگئےرسولِ اکرم نے ایک موقعہ پر فرمایاتھا،کہ ابوذر میری امت کا مسیح ہے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ابوذر نے ایساعلم حاصل کیا،کہ دوسرے لوگ اسے حاصل نہ کرسکے،پھراس نے اس کی اس طرح حفاظت کی کہ کوئی آدمی بھی اس سے کچھ حاصل نہ کرسکا۔
ابوجعفر نے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابنِ اسحاق سے،انہوں نے بریدہ بن سفیان سے،انہوں نے محمد بن کعب قرظی سے،انہوں نے ابنِ مسعودسے روایت کی،کہ جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کو روانہ ہوتے تو کوئی نہ کوئی آدمی پیچھے رہ جاتا،صحابہ حضورِ اکرم کوبتاتے توفرماتے،چلوجانے دو،اگراس میں بھلائی ہوئی ،تو وہ آکرتم سے مل جائے گا،اوراگر نہ ہوئی تو خدا نے اس کے شرسے تمہیں بچالیا ہے،آخر ایک دن حضورِاکرم کو بتایاگیا کہ ابوذر بھی پیچھے رہ گئے ہیں،حضور نے ان کے بارے میں بھی وہی کچھ فرمایا،جودوسروں کے متعلق فرماتے۔
دراصل ابوذر اپنے اونٹ کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے،جب وہ تھکان کی وجہ سے بہت سُست ہوگیا تو جناب ابوذر نے اپناسامان اپنی پیٹھ پر لادا اور آپ کے تعاقب میں چل پڑے،دُور سے کسی صحابی نے انہیں آتا دیکھ لیا،اور حضورِاکرم کو بتایا،کہ کوئی آدمی راستے پر چلتا آرہاہے،حضورِ اکرم نے فرمایا، عجب نہیں،کہ ابوذر ہو،صحابہ نے غورسے دیکھا،توانہیں یقین ہوگیا،کہ ابوذر ہی ہیں،حضورِاکرم نے فرمایا،اللہ ابوذر پر رحم فرمائے،اکیلا ہی چلاآرہا ہے،اکیلا ہی مرے گا،اور اکیلاہی اٹھایا جائے گا، اور زمانے کو اس کے ہاتھوں ایک ضرب برداشت کرنا پڑے گی۔
کچھ عرصے بعد ابوذر بہ مقامِ ربذہ منتقل ہو گئے،چنانچہ ان کی وفات عبداللہ بن مسعود کی نمازجنازہ ربذہ میں ان کے ساتھیوں اور وہاں ان کی اقامت کے بارے میں کئی احادیث ہیں،جنہیں ہم چھوڑ رہے ہیں،ابوذر لمبے چوڑے اور مضبوط آدمی تھے،ابوعمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔