ابوذویٔب الہذلی رضی اللہ عنہ
ابوذویٔب الہذلی رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابوذویٔب الہذلی،شاعر تھے اور مسلمان اور حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمعصر تھے،لیکن حضورِ اکرم کی زیارت نصیب نہ ہوئی،اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ جاملی تھے اور اسلامی بھی،ایک روایت کی روسے ان کا نام خویلد بن خالد بن محرث بن روبید بن مخزوم بن صاہلہ بن کاہل بن حارث تمیم بن سعد بن ہذیل ہے،ابن اسحاق کہتے ہیں،ابوذویٔب شاعر سے مروی ہے،مجھے پتہ چلا کہ حضورِ اکرم بیمار ہیں،توغمر سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے رات کو سویا ،تو رات اتنی طویل تھی،کہ اس کا اندھیرا ختم ہونے کا نام نہیں لیتاتھا،اور نہ صبح طلوع ہوتی تھی،میں رات بھر اس کی طوالت پر غور کرتا رہا،جب صبح ہونے کو آئی تومیں سوگیا،اور میں نے ایک ہاتف کو یہ کہتے سُنا۔
۱۔خطب اجل اناخ بالاسلام بین النخیل ومعقد الاطام
ترجمہ۔اسلام پر جو نخلستا ن اور شہری آبادی کے درمیان واقع ہے زبردست افتاد پڑی ہے۔
۲۔قبض النبی محمد فعیوننا تذری الدموع بالتجام
ترجمہ۔محمد رسول اللہ انتقال فرماگئے ہیں اور ہماری آنکھیں ان پر زاروقطار آنسوبہارہی ہیں۔
ابوذویٔب کہتے ہیں،میں ڈر کے مارے بستر سے اچھل پڑا،میں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی،تو سعدالذابح ستارے کے بغیر کچھ نظر نہ آیا،پس جیسا کہ عرب میں معمول تھا،میں نے کسی کی وفات کا شگون لیا اور مجھے معلوم ہوگیا کہ حضورِاکرم فوت ہوگئے ہیں یا بیماری کی وجہ سے قریب الموت ہیں، مَیں اپنی اونٹنی پر سوارہوکرادھر کوچل دیا،جب صبح ہوئی تو میں آگے پیچھے کسی ایسی چیزکو تلاش کرنے لگا،جسے دیکھ کر فال لُوں،میری نظر ایک خارپشت پر پڑی جس نے ایک سانپ کو منہ میں پکڑا ہواتھا،جواس سے لپٹاہواتھا،اور خارپشت اسے نگل رہاتھا،تاآنکہ اس نے اسے ہڑپ کر لیا،اس سے میں نے فال لی ،کہ خارپشت ایک اہم جانورہےاورسانپ کو نگلنے سے مرادیہ ہے،کہ لوگ حضورِاکرم کے بعد حکومت کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے،اس کی تاویل مَیں نے یوں کی کہ جس طرح خار پشت نے سانپ کو ہڑپ کرلیاہے،اسی طرح حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین حکومت کے کاروبارپر قبضہ کرلیں گے،اس پر میں اپنی اونٹنی پر سوارہوا،اورجب غابہ کی چراگاہ کے پاس پہنچا،توکوّے کی آواز نے فال کی تصدیق کردی،کیونکہ کوّ ے کی آواز سے عرب میں یہی سمجھاجاتا ہے،چنانچہ میں اللہ سے اس واقعہ کے شَر سے پناہ طلب کی۔
جب میں مدینے پہنچا،توآہ وزاری سے اتناشوراٹھ رہاتھا،جیساکہ حاجیوں کی تسبیح و تہلیل سے شور اٹھتا ہے میں نے لوگوں سے وجہ پوچھی،توانہوں نے بتایا،کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرماگئے ہیں،مسجد میں آیا اسے خالی پایا،اس کے بعد میں حضورِ اکرم کے حجروں کی طرف گیا،اور دروازے کو بند پایا،اور بتایا کہ آپ کی تجہیزکرلی گئی ہے،اور صرف اہل بیت ہی ہیں،آپ کے پاس بیٹھے ہیں،میں نے دریافت کیاکہ صحابہ کدھر گئے ہیں،کہنے لگے،کہ وہ انصار کے سقیفہ بنوساعدہ کو گئے ہیں،میں سقیفہ کو گیا،توابوبکر،عمر،ابوعبیدہ بن جراح،سالم ،قریش کے ایک گروہ،انصار میں سے سعدبن عبادہ اور کا شاعر کعب بن مالک نیزحسان بن ثابت اور کچھ لوگ بھی موجودتھے،میں قریش کی جماعت میں جا بیٹھا،انصارکے بارے میں لمبی چوڑی گفتگو کی اور عمدہ گفتگو کی،اس کے بعد ابوبکر نے ان کی باتوں کا جواب دیا،خدااسے جزائے خیر دے،وہ مختصرگفتگوکرتے ہیں،اور بر محل اور وہ اس طرح کی گفتگو کرتے ہیں کہ جو بھی سُنتاہے،ان کی بات مان لیتاہے،اور ان کی طرف مائل ہوجاتاہے،اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگوکی،جوحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی گفتگوسے کمتر تھی،اس کے بعد انہوں نے ہاتھ پھیلایا،اور ابوبکر سے بیعت کی،اس پر باقی لوگوں نے بھی بیعت کرلی،اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے لوٹے اور میں بھی ان کے ساتھ ہولیا ابوذویٔب کہتے ہیں کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازے اور تدفین میں شریک تھے،پھر انہوں نے حضورِاکرم کی وفات پر ذیل کے اشعار پڑھے۔
۱۔لما رایت الناس فی عسلاتہم مابین ملحودلہ ومضرح
ترجمہ۔بہرحال میں نے لوگوں کو آپ کی قبر اور لحد کے درمیان جلدی جلدی ہاتھ مارتے دیکھا۔
۲۔متبادرین لشرجع باکفھم نص الرقاب نفقد ابیض ارومح
ترجمہ۔وہ حضورِاکرم کے جسم مبارک کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے،اور حضورِ اکرم کے صاف ستھرے اور معطر جسم کی وفات پر گردنیں اُونچی کئے ہوئے تھے۔
۳۔فھناک صوت الی الھوم و من یبعث جارالھموم یبیت غیر مروح
ترجمہ۔اسی بنا ءپرمیں بھی دکھوں کی طرف چل پڑا،اور جو شخص دکھوں کے ہمسائے میں رات بسرکرتا ہےوہ رات کی تکلیف میں بسرکرتا ہے۔
۴۔کسفت لمصرعہ النجوم وبدرھا وتفعضحت اٰطام بطن الابطح
ترجمہ۔آپ کی وفات سے ستارے اور چاند اپنی چمک دمک کھو بیٹھے اور وادی بطحا کی تمام عورتیں زمین بوس ہوگئیں۔
۵۔وتزعت اجبال یثرب کلھا وتخیلیھا لحول خطب مفدح
ترجمہ۔اس ہولناک مصیبت کی وجہ سے یثرب کے سب پہاڑ اور درخت کانپ اُٹھے۔
۶۔ولقدزجرت الطیر قبل وفاتہ بمصابہ زجرت سعد الاذبح
ترجمہ۔حضورِاکرم کی وفات سے پہلے میں نے پرندے اور سعد الاذبح سے فال لی۔
۷۔وزجرت ان نعب المشحج مانحا متفائلاً فیہِ بفال اقبح
ترجمہ۔اور میں نے فال لی کیونکہ کوے کی آواز کسی سانحے کی خبر دے رہی تھی،اور میں نے اس پرندے سے نہایت قبیح شگون لیا۔
اس کے بعد ابوذویٔب اپنے صحرائی مسکن کی طرف چلے گئے،وہیں قیام پذیر رہے اور حضور عثمان کے دَورِ خلافت میں مکے کے راستے میں انہوں نے وفات پائی،اور ابنِ زبیر نے انہیں دفن کیا،اورایک روایت میں ہے کہ انہوں نے افریقی جنگوں سے واپسی کے دوران مصر میں وفات پائی،ابوذویٔب اس موقعہ پر عبداللہ بن زبیر کے ساتھ افریقی جنگوں میں شریک تھے،جب وہ وہاں سے لوٹے،تویہ ان کے ساتھ تھے،فوت ہوگئے،اور ابن زبیر نے انہیں دفن کیا،ایک روایت میں ہے کہ ازضِ روم میں لڑتے ہوئے شہیدہوئے تھے،اور وہیں مدفون ہیں،ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے انہیں ارض روم میں جہاد پر متعین فرمایاتھا،اور انہیں ان کے بیٹے ابوعبیدہ نے دفن کیا تھا،اور ذیل کا شعرکہا:۔
ابا عبید ارفع الکتاب واقترب الموعد والحساب
(ترجمہ)فاضلوں کا استاد دنیاسے اٹھالیا گیاہے،آخری منزل اور حساب کا دن قریب آگیا ہے،یہ شعر محمد بن سلام کا ہے۔
ابوعمرسے منقول ہے کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ سب سے بڑاشاعر کون ہے،تمہاری مرادموجود زندہ شاعروں سے ہے،یازندہ مردہ سب سے،اس نے نے کہا،میری مراد زندہ شاعروں سے ہے،حسان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا،ہذیل بہترین شاعر ہے،ابن سلام کا قول ہے،کہ ہذیل سے ابوذویٔب بہتر ہے،عمربن شبہ کا قول ہے کہ بنوہذیل کے تمام شعراء سے ابوذویب بہتر ہے،کیونکہ اس نے اپنے قصیدہ عینیہ میں ایک ایساشعر کہاہے،جو اصمعی کی رائے میں نہایت عمدہ شعر ہے،وہ یہ ہے:۔
والنفس راغبتہ اذا رغبتھا واذا تروالی قلیل تقنع
ترجمہ۔جب تو نفس کی خواہشات پوری کرتا چلاجائے،تواس کی حرص بڑھتی جاتی ہے،لیکن جب تو اسے تھوڑی چیز پر اکتفاکرائے،تواس پر قناعت کرلیتا ہے،اور یہ شعر اس کے ان برگزیدہ اشعار میں پایاجاتاہے،جو اسے نے اپنے پانچ بیٹوں کے مرثیے میں کہے تھے،جو ایک ہی سال کے دوران وفات پا گئے تھے،ان اشعار میں اس نے حکمت اور دانائی کی باتوں کا ذکر کیا ہے۔
۱۔امن المنون و ریبھا تتوجع والد ھویس بمعتب من یخزع
ترجمہ۔کیاموت اورحوادث زمانہ سے دکھی ہو،اور زمانہ تو اس آدمی کو روتا ہے، جو کچھ نہیں کہتا۔
۲۔قالت امامۃ ما جسمک شاحبا منذ ابتذ لت و مثل مالک ینفع
ترجمہ۔امامہ کہنے لگی،تیرے جسم کو کیا تکلیف ہے،جب سے تونے مال لوگوں میں تقسیم کیا ہے،اور ایسامال تو مفید ہوتا ہے۔
۳۔ام مالجنبک لا یلائم مضجعا الااقض علیک ذاک المضجع
ترجمہ۔اورتیرے پہلو کو کیاتکلیف ہے کہ بستر پر نہیں لیٹتا اور کیاتیرے اس بستر میں کنکر ہیں جو تجھے چبھتے ہیں۔
۴۔فاجبتھا ان مابجسمی انّہٗ اودی نبیّ من البلادفودعوا
ترجمہ۔میں نے اسے جواب دیا،میرے جسم کوتوکوئی دُکھ نہیں،ہاں البتہ میرے بیٹے بستیوں سے نکل کر مجھے الوداع کہہ گئے ہیں۔
۵۔اودی غبی فاعقبونی حسرۃ بعد الرقاد وعبرۃ لاتقلع
ترجمہ۔میرے بیٹے رخصت ہوگئے اور میرے لئے حسرت چھوڑ گئے،اور آنسو ہیں،کہ نیند کے بعد تھمنے کا نام نہیں لیتے۔
۶۔فالعین بعدھم کانّ حداقھا کحلت بشوک فھی عورعی تدمع
ترجمہ۔گویا میری آنکھوں کی پتلیوں میں ان کے بعد کانٹے چبھ گئے ہیں،وہ اندھی ہوگئی ہیں اور آنسو بہارہی ہیں۔
۷۔سبقو اھوی واعنقوالھواھم فتخرمواولکل جنب مصرع
ترجمہ۔وہ میری خواہش کو پیچھے چھوڑگئے،اور اپنے خواہش کو انہوں نے پوراکیا،اوروہ ہلاک ہوگئے اور پہلوکی جائے قرار مقررہے۔
۸۔فضبرت بعدھم بعیش ناصب واخال انی لاحق ممستج
ترجمہ۔ان کے مرنے کے بعد میری زندگی تلخ ہوگئی،اور میراخیال ہے،کہ میں جلدی ہی ان سے جاملوں گا۔
۹۔ولقدحرمت بان ادافع عنھم فاذا لمنیۃ اقبلت لاتدفع
ترجمہ۔میری خواہش تھی کہ میں ان کی مدافعت کروں،لیکن جب موت سامنے آجائے تواس سے بچاؤ نہیں ہوسکتا۔
۱۰۔واذاالمیۃ انبشت اظفارھا اَلفیت کل تمیمۃ لاتنفع
ترجمہ۔جب موت اپنے پنجے گاڑلیتی ہے،میں نے دیکھا ہے،کہ کوئی تعویذ کارگر نہیں ہوتا۔
۱۱۔وتجلدی للشامشین اریھم انی لریب الدھر لا اتضعضع
ترجمہ۔اور میری بہادری اور بے جگری دشمنوں کو دکھادیتی ہے کہ میں حوادثات زمانہ کے سامنے نہیں جھکتا۔
۱۲۔حتی کانی للحوادث مروۃ بصفا المشقر کل یوم تقرع
ترجمہ۔گویا میں حوادث زمانہ کا ایسا ہدف ہوں جسے مشقر کے پتھروں سے روزانہ کوٹاجاتاہوں۔
۱۳۔والدھر یا یبقی علی حدثانہ جون السحاب لہ جدید اربع
ترجمہ۔زمانے کے حوادث ہمیشہ نہیں رہتے،سیاہ بادل کے چارکنارے ہوتے ہیں۔
ان اشعار کی خوبی کی وجہ سے ہم نے ان کا ذکر مناسب جانا،ابوعمر نے ان کا ذکرکیا ہے۔